کوئی چیز مفت نہیں ملتی
’’میں نے تکلیفیں اٹھائیں، میں نے سیکھا اور میں تبدیل ہوگیا ‘‘
''میں نے تکلیفیں اٹھائیں، میں نے سیکھا اور میں تبدیل ہوگیا '' یہ ایک آفاقی سچائی ہے اورایک مسلمہ اصول ہے، جوصدیوں سے چلا آرہا ہے اور یہ ہی نجات کا بھی راستہ ہے۔ مہاتما بدھ ایک دیوتا کی مانند بڑی شان وشو کت سے تین محلوں میں پلا بڑھا۔اس کے باپ سدھورن نے دنیا کاکوئی غم کوئی تکلیف کسی تشنگی کو اس کے پاس پھٹکنے تک نہ دیا۔چالیس ہزار سے زائد رقاصائیں اپنے مسحورکن رقص سے بدھ کا دل بہلاتیں، جب وہ شادی کی عمرکوآن پہنچا تو 500 حسین وجمیل دوشیزاؤں کو اس کی خد مت میں پیش کیاگیا تاکہ وہ ان میں سے اپنے لیے شریک حیا ت کا انتخا ب کرسکے اس نے ان میں سے بسودھرا کا انتخاب کیا۔ شادی کے بعد بیٹے راہول کی ولادت ہوئی۔
ایک روز بدھ چہل قدمی کی غرض سے اپنے محل کے باہرگلیوں میں گھوم رہا تھا۔اسی دوران اس نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کچھ دن بعد ایسی ہی معمول کی چہل قدمی کے دوران ایک بیمارآدمی کو اور پھرکچھ دن بعد ایک چتا کو دیکھا۔ بدھ نے ان واقعوں کو یوں بیان کیا ''او بھکشو! میں جو شاہانہ جاہ و جلال، رفعت وعزت کا مالک تھا یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوجاتا ہوں کہ ایک عام جاہل آدمی جس کا مقدربڑھاپا ہے اورمجھے بھی تو بوڑھا ہونا ہے میں پھر ایک عام آدمی کو دیکھ کر مضطرب کیوں نہ ہوں مجھے یہ موزوں دکھائی نہیں دیتا۔جوانی کے فخروناز بڑھاپے میں بدل جاتے ہیں اس لیے اے بھکشو ! میں جنم کی فطرت کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے بھی توبوڑھا ہونا ہے، لہذا میں یہ سوچتا ہوں کہ کیا مجھے پیدائش کی فطرت پرتفکرکرنا چاہیے میں جنم کی بدنصیبی جاننے کے بعد نروان کے ابدی امن کا خواہاں ہوں۔''
گوتم بدھ کی آگہی کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے تمام آسائشوں کے باوجود حقیقی شانتی کا متلاشی بدھ ایک روزاپنی بیوی ، نومولود بچے اور باپ کے محل کو چھوڑچھاڑکرجنگلوں اورصحراؤں میں نکل گیا اور پھر یہیں سے بدھ نے اپنے چھ سالہ کٹھن ترین یتاگ کاآغازکیا، اس سے پہلے بھی تاریخ ہند میں بہت سے جوگی تیاگ لے چکے تھے۔
بدھ نے بیجوں اورگھاس پھونس پراپنا پیٹ پالا ایک وقت توایسا بھی آیا کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اسے گوبر تک کھانا پڑا۔آہستہ آہستہ اس نے اپنی خوراک کو محض چاول کے ایک دانے تک محدودکردیا، اپنے آپ کواذیت دینے کے لیے سر اورداڑھی کے بال نوچے گھنٹوں ساکت کھڑا رہا،کانٹوں پر لیٹا رہا گردوغبارکا ڈھیر جسم پرجمنے دیا، یہاں تک کہ وہ ایک بوسیدہ اور شکستہ درخت دکھائی دینے لگا اکثروبیشتر گلی سڑی لاشوں کے پاس اس کا مسکن ہو تا جہاں درندے اور پرندے ان کی چیرپھاڑکرتے وہ اپنی زبان کو مسلسل دانتوں تلے دبائے رکھتا تاکہ اس کا ذہن ماؤ ف رہے لیکن ایک دن بدھ نے سوچا کہ نفس کشی اس کی منزل نہیں اسے احساس ہوا کہ فا قہ کشی کی درشتی اسے آگہی تک نہیں لے کر آئی اس نے تیاگ ترک کردیا اور اب ایک سایہ دارشجر کے نیچے بالکل ساکت بیٹھ گیا اور یہ ارادہ کیا کہ اس وقت تک نہیں اٹھے گا جب تک آگہی، بصیرت اورمافوق انسانی روشنی اسے نہیں ملتی سات برس کی بصیرت افروز اورکشف انگیز ریاضت اورانسانی تکلیف کا اصل کارن جان لینے کے بعد مہاتما بدھ بنارس آیا اور یہاں آکر سر ناتھ کے ایک باغیچے میں لوگوں کو نروان کی تبلیغ شروع کی ''مہاتما بدھ نے تکلیفیں اٹھائیں اس نے سیکھا اور وہ تبدیل ہوگیا۔''
