مجبوریاں
حالیہ امریکی صدارتی الیکشن نے امریکی جمہوریت کی جڑیں ہلاکر رکھ دی ہیں
حالیہ امریکی صدارتی الیکشن نے امریکی جمہوریت کی جڑیں ہلاکر رکھ دی ہیں، اب جب کہ الیکشن کو ختم ہوئے تقریباً ایک ماہ گزرچکا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کو ناکامی میں تبدیل کرنے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نئے نئے اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ صدر اوبامہ خود اس مخاصمانہ مہم جوئی میں پیش پیش ہیں۔ وہ کھل کر ہیلری کلنٹن کی پشت پناہی کررہے ہیں۔
وہ الیکشن کے دوران بھی الیکشن پر حاوی رہے اوراپنے جارحانہ بیانات سے الیکشن کو متاثر کرتے رہے۔ اس الیکشن میں وہ یہ اندھیر بھی کرتے رہے کہ وہائٹ ہاؤس کو ہیلری کلنٹن کے آفس کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ الیکشن کے دوران ہیلری کی جانب سے ٹرمپ سے انتہائی بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔ ٹرمپ کو نفسیاتی مریض سے لے کرکرپٹ تاجر تک کہا گیا ان کے عورتوں کے ساتھ اسکینڈل بھی بیان کیے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ پر اس قدر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی کہ انھیں الیکشن سے پہلے ہی لوگ ہارا ہوا سمجھنے لگے تھے۔
میڈیا بھی ہیلری کا ساتھ دے رہا تھا، اس نے بھی ٹرمپ کی دل کھول کر کردار کشی کی تھی مگر ٹرمپ کسی بھی لمحے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سے نروس نہیں ہوئے۔ وہ برابر انتخابی تقاریر میں اپنی انقلابی پالیسیاں امریکی عوام کے سامنے رکھتے رہے اور یہ وہ پالیسیاں تھیں جو چونکا دینے والی ضرور تھیں مگر امریکی عوام کے مسائل کا حقیقی حل پیش کررہی تھیں جب کہ ہیلری کے پاس کوئی نئی بات نہیں تھی وہ اوبامہ کے دور میں چلنے والی پالیسیوں کو ہی آگے بڑھانا چاہتی تھیں جب کہ اوبامہ کی ساری پالیسیاں امریکی عوام میں غیر مقبول ثابت ہوئی تھیں۔ ان سے امریکی عوام کے مسائل کا ازالہ ہونے کے بجائے ان میں مزید اضافہ ہوا تھا چنانچہ عوام نے ٹرمپ کی ملکی معیشت کو پھر سے بحال کرنے کی پالیسیوں کا خیرمقدم کیا اور پھر یہ کرشمہ بھی ہوا کہ ٹرمپ ہارنے کے بجائے جیت گئے۔
اب الیکشن جیتنے کے بعد ان پر ایک یہ نیا الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان کی کامیابی میں روس نے مدد کی تھی۔ امریکی سی آئی اے بھی ٹرمپ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے، اس نے الزام لگایا ہے کہ روسی ہیکرز نے انتخابی نتائج کو ہیک کرکے ٹرمپ کی کامیابی کی راہ ہموارکی تھی۔ ٹرمپ نے اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تو وہی سی آئی اے ہے جس نے صدام حسین پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ رکھنے کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا تھا۔
مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہیلری سے زیادہ اوبامہ کو ٹرمپ کی جیت ہضم نہیں ہو پا رہی ہے۔ اوبامہ دراصل یہ پلان بنا بیٹھے تھے کہ ہیلری کی کامیابی کے بعد وہ اپنی بیوی مشعل کو آئندہ کسی الیکشن میں صدارتی امیدوار بناکر پیش کرنا چاہتے تھے تاکہ ایک بار پھر وہائٹ ہاؤس کے مزے لوٹ سکیں مگر ہیلری کی شکست نے ان کی دلی مراد پوری نہ ہونے دی چنانچہ اوبامہ اس وقت جب کہ ان کے وہائٹ ہاؤس میں گنتی کے دن باقی رہ گئے ہیں اپنے صدارتی اثرورسوخ کو استعمال کرکے ٹرمپ کو نئی مشکلات میں پھنسانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں مگر ٹرمپ ایک زیرک اور دبنگ انسان ہیں ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے بغیر کسی سیاسی تجربے کے یہ الیکشن جیت لیا ہے اور ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے الیکشن کا تمام خرچ خود اپنی جیب سے ادا کیا ہے اورکسی سے کوئی چندہ یا امداد نہیں لی۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب ان پر بیرونی دباؤ ڈال کر اپنا مفاد حاصل نہیں کرسکتا۔
