پاک بھارت سیریز 5 سالہ طویل انتظارختم مقابلے کیلیے میدان سج گیا
بنگلور میں آج تاریخی کرکٹ سیریز کا آغاز، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی نے سرد مہری کی برف پگھلا دی
شائقین کرکٹ کا 5 سالہ طویل انتظار ختم ہونے کا وقت آگیا، روایتی حریفوں کے درمیان مقابلے کیلیے میدان سج گیا۔
پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں آج بنگلور کے چناسوامی اسٹیڈیم میں تاریخی کرکٹ سیریز کا آغاز کر رہی ہیں،دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی نے سرد مہری کی برف پگھلا دی،کرکٹ میچز کے ذریعے عوام کو بھی دوریاں مٹانے کا موقع ملے گا اور دلوں سے نفرتیں کم ہوں گی، بھارت میں ان دنوں کرکٹ کا بخار عروج پر پہنچا ہوا ہے ،کئی روز قبل ہی پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ کی تمام ٹکٹیں فروخت ہو چکیں، بلیک مارکیٹنگ بھی عروج پر ہے، پاکستانی شائقین بھی اسٹیڈیم جا کر میچز دیکھنے کے خواہاں تھے مگر بھارتی بورڈ کی جانب سے تاخیری حربوں نے ایسا نہ ہونے دیا، دونوں ٹی ٹوئنٹی میچز میں مہمان ٹیم اسٹیڈیم میں اپنے شائقین کی حمایت سے محروم ہو گی،ابتدائی 2 ون ڈے کیلیے گوکہ25،25 ٹکٹیں پی سی بی کو ارسال کی گئیں مگر اس بات کا امکان کم ہے کہ کوئی عام شائق ان خوش نصیبوں میں شامل ہو، البتہ دہلی کے آخری ون ڈے میں ایک اسٹینڈ پاکستانیوں سے بھرا ہوا ہو گا۔
سیریزکے ٹی ٹوئنٹی میچز پہلے ہو رہے ہیں، اس طرز کے انٹرنیشنل مقابلے شروع ہوئے کئی برس بیت گئے مگر پہلی بار روایتی حریف ٹیمیں دو میچزکی سیریز میں حصہ لیں گی، فاسٹ کرکٹ میں پاکستان اور بھارت دونوں کا ہی انحصار نوجوانوں پر ہے، مہمان ٹیم پر روایتی حریف سے طویل عرصے بعد سیریز کے سبب شائقین کی توقعات کا دبائو ہے، خود کپتان حفیظ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن انھیں امید ہے کہ پلیئرز صلاحیتوں کے جوہر دکھانے میں کامیاب رہیں گے۔
رواں برس ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی ملی جلی رہی،14 میں سے7میچز جیتے اور 6 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، ایک مقابلہ ٹائی ہوا، انگلینڈ اور آسٹریلیاکیخلاف یو اے ای سیریز میں 2-1 سے فتح ہاتھ آئی، سری لنکا کیخلاف سیریز1-1 سے برابر رہی جبکہ مختصر طرز کے ورلڈکپ میں سفر سیمی فائنل تک محدود رہا، روایتی حریف ٹیمیں رواں برس میگا ایونٹ میں مدمقابل آئیں جب بلو شرٹس نے حریف کو آئوٹ کلاس کرتے ہوئے 8 وکٹ سے کامیابی حاصل کی۔
کرکٹ کی خاص بات یہی ہے کہ جب دو ٹیمیں میدان میں اتریں تو سابقہ ریکارڈز اہمیت نہیں رکھتے، کوئی ٹیم کسی بھی حریف کو شکست دے سکتی ہے، یہ درست ہے کہ ٹوئنٹی 20 میں پاکستان نے بھارت کو کبھی نہیں ہرایا لیکن اس بار کھلاڑی دونوں میچز جیت کر اس جمود کا خاتمہ کرنا چاہتے ہوں گے، حفیظ کو متوازن اسکواڈ حاصل اور اس میں کئی میچ ونرز موجود ہیں، کپتان سمیت ناصر جمشید، کامران اکمل اور احمد شہزاد اوپننگ میں مہارت رکھتے ہیں۔
