قومی ہاکی کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے لیگ کا انعقاد ضروری
قومی ہاکی کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ڈومیسٹک مقابلوں کو جاندار بنانا ہوگا
ایک وقت تھا جب قومی ہاکی ٹیم فتوحات کی سنہری تاریخ رقم کرتے ہوئے پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو بلند کرتی اور دنیا بھر کے شائقین عش عش کر اٹھتے، گرین شرٹس کو اولمپکس،ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی، ایشین گیمز، ایشیا کپ اور بین الاقوامی سطح پر منعقد ہونے والے دیگر ٹورنامنٹس جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
مجموعی طور پر 74ٹائٹلز اپنے نام کرنے والے پاکستان ٹیم سے دنیا ہاکی سیکھتی تھی، منظر نامہ بدلنا شروع ہوا تو ایک ایک کرکے تمام اعزاز گرین شرٹس کی پہنچ سے دور نکلتے گئے، کامیابیوں پر بجنے والی تالیوں کی گونج مدھم ہوتی چلی گئی، عدم دلچسپی بڑھی تو ملکی ہاکی سٹیڈیم اور میدان بھی ویران ہوتے گئے، آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم اولمپکس، ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی جیسے بین الاقوامی سطح کے بڑے ٹورنامنٹس کے علاوہ ایشین گیمز اور ایشیا کپ جیسے علاقائی ٹائٹلز سے بھی محروم ہے، یہ حالات موجودہ ہاکی فیڈریشن کے پر عزم عہدیداروں کے لیے گہرے کنوئیں میں سے پانی نکالنے کے مترادف تصور کئے جاتے ہیں۔
2000کی دہائی میں ہاکی کے سابق کھلاڑی میر ظفر اللہ خان جمالی وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے لیکن اس کو قومی کھیل کی بدقسمتی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد ان کی جانب سے ہاکی کی بہتری خاص طور پر مختلف اداروں میں ٹیمیں بحال کرنے کے احکامات سرخ فیتے کی نذر ہو گئے، ستم ظریفی یہ بھی رہی کہ وہ کچھ بھی نہ کرسکے جبکہ بعد میں آنے والی فیڈریشنز کے ذمہ دار عہدیداروں نے اس سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا جو ان کے منصب کا تقاضا تھا۔
واضح رہے کہ 90کی دہائی تک ملک میں کم و بیش 35یا40اداروں کی ہاکی ٹیمیں ہوا کرتی تھیں جس کی وجہ سے ملک بھر کے ہاکی سے وابستہ نوجوانوں کا روزگار اور کیرئیر محفوظ سمجھا جاتا تھا لیکن نجکاری کے بعد ڈیپارٹمنٹس کی ٹیمیں ختم ہونا شروع ہو گئیں، حتیٰ کے اکثر بنکو ں نے بھی اپنی ٹیمیں ختم کر دیں، پی آئی اے اور کسٹمز جیسے اداروں نے ایک زمانے میں ہاکی کو ترقی دینے میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بام عروج پر لانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا لیکن وہاں بھی کھلاڑیوں کے لیے روزگار کے حالات اچھے نہیں رہے جس کی وجہ سے ان کی ترجیحات بھی تبدیل ہوتی گئیں اور وہ ہاکی سے قائم رشتہ ، پیٹ کی بھوک اوراپنے گھر کے کچن کو آباد کرنے کی خاطر قائم نہ رکھ سکے، رہی سہی کسر گزشتہ برسوں میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی نے پوری کر دی۔
