الیکشن کی حامی اور مخالف قوتوں میں لڑائی

اتنا بڑا اجتماع اس لیے ممکن ہوا کہ کئی دن پہلے سے کروڑوں روپے کی تشہیری مہم چلائی گئی۔

ayazkhan@express.com.pk

ISLAMABAD:
الیکشن ملتوی کرانے اور ان کا انعقاد وقت پر کرانے کی خواہاں قوتوں کے درمیان لڑائی فائنل فیز میں داخل ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو اول الذکر قوتوں کا آخری مہرہ کہا جا رہا ہے۔ شدت پسند اور دہشت گرد بھی اپنی کارروائیوں سے کہیں نہ کہیں ان قوتوں کے مدد گار ثابت ہو رہے ہیں۔ ہفتے کی رات بشیر احمد بلور کی شہادت اس کی واضح مثال ہے۔ بشیر بلور کی شہادت سے ان قوتوں نے بیک وقت دو فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک تو انھوں نے اپنے خلاف اٹھنے والی ایک طاقتور آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا ہے اور دوسرا ملک میں جاری انتشار میں اضافہ کیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے بلاشبہ مینار پاکستان پر بہت بڑا مجمع اکٹھا کیا ہے۔ اتنا بڑا اجتماع اس لیے ممکن ہوا کہ کئی دن پہلے سے کروڑوں روپے کی تشہیری مہم چلائی گئی۔ لائے جانے والے لوگوں کی بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ خود آنے والے ہجوم کی بھی کمی نہیں تھی۔ بے یقینی اور مایوسی کا شکار قوم کی حالت ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی ہو چکی ہے۔ سیاست نہیں' ریاست بچاؤ کا نعرہ قوم کو نیا لگا تھا اور وہ کچے دھاگے سے کھنچی چلی آئی۔ عوام کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ جلسے میں شریک ہوں گے وہاں سے انھیں سارے مسائل کا حل مل جائے گا اور گھر واپسی تک وہ ساری فکروں سے نجات پا چکے ہوں گے۔

ان عوام کا جم غفیر جمع ہو گیا تو شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے خصوصی طور پر تیار کرائے گئے بلٹ پروف شیشے کے کیبن میں بیٹھ کر سوا دو گھنٹے تک الفاظ کا جادو جگایا۔ ڈاکٹر صاحب کا فرمان ختم ہوا تو معلوم ہوا کہ ان کی اصلی اور فوری منزل اسلام آباد ہے۔ انھوں نے موجودہ سیٹ اپ کو تین ہفتے کی مہلت دی اور اس کے بعد ملین کو چار سے ضرب دے کر وفاقی دارالحکومت پر دھاوا بولنے کی دھمکی دے دی۔ اپنے خطاب کے دوران طاہر القادری صاحب آئین کی مختلف شقوں کا نہ صرف حوالہ دیتے رہے بلکہ انھیں تفصیل سے پڑھ کر سناتے بھی رہے۔ اپنی جدوجہد کو آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے دعوے بھی کرتے رہے اور آئین کی کریز سے باہر نکل کر چھکے مارتے بھی دکھائی دیے۔ انھوں نے جلسے کی ابتدا تین قسمیں کھا کر کی۔

ان کی قسموں پر اعتبار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ الفاظ کے گورکھ دھندے کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر موصوف نے اپنا ایجنڈا کافی حد تک واضح کر دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے چونکہ وکالت پڑھ رکھی ہے اس لیے آئین کی تشریح کر سکتے ہیں۔ انھوں نے 90 دن سے زیادہ کی عبوری حکومت کی حمایت کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دو سے تین سال کی 'نیک اور صالح' افراد پر مشتمل جس عبوری حکومت کا ایک مدت سے چرچا ہے وہ اس کے قیام میں مدد دینے آئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جب پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کا نام لیے بغیر یہ کہا کہ صرف دو بڑی جماعتوں کا مک مکا انھیں قبول نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نگران سیٹ اپ بھی اپنی مرضی کا چاہتے ہیں۔ گویا وہ آئین کو تسلیم کرتے ہیں لیکن موجودہ دور میں ہونے والی اٹھارہویں ترمیم کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔


اس ترمیم کے تحت حزب اقتدار اور حزب اختلاف یعنی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے نگران حکومت قائم کی جانی ہے۔ اسی طرح صوبوں میں وزیر اعلیٰ اور ان کے قائد حزب اختلاف کو یہ ذمے داری سونپی گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کھل کر یہ مطالبہ تو نہیں کیا لیکن انھوں نے اپنے عزائم واضح کر دیے ہیں کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز جن میں فوج اور عدلیہ بھی شامل ہیں کی مرضی سے ایسا نگران سیٹ اپ بنوانا چاہتے ہیں جو احتساب وغیرہ کر کے پارلیمنٹ میں لٹیروں کا داخلہ بند کر دے۔ کیونکہ ان کے خیال میں موجودہ پارلیمنٹ میں اکثریت لٹیروں پر مشتمل ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے 14 جنوری کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر 4 ملین افراد کی عوامی پارلیمنٹ میں مستقبل کے فیصلے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس 4 ملین مارچ کے لیے انھوں نے اپنے چاہنے والوں سے کہا ہے کہ انھیں اپنا زیور اور گھر بھی فروخت کرنا پڑے تو کر دیں۔ لوگوں نے ان کی اپیل پر کان دھرا تو پراپرٹی کا کاروبار اگلے دو ہفتوں میں کافی چمکے گا' جیولرز کے بھی وارے نیارے ہو جائیں گے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا' میرے خیال میں انھوں نے 4 ملین کا ٹارگٹ بہت زیادہ دے دیا ہے' اصل میں مینار پاکستان میں اتنا بڑا ہجوم دیکھ کر انھیں لگا ہو گا کہ وہ جب بھی کال دیں گے پوری قوم سڑکوں پر آ جائے گی۔ شکر کریں انھوں نے اٹھارہ کروڑ عوام کو اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی کال نہیں دے دی۔ حقیقت یہ ہے کہ 40 ہزار افراد لے کر بھی اسلام آباد میں داخل ہو گئے تو اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔

الیکشن وقت پر کرانے کی خواہاں قوتوں میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ سرفہرست ہیں۔ تحریک انصاف' جماعت اسلامی' جے یو آئی اور اے این پی بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ایم کیو ایم کے بارے میں ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کا 50 رکنی وفد جلسے میں شریک تھا۔ صدر زرداری اور نواز شریف 90 دن کی نگران حکومت اور اس کے بعد الیکشن کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ اس یک نکاتی ایجنڈے پر وہ دونوں ایک ہیں۔ دونوں 'مک مکا' پارٹیوں کے اتحاد سے ہی ممکن ہوا ہے کہ پہلی بار فوجی چھتری کے بغیر ایک جمہوری حکومت پانچ سال پورے کرنے کے قریب ہے۔ ملک میں عدلیہ آزاد ہے' الیکشن کمیشن بھی خود مختار ہو چکا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر پر کسی سیاسی جماعت کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔

موجودہ حکومت تین سے چار ماہ کی مہمان ہے۔اس کے بعد نگران حکومت قائم ہونا لازمی ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری میدان میں کیوں اترے ہیں یا انھیں میدان میں کیوں اتارا گیا ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ کہیں (ن) لیگ کا یہ خدشہ درست تو نہیں کہ اس کا کمبل چرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ن لیگ کی لیڈرشپ کے بقول عمران خان کو بھی نواز شریف کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں لایا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی اقتدار کے 5 سال پورے کرنے کے قریب ہے۔ (ن) لیگ مستقبل میں حکومت بنانے کی امیدوار ہے۔ الیکشن وقت پر نہ ہوئے تو سب سے زیادہ نقصان (ن) لیگ کا ہی ہو گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری پر تنقید بھی ن لیگ کی جانب سے ہی ہو رہی ہے۔ ایسا کرنا اس کا حق بھی ہے۔

اس جمہوری دور کا آغاز ہو رہا تھا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا تھا۔ ان کی شہادت کو پرسوں پانچ سال پورے ہو جائیں گے۔ اس دور کا اختتام ہو رہا ہے تو بشیر احمد بلور جیسے بہادر لیڈر کو شہید کر دیا گیا ہے۔ ملک میں غیر علانیہ انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے۔ تمام چھوٹے بڑے لیڈر جلسوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ اب تک کے حالات بتاتے ہیں کہ سیکیورٹی کے جتنے مرضی فول پروف انتظامات کر لیے جائیں وہ کافی ثابت نہیں ہوتے۔ دہشت گرد جب اور جہاں چاہتے ہیں کارروائی کر گزرتے ہیں۔ ان حالات میں ہونے والی اس لڑائی کا فائنل فیز ابھی اور کتنی جانوں کی قربانی لے گا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ میرے خیال میں ریاست کو بچانا ہے تو وقت پر الیکشن کرانا ہی سب سے بہتر آپشن ہے۔ بیلٹ کے ذریعے آنے والی تبدیلی ہی بہتر ہے۔ بلٹ کے ذریعے تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ آئین کے اندر سے کوئی من پسند تشریح نکالی گئی تو بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ دیکھتے ہیں اس ملک کے اسٹیک ہولڈرز کیا فیصلہ کرتے ہیں؟
Load Next Story