آج سے 2285 برس پہلے پیدا ہونے والا شہنشاہ اشو ک جو اشوک اعظم کہلایا، درحقیقت انسان اعظم ہے۔ ایچ جی ویلز لکھتا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں فوج کشی کرنے والے بادشاہوں میں اشوک پہلی مثال ہے جس نے فتح حاصل کرنے کے بعد جنگ سے توبہ کرلی۔ ہوا یوں تھا کہ بادشاہ اشوک سر پر تاج شاہی سجانے کے 8 برس بعد اپنے عظیم لشکرکے ساتھ پڑوس کی طاقتور اوردولت مند ریاست کا لنگا(جنوبی اڑیسہ) پر حملہ آور ہوا اور اسے تہس نہس کردیا، طاقت کے نشے میں سرشار اشو ک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکرکالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگاہوں کے سامنے دوردور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔
مردار خور پرندے ان پر اترآئے تھے بہت سے نیم مردہ تھے، کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے پیاروں کو ڈھونڈ تی تھیں اور آہ وبکا کرتی تھیں۔ کالنگا کے میدان میں اس نے دیکھا کہ فتح کا چہر ہ کتنا بھیانک ہے، اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور اس کے ساتھ چلنے والا شاہی دستہ بھی گھوڑوں سے اترگیا۔ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا ''یہ میں نے کیا کردیا اگریہ فتح ہے توشکست کسے کہتے ہیں یہ انصاف ہے یا ناانصافی یہ شجاعت ہے یا بزدلی ۔ کیا بچوں اورعورتوں کا قتل بہادری ہے، لاشوں کے یہ انبارکیا ہیں۔ کالنگا کی فتح کے بعدوہ بالکل بدل گیا پھراشو ک اعظم نے کبھی گوشت نہیں چکھا،اس کے سپاہیوں کی تلواروں کو زنگ لگتا رہا اوراس کی سلطنت میں چوکڑیاں بھرتے ہوئے جانوروں اور اڑتے ہوئے پرندوں کو بھی جان کی امان ملی۔وہ بدھ مت اختیارکرچکا تھا ۔
'' بادشاہ اشوک نے تکلیفیں دیکھیں، اس سے سیکھا اوروہ تبدیل ہوگیا۔''اس کے علاوہ سقراط ، برونو، جان ہوس،تھامس مور،کارل مارکس، سردار بھگت سنگھ، جولیس فوچیک،گیبریل پری، قرۃ العین طاہرہ، آلندے ، ماؤ، لینن سمیت ہزاروں ایسے شہیدان حق وسچ گزرے ہیں جنہوں نے تکلیفیں اٹھائیں ان سے سیکھا اور تبدیل ہوگئے اور اس کے بعد دنیا کو تبدیل کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا اورامرہوگئے اورآج بھی زندہ ہیں اور ہمیں آسودگی ، خوشحالی، چین وسکون اور راحت کا راستہ دکھا رہے ہیں، لیکن ہم نہ نجانے کیوں اندھے بنے ہوئے ہو۔ہم حیرت انگیز قوم واقع ہوئے ہیں 69سال سے مسلسل تکلیفیں اٹھارہے ہیں مسلسل ذلیل وخوارہورہے ہیں لیکن اس کے باوجود نہ تو ہم سیکھ رہے ہیں اور نہ ہی تبدیل ہورہے ہیں، فطرت نے انسان کو دو استاد مہیا کیے ہیں ایک دکھ اورایک راحت یہ ان کا کام ہے کہ ہمیں بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے یا کیا کرنا ہے ہمارے استاد ہمیں مسلسل سبق دے رہے ہیں کہ قسمت اورنصیب بنے بنائے نہیں مل جاتے بلکہ انھیں بنانا پڑتا ہے اور وہ اس وقت بنتے ہیں جب ہم اپنی تکلیفوں سے سیکھتے ہیں تکلیفیں ہمارے لیے زندگی کے اندھیروں میں چراغ کا کام کرتی ہیں جو ہمیں نجات کے لیے راستہ دکھاتی ہیں۔