غیر ملکی ٹیموں اور کھلاڑیوں نے پاکستان آنا چھوڑ دیا، بین الاقوامی مقابلے بھی ناپید ہو گئے، یوں پاکستانی نوجوان ملک میں بھی تجربہ حاصل کرنے اور اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیداکرنے کے مواقع سے محروم ہو گئے، یہ صورتحال سپانسرز کے لیے بھی ہاکی سے دوری کا سبب بنی اور اب حالات یہ ہیںکہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کو اپنے معاملات بہتر طور پر چلانے کے لیے فنڈز کی کمی کا سامنا رہتا ہے یہ تمام ترصورتحال ہاکی کے لیے قطعی طور پر اچھی نہیں ہے۔
بدقسمتی سے میں دبئی میں ہونے والے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے انتخابات میں ایف آئی ایچ کے سابق صدر لینڈرو نیگرے کی جگہ بھارتی ہاکی فیڈریشن کے متعصب عہدیدار نریندربٹرا نے لی، انہوں نے منصب سنبھالتے ہی مثبت سوچ کی بجائے ایک بھارتی سیاستدان کا کردار دکھایا اور منفی رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان جونئیر ہاکی ٹیم کو بھارت کے شہر لکھنو میں ہونے والے جونیئر ورلڈ کپ میں شرکت سے محروم رکھنے میں مجرمانہ کردار ادا کیا، یہ پاکستان کو دنیائے ہاکی میں اپنی صلاحیتوں سے روکنے کے سلسلے میں ایک نیا محاذ ہے، گرین شرٹس کو سازش کے تحت جونیئر ورلڈکپ سے باہر رکھے جانے پر پی ایچ ایف اور دنیا بھر میں گرین شرٹس کے شاندار ماضی سے آگاہ ہاکی حلقوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مختلف ملکوں کے کھلاڑیوں کو قریب لانے اور ہاکی کے ذریعے محبت پھیلانے کے راستوں میں دیوار کھڑی کردی گئی ہے، ہاکی کے حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستا ن جو نیئر ٹیم کی حالیہ دورہ یورپ اور پھر ملائیشیا میں ہونے والے سلطان آف جوہر کپ میں شاندار کارگردگی سے خائف ہوکر بھارت نے پاکستان جونیئر ٹیم کو شرکت سے محروم رکھا، پی ایچ ایف نے بجا طور پر آئندہ بھارت میں ہونے والے کسی بھی ٹورنامنٹ میں شرکت کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرتے ہوئے ایف آئی ایچ اور انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کو بھی آگاہ کردیا ہے، پی ایچ ایف کے صدر خالد سجاد کھوکھر اور اولمپئن شہباز احمد سینئر کے لیے بعض اندرونی مشکلات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھارتی مخالفت بھی ایک چیلنج کے طور موجود رہے گی۔
اچھی بات یہ ہے کہ ہاکی فیڈریشن کے موجودہ عہدیداروں نے ایک نئے عزم کے ساتھ ہاکی کی بہتری کے لیے ویژن 2020کے نام سے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا ہے جس کے تحت کئی برسوں بعد ملکی سطح پر نہ صرف ریکارڈ تعداد میں کئی ٹورنامنٹس کے انعقاد کو ممکن بنایا گیا ہے، ساتھ ہی کافی عرصے بعد کلب ہاکی کو ایک مرتبہ پھر زندہ کرتے ہوئے پورے ملک میں مقابلے منعقد ہو رہے ہیں، ہر شہر میں انٹر کلب ڈسٹرکٹ، تمام صوبوں میں انٹر کلب ریجنل مقابلے مکمل ہونے کے بعد اب لاہور میں قومی انٹر کلب مقابلوں کی تیاریاں مکمل ہیں۔
ایک مثبت اقدام ہے جبکہ اگلے مرحلے پر انٹر سکولز ٹورنامنٹ کا انعقاد بھی کیا جائے گا، اس کو ایک اچھی حکمت عملی اس لیے بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں شریک نہیں ہو پار رہے ہیں یا آپ کو ان سے دور رکھا جارہا ہے تو آپ اپنے ملک کی ہاکی کو منظم کریں تاکہ مطلوبہ انٹرنیشنل معیار کو حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل رہ سکیں، جہاں انٹرکلب ٹورنامنٹ کے انعقاد کے دورس اور بہتر نتائج سامنے آنے کی توقع کی جا سکتی ہے وہاں ہم پی ایچ ایف کی توجہ کھلاڑیوں کے ڈسپلن کی جانب بھی مبذول کرائیں گے کیونکہ کم و بیش ہر شہر اور صوبے میں ہونے والے مقابلوں کے دوران کھلاڑیوں کی جانب سے نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں کو محسوس کیا گیا جس کے لیے بہتر اقدامات کی خاصی گنجائش موجود ہے۔