امریکا میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ صدارتی الیکشن کے دونوں پارٹیوں کے امیدواروں کو وہاں کے بڑے کاروباری ادارے کچھ مذہبی تنظیمیں اورخاص طور پر یہودی مالی معاونت کرتے ہیں اور الیکشن جیتنے والے پر دباؤ ڈال کر اپنے جائز اور ناجائز مقاصد پورے کراتے ہیں۔
ہیلری کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے ضرورمالی معاونت قبول کی ہوگی کیونکہ ان کے میاں بل کلنٹن اپنی کلنٹن فاؤنڈیشن کے حوالے سے چندہ وصول کرنے کے لیے پوری دنیا میں بدنام ہیں۔ ان کی فاؤنڈیشن کو ایشیا میں سب سے زیادہ چندہ بھارت سے جاتا ہے۔ اسی چندے کا کمال ہے کہ ہیلری کلنٹن نے بحیثیت امریکی وزیرخارجہ ہر سطح پر بھارت کا ساتھ دیا ہے۔ افغانستان میں بھارت کو اہم مقام دلانے اور افغان حکومت کو بھارت کا فرمانبردار بنانے میں ان کا اہم کردار ہے۔انھوں نے ہی افغان حکمرانوں کی جانب سے پاکستان پر تنقیدکا سلسلہ شروع کرایا تھا۔کرزئی کے بعد اب اشرف غنی بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں، البتہ ابتدا میں انھوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تھا مگر جلد ہی انھیں ہیلری ڈاکٹرائن پر چلنے پر مجبورکردیا گیا تھا۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ اوبامہ حکومت کی جنوبی ایشیا کے لیے پالیسی ہیلری کلنٹن کی ترتیب دی ہوئی لگتی ہے۔ اس میں بھارت کو جنوبی ایشیا کے تھانیدار کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور اسے خطے کے تمام ممالک سے زیادہ فوقیت دی گئی ہے۔ اوبامہ اپنے پہلے الیکشن سے پہلے پاکستان سے تعلقات بڑھانے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کی باتیں کرتے تھے مگر جب وہ الیکشن جیت گئے تو ہیلری کلنٹن ان پر حاوی ہوگئیں۔ ویسے بھی اوبامہ کالی رنگت والے پہلے امریکی صدر ہیں چنانچہ وہ اپنے گورے وزیروں اور مشیروں کے جھرمٹ میں گھر کر اپنے تمام منصوبوں کو بھول کر اپنی وزیر خارجہ کی اسرائیل اور بھارت نواز پالیسیوں پر چل پڑے۔
اوبامہ اپنے پورے آٹھ سالہ دور میں بس اسرائیل اور بھارت کو فائدے پہنچاتے رہے اور مسلمانوں پر غضب ڈھاتے رہے۔ عراق اور افغانستان تو پہلے ہی برباد ہوچکے تھے اوبامہ نے اپنے دور میں لیبیا، شام، صومالیہ اور یمن کو تباہ و برباد کرڈالا۔ پاکستان کو بھارت کا دم چھلا بنانے، مسئلہ کشمیر کو ختم کرانے اور پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی لگانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں مگر وہ ناکام ثابت ہوئیں۔ بھارت میں دہشت گردی کے جو بھی نام نہاد حملے ہوئے ان کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کی ریت ہیلری نے ہی ڈالی تھی۔
