دوست کی چار من بیتیاں 2
جب میری تعیناتی کھاریاں میں تھی وہیں MEO ملک خادم بھی تھے
زر، زن اور زمین کے حوالے سے ایک بیورو کریٹ کے بیان کردہ زمین کی طمع سے متعلق دو واقعات گزشتہ اتوار کے کالم میں اسی کی زبان میں تحریر کیے تھے۔ دونوں سو فیصد مبنی بر حقیقت اور لاہور کے حکمرانوں سے متعلق تھے لیکن ان کی حیثیت آٹے کی بوری میں نمک کی چٹکی کے برابر تھی۔ مزید دو واقعات جو سابق حکمرانوں سے متعلق ہیں اسی سابق بیوروکریٹ کی زبانی یوں ہیں۔
''جب میری تعیناتی کھاریاں میں تھی وہیں MEO ملک خادم بھی تھے جب میری ترقی ہوئی تو ملک صاحب بھی پروموٹ ہوکر ایک اور ڈسٹرکٹ میں ٹرانسفر ہو گئے۔ ان سے ملاقات رہتی تھی موصوف کی موروثی اراضی ایک ترقیاتی اسکیم میں آگئی انھیں اپنی زمین کے عوض متعدد ڈویلپڈ پلاٹ ملنے تھے لیکن کوششوں کے باوجود اپنے حق کے حصول میں ناکام رہے تھے۔ میری تعیناتی ڈیپوٹیشن پر متعلقہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ہوئی تو ملک صاحب میرے پاس آئے وہ بڑے خوش تھے کہ میری وجہ سے ان کا کام ہو جائے گا۔ انھوں نے ایک درخواست دی اور اپنا کیس سمجھایا میری سمجھ کے مطابق یہ ایک سیدھا اور جائز کام تھا اس لیے میں میں نے بھی اسے جلد نمٹانے کی حامی بھر لی۔
ان کی درخواست پر متعلقہ شعبوں سے رپورٹس منگوائیں جو مثبت تھیں۔ ان کی موروثی اراضی ایک ڈویلپمنٹ اسکیم میں آگئی تھی اور مطلوبہ ڈویلپمنٹ چارجز وصول کر کے انھیں پالیسی کے مطابق پلاٹ دیے جانے تھے۔میں نے بڑی توجہ اور محنت سے ان کا کیس تیار کر کے محکمے کے اعلیٰ افسر کو بھجوا دیا۔ ایک ہفتے کے بعد وہ کیس بڑے فضول سے اعتراض کے ساتھ واپس آ گیا۔ جب میں نے ملک کو نتیجے سے آگاہ کیا تو انھیں میری نیت اور قابلیت پر شک ہوا اور وہ ناراض ہو کر میرے دفتر سے باہر نکل گئے۔
میں نے ان کا کیس دوبارہ تیار کیا اور اس پر قانونی رائے شامل کر کے فائل افسر مجاز کو بھجوائی اور اس کے ساتھ چند Precedent کیسز کی فائلیں بھی شامل کر دیں تا کہ افسر اعلیٰ کو اسے سمجھنے میں تامل یا دشواری نہ ہو لیکن اس بار بھی پہلے جیسا نتیجہ برآمد ہوا اور ایک لایعنی اعتراض کے ساتھ فائل واپس آ گئی۔ چند روز کے بعد جب ملک صاحب کیس کی بابت معلوم کرنے آئے اور انھیں نتیجہ معلوم ہوا تو وہ طیش میں آ کر نہ جانے کیا کیا کچھ کہہ گئے۔
مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ مجھے انتہا کا نالائق سمجھتے ہیں یا انھیں شک ہوا کہ میں مالی فتور کا شکار ہو گیا ہوں وہ نہ صرف بے حد ناراض ہو کر میرے کمرے سے نکلے بلکہ مجھ پر الزامات کی بوچھاڑ بھی کرگئے۔ اور میں دیر تک سوچتا رہا کہ نہ جانے میں نے کس جرم کی سزا پائی ہے۔ میں ملک صاحب کے معاملے کو بھولنے کی کوشش میں تھا کہ ایک روز میرے افسر اعلیٰ نے مجھے بلا بھیجا۔انھوں نے ایک فائل میرے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے کمرے میں جا کر اندر سے کنڈی لگا کر توجہ سے اس کو دیکھو اور نصف گھنٹے کے اندر مجھے صرف اتنی رپورٹ کرو کہ Yes یا No۔