رواں سال حفیظ کی بیٹنگ میں کارکردگی غیرمعمولی نہیں رہی، انھیں آخری نصف سنچری بنائے ہوئے ایک سال سے بھی زائد وقت گذر چکا،18 ستمبر 2011 کو زمبابوے کیخلاف انھوں نے 51 رنز اسکور کیے تھے، اس کے بعد 16 میچز میں صرف 320 رنز ہی بنا سکے،45 ان کا سب سے بڑا اسکور رہا، اس دوران وہ مسلسل تین میچز میں صفر کی خفت کا شکار ہوئے، بطور اوپنر کسی بھی کھلاڑی کے پاس بڑی اننگز کھیلنے کا زیادہ موقع ہوتا ہے بدقسمتی سے حفیظ ایسا نہیں کر رہے، ان کیلیے ناصر جمشید کے ساتھ کامران اکمل سے اننگز کا آغاز کرانا زیادہ بہتر ہو گا۔
آل رائونڈر شاہد آفریدی بھی کافی عرصے سے توقعات پر پورا نہیں اتر رہے اسی وجہ سے انھیں ون ڈے اسکواڈ میں بھی شامل نہیں کیا گیا، یہ دونوں ٹی ٹوئنٹی میچز آفریدی کے کیریئر کی راہ کا تعین کریں گے، بھارت کیخلاف کھیلتے ہوئے کھلاڑیوں میں نیا جوش وجذبہ آ جاتا ہے، آفریدی بھی یقیناً کچھ کر دکھانے کیلیے بے چین ہوں گے، اگر ان کا بیٹ چل گیا تو یہ پاکستان کیلیے خاصا اچھا ثابت ہو گا، بیٹنگ میں گرین شرٹس کے پاس عمر اکمل، شعیب ملک اور عمر امین بھی موجود ہوں گے، البتہ ٹیم کی اصل قوت بولنگ اٹیک ہے، سعید اجمل کا سامنا ان دنوں دنیا کے بڑے سے بڑے بیٹسمین کیلیے آسان نہیں، شاہدآفریدی اور محمد حفیظ بھی اپنی اسپن بولنگ سے حریفوں کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں۔
تجربہ کار پیس اٹیک میں عمر گل، جنید خان اور سہیل تنویر شامل ہوں گے، ان کا سامنا کرنے کیلیے بھارتی بیٹنگ بھی بیحد مضبوط ہے،گوتم گمبھیر، دھونی،یوراج سنگھ، رائنا ،کوہلی اور جڈیجا یہ تمام میچ ونرز ہیں ،ان پر قابو پانے کیلیے پاکستانی بولرز کو فیلڈرز کے بھرپور تعاون کی بھی ضرورت ہو گی، فیلڈنگ کوچ جولین فائونٹین نے لاہور میں پلیئرز کو خاصی محنت تو کرائی ہے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
بھارت کا بولنگ اٹیک زیادہ طاقتور دکھائی نہیں دیتا، اشوک ڈینڈا، پرویندر اوانا، ایشون اور چاولہ انگلینڈ کیخلاف کامیاب نہ رہے البتہ یوراج سنگھ کی اسپن بولنگ خاصی کارآمد ثابت ہو رہی ہے، پاکستانی بیٹسمینوں کو ان کا سامنا خاصی احتیاط سے کرنا ہو گا، ایشانت شرما کی واپسی سے بھی بھارتی پیس اٹیک کو خاصی تقویت حاصل ہوگی۔
سیریز کیلیے دونوں ٹیموں میں کئی نئے کھلاڑی شامل ہیں، پاکستان نے طویل القامت پیسر محمد عرفان کو ایک اور موقع دیا، ان کے ساتھ اسد علی اور لیفٹ آرم اسپنر ذوالفقار بابر کا بھی انتخاب ہوا، ان میں سے کسی کو اگر موقع ملا اور وہ پرفارم کرگیا تو راتوں رات سپراسٹار کا درجہ حاصل کر لے گا، اسی طرح سینئرز کھلاڑیوں کو بھی اپنے مداحوں کی تعداد میں اضافے کا سنہری موقع مل گیا ہے، ون ڈے اسکواڈ میں یونس خان کو کیریئر کے احیا کا چانس ملے گا۔
یہ سیریز دونوں ٹیموں کیلیے یکساں اہمیت کی حامل ہے، بھارت کو اگر ہوم گرائونڈ و کرائوڈ کا ایڈوانٹیج حاصل تو اسی کے ساتھ توقعات کا بوجھ بھی لدا ہوا ہے، انگلینڈ کے خلاف حالیہ سیریز میں ناقص کارکردگی کی یادیں عوام کے دلوں میں موجود ہوں گی، ایسے میں ایک اور ناکامی کئی بڑے بت گرا سکتی ہے البتہ فتح سے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔
پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں آج بنگلور کے چناسوامی اسٹیڈیم میں تاریخی کرکٹ سیریز کا آغاز کر رہی ہیں،دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی نے سرد مہری کی برف پگھلا دی،کرکٹ میچز کے ذریعے عوام کو بھی دوریاں مٹانے کا موقع ملے گا اور دلوں سے نفرتیں کم ہوں گی، بھارت میں ان دنوں کرکٹ کا بخار عروج پر پہنچا ہوا ہے ،کئی روز قبل ہی پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ کی تمام ٹکٹیں فروخت ہو چکیں، بلیک مارکیٹنگ بھی عروج پر ہے، پاکستانی شائقین بھی اسٹیڈیم جا کر میچز دیکھنے کے خواہاں تھے مگر بھارتی بورڈ کی جانب سے تاخیری حربوں نے ایسا نہ ہونے دیا، دونوں ٹی ٹوئنٹی میچز میں مہمان ٹیم اسٹیڈیم میں اپنے شائقین کی حمایت سے محروم ہو گی،ابتدائی 2 ون ڈے کیلیے گوکہ25،25 ٹکٹیں پی سی بی کو ارسال کی گئیں مگر اس بات کا امکان کم ہے کہ کوئی عام شائق ان خوش نصیبوں میں شامل ہو، البتہ دہلی کے آخری ون ڈے میں ایک اسٹینڈ پاکستانیوں سے بھرا ہوا ہو گا۔
سیریزکے ٹی ٹوئنٹی میچز پہلے ہو رہے ہیں، اس طرز کے انٹرنیشنل مقابلے شروع ہوئے کئی برس بیت گئے مگر پہلی بار روایتی حریف ٹیمیں دو میچزکی سیریز میں حصہ لیں گی، فاسٹ کرکٹ میں پاکستان اور بھارت دونوں کا ہی انحصار نوجوانوں پر ہے، مہمان ٹیم پر روایتی حریف سے طویل عرصے بعد سیریز کے سبب شائقین کی توقعات کا دبائو ہے، خود کپتان حفیظ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن انھیں امید ہے کہ پلیئرز صلاحیتوں کے جوہر دکھانے میں کامیاب رہیں گے۔
رواں برس ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی ملی جلی رہی،14 میں سے7میچز جیتے اور 6 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، ایک مقابلہ ٹائی ہوا، انگلینڈ اور آسٹریلیاکیخلاف یو اے ای سیریز میں 2-1 سے فتح ہاتھ آئی، سری لنکا کیخلاف سیریز1-1 سے برابر رہی جبکہ مختصر طرز کے ورلڈکپ میں سفر سیمی فائنل تک محدود رہا، روایتی حریف ٹیمیں رواں برس میگا ایونٹ میں مدمقابل آئیں جب بلو شرٹس نے حریف کو آئوٹ کلاس کرتے ہوئے 8 وکٹ سے کامیابی حاصل کی۔
کرکٹ کی خاص بات یہی ہے کہ جب دو ٹیمیں میدان میں اتریں تو سابقہ ریکارڈز اہمیت نہیں رکھتے، کوئی ٹیم کسی بھی حریف کو شکست دے سکتی ہے، یہ درست ہے کہ ٹوئنٹی 20 میں پاکستان نے بھارت کو کبھی نہیں ہرایا لیکن اس بار کھلاڑی دونوں میچز جیت کر اس جمود کا خاتمہ کرنا چاہتے ہوں گے، حفیظ کو متوازن اسکواڈ حاصل اور اس میں کئی میچ ونرز موجود ہیں، کپتان سمیت ناصر جمشید، کامران اکمل اور احمد شہزاد اوپننگ میں مہارت رکھتے ہیں۔