میرے لوگوں کیا تمہیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا ہے کیا سینوں میں گونجتی چیخوں سے تمہارے دل نہیں پھٹتے کیا تم اپنے پیاروں کے گریہ اور آہ و بکا سن کر زار زار روتے نہیں ہو۔ ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو دنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی ہے۔اپنے لیے نہ سہی اپنے ماں باپ، بچوں، بیوی، بہن ، بھائی کی خوشیوں اور آسودگی کی خاطرخدارا بزدلی اورکم ہمتی کو ایک طرف پھینک دو جابروں ، غاصبوں کو ایک دفعہ للکارکرتودیکھو پھر تم دیکھو گے کہ وہ کس طرح تم سے اپنی جانوں کی بھیک مانگتے ہیں یہ زندگی تم کو صرف ایک دفعہ جینے کے لیے ملی ہے، خدارا اپنی تکلیفوں سے سیکھو اور تبدیل ہوجاؤ۔
ایک روز بدھ چہل قدمی کی غرض سے اپنے محل کے باہرگلیوں میں گھوم رہا تھا۔اسی دوران اس نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کچھ دن بعد ایسی ہی معمول کی چہل قدمی کے دوران ایک بیمارآدمی کو اور پھرکچھ دن بعد ایک چتا کو دیکھا۔ بدھ نے ان واقعوں کو یوں بیان کیا ''او بھکشو! میں جو شاہانہ جاہ و جلال، رفعت وعزت کا مالک تھا یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوجاتا ہوں کہ ایک عام جاہل آدمی جس کا مقدربڑھاپا ہے اورمجھے بھی تو بوڑھا ہونا ہے میں پھر ایک عام آدمی کو دیکھ کر مضطرب کیوں نہ ہوں مجھے یہ موزوں دکھائی نہیں دیتا۔جوانی کے فخروناز بڑھاپے میں بدل جاتے ہیں اس لیے اے بھکشو ! میں جنم کی فطرت کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے بھی توبوڑھا ہونا ہے، لہذا میں یہ سوچتا ہوں کہ کیا مجھے پیدائش کی فطرت پرتفکرکرنا چاہیے میں جنم کی بدنصیبی جاننے کے بعد نروان کے ابدی امن کا خواہاں ہوں۔''
گوتم بدھ کی آگہی کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے تمام آسائشوں کے باوجود حقیقی شانتی کا متلاشی بدھ ایک روزاپنی بیوی ، نومولود بچے اور باپ کے محل کو چھوڑچھاڑکرجنگلوں اورصحراؤں میں نکل گیا اور پھر یہیں سے بدھ نے اپنے چھ سالہ کٹھن ترین یتاگ کاآغازکیا، اس سے پہلے بھی تاریخ ہند میں بہت سے جوگی تیاگ لے چکے تھے۔
بدھ نے بیجوں اورگھاس پھونس پراپنا پیٹ پالا ایک وقت توایسا بھی آیا کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اسے گوبر تک کھانا پڑا۔آہستہ آہستہ اس نے اپنی خوراک کو محض چاول کے ایک دانے تک محدودکردیا، اپنے آپ کواذیت دینے کے لیے سر اورداڑھی کے بال نوچے گھنٹوں ساکت کھڑا رہا،کانٹوں پر لیٹا رہا گردوغبارکا ڈھیر جسم پرجمنے دیا، یہاں تک کہ وہ ایک بوسیدہ اور شکستہ درخت دکھائی دینے لگا اکثروبیشتر گلی سڑی لاشوں کے پاس اس کا مسکن ہو تا جہاں درندے اور پرندے ان کی چیرپھاڑکرتے وہ اپنی زبان کو مسلسل دانتوں تلے دبائے رکھتا تاکہ اس کا ذہن ماؤ ف رہے لیکن ایک دن بدھ نے سوچا کہ نفس کشی اس کی منزل نہیں اسے احساس ہوا کہ فا قہ کشی کی درشتی اسے آگہی تک نہیں لے کر آئی اس نے تیاگ ترک کردیا اور اب ایک سایہ دارشجر کے نیچے بالکل ساکت بیٹھ گیا اور یہ ارادہ کیا کہ اس وقت تک نہیں اٹھے گا جب تک آگہی، بصیرت اورمافوق انسانی روشنی اسے نہیں ملتی سات برس کی بصیرت افروز اورکشف انگیز ریاضت اورانسانی تکلیف کا اصل کارن جان لینے کے بعد مہاتما بدھ بنارس آیا اور یہاں آکر سر ناتھ کے ایک باغیچے میں لوگوں کو نروان کی تبلیغ شروع کی ''مہاتما بدھ نے تکلیفیں اٹھائیں اس نے سیکھا اور وہ تبدیل ہوگیا۔''
