شہید بشیر احمد بلور ہم آپ کو نہیں بھولے
وطن عزیز میں 2006ء کے اواخر اور 2007ء کے اوائل میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا
وطن عزیز میں 2006ء کے اواخر اور 2007ء کے اوائل میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا تو اس میں آئے روزمعصوم افراد لقمہ اجل بننے لگے، خودکش دھماکوں کے بارے میں پاکستانیوں نے سنا تو تھا لیکن اپنے ملک میں جسموں سے بم باندھ کر انھیں پھاڑتے پہلی بار دیکھا۔ کم عمر لڑکے خود کش دھماکوں میں استعمال کیے جانے لگے،ان بچوں کے ماں باپ اپنی اولاد کو اسلام کی راہ میں قربان کرنے کی خاطر دہشت گردوں کے حوالے کر دیتے اور دہشت گرد انھیں تربیت دینے کے بعد مسلمانوں کو ہی مارنے کے لیے اعزاز کے ساتھ استعمال کرتے۔ جس میں مسلمان تو کیا انسانیت کی تذلیل کی جاتی رہی، مساجد محفوظ رہیں اورنہ گرجا نہ مندر ۔دہشت گردوں نے مرد، خواتین اور بچوں کو بے دردی سے نشانہ بنایا۔
پشاور دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن شہر اور خیبر پختون خوا فرنٹ لائن صوبہ بن گیا ۔شاید ہی کوئی ایسا اہم مقام ہو جہاں بم نہ پھٹا ہو؟کئی دن تو ایسے گزرے کہ صبح،دوپہر اور شام دھماکے ہوتے، ٹیلی وژن چینلز دہشت گردوں کے بیانات کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلاتے۔صوبے کا کوئی شہر اور گاؤں محفوظ نہ تھا، سڑکیں ویران ہو گئیں۔بازاروں میں دکاندار گاہکوں کے انتظار میں سارا دن گذار دیتے، الغرض کسی کے ایماء پر اسی ملک میں قیام پذیر مسلمان، مسلمانوں کے دشمن ہو گئے۔
ایٹمی قوت کا اعزاز حاصل کرنے والی مملکت خداداد میں کوئی بھی انسانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والوں کی ویڈیو فلمیں اپ لوڈ کرنے والوں کو تلاش نہ کر سکا۔ بے بسی کا یہ عالم تب بھی تھا اور آج بھی ہے،صرف چہرے بدلے لیکن دہشت گردوں سے سو فیصد چھٹکارا اب تک نہیں مل سکا۔جب دھماکے ہو رہے تھے اور سیکیورٹی فورسز، خیبر پختون خوا پولیس، لیوی، خاصہ دار اور بے گناہ عوام کو نشانہ بنایا جا رہا تھا ایسے وقت میں وطن عزیز میں عوام کے لیے اپنے مسیحاؤں کے چناؤ کا وقت آ گیا جو انھوں نے بخوبی2008ء میں انجام دے ڈالا اور نتیجے میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے بعد خیبر پختون خوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہو گئی۔ لیکن ابھی صوبے کے عوام کو بڑی آزمائش سے گزرنا تھا، سوات پر دہشت گردوں نے غلبہ پایا، قبائلی علاقوں میں محب وطن قبائلی یرغمال بنا لیے گئے۔
انتظامی علاقوں میں خوف وہراس کے سائے منڈلانے لگے کہ کسی بھی وقت دہشت گرد شہروں پر قابض ہوسکتے ہیں،ایسے حالات میں حکومت کے سامنے دو آپشنز تھے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیے جائیں یا پھر انھیں پوری قوت سے کچل دیا جائے۔2002ء سے2008ء تک ڈبل گیم میں جو کچھ بویا گیا اسے کس طرح کاٹا جائے اس سوال نے بھی حکمرانوں کو تذبذب میں ڈالے رکھا۔سبھی نے سرجوڑ لیے تھے، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا، ایسے میں راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے راہبر و راہ نماؤں کے فلسفے کو آزمانے کا فیصلہ کرتے ہوئے دہشت گردوں سے مذاکرات کے لیے خود کو پیش کر دیا۔
اس وقت کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی، میاں افتخار حسین، افراسیاب خٹک اور بشیراحمد بلور اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مذاکرات میں پیش پیش دکھائی دیتے حتیٰ کہ دہشت گردوں کو سرکاری مقامات پر بلایا گیا اور کئی کئی گھنٹے تک ان سے بات چیت کی گئی،خود حکومتی اراکین سوات اور صوبے کے دور دراز علاقوں میں جاتے رہے اس وقت کے مناظر قطعی ناقابل فراموش ہیں جب دہشت گردوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھے دیکھا گیا۔ان کے مطالبات کیا تھے؟ وہ کیا چاہتے تھے؟ ان کی پشت پناہی کون کر رہا تھا؟