ممبئی حملوں سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں تھا مگر ہیلری نے زبردستی اس وقت کی پاکستانی قیادت کو اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے پر دباؤ ڈالا تھا اس کے بعد سے بھارت میں سکھوں، نکسلوں اور ہندو انتہا پسندوں نے جو بھی کارروائیاں کیں ان کا الزام بڑی ڈھٹائی سے پاکستان پر ڈالا جا رہا ہے لگتا ہے جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا پاکستان پر جھوٹے الزامات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس تناظر میں امریکی الیکشن میں ٹرمپ کا جیتنا پاکستان کے لیے ایک بڑی خوشخبری ہے۔
ہیلری نے بحیثیت وزیر خارجہ پاکستان کو جس قدر بدنام کیا تھا اب اگر وہ صدر منتخب ہوجاتیں تو کیا نہ قیامت ڈھاتیں۔ میاں نواز شریف کی مبارکباد دینے کی ٹیلی فون کال کا ٹرمپ نے انتہائی ہمت افزا جواب دیا ہے انھوں نے پاکستان و پاکستانیوں کی خوب تعریف کی ہے کیا ہیلری کلنٹن سے بھی ایسی امید رکھی جاسکتی تھی؟
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بہت سے جارحانہ بیانات دیے تھے مگر اب الیکشن جیتنے کے بعد وہ جس قسم کی سنجیدہ پالیسیوں کا اعلان کر رہے ہیں اگر ان پر عمل کیا گیا تو نہ صرف امریکی معیشت سدھر سکتی ہے بلکہ دنیا میں امریکا کی بگڑی ساکھ بھی سنور سکتی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے اس تازہ بیان کے ذریعے پوری دنیا میں اطمینان اور سکون کی لہر دوڑا دی ہے کہ اب امریکا دنیا میں مداخلت کا سلسلہ ترک کردے گا۔ نہ کسی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جائے گی اور نہ ہی کسی ملک پر قبضہ کیا جائے گا۔
اب امریکا صرف اپنی معیشت کو بحال کرنے اور دنیا میں دہشت گردی کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرے گا مزید برآں پہلے قدم کے طور پر داعش کا خاتمہ کیا جائے گا۔ کاش کہ ایسا ہوجائے تو واقعی دنیا جنت کا نقشہ پیش کرنے لگے۔ جہاں تک جنوبی ایشیا کا تعلق ہے یہاں مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پائیدار امن کا قیام ناممکن ہے پاکستانی وزارت خارجہ کو ان سے قریبی رابطہ رکھ کر انھیں اس مسئلے کے حل کے لیے آمادہ کرلینا چاہیے پیشتر اس کے کہ بھارتی گماشتے انھیں اپنی راہ پر مائل کرلیں۔
وہ الیکشن کے دوران بھی الیکشن پر حاوی رہے اوراپنے جارحانہ بیانات سے الیکشن کو متاثر کرتے رہے۔ اس الیکشن میں وہ یہ اندھیر بھی کرتے رہے کہ وہائٹ ہاؤس کو ہیلری کلنٹن کے آفس کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ الیکشن کے دوران ہیلری کی جانب سے ٹرمپ سے انتہائی بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔ ٹرمپ کو نفسیاتی مریض سے لے کرکرپٹ تاجر تک کہا گیا ان کے عورتوں کے ساتھ اسکینڈل بھی بیان کیے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ پر اس قدر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی کہ انھیں الیکشن سے پہلے ہی لوگ ہارا ہوا سمجھنے لگے تھے۔
میڈیا بھی ہیلری کا ساتھ دے رہا تھا، اس نے بھی ٹرمپ کی دل کھول کر کردار کشی کی تھی مگر ٹرمپ کسی بھی لمحے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سے نروس نہیں ہوئے۔ وہ برابر انتخابی تقاریر میں اپنی انقلابی پالیسیاں امریکی عوام کے سامنے رکھتے رہے اور یہ وہ پالیسیاں تھیں جو چونکا دینے والی ضرور تھیں مگر امریکی عوام کے مسائل کا حقیقی حل پیش کررہی تھیں جب کہ ہیلری کے پاس کوئی نئی بات نہیں تھی وہ اوبامہ کے دور میں چلنے والی پالیسیوں کو ہی آگے بڑھانا چاہتی تھیں جب کہ اوبامہ کی ساری پالیسیاں امریکی عوام میں غیر مقبول ثابت ہوئی تھیں۔ ان سے امریکی عوام کے مسائل کا ازالہ ہونے کے بجائے ان میں مزید اضافہ ہوا تھا چنانچہ عوام نے ٹرمپ کی ملکی معیشت کو پھر سے بحال کرنے کی پالیسیوں کا خیرمقدم کیا اور پھر یہ کرشمہ بھی ہوا کہ ٹرمپ ہارنے کے بجائے جیت گئے۔
اب الیکشن جیتنے کے بعد ان پر ایک یہ نیا الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان کی کامیابی میں روس نے مدد کی تھی۔ امریکی سی آئی اے بھی ٹرمپ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے، اس نے الزام لگایا ہے کہ روسی ہیکرز نے انتخابی نتائج کو ہیک کرکے ٹرمپ کی کامیابی کی راہ ہموارکی تھی۔ ٹرمپ نے اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تو وہی سی آئی اے ہے جس نے صدام حسین پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ رکھنے کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا تھا۔
مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہیلری سے زیادہ اوبامہ کو ٹرمپ کی جیت ہضم نہیں ہو پا رہی ہے۔ اوبامہ دراصل یہ پلان بنا بیٹھے تھے کہ ہیلری کی کامیابی کے بعد وہ اپنی بیوی مشعل کو آئندہ کسی الیکشن میں صدارتی امیدوار بناکر پیش کرنا چاہتے تھے تاکہ ایک بار پھر وہائٹ ہاؤس کے مزے لوٹ سکیں مگر ہیلری کی شکست نے ان کی دلی مراد پوری نہ ہونے دی چنانچہ اوبامہ اس وقت جب کہ ان کے وہائٹ ہاؤس میں گنتی کے دن باقی رہ گئے ہیں اپنے صدارتی اثرورسوخ کو استعمال کرکے ٹرمپ کو نئی مشکلات میں پھنسانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں مگر ٹرمپ ایک زیرک اور دبنگ انسان ہیں ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے بغیر کسی سیاسی تجربے کے یہ الیکشن جیت لیا ہے اور ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے الیکشن کا تمام خرچ خود اپنی جیب سے ادا کیا ہے اورکسی سے کوئی چندہ یا امداد نہیں لی۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب ان پر بیرونی دباؤ ڈال کر اپنا مفاد حاصل نہیں کرسکتا۔
امریکا میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ صدارتی الیکشن کے دونوں پارٹیوں کے امیدواروں کو وہاں کے بڑے کاروباری ادارے کچھ مذہبی تنظیمیں اورخاص طور پر یہودی مالی معاونت کرتے ہیں اور الیکشن جیتنے والے پر دباؤ ڈال کر اپنے جائز اور ناجائز مقاصد پورے کراتے ہیں۔
ہیلری کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے ضرورمالی معاونت قبول کی ہوگی کیونکہ ان کے میاں بل کلنٹن اپنی کلنٹن فاؤنڈیشن کے حوالے سے چندہ وصول کرنے کے لیے پوری دنیا میں بدنام ہیں۔ ان کی فاؤنڈیشن کو ایشیا میں سب سے زیادہ چندہ بھارت سے جاتا ہے۔ اسی چندے کا کمال ہے کہ ہیلری کلنٹن نے بحیثیت امریکی وزیرخارجہ ہر سطح پر بھارت کا ساتھ دیا ہے۔ افغانستان میں بھارت کو اہم مقام دلانے اور افغان حکومت کو بھارت کا فرمانبردار بنانے میں ان کا اہم کردار ہے۔انھوں نے ہی افغان حکمرانوں کی جانب سے پاکستان پر تنقیدکا سلسلہ شروع کرایا تھا۔کرزئی کے بعد اب اشرف غنی بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں، البتہ ابتدا میں انھوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تھا مگر جلد ہی انھیں ہیلری ڈاکٹرائن پر چلنے پر مجبورکردیا گیا تھا۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ اوبامہ حکومت کی جنوبی ایشیا کے لیے پالیسی ہیلری کلنٹن کی ترتیب دی ہوئی لگتی ہے۔ اس میں بھارت کو جنوبی ایشیا کے تھانیدار کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور اسے خطے کے تمام ممالک سے زیادہ فوقیت دی گئی ہے۔ اوبامہ اپنے پہلے الیکشن سے پہلے پاکستان سے تعلقات بڑھانے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کی باتیں کرتے تھے مگر جب وہ الیکشن جیت گئے تو ہیلری کلنٹن ان پر حاوی ہوگئیں۔ ویسے بھی اوبامہ کالی رنگت والے پہلے امریکی صدر ہیں چنانچہ وہ اپنے گورے وزیروں اور مشیروں کے جھرمٹ میں گھر کر اپنے تمام منصوبوں کو بھول کر اپنی وزیر خارجہ کی اسرائیل اور بھارت نواز پالیسیوں پر چل پڑے۔