رواں سال حفیظ کی بیٹنگ میں کارکردگی غیرمعمولی نہیں رہی، انھیں آخری نصف سنچری بنائے ہوئے ایک سال سے بھی زائد وقت گذر چکا،18 ستمبر 2011 کو زمبابوے کیخلاف انھوں نے 51 رنز اسکور کیے تھے، اس کے بعد 16 میچز میں صرف 320 رنز ہی بنا سکے،45 ان کا سب سے بڑا اسکور رہا، اس دوران وہ مسلسل تین میچز میں صفر کی خفت کا شکار ہوئے، بطور اوپنر کسی بھی کھلاڑی کے پاس بڑی اننگز کھیلنے کا زیادہ موقع ہوتا ہے بدقسمتی سے حفیظ ایسا نہیں کر رہے، ان کیلیے ناصر جمشید کے ساتھ کامران اکمل سے اننگز کا آغاز کرانا زیادہ بہتر ہو گا۔
آل رائونڈر شاہد آفریدی بھی کافی عرصے سے توقعات پر پورا نہیں اتر رہے اسی وجہ سے انھیں ون ڈے اسکواڈ میں بھی شامل نہیں کیا گیا، یہ دونوں ٹی ٹوئنٹی میچز آفریدی کے کیریئر کی راہ کا تعین کریں گے، بھارت کیخلاف کھیلتے ہوئے کھلاڑیوں میں نیا جوش وجذبہ آ جاتا ہے، آفریدی بھی یقیناً کچھ کر دکھانے کیلیے بے چین ہوں گے، اگر ان کا بیٹ چل گیا تو یہ پاکستان کیلیے خاصا اچھا ثابت ہو گا، بیٹنگ میں گرین شرٹس کے پاس عمر اکمل، شعیب ملک اور عمر امین بھی موجود ہوں گے، البتہ ٹیم کی اصل قوت بولنگ اٹیک ہے، سعید اجمل کا سامنا ان دنوں دنیا کے بڑے سے بڑے بیٹسمین کیلیے آسان نہیں، شاہدآفریدی اور محمد حفیظ بھی اپنی اسپن بولنگ سے حریفوں کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں۔
تجربہ کار پیس اٹیک میں عمر گل، جنید خان اور سہیل تنویر شامل ہوں گے، ان کا سامنا کرنے کیلیے بھارتی بیٹنگ بھی بیحد مضبوط ہے،گوتم گمبھیر، دھونی،یوراج سنگھ، رائنا ،کوہلی اور جڈیجا یہ تمام میچ ونرز ہیں ،ان پر قابو پانے کیلیے پاکستانی بولرز کو فیلڈرز کے بھرپور تعاون کی بھی ضرورت ہو گی، فیلڈنگ کوچ جولین فائونٹین نے لاہور میں پلیئرز کو خاصی محنت تو کرائی ہے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
بھارت کا بولنگ اٹیک زیادہ طاقتور دکھائی نہیں دیتا، اشوک ڈینڈا، پرویندر اوانا، ایشون اور چاولہ انگلینڈ کیخلاف کامیاب نہ رہے البتہ یوراج سنگھ کی اسپن بولنگ خاصی کارآمد ثابت ہو رہی ہے، پاکستانی بیٹسمینوں کو ان کا سامنا خاصی احتیاط سے کرنا ہو گا، ایشانت شرما کی واپسی سے بھی بھارتی پیس اٹیک کو خاصی تقویت حاصل ہوگی۔
سیریز کیلیے دونوں ٹیموں میں کئی نئے کھلاڑی شامل ہیں، پاکستان نے طویل القامت پیسر محمد عرفان کو ایک اور موقع دیا، ان کے ساتھ اسد علی اور لیفٹ آرم اسپنر ذوالفقار بابر کا بھی انتخاب ہوا، ان میں سے کسی کو اگر موقع ملا اور وہ پرفارم کرگیا تو راتوں رات سپراسٹار کا درجہ حاصل کر لے گا، اسی طرح سینئرز کھلاڑیوں کو بھی اپنے مداحوں کی تعداد میں اضافے کا سنہری موقع مل گیا ہے، ون ڈے اسکواڈ میں یونس خان کو کیریئر کے احیا کا چانس ملے گا۔
یہ سیریز دونوں ٹیموں کیلیے یکساں اہمیت کی حامل ہے، بھارت کو اگر ہوم گرائونڈ و کرائوڈ کا ایڈوانٹیج حاصل تو اسی کے ساتھ توقعات کا بوجھ بھی لدا ہوا ہے، انگلینڈ کے خلاف حالیہ سیریز میں ناقص کارکردگی کی یادیں عوام کے دلوں میں موجود ہوں گی، ایسے میں ایک اور ناکامی کئی بڑے بت گرا سکتی ہے البتہ فتح سے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