وہ کیوں انسانوں کو مار رہے تھے یہ سب باتیں ان اجلاسوں میں ہوتی رہیں جو ملک کے مفاد کے پیش نظر حکمرانوں تک ہی محدود رہیں لیکن میڈیا کے سامنے جو باتیں آئیں اس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہو گیا کہ دہشت گرد کبھی بھی مذاکرات میں ہونے والے فیصلوں کا احترام نہیں کریں گے چنانچہ کئی معاہدے ہوئے اور ٹوٹ گئے جب بیل منڈھے نہ چڑھی تو پھر ان سے آہنی ہاتھوں نمٹنے کا فیصلہ ہوا، پھر یہاں سے شہید بشیر احمد بلورکا اہم کردارشروع ہوجاتا ہے۔
راقم نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات نتیجہ خیز رہیں گے تو مجھے یاد ہے کہ انھوں نے کہا کہ باچاخان عدم تشدد کے علمبردار تھے اور ہم نے ہر ممکن کوشش کر لی کہ تشدد کے بجائے دہشت گردوں سے بات کی جائے لیکن اب پاکستانی فوج کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا جس کے بعد اگر آپ کو یاد ہو تو سارا مالاکنڈ خالی کروا لیا گیا اور دنیا کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر خیمہ بستیوں میں پناہ لی۔
پاک فوج نے دہشت گردوں کو سوات سے تو نکال دیا لیکن وہ سارے صوبے اور قبائلی علاقوں بلکہ سارے ملک میں پھیل گئے ۔بشیراحمد بلورشہید کہا کرتے تھے کہ ماضی کے غلط فیصلوں نے ہمارے ملک اور قوم کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا اور پھر بشیر احمد بلورشہید کھل کر دہشت گردوں کے خلاف میدان میں نکل پڑے
۔جہاں دھماکہ ہوتا بشیر بلورشہید جو اس وقت سینئر وزیربھی تھے فوری طور پر دھماکے کی جگہ پہنچ جاتے ۔دہشت گردی کے واقعے اور دہشت گردوں کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے، اسپتال جاتے اور مریضوں کی عیادت کرتے ،ٹیلی وژن انٹرویوز میں بے باک تبصرے کرتے ،میں نے انھیں کئی بار روتے دیکھا! انھیں ان کے دوست احباب اکثر منع کرتے کہ اس طرح کھل کر دہشت گردوں کے خلاف بیان نہ دیاکریں، بم دھماکوں کی جگہ پر جانے سے اجنتاب برتیں مگر وہ کہتے تھے کہ ''جو رات قبر میں ہے وہ آ کر رہے گی''۔
پانچ بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے کسی بھی طور عوام سے دور نہیں رہ سکتے تھے ۔انھیں تین بار نشانہ بنایا گیا لیکن وہ بال بال بچ گئے تھے ۔ان دھماکوں اور موت کو انتہائی قریب سے دیکھنے کے باوجود بشیر احمد بلورشہید کا جذبہ حب الوطنی مزید توانا ہوتا چلا گیا ۔دہشت گرد ان کی تاک میں تھے اور 22 دسمبر 2012 کی ایک سہ پہر جب وہ اپنے بڑے بھائی غلام احمد بلور کے ہمراہ ایک سیاسی جلسے میں شرکت کے بعد واپس آ رہے تھے کہ ان کے قریب پہنچنے والے ایک خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا اور یوں ایک عظیم اورنڈرسیاست دان بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ دے کر خود کو شہادت کے مرتبے پر فائز کر گیا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے کئی دیگر اراکین اسمبلی اور کارکن بھی دہشت گردوں کا نشانہ بنے جتنی قربانیاں اس پارٹی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی ہیں اس کی مثال کسی دوسری سیاسی جماعت میں نہیں ملتی اور مجھے یقین ہے کہ اس پارٹی کے لیڈروں کو غدار کہنے والے اب کبھی بھی یہ الفاظ نہیں دہرائیں گے، نہ صرف عوامی نیشنل پارٹی بلکہ بلور خاندان کی جمہوریت کے لیے قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جا سکیں گی۔بائیس دسمبر کو ان کی شہادت کی چوتھی برسی منائی جائے گی۔ گویا شہدائے اے پی ایس کی دوسری برسی ابھی ختم نہیں ہوئی کہ شہید بشیر احمد بلور کی برسی کے بینر شہر بھر میں آویزاں ہو گئے ہیں۔ یادیں پھر سے تازہ ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
اب جب کہ صوبے اور ملک میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کسی حد تک امن بحال ہو رہا ہے ،حاجی غلام احمد بلور اور بشیر احمد بلورشہید کے خاندان کے افراد یقیناً خوش قسمت ہیں کہ شہید کا خون بھی ملک و قوم کی قسمت سنوارنے میں کام آیا، مجھے یہ یقین بھی ہے کہ شہید کی روح یہ تقاضا کر رہی ہو گی کہ خدارا میری قربانی کو ضائع نہ ہونے دیجے گا۔شکریہ شہید بشیر احمد بلور پشاور کے باسی آپ کو کبھی نہیں بھولیں گے۔
