2016ء کے وہ ٹرینڈز جو زبان زدِ عام ہوگئے
جگت بازی تو ہماری قوم کا امتیازی وصف بن ہی چکا ہے، لہذا کسی بھی ٹرینڈ کو کامیاب کرانا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
جیسے جیسے پاکستان میں انٹرنیٹ کی سہولت عام ہوتی جارہی ہے ویسے ویسے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی لازم ہوتے جارہے ہیں، جہاں تمیز اور شائستگی کو کھڈے لائن لگا کر بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ اب پاکستان کے تمام محمود و ایاز سوشل میڈیا پر ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ فرق ہے تو صرف انگریزی کا، محمود اپنی لازوال انگریزی میں ہر معاملے پر بولتے ہیں اور ایاز سادی انگریزی یا رومن سے کام چلالیتے ہیں۔ کسی کو چنے کے جھاڑ پر چڑھانا ہو یا اتارنا ہو، سماجی رابطے کی ویب سائٹس یہ کام بذریعہ ہیش ٹیگ آسانی سے کردیتی ہیں۔
ایک بار ٹرینڈنگ شروع ہوجائے تو باقی کام چٹ پٹی ٹوئٹس اور پھبتیاں سنبھال لیتی ہیں۔ جگت بازی تو آج کل ہماری قوم کا امتیازی وصف بن ہی چکا ہے، لہذٰا کسی بھی ٹرینڈنگ کو کامیابی سے ہمکنار کرانا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ذیل میں ہم 2016ء کے کچھ ایسے ہی سوشل ٹرینڈز کا جائزہ لیں گے جو لوگوں کے حواسوں پر سوار رہے۔
تھینک یو راحیل شریف
کچھ نامعلوم افراد نے 'تھینک یو راحیل شریف' ایجاد کرکے بہت سے لوگوں کے چراغوں کی روشنی بجھادی۔ ہم پاکستانیوں کو تو ایک کے پیچھے سات، دام کرنے کی پرانی عادت ہے سو لگ گئے شکریہ پر شکریہ ادا کرنے۔ صرف یہی کسر رہ گئی تھی کہ اِس نام کا مضمون نصاب میں شامل کردیں یا یہ نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے دھمال ڈالنی شروع کردیں۔ ہماری اس عشق ممنوع کی سی ادا سے معلوم افراد خوب چڑے لیکن کر کچھ نہ پائے سوائے تھینک یو کے رنگ میں طنز کا بھنگ ڈالنے کی کوشش کے۔ ویسے آپس کی بات ہے۔ 29 نومبر کو ان گنہگار آنکھوں نے انہی معلوم افراد کے چہروں پر جلی حروف میں 'تھینک یو راحیل شریف' لکھا دیکھا تھا۔
سرجیکل اسٹرائیک
اس سال کے سب سے بڑے لطیفے، معاف کیجئے گا! بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک نے تو ہمارے ایمان ہی تازہ کر ڈالے۔ بھارت نے کوہلی کی طرح چھکا مارنا چاہا مگر ہم پاکستانی فیلڈ میں اتنے متحرک ثابت ہوئے کہ بھارت کو بیک وقت کیچ، اسٹمپ، بولڈ اور رن آؤٹ سب کردیا۔ ہماری ٹوئٹر بریگیڈ نے سرجیکل اسٹرائیک پر ایسی جھاڑو پھیری کہ بھارتی ہوش و خرد سے بیگانہ ہوکر غباروں کی سرجری کرکے اپنی اسٹرائیک ڈھونڈتے پھررہے ہیں۔ بھئی کس نے کہا تھا اتنی بڑی چھلانگ مارنے کو لیکن مودی جی کو تو شوق چڑھا ہوا تھا نازک کندھوں پر بوجھ ڈالنے کا، ڈالا بوجھ اور بن گئے دنیا کے سامنے مذاق۔
پش اپس
لکھتے لکھتے یاد آیا کہ مصباح الحق نے پش اپس بھی تو اسی سال کئے تھے۔ اس سے پہلے ساری دنیا ایویں ہی سے پش اپس کررہی تھی لیکن مصباح نے تو پش اپس کو اُن کا جائز مقام دلوادیا۔ ظالم نے کچھ اس طرح پش اپ کئے کہ کمزور دل جمہور بڑی مشکل سے سہہ پائے۔ مصباح الحق نے تو یہ موذی جراثیم دور دور تک منتقل کردیئے تھے وہ تو بھلا ہو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا جس نے عین وقت پر اِس مکروہ فعل پر پابندی لگادی۔
طاہر شاہ
ہم بھی کیا لوگ ہیں، خواہ مخواہ ڈنڈے چھری کانٹے لیکر بیچارے طاہر شاہ کے پیچھے ہی پڑگئے ہیں۔ پھر کیا ہوا کہ اگر اُن کی موسیقی دماغ کی چولیں ہلادیتی ہے۔ دراصل ان کے گانوں کی گہرائی تک پہنچنا عام انسان کے بس کی بات ہے ہی نہیں۔ وہاں تو موسیقی غریب بھی سات سروں میں 'بڑے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے' کا ورد کرتی نظر آتی ہے، تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟ طاہر شاہ نے فرشتے کا روپ کیا دھارا، ہماری تو سمجھو عید ہوگئی۔ کیا قصور تھا اِس اینجل کا؟ ایک میکسی پہن کر، میک اپ کرکے اینجل کنبہ ہی تو بنایا تھا۔
مومنہ مستحسن
کوک اسٹوڈیو نے موسیقی کا بیڑہ غرق کرنے کی روایت جاری رکھتے ہوئے مومنہ مستحسن کو اپنے سیزن 9 میں شامل کرلیا۔ مومنہ خود تو راحت فتح علی کو ہمت دلانے کے باوجود ٹھیک سے آفرین نہ کہہ سکیں لیکن قوم کے جوانوں نے ان پر خوب ہی آفرین بھیجی۔ اب چونکہ لڑکیاں مشکل سے ہی سی کسی دوسری لڑکی کی تعریف سن پاتی ہیں، لہذٰا عادت سے مجبور ہو کر انہوں نے مومنہ کی کلاس لینی چاہی جسے لڑکوں نے اپنا سکھ چین حرام کرکے ناکام بنادیا۔ اس کے ساتھ مومنہ خود بھی چٹکلے چھوڑ چھوڑ کر اپنی ٹرینڈنگ بنائے رکھنے میں کامیاب رہیں۔
چائے والا
ہماری اس سال کی سب سے بڑی دریافت 'چائے والا' تھی۔ لڑکے اگر مومنہ مستحسن پر فدا ہوگئے تھے تو لڑکیوں نے چائے والا ڈھونڈھ نکالا۔ پھر تو 'ہائے رے میری سیلیفیاں' کا سیزن شروع ہوگیا۔ سج سنور کر لڑکیاں چائے کے اسٹال پر پہنچتی رہیں اور چائے والے کا کیرئیر بنواتی رہیں۔ ہاں! اس سب کے دوران پڑوس کے مشہور زمانہ 'چائے والے' کا لوکل چائے والے سے تقابل ہوا جس کے نتیجہ میں پڑوسی ملک کی اپنی عوام باغی ہوکر ہمارے چائے والے کا کیمپ جوائن کرگئی۔
جینا
اس سال ہم نے کچھ نیکی بھی کمائی۔ بیچاری جینا کے ماں باپ نہیں تھے ناں۔۔۔ بس ہم نے دن رات ایک کردیا اور ہر جگہ جینا کے ماں باپ کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا کہ اسے تو اپنی نانی بھی یاد آگئی ہوگی۔ سوچیں ذرا! اگر صلاح الدین شرافت کے ساتھ جینا سے شادی کرلیتا تو نہ اس مسکین کو ماں باپ کا کارڈ بار بار کھیلنا پڑتا نہ ہمیں اتنی کھپ پڑتی۔ مجبوری یہ تھی کہ صلاح الدین اور منو کا من مائل تو گلے کی ہڈی بن گیا تھا اس لئے لوگوں نے جینا کے ماں باپ کا آکسیجن ماسک پہن کر اپنی قیمتی جان بچائی اور چینل کو احساس دلایا کہ ڈوز اوور ہوگیا ہے۔
مینیکوئین چیلنج
ایک اور نیا مشغلہ ابھی کچھ دن پہلے ہی ہمارے ہاتھ آیا ہے اور وہ ہے ''مینیکوئین چیلنج''۔ لوگوں نے اپنی تو چھوڑیے اپنے پالتو جانوروں سے بھی ایسے ایسے پوز کروائے کہ الفاظ ہی ساتھ چھوڑ گئے۔ اس چیلنج کی تصویریں دیکھ کر دل تو چاہتا ہے کہ سیاست دانوں کو تاحیات مینیکوئین چیلنج پورا کرنے پر لگادیں تاکہ راوی ہماری زندگیوں میں چین ہی چین لکھے۔
اب نئے سال کی آمد آمد ہے اور نیا سال سماجی روابط قائم رکھنے کیلئے نئے ہیش ٹیگز اور نئی ٹرینڈینگز لائیگا، اِس لیے جب تک نئے ٹرینڈز مارکیٹ میں نہیں آتے تو اُس وقت تک کے لئے ان ہی پر اکتفا کیجئے اور مجھے اجازت دیں تاکہ میں آج کی ٹرینڈنگ میں اپنا حصہ ڈال سکوں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