آج سے 2285 برس پہلے پیدا ہونے والا شہنشاہ اشو ک جو اشوک اعظم کہلایا، درحقیقت انسان اعظم ہے۔ ایچ جی ویلز لکھتا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں فوج کشی کرنے والے بادشاہوں میں اشوک پہلی مثال ہے جس نے فتح حاصل کرنے کے بعد جنگ سے توبہ کرلی۔ ہوا یوں تھا کہ بادشاہ اشوک سر پر تاج شاہی سجانے کے 8 برس بعد اپنے عظیم لشکرکے ساتھ پڑوس کی طاقتور اوردولت مند ریاست کا لنگا(جنوبی اڑیسہ) پر حملہ آور ہوا اور اسے تہس نہس کردیا، طاقت کے نشے میں سرشار اشو ک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکرکالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگاہوں کے سامنے دوردور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔
مردار خور پرندے ان پر اترآئے تھے بہت سے نیم مردہ تھے، کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے پیاروں کو ڈھونڈ تی تھیں اور آہ وبکا کرتی تھیں۔ کالنگا کے میدان میں اس نے دیکھا کہ فتح کا چہر ہ کتنا بھیانک ہے، اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور اس کے ساتھ چلنے والا شاہی دستہ بھی گھوڑوں سے اترگیا۔ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا ''یہ میں نے کیا کردیا اگریہ فتح ہے توشکست کسے کہتے ہیں یہ انصاف ہے یا ناانصافی یہ شجاعت ہے یا بزدلی ۔ کیا بچوں اورعورتوں کا قتل بہادری ہے، لاشوں کے یہ انبارکیا ہیں۔ کالنگا کی فتح کے بعدوہ بالکل بدل گیا پھراشو ک اعظم نے کبھی گوشت نہیں چکھا،اس کے سپاہیوں کی تلواروں کو زنگ لگتا رہا اوراس کی سلطنت میں چوکڑیاں بھرتے ہوئے جانوروں اور اڑتے ہوئے پرندوں کو بھی جان کی امان ملی۔وہ بدھ مت اختیارکرچکا تھا ۔
'' بادشاہ اشوک نے تکلیفیں دیکھیں، اس سے سیکھا اوروہ تبدیل ہوگیا۔''اس کے علاوہ سقراط ، برونو، جان ہوس،تھامس مور،کارل مارکس، سردار بھگت سنگھ، جولیس فوچیک،گیبریل پری، قرۃ العین طاہرہ، آلندے ، ماؤ، لینن سمیت ہزاروں ایسے شہیدان حق وسچ گزرے ہیں جنہوں نے تکلیفیں اٹھائیں ان سے سیکھا اور تبدیل ہوگئے اور اس کے بعد دنیا کو تبدیل کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا اورامرہوگئے اورآج بھی زندہ ہیں اور ہمیں آسودگی ، خوشحالی، چین وسکون اور راحت کا راستہ دکھا رہے ہیں، لیکن ہم نہ نجانے کیوں اندھے بنے ہوئے ہو۔ہم حیرت انگیز قوم واقع ہوئے ہیں 69سال سے مسلسل تکلیفیں اٹھارہے ہیں مسلسل ذلیل وخوارہورہے ہیں لیکن اس کے باوجود نہ تو ہم سیکھ رہے ہیں اور نہ ہی تبدیل ہورہے ہیں، فطرت نے انسان کو دو استاد مہیا کیے ہیں ایک دکھ اورایک راحت یہ ان کا کام ہے کہ ہمیں بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے یا کیا کرنا ہے ہمارے استاد ہمیں مسلسل سبق دے رہے ہیں کہ قسمت اورنصیب بنے بنائے نہیں مل جاتے بلکہ انھیں بنانا پڑتا ہے اور وہ اس وقت بنتے ہیں جب ہم اپنی تکلیفوں سے سیکھتے ہیں تکلیفیں ہمارے لیے زندگی کے اندھیروں میں چراغ کا کام کرتی ہیں جو ہمیں نجات کے لیے راستہ دکھاتی ہیں۔
میرے لوگوں کیا تمہیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا ہے کیا سینوں میں گونجتی چیخوں سے تمہارے دل نہیں پھٹتے کیا تم اپنے پیاروں کے گریہ اور آہ و بکا سن کر زار زار روتے نہیں ہو۔ ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو دنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی ہے۔اپنے لیے نہ سہی اپنے ماں باپ، بچوں، بیوی، بہن ، بھائی کی خوشیوں اور آسودگی کی خاطرخدارا بزدلی اورکم ہمتی کو ایک طرف پھینک دو جابروں ، غاصبوں کو ایک دفعہ للکارکرتودیکھو پھر تم دیکھو گے کہ وہ کس طرح تم سے اپنی جانوں کی بھیک مانگتے ہیں یہ زندگی تم کو صرف ایک دفعہ جینے کے لیے ملی ہے، خدارا اپنی تکلیفوں سے سیکھو اور تبدیل ہوجاؤ۔