اوبامہ اپنے پورے آٹھ سالہ دور میں بس اسرائیل اور بھارت کو فائدے پہنچاتے رہے اور مسلمانوں پر غضب ڈھاتے رہے۔ عراق اور افغانستان تو پہلے ہی برباد ہوچکے تھے اوبامہ نے اپنے دور میں لیبیا، شام، صومالیہ اور یمن کو تباہ و برباد کرڈالا۔ پاکستان کو بھارت کا دم چھلا بنانے، مسئلہ کشمیر کو ختم کرانے اور پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی لگانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں مگر وہ ناکام ثابت ہوئیں۔ بھارت میں دہشت گردی کے جو بھی نام نہاد حملے ہوئے ان کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کی ریت ہیلری نے ہی ڈالی تھی۔
ممبئی حملوں سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں تھا مگر ہیلری نے زبردستی اس وقت کی پاکستانی قیادت کو اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے پر دباؤ ڈالا تھا اس کے بعد سے بھارت میں سکھوں، نکسلوں اور ہندو انتہا پسندوں نے جو بھی کارروائیاں کیں ان کا الزام بڑی ڈھٹائی سے پاکستان پر ڈالا جا رہا ہے لگتا ہے جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا پاکستان پر جھوٹے الزامات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس تناظر میں امریکی الیکشن میں ٹرمپ کا جیتنا پاکستان کے لیے ایک بڑی خوشخبری ہے۔
ہیلری نے بحیثیت وزیر خارجہ پاکستان کو جس قدر بدنام کیا تھا اب اگر وہ صدر منتخب ہوجاتیں تو کیا نہ قیامت ڈھاتیں۔ میاں نواز شریف کی مبارکباد دینے کی ٹیلی فون کال کا ٹرمپ نے انتہائی ہمت افزا جواب دیا ہے انھوں نے پاکستان و پاکستانیوں کی خوب تعریف کی ہے کیا ہیلری کلنٹن سے بھی ایسی امید رکھی جاسکتی تھی؟
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بہت سے جارحانہ بیانات دیے تھے مگر اب الیکشن جیتنے کے بعد وہ جس قسم کی سنجیدہ پالیسیوں کا اعلان کر رہے ہیں اگر ان پر عمل کیا گیا تو نہ صرف امریکی معیشت سدھر سکتی ہے بلکہ دنیا میں امریکا کی بگڑی ساکھ بھی سنور سکتی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے اس تازہ بیان کے ذریعے پوری دنیا میں اطمینان اور سکون کی لہر دوڑا دی ہے کہ اب امریکا دنیا میں مداخلت کا سلسلہ ترک کردے گا۔ نہ کسی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جائے گی اور نہ ہی کسی ملک پر قبضہ کیا جائے گا۔
اب امریکا صرف اپنی معیشت کو بحال کرنے اور دنیا میں دہشت گردی کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرے گا مزید برآں پہلے قدم کے طور پر داعش کا خاتمہ کیا جائے گا۔ کاش کہ ایسا ہوجائے تو واقعی دنیا جنت کا نقشہ پیش کرنے لگے۔ جہاں تک جنوبی ایشیا کا تعلق ہے یہاں مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پائیدار امن کا قیام ناممکن ہے پاکستانی وزارت خارجہ کو ان سے قریبی رابطہ رکھ کر انھیں اس مسئلے کے حل کے لیے آمادہ کرلینا چاہیے پیشتر اس کے کہ بھارتی گماشتے انھیں اپنی راہ پر مائل کرلیں۔