میں نے حسب ہدایت اپنے کمرے میں پہنچ کر فائل کھولی تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ تو وہی ملک خادم حسین کی فائل تھی جو حقائق تحریر کر کے میں دو بار پہلے بھی بھجوا چکا تھا۔ میں نے بغیر وہ فائل پڑھے ملک صاحب کو ٹیلیفون پر لے کر کہا آپ نے جو بھی سفارش کروائی ہے اس کے نتیجے میں آج آپ کا موروثی اراضی والا کام ہو سکتا ہے جس پر انھوں نے خشک لہجے میں جواب دیا کہ میں نے کوئی سفارش نہیں کروائی میں نے پوچھا کہ آپ نے یہ فائل بیچ دی ہے جس پر انھوں نے جواب دیا جی ہاں میں نے پھر پوچھا کتنے کی۔ انھوں نے مختصر جواب دیا سوا کروڑ روپے میں جس پر میں نے کہا ملک صاحب یہ تو تین کروڑ روپے سے بھی زیادہ مالیت کی ہے۔ انھوں نے سرد لہجے میں جواب دیا مجھے معلوم ہے۔
میں نے پوچھا کتنا بیعانہ لیا ہے جواب ملا تیس لاکھ روپے جس پر میں نے کہا تیس پر تیس لاکھ روپے دے کر سودا منسوخ کر سکتے ہیں، مختصر جواب آیا کہ نہیں۔ اب مجھے کچھ اندازہ ہو گیا تھا میں نے کہا فائل صوبے کے سابق حکمران کے کسی عزیز کو بیچی ہے۔ ان کا درشت انداز کا جواب تھا جی ہاں۔میں اپنے افسر اعلیٰ کے کمرے میں گیا اور فائل واپس کرتے ہوئے کہا ملکیت درست ہے میں افسر اعلیٰ اور کئی حکمرانوں کے کرتوتوں سے واقف تھا۔ زر، زن اور زمین ہمارے حکمرانوں کی کمزوری ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک خادم کا مجھے دیا ہوا جواب یوں کنفرم ہو گیا کہ افسر اعلیٰ نے میری موجودگی میں ٹیلیفون پر کسی سے کہا کہ سر میں نے وہ کام کر دیا ہے۔ پنجاب کی ایک طاقتور سیاسی شخصیت کے والد نے مجھے رات کے کھانے کی دعوت دی مجھے اس دعوت ہی سے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہاں آزمائش کا سامنا ہو گا۔ کھانا پُر تکلف تھا۔ کچھ سیاسی اور زیادہ ان کے شہر کی باتیں ہوتی رہیں۔
میرا اندازہ صحیح ثابت ہوا۔ کھانے کے بعد انھوں نے کہا کہ اس روز کے بعد میں اور وہ پچیس پچھتر کے بزنس پارٹنر ہوں گے اور ساتھ ہی کہا کہ ان کے بہت سے معاملات فیصلہ طلب ہیں جن کے حل پر خاطر خواہ فائدہ ہو گا اور ایک ایک کر کے وہ معاملات مجھے بھجواتے رہیں گے اور ہر ایک کے فیصلہ ہونے پر وہ مجھے پچیس فیصد شیئر بھجوائیں گے۔ میں نے معذرت چاہتے ہوئے کہا کہ میں قناعت پسند سرکاری ملازم ہوں۔ آپ زمینوں اور کارخانوں کے مالک ہم کس طرح پارٹنر شپ کر سکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ لکھ کر غلط کام کرنے پر گرفت بھی تو ہوتی ہے۔
موصوف نے کہا ہمارا بھی کام غلط اور ناجائز نہیں ہو گا جس پر میں نے انھیں جواب دیا کہ ٹھیک ہے میں آپ کا ریفر کیا ہوا ہر جائز کام پارٹنر شپ کے بغیر کروں گا۔ چند روز کے بعد ان کا بھیجا ہوا ایک کثیر منافع بخش کام میرے پاس آیا جو میں نے وارننگ دے کر اپنے تحصیلدار کو قطعی درست رپورٹ کے لیے مارک کیا جس پر اس نے رپورٹ کی کہ تمام ریونیو ریکارڈ جو درخواست کے ساتھ بطور ثبوت شامل کیا گیا ہے بے بنیاد ہے۔ دوسری درخواست آئی اس کے ساتھ شامل کیا گیا ریکارڈ بھی جعلی نکلا۔ تیسری درخواست پر بھی میں ان صاحب کو کوئی اراضی نہ دے سکا اور پھر ان کے ساتھ میرے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ یہ بات بھی کئی سال پرانی ہے۔