انٹر کلب کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل میں اداروں کے کھلاڑیوں کو کم از کم گراس روٹ لیول پر ہونے والے ٹورنامنٹس میں شرکت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، اس طرح کلب پلیئرز کی حق تلفی ہوتی ہے اور بعض ٹیمیں اس کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتی ہے۔
یادرہے کہ آئندہ سال اکتوبر میں ایشیا کپ شیڈول ہے، ورلڈ کپ 2018 میں ہوگا، پاکستان ایشیا کپ جیت کر بھی میگا ایونٹ کے لیے کو الیفائی کرسکتا ہے، پی ایچ ایف نے آئندہ سال جون میں انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں کامیابی کے لیے بھی ایک منصوبہ تشکیل دیا ہے، ورلڈہاکی لیگ سے قبل پاکستانی ٹیم مارچ میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا دورہ کرے گی اور ان ملکوں میں چار ملکی ٹورنا منٹ میں حصہ لے گی، دیکھنا یہ ہے کہ یہ حالات دنیا میں پاکستان کے معیار کو بہتر بنانے کی راہ میں حائل ہوتے ہیں یا پی ایچ ایف ان رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے آگے بڑھنے میں کامیاب رہتی ہے۔
قومی ہاکی کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ڈومیسٹک مقابلوں کو جاندار بنانا ہوگا،ملک میں انٹرنیشنل مقابلوں کی کمی پوری کرنے کے لیے لیگ کا انعقاد ایک اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے،میچز میں مسابقت جتنی زیادہ ہوگی، کھلاڑیوں کا کھیل اتنا ہی نکھر کر سامنے آئے گا،توقع کی جاسکتی ہے کہ لیگ کے انعقاد کے لیے پی ایچ ایف کو حکومتی تعاون اور مالی مدد دونوں کی ضرورت ہوگی۔
مجموعی طور پر 74ٹائٹلز اپنے نام کرنے والے پاکستان ٹیم سے دنیا ہاکی سیکھتی تھی، منظر نامہ بدلنا شروع ہوا تو ایک ایک کرکے تمام اعزاز گرین شرٹس کی پہنچ سے دور نکلتے گئے، کامیابیوں پر بجنے والی تالیوں کی گونج مدھم ہوتی چلی گئی، عدم دلچسپی بڑھی تو ملکی ہاکی سٹیڈیم اور میدان بھی ویران ہوتے گئے، آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم اولمپکس، ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی جیسے بین الاقوامی سطح کے بڑے ٹورنامنٹس کے علاوہ ایشین گیمز اور ایشیا کپ جیسے علاقائی ٹائٹلز سے بھی محروم ہے، یہ حالات موجودہ ہاکی فیڈریشن کے پر عزم عہدیداروں کے لیے گہرے کنوئیں میں سے پانی نکالنے کے مترادف تصور کئے جاتے ہیں۔
2000کی دہائی میں ہاکی کے سابق کھلاڑی میر ظفر اللہ خان جمالی وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے لیکن اس کو قومی کھیل کی بدقسمتی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد ان کی جانب سے ہاکی کی بہتری خاص طور پر مختلف اداروں میں ٹیمیں بحال کرنے کے احکامات سرخ فیتے کی نذر ہو گئے، ستم ظریفی یہ بھی رہی کہ وہ کچھ بھی نہ کرسکے جبکہ بعد میں آنے والی فیڈریشنز کے ذمہ دار عہدیداروں نے اس سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا جو ان کے منصب کا تقاضا تھا۔
واضح رہے کہ 90کی دہائی تک ملک میں کم و بیش 35یا40اداروں کی ہاکی ٹیمیں ہوا کرتی تھیں جس کی وجہ سے ملک بھر کے ہاکی سے وابستہ نوجوانوں کا روزگار اور کیرئیر محفوظ سمجھا جاتا تھا لیکن نجکاری کے بعد ڈیپارٹمنٹس کی ٹیمیں ختم ہونا شروع ہو گئیں، حتیٰ کے اکثر بنکو ں نے بھی اپنی ٹیمیں ختم کر دیں، پی آئی اے اور کسٹمز جیسے اداروں نے ایک زمانے میں ہاکی کو ترقی دینے میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بام عروج پر لانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا لیکن وہاں بھی کھلاڑیوں کے لیے روزگار کے حالات اچھے نہیں رہے جس کی وجہ سے ان کی ترجیحات بھی تبدیل ہوتی گئیں اور وہ ہاکی سے قائم رشتہ ، پیٹ کی بھوک اوراپنے گھر کے کچن کو آباد کرنے کی خاطر قائم نہ رکھ سکے، رہی سہی کسر گزشتہ برسوں میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی نے پوری کر دی۔
غیر ملکی ٹیموں اور کھلاڑیوں نے پاکستان آنا چھوڑ دیا، بین الاقوامی مقابلے بھی ناپید ہو گئے، یوں پاکستانی نوجوان ملک میں بھی تجربہ حاصل کرنے اور اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیداکرنے کے مواقع سے محروم ہو گئے، یہ صورتحال سپانسرز کے لیے بھی ہاکی سے دوری کا سبب بنی اور اب حالات یہ ہیںکہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کو اپنے معاملات بہتر طور پر چلانے کے لیے فنڈز کی کمی کا سامنا رہتا ہے یہ تمام ترصورتحال ہاکی کے لیے قطعی طور پر اچھی نہیں ہے۔
بدقسمتی سے میں دبئی میں ہونے والے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے انتخابات میں ایف آئی ایچ کے سابق صدر لینڈرو نیگرے کی جگہ بھارتی ہاکی فیڈریشن کے متعصب عہدیدار نریندربٹرا نے لی، انہوں نے منصب سنبھالتے ہی مثبت سوچ کی بجائے ایک بھارتی سیاستدان کا کردار دکھایا اور منفی رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان جونئیر ہاکی ٹیم کو بھارت کے شہر لکھنو میں ہونے والے جونیئر ورلڈ کپ میں شرکت سے محروم رکھنے میں مجرمانہ کردار ادا کیا، یہ پاکستان کو دنیائے ہاکی میں اپنی صلاحیتوں سے روکنے کے سلسلے میں ایک نیا محاذ ہے، گرین شرٹس کو سازش کے تحت جونیئر ورلڈکپ سے باہر رکھے جانے پر پی ایچ ایف اور دنیا بھر میں گرین شرٹس کے شاندار ماضی سے آگاہ ہاکی حلقوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مختلف ملکوں کے کھلاڑیوں کو قریب لانے اور ہاکی کے ذریعے محبت پھیلانے کے راستوں میں دیوار کھڑی کردی گئی ہے، ہاکی کے حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستا ن جو نیئر ٹیم کی حالیہ دورہ یورپ اور پھر ملائیشیا میں ہونے والے سلطان آف جوہر کپ میں شاندار کارگردگی سے خائف ہوکر بھارت نے پاکستان جونیئر ٹیم کو شرکت سے محروم رکھا، پی ایچ ایف نے بجا طور پر آئندہ بھارت میں ہونے والے کسی بھی ٹورنامنٹ میں شرکت کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرتے ہوئے ایف آئی ایچ اور انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کو بھی آگاہ کردیا ہے، پی ایچ ایف کے صدر خالد سجاد کھوکھر اور اولمپئن شہباز احمد سینئر کے لیے بعض اندرونی مشکلات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھارتی مخالفت بھی ایک چیلنج کے طور موجود رہے گی۔
اچھی بات یہ ہے کہ ہاکی فیڈریشن کے موجودہ عہدیداروں نے ایک نئے عزم کے ساتھ ہاکی کی بہتری کے لیے ویژن 2020کے نام سے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا ہے جس کے تحت کئی برسوں بعد ملکی سطح پر نہ صرف ریکارڈ تعداد میں کئی ٹورنامنٹس کے انعقاد کو ممکن بنایا گیا ہے، ساتھ ہی کافی عرصے بعد کلب ہاکی کو ایک مرتبہ پھر زندہ کرتے ہوئے پورے ملک میں مقابلے منعقد ہو رہے ہیں، ہر شہر میں انٹر کلب ڈسٹرکٹ، تمام صوبوں میں انٹر کلب ریجنل مقابلے مکمل ہونے کے بعد اب لاہور میں قومی انٹر کلب مقابلوں کی تیاریاں مکمل ہیں۔
ایک مثبت اقدام ہے جبکہ اگلے مرحلے پر انٹر سکولز ٹورنامنٹ کا انعقاد بھی کیا جائے گا، اس کو ایک اچھی حکمت عملی اس لیے بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں شریک نہیں ہو پار رہے ہیں یا آپ کو ان سے دور رکھا جارہا ہے تو آپ اپنے ملک کی ہاکی کو منظم کریں تاکہ مطلوبہ انٹرنیشنل معیار کو حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل رہ سکیں، جہاں انٹرکلب ٹورنامنٹ کے انعقاد کے دورس اور بہتر نتائج سامنے آنے کی توقع کی جا سکتی ہے وہاں ہم پی ایچ ایف کی توجہ کھلاڑیوں کے ڈسپلن کی جانب بھی مبذول کرائیں گے کیونکہ کم و بیش ہر شہر اور صوبے میں ہونے والے مقابلوں کے دوران کھلاڑیوں کی جانب سے نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں کو محسوس کیا گیا جس کے لیے بہتر اقدامات کی خاصی گنجائش موجود ہے۔
انٹر کلب کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل میں اداروں کے کھلاڑیوں کو کم از کم گراس روٹ لیول پر ہونے والے ٹورنامنٹس میں شرکت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، اس طرح کلب پلیئرز کی حق تلفی ہوتی ہے اور بعض ٹیمیں اس کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتی ہے۔
یادرہے کہ آئندہ سال اکتوبر میں ایشیا کپ شیڈول ہے، ورلڈ کپ 2018 میں ہوگا، پاکستان ایشیا کپ جیت کر بھی میگا ایونٹ کے لیے کو الیفائی کرسکتا ہے، پی ایچ ایف نے آئندہ سال جون میں انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں کامیابی کے لیے بھی ایک منصوبہ تشکیل دیا ہے، ورلڈہاکی لیگ سے قبل پاکستانی ٹیم مارچ میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا دورہ کرے گی اور ان ملکوں میں چار ملکی ٹورنا منٹ میں حصہ لے گی، دیکھنا یہ ہے کہ یہ حالات دنیا میں پاکستان کے معیار کو بہتر بنانے کی راہ میں حائل ہوتے ہیں یا پی ایچ ایف ان رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے آگے بڑھنے میں کامیاب رہتی ہے۔
قومی ہاکی کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ڈومیسٹک مقابلوں کو جاندار بنانا ہوگا،ملک میں انٹرنیشنل مقابلوں کی کمی پوری کرنے کے لیے لیگ کا انعقاد ایک اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے،میچز میں مسابقت جتنی زیادہ ہوگی، کھلاڑیوں کا کھیل اتنا ہی نکھر کر سامنے آئے گا،توقع کی جاسکتی ہے کہ لیگ کے انعقاد کے لیے پی ایچ ایف کو حکومتی تعاون اور مالی مدد دونوں کی ضرورت ہوگی۔