سوشل میڈیا کی سینسرشپ پالیسی کیا ہے
سماجی نیٹ ورکنگ سائٹس کے قواعدوضوابط کو واضح اور ان کی پالیسی شفاف ہونی چاہیے
سوشل میڈیا کی مختلف کمپنیز جن میں فیس بک سرفہرست ہے، جعلی خبروں کے انسداد کے لیے کوششیں کرتی رہی ہیں۔ اس حوالے سے ایک نئی رپورٹ بتاتی ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے اس بارے میں قواعدوضوابط کے ان پر یوزرز کیا پوسٹ کرسکتے ہیں اور کیا پوسٹ نہیں کرسکتے، غیرواضح ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات کسی پوسٹ کو سائٹ سے ہٹایا جانا متنازعہ ہوجاتا ہے۔
سوشل میڈیا کی دنیا کی مقبول ترین سائٹ فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ یہ اعلان کرچکے ہیں کہ جھوٹی اطلاعات پھیلانے کے معاملے سے نمٹا جائے گا، تاہم اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی کمپنی سچ کے حوالے سے بہت محتاط ہونا چاہیے اور ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مزیدبرآں ایک نئی سامنے آنے والی رپورٹ بتاتی ہے کہ فیس بک پہلے ہی اپنے استعمال کنندگان کی پوسٹس کی ایک کثیر تعداد کو سینسر کرچکی اور ہٹاچکی ہے۔ اسی طرح دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم بھی پوسٹس کو سینسر کرنے اور ہٹانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب ہم آتے ہیں اس طرح کے پوسٹس کی بابت سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی حکمت عملی اور اقدامات کی بابت نئی سامنے آنے والی رپورٹ کیا کہتی ہے؟
یہ رپورٹ امریکی ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ایک غیرمنافع بخش ڈیجیٹل رائٹس گروپ ''الیکٹرونک فرنٹیئر فاؤنڈیشن'' نے تیار کی ہے۔ یہ رپورٹ اس گروپ کے ایک پروجیکٹ کا حصہ ہے، جس کا نام ہے Onlinecensorship.org، اس پروجیکٹ کا بنیادی مقصد اس حوالے سے آگاہی حاصل کرنا اور فراہم کرنا ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ کمپنیاں اپنے پلیٹ فارمز کے ذریعے کس طرح کی اور کون کون سی پوسٹ سامنے لانے کی اجازت دیتی ہیں اور کس نوعیت کی پوسٹس کو روک لیتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فیس بک ہو، ٹوئٹر ہو، یوٹیوب یا کوئی اور سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم، وہ سینسرشپ کے حوالے سے اپنی ایک پالیسی رکھتے ہیں، لیکن اس حکمت عملی کو سمجھنا اور جاننا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ یہ سماجی ویب سائٹس ہمیشہ اپنی پالیسی پوری استقامت کے ساتھ نافذ بھی نہیں کرتیں۔ ان دنوں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے حوالے سے جعلی خبروں کی بات کی جارہی ہے اور یہ معاملہ ایک بہت بڑے تنازعے کی صورت اختیار کرگیا ہے، اس سلسلے میں سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز کا نقطۂ نظر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے پروجیکٹ Onlinecensorship.org کوشش کر رہا ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی سینسرشپ کے حوالے سے پالیسیوں کو بہتر طور پر سمجھا جائے۔ اس مقصد کے لیے اس پروجیکٹ کے تحت سماجی ویب سائٹس کے ان استعمال کنندگان کی رپورٹس جمع کی جاتی ہیں جن کا شیئر کیا ہوا مواد کسی سماجی ویب سائٹ نے ہٹا دیا ہو یا جسے سینسر کردیا گیا ہو۔ اگر کوئی شخص کوئی ایسی تصویر یا تحریر پوسٹ کرے جس میں اس کے نزدیک کوئی قابل اعتراض بات نہ ہو، لیکن جس سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم پر یہ تصویر یا پوسٹ سامنے لائی جائے اسے پلیٹ فارم کی انتظامیہ ہٹادے یا سینسر کردے، تو متاثرہ شخص اس واقعے کی رپورٹ Onlinecensorship.org کو دے سکتا ہے۔
اس وقت اس پروجیکٹ کے پاس ایک سال کے دورانیے پر مشتمل سوشل میڈیا کے استعمال کنندگان کا فراہم کردہ ڈیٹا ہے۔ چناں چہ اس مواد کی بنیاد پر یہ پروجیکٹ اس قابل ہے کہ وہ اس ڈیٹا کو پیش نظر رکھتے ہوئے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی پوسٹس ہٹانے اور سینسر کرنے کے پیٹرن کا تفصیل سے اور گہرائی کے ساتھ جائزہ لے سکے اور یہ جان سکے کہ کس نوعیت کی پوسٹس ہٹائی جارہی ہیں، کس طرح کی پوسٹس کو سینسر کیا جارہا ہے اور وہ کس نوعیت کی پوسٹس ہیں جن کے سامنے لانے والے یوزر کا اکاؤنٹ ختم کردیا جاتا ہے۔
٭کس نوعیت کا مواد سینسر کیا جاتا ہے؟
Jillian York الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن میں بین الاقوامی آزادی اظہار رائے کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سے زیادہ تر جو مواد ہٹایا جاتا ہے وہ عریانیت پر مبنی ہوتا ہے یا اس میں فحاشی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔
اس حوالے سے نیپام بم کے حملے سے خوف زدہ ایک بچی کی انعام یافتہ تصویر قابل ذکر ہے جسے فیس بک نے پہلے ہٹادیا پھر اس تصویر کو سینسر کرکے سامنے لایا گیا۔
اس کا مطلب ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس بھی اب اپنی اخلاقی اور سماجی ذمے داریاں محسوس کرنے لگی ہیں اور کسی مین اسٹریم میڈیا آرگنائزیشن کی طرح وہ بھی صحافتی امور کا خیال رکھنے کی روش پر گام زن ہوگئی ہیں۔ چناں چہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس اکثر نفرت پھیلانے والے مواد کو ہٹادیتی ہیں۔ تاہم اس ضمن میں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ عریانیت، فحاشی اور جھوٹی خبروں کی طرح نفرت پھیلانے والے مواد کی مختلف طرح کی تشریحات ہیں۔ اس حوالے سے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس بعض اوقات تعصب سے بھی کام لیتی ہیں۔ کبھی یہ سائٹس صاف صاف نفرت آمیز اور اشتعال انگیز مواد کو بھی سامنے آنے کی اجازت دے دیتی ہیں اور کبھی بہ ظاہر بے ضرر سے مواد کو بھی ہٹادیتی یا سینسر کردیتی ہیں۔ اس کی ایک مثال بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک یوزر کی پوسٹ کی جانے والی تصویر ہے، جس میں ایک بلی کو بزنس سوٹ پہنے دکھایا گیا تھا۔ فیس بک نے اس یوزر کو بین کردیا۔ یہ بات واضح نہ ہوسکی کہ ایسی کیا بات تھی جس کی بنا پر یوزر کو یہ سزا دی گئی۔
٭مواد ہٹانے کا فیصلہ کون کرتا ہے؟
اس حوالے سے زیادہ معلومات دست یاب نہیں کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کون سا مواد ہٹایا یا سینسر کیا جائے اور یہ نظام کس طرح کام کرتا ہے؟ اس بارے میں بھی تفصیلات میسر نہیں کہ یہ عمل سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز کے دنیا بھر میں پھیلے دفاتر میں انجام پاتا ہے، جیسا کہ سوشل میڈیا کی عالمی نوعیت کا تقاضا ہے، یا یہ عمل کسی ایک جگہ انجام دیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے Jillian York کہتی ہیں کہ ان کے پاس اس بات کے کچھ شواہد ہیں کہ یہ عمل کچھ آفسز میں انجام پاتا ہے، جہاں تعینات کیے جانے والی عملے کو بھاری تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ اس نوعیت کے دفاتر بھارت، بنگلادیش اور فلپائن میں قائم ہیں۔یہاں کام کرنے والے بہت سے براہ راست متعلقہ نیٹ ورکنگ سائٹ کے ملازم نہیں ہوتے۔ کونٹینٹ موڈی ایٹرز (content moderators) عمومی طور پر کسی تیسرے فریق کے لیے کام کرتے ہیں۔چناں چہ یہ جاننا بہت مشکل بل کہ ناممکن کے کہ فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب یا کسی اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر پوسٹس کو سینسر کرنے اور ہٹانے کا فریضہ کون انجام دے رہا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تدریس سے وابستہ سارہ رابرٹس کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر آنے والے مواد پر نظر رکھنا اور اسے ہٹانے یا سینسر کرنے کا سلسلہ ایک خفیہ عمل ہے، جسے انجام دینے والے افراد ''بے چہرہ'' اور ان دیکھے ہوتے ہیں۔
٭صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
الیکٹرونک فرنٹیئر فاؤنڈیشن سے وابستہ Jillian York کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیز کو چاہیے کہ وہ مواد کو سینسر کرنے یا ہٹالنے کے حوالے سے اپنے قواعدوضوابط کو واضح کریں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ وضاحت کی جائے کہ سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز پر کیا پوسٹ ہوسکتا ہے اور کیا نہیں ہوسکتا۔Jillian York کہتی ہیں کہ جعلی خبروں، عریانیت اور نفرت انگیز مواد جیسے ایشوز پر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کو شفاف پالیسیاں اپنانی چاہییں۔ چوں کہ اکثر یہ واضح نہیں ہوتا کہ کیا قواعدوضوابط ہیں اور ان پر کس طرح عمل ہوتا ہے۔
Jillian York کہتی ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے استعمال کنندگان کو اس معاملے سے آگاہی ہو کہ ان کا مواد کیوں ہٹایا گیا۔یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا پر سینسرشپ کے حوالے سے دہرا معیار اور متعصبانہ عمل نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیز کو چاہیے کہ اس حوالے سے اپنی پالیسیاں اور قواعدوضوابط کو واضح طور پر استعمال کنندگان کے سامنے لائیں اور اپنے طے شدہ اصولوں اور قواعد پر کسی تعصب اور تفریق سے بالاتر ہوکر عمل کریں۔
سوشل میڈیا کی دنیا کی مقبول ترین سائٹ فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ یہ اعلان کرچکے ہیں کہ جھوٹی اطلاعات پھیلانے کے معاملے سے نمٹا جائے گا، تاہم اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی کمپنی سچ کے حوالے سے بہت محتاط ہونا چاہیے اور ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مزیدبرآں ایک نئی سامنے آنے والی رپورٹ بتاتی ہے کہ فیس بک پہلے ہی اپنے استعمال کنندگان کی پوسٹس کی ایک کثیر تعداد کو سینسر کرچکی اور ہٹاچکی ہے۔ اسی طرح دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم بھی پوسٹس کو سینسر کرنے اور ہٹانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب ہم آتے ہیں اس طرح کے پوسٹس کی بابت سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی حکمت عملی اور اقدامات کی بابت نئی سامنے آنے والی رپورٹ کیا کہتی ہے؟
یہ رپورٹ امریکی ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ایک غیرمنافع بخش ڈیجیٹل رائٹس گروپ ''الیکٹرونک فرنٹیئر فاؤنڈیشن'' نے تیار کی ہے۔ یہ رپورٹ اس گروپ کے ایک پروجیکٹ کا حصہ ہے، جس کا نام ہے Onlinecensorship.org، اس پروجیکٹ کا بنیادی مقصد اس حوالے سے آگاہی حاصل کرنا اور فراہم کرنا ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ کمپنیاں اپنے پلیٹ فارمز کے ذریعے کس طرح کی اور کون کون سی پوسٹ سامنے لانے کی اجازت دیتی ہیں اور کس نوعیت کی پوسٹس کو روک لیتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فیس بک ہو، ٹوئٹر ہو، یوٹیوب یا کوئی اور سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم، وہ سینسرشپ کے حوالے سے اپنی ایک پالیسی رکھتے ہیں، لیکن اس حکمت عملی کو سمجھنا اور جاننا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ یہ سماجی ویب سائٹس ہمیشہ اپنی پالیسی پوری استقامت کے ساتھ نافذ بھی نہیں کرتیں۔ ان دنوں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے حوالے سے جعلی خبروں کی بات کی جارہی ہے اور یہ معاملہ ایک بہت بڑے تنازعے کی صورت اختیار کرگیا ہے، اس سلسلے میں سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز کا نقطۂ نظر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے پروجیکٹ Onlinecensorship.org کوشش کر رہا ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی سینسرشپ کے حوالے سے پالیسیوں کو بہتر طور پر سمجھا جائے۔ اس مقصد کے لیے اس پروجیکٹ کے تحت سماجی ویب سائٹس کے ان استعمال کنندگان کی رپورٹس جمع کی جاتی ہیں جن کا شیئر کیا ہوا مواد کسی سماجی ویب سائٹ نے ہٹا دیا ہو یا جسے سینسر کردیا گیا ہو۔ اگر کوئی شخص کوئی ایسی تصویر یا تحریر پوسٹ کرے جس میں اس کے نزدیک کوئی قابل اعتراض بات نہ ہو، لیکن جس سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم پر یہ تصویر یا پوسٹ سامنے لائی جائے اسے پلیٹ فارم کی انتظامیہ ہٹادے یا سینسر کردے، تو متاثرہ شخص اس واقعے کی رپورٹ Onlinecensorship.org کو دے سکتا ہے۔
اس وقت اس پروجیکٹ کے پاس ایک سال کے دورانیے پر مشتمل سوشل میڈیا کے استعمال کنندگان کا فراہم کردہ ڈیٹا ہے۔ چناں چہ اس مواد کی بنیاد پر یہ پروجیکٹ اس قابل ہے کہ وہ اس ڈیٹا کو پیش نظر رکھتے ہوئے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی پوسٹس ہٹانے اور سینسر کرنے کے پیٹرن کا تفصیل سے اور گہرائی کے ساتھ جائزہ لے سکے اور یہ جان سکے کہ کس نوعیت کی پوسٹس ہٹائی جارہی ہیں، کس طرح کی پوسٹس کو سینسر کیا جارہا ہے اور وہ کس نوعیت کی پوسٹس ہیں جن کے سامنے لانے والے یوزر کا اکاؤنٹ ختم کردیا جاتا ہے۔
٭کس نوعیت کا مواد سینسر کیا جاتا ہے؟
Jillian York الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن میں بین الاقوامی آزادی اظہار رائے کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سے زیادہ تر جو مواد ہٹایا جاتا ہے وہ عریانیت پر مبنی ہوتا ہے یا اس میں فحاشی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔
اس حوالے سے نیپام بم کے حملے سے خوف زدہ ایک بچی کی انعام یافتہ تصویر قابل ذکر ہے جسے فیس بک نے پہلے ہٹادیا پھر اس تصویر کو سینسر کرکے سامنے لایا گیا۔
اس کا مطلب ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس بھی اب اپنی اخلاقی اور سماجی ذمے داریاں محسوس کرنے لگی ہیں اور کسی مین اسٹریم میڈیا آرگنائزیشن کی طرح وہ بھی صحافتی امور کا خیال رکھنے کی روش پر گام زن ہوگئی ہیں۔ چناں چہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس اکثر نفرت پھیلانے والے مواد کو ہٹادیتی ہیں۔ تاہم اس ضمن میں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ عریانیت، فحاشی اور جھوٹی خبروں کی طرح نفرت پھیلانے والے مواد کی مختلف طرح کی تشریحات ہیں۔ اس حوالے سے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس بعض اوقات تعصب سے بھی کام لیتی ہیں۔ کبھی یہ سائٹس صاف صاف نفرت آمیز اور اشتعال انگیز مواد کو بھی سامنے آنے کی اجازت دے دیتی ہیں اور کبھی بہ ظاہر بے ضرر سے مواد کو بھی ہٹادیتی یا سینسر کردیتی ہیں۔ اس کی ایک مثال بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک یوزر کی پوسٹ کی جانے والی تصویر ہے، جس میں ایک بلی کو بزنس سوٹ پہنے دکھایا گیا تھا۔ فیس بک نے اس یوزر کو بین کردیا۔ یہ بات واضح نہ ہوسکی کہ ایسی کیا بات تھی جس کی بنا پر یوزر کو یہ سزا دی گئی۔
٭مواد ہٹانے کا فیصلہ کون کرتا ہے؟
اس حوالے سے زیادہ معلومات دست یاب نہیں کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کون سا مواد ہٹایا یا سینسر کیا جائے اور یہ نظام کس طرح کام کرتا ہے؟ اس بارے میں بھی تفصیلات میسر نہیں کہ یہ عمل سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز کے دنیا بھر میں پھیلے دفاتر میں انجام پاتا ہے، جیسا کہ سوشل میڈیا کی عالمی نوعیت کا تقاضا ہے، یا یہ عمل کسی ایک جگہ انجام دیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے Jillian York کہتی ہیں کہ ان کے پاس اس بات کے کچھ شواہد ہیں کہ یہ عمل کچھ آفسز میں انجام پاتا ہے، جہاں تعینات کیے جانے والی عملے کو بھاری تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ اس نوعیت کے دفاتر بھارت، بنگلادیش اور فلپائن میں قائم ہیں۔یہاں کام کرنے والے بہت سے براہ راست متعلقہ نیٹ ورکنگ سائٹ کے ملازم نہیں ہوتے۔ کونٹینٹ موڈی ایٹرز (content moderators) عمومی طور پر کسی تیسرے فریق کے لیے کام کرتے ہیں۔چناں چہ یہ جاننا بہت مشکل بل کہ ناممکن کے کہ فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب یا کسی اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر پوسٹس کو سینسر کرنے اور ہٹانے کا فریضہ کون انجام دے رہا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تدریس سے وابستہ سارہ رابرٹس کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر آنے والے مواد پر نظر رکھنا اور اسے ہٹانے یا سینسر کرنے کا سلسلہ ایک خفیہ عمل ہے، جسے انجام دینے والے افراد ''بے چہرہ'' اور ان دیکھے ہوتے ہیں۔
٭صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
الیکٹرونک فرنٹیئر فاؤنڈیشن سے وابستہ Jillian York کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیز کو چاہیے کہ وہ مواد کو سینسر کرنے یا ہٹالنے کے حوالے سے اپنے قواعدوضوابط کو واضح کریں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ وضاحت کی جائے کہ سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز پر کیا پوسٹ ہوسکتا ہے اور کیا نہیں ہوسکتا۔Jillian York کہتی ہیں کہ جعلی خبروں، عریانیت اور نفرت انگیز مواد جیسے ایشوز پر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کو شفاف پالیسیاں اپنانی چاہییں۔ چوں کہ اکثر یہ واضح نہیں ہوتا کہ کیا قواعدوضوابط ہیں اور ان پر کس طرح عمل ہوتا ہے۔
Jillian York کہتی ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے استعمال کنندگان کو اس معاملے سے آگاہی ہو کہ ان کا مواد کیوں ہٹایا گیا۔یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا پر سینسرشپ کے حوالے سے دہرا معیار اور متعصبانہ عمل نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیز کو چاہیے کہ اس حوالے سے اپنی پالیسیاں اور قواعدوضوابط کو واضح طور پر استعمال کنندگان کے سامنے لائیں اور اپنے طے شدہ اصولوں اور قواعد پر کسی تعصب اور تفریق سے بالاتر ہوکر عمل کریں۔