''جب میری تعیناتی کھاریاں میں تھی وہیں MEO ملک خادم بھی تھے جب میری ترقی ہوئی تو ملک صاحب بھی پروموٹ ہوکر ایک اور ڈسٹرکٹ میں ٹرانسفر ہو گئے۔ ان سے ملاقات رہتی تھی موصوف کی موروثی اراضی ایک ترقیاتی اسکیم میں آگئی انھیں اپنی زمین کے عوض متعدد ڈویلپڈ پلاٹ ملنے تھے لیکن کوششوں کے باوجود اپنے حق کے حصول میں ناکام رہے تھے۔ میری تعیناتی ڈیپوٹیشن پر متعلقہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ہوئی تو ملک صاحب میرے پاس آئے وہ بڑے خوش تھے کہ میری وجہ سے ان کا کام ہو جائے گا۔ انھوں نے ایک درخواست دی اور اپنا کیس سمجھایا میری سمجھ کے مطابق یہ ایک سیدھا اور جائز کام تھا اس لیے میں میں نے بھی اسے جلد نمٹانے کی حامی بھر لی۔
ان کی درخواست پر متعلقہ شعبوں سے رپورٹس منگوائیں جو مثبت تھیں۔ ان کی موروثی اراضی ایک ڈویلپمنٹ اسکیم میں آگئی تھی اور مطلوبہ ڈویلپمنٹ چارجز وصول کر کے انھیں پالیسی کے مطابق پلاٹ دیے جانے تھے۔میں نے بڑی توجہ اور محنت سے ان کا کیس تیار کر کے محکمے کے اعلیٰ افسر کو بھجوا دیا۔ ایک ہفتے کے بعد وہ کیس بڑے فضول سے اعتراض کے ساتھ واپس آ گیا۔ جب میں نے ملک کو نتیجے سے آگاہ کیا تو انھیں میری نیت اور قابلیت پر شک ہوا اور وہ ناراض ہو کر میرے دفتر سے باہر نکل گئے۔
میں نے ان کا کیس دوبارہ تیار کیا اور اس پر قانونی رائے شامل کر کے فائل افسر مجاز کو بھجوائی اور اس کے ساتھ چند Precedent کیسز کی فائلیں بھی شامل کر دیں تا کہ افسر اعلیٰ کو اسے سمجھنے میں تامل یا دشواری نہ ہو لیکن اس بار بھی پہلے جیسا نتیجہ برآمد ہوا اور ایک لایعنی اعتراض کے ساتھ فائل واپس آ گئی۔ چند روز کے بعد جب ملک صاحب کیس کی بابت معلوم کرنے آئے اور انھیں نتیجہ معلوم ہوا تو وہ طیش میں آ کر نہ جانے کیا کیا کچھ کہہ گئے۔
مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ مجھے انتہا کا نالائق سمجھتے ہیں یا انھیں شک ہوا کہ میں مالی فتور کا شکار ہو گیا ہوں وہ نہ صرف بے حد ناراض ہو کر میرے کمرے سے نکلے بلکہ مجھ پر الزامات کی بوچھاڑ بھی کرگئے۔ اور میں دیر تک سوچتا رہا کہ نہ جانے میں نے کس جرم کی سزا پائی ہے۔ میں ملک صاحب کے معاملے کو بھولنے کی کوشش میں تھا کہ ایک روز میرے افسر اعلیٰ نے مجھے بلا بھیجا۔انھوں نے ایک فائل میرے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے کمرے میں جا کر اندر سے کنڈی لگا کر توجہ سے اس کو دیکھو اور نصف گھنٹے کے اندر مجھے صرف اتنی رپورٹ کرو کہ Yes یا No۔
میں نے حسب ہدایت اپنے کمرے میں پہنچ کر فائل کھولی تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ تو وہی ملک خادم حسین کی فائل تھی جو حقائق تحریر کر کے میں دو بار پہلے بھی بھجوا چکا تھا۔ میں نے بغیر وہ فائل پڑھے ملک صاحب کو ٹیلیفون پر لے کر کہا آپ نے جو بھی سفارش کروائی ہے اس کے نتیجے میں آج آپ کا موروثی اراضی والا کام ہو سکتا ہے جس پر انھوں نے خشک لہجے میں جواب دیا کہ میں نے کوئی سفارش نہیں کروائی میں نے پوچھا کہ آپ نے یہ فائل بیچ دی ہے جس پر انھوں نے جواب دیا جی ہاں میں نے پھر پوچھا کتنے کی۔ انھوں نے مختصر جواب دیا سوا کروڑ روپے میں جس پر میں نے کہا ملک صاحب یہ تو تین کروڑ روپے سے بھی زیادہ مالیت کی ہے۔ انھوں نے سرد لہجے میں جواب دیا مجھے معلوم ہے۔
میں نے پوچھا کتنا بیعانہ لیا ہے جواب ملا تیس لاکھ روپے جس پر میں نے کہا تیس پر تیس لاکھ روپے دے کر سودا منسوخ کر سکتے ہیں، مختصر جواب آیا کہ نہیں۔ اب مجھے کچھ اندازہ ہو گیا تھا میں نے کہا فائل صوبے کے سابق حکمران کے کسی عزیز کو بیچی ہے۔ ان کا درشت انداز کا جواب تھا جی ہاں۔میں اپنے افسر اعلیٰ کے کمرے میں گیا اور فائل واپس کرتے ہوئے کہا ملکیت درست ہے میں افسر اعلیٰ اور کئی حکمرانوں کے کرتوتوں سے واقف تھا۔ زر، زن اور زمین ہمارے حکمرانوں کی کمزوری ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک خادم کا مجھے دیا ہوا جواب یوں کنفرم ہو گیا کہ افسر اعلیٰ نے میری موجودگی میں ٹیلیفون پر کسی سے کہا کہ سر میں نے وہ کام کر دیا ہے۔ پنجاب کی ایک طاقتور سیاسی شخصیت کے والد نے مجھے رات کے کھانے کی دعوت دی مجھے اس دعوت ہی سے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہاں آزمائش کا سامنا ہو گا۔ کھانا پُر تکلف تھا۔ کچھ سیاسی اور زیادہ ان کے شہر کی باتیں ہوتی رہیں۔
میرا اندازہ صحیح ثابت ہوا۔ کھانے کے بعد انھوں نے کہا کہ اس روز کے بعد میں اور وہ پچیس پچھتر کے بزنس پارٹنر ہوں گے اور ساتھ ہی کہا کہ ان کے بہت سے معاملات فیصلہ طلب ہیں جن کے حل پر خاطر خواہ فائدہ ہو گا اور ایک ایک کر کے وہ معاملات مجھے بھجواتے رہیں گے اور ہر ایک کے فیصلہ ہونے پر وہ مجھے پچیس فیصد شیئر بھجوائیں گے۔ میں نے معذرت چاہتے ہوئے کہا کہ میں قناعت پسند سرکاری ملازم ہوں۔ آپ زمینوں اور کارخانوں کے مالک ہم کس طرح پارٹنر شپ کر سکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ لکھ کر غلط کام کرنے پر گرفت بھی تو ہوتی ہے۔
موصوف نے کہا ہمارا بھی کام غلط اور ناجائز نہیں ہو گا جس پر میں نے انھیں جواب دیا کہ ٹھیک ہے میں آپ کا ریفر کیا ہوا ہر جائز کام پارٹنر شپ کے بغیر کروں گا۔ چند روز کے بعد ان کا بھیجا ہوا ایک کثیر منافع بخش کام میرے پاس آیا جو میں نے وارننگ دے کر اپنے تحصیلدار کو قطعی درست رپورٹ کے لیے مارک کیا جس پر اس نے رپورٹ کی کہ تمام ریونیو ریکارڈ جو درخواست کے ساتھ بطور ثبوت شامل کیا گیا ہے بے بنیاد ہے۔ دوسری درخواست آئی اس کے ساتھ شامل کیا گیا ریکارڈ بھی جعلی نکلا۔ تیسری درخواست پر بھی میں ان صاحب کو کوئی اراضی نہ دے سکا اور پھر ان کے ساتھ میرے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ یہ بات بھی کئی سال پرانی ہے۔