پشاور دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن شہر اور خیبر پختون خوا فرنٹ لائن صوبہ بن گیا ۔شاید ہی کوئی ایسا اہم مقام ہو جہاں بم نہ پھٹا ہو؟کئی دن تو ایسے گزرے کہ صبح،دوپہر اور شام دھماکے ہوتے، ٹیلی وژن چینلز دہشت گردوں کے بیانات کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلاتے۔صوبے کا کوئی شہر اور گاؤں محفوظ نہ تھا، سڑکیں ویران ہو گئیں۔بازاروں میں دکاندار گاہکوں کے انتظار میں سارا دن گذار دیتے، الغرض کسی کے ایماء پر اسی ملک میں قیام پذیر مسلمان، مسلمانوں کے دشمن ہو گئے۔
ایٹمی قوت کا اعزاز حاصل کرنے والی مملکت خداداد میں کوئی بھی انسانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والوں کی ویڈیو فلمیں اپ لوڈ کرنے والوں کو تلاش نہ کر سکا۔ بے بسی کا یہ عالم تب بھی تھا اور آج بھی ہے،صرف چہرے بدلے لیکن دہشت گردوں سے سو فیصد چھٹکارا اب تک نہیں مل سکا۔جب دھماکے ہو رہے تھے اور سیکیورٹی فورسز، خیبر پختون خوا پولیس، لیوی، خاصہ دار اور بے گناہ عوام کو نشانہ بنایا جا رہا تھا ایسے وقت میں وطن عزیز میں عوام کے لیے اپنے مسیحاؤں کے چناؤ کا وقت آ گیا جو انھوں نے بخوبی2008ء میں انجام دے ڈالا اور نتیجے میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے بعد خیبر پختون خوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہو گئی۔ لیکن ابھی صوبے کے عوام کو بڑی آزمائش سے گزرنا تھا، سوات پر دہشت گردوں نے غلبہ پایا، قبائلی علاقوں میں محب وطن قبائلی یرغمال بنا لیے گئے۔
انتظامی علاقوں میں خوف وہراس کے سائے منڈلانے لگے کہ کسی بھی وقت دہشت گرد شہروں پر قابض ہوسکتے ہیں،ایسے حالات میں حکومت کے سامنے دو آپشنز تھے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیے جائیں یا پھر انھیں پوری قوت سے کچل دیا جائے۔2002ء سے2008ء تک ڈبل گیم میں جو کچھ بویا گیا اسے کس طرح کاٹا جائے اس سوال نے بھی حکمرانوں کو تذبذب میں ڈالے رکھا۔سبھی نے سرجوڑ لیے تھے، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا، ایسے میں راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے راہبر و راہ نماؤں کے فلسفے کو آزمانے کا فیصلہ کرتے ہوئے دہشت گردوں سے مذاکرات کے لیے خود کو پیش کر دیا۔
اس وقت کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی، میاں افتخار حسین، افراسیاب خٹک اور بشیراحمد بلور اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مذاکرات میں پیش پیش دکھائی دیتے حتیٰ کہ دہشت گردوں کو سرکاری مقامات پر بلایا گیا اور کئی کئی گھنٹے تک ان سے بات چیت کی گئی،خود حکومتی اراکین سوات اور صوبے کے دور دراز علاقوں میں جاتے رہے اس وقت کے مناظر قطعی ناقابل فراموش ہیں جب دہشت گردوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھے دیکھا گیا۔ان کے مطالبات کیا تھے؟ وہ کیا چاہتے تھے؟ ان کی پشت پناہی کون کر رہا تھا؟
وہ کیوں انسانوں کو مار رہے تھے یہ سب باتیں ان اجلاسوں میں ہوتی رہیں جو ملک کے مفاد کے پیش نظر حکمرانوں تک ہی محدود رہیں لیکن میڈیا کے سامنے جو باتیں آئیں اس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہو گیا کہ دہشت گرد کبھی بھی مذاکرات میں ہونے والے فیصلوں کا احترام نہیں کریں گے چنانچہ کئی معاہدے ہوئے اور ٹوٹ گئے جب بیل منڈھے نہ چڑھی تو پھر ان سے آہنی ہاتھوں نمٹنے کا فیصلہ ہوا، پھر یہاں سے شہید بشیر احمد بلورکا اہم کردارشروع ہوجاتا ہے۔
راقم نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات نتیجہ خیز رہیں گے تو مجھے یاد ہے کہ انھوں نے کہا کہ باچاخان عدم تشدد کے علمبردار تھے اور ہم نے ہر ممکن کوشش کر لی کہ تشدد کے بجائے دہشت گردوں سے بات کی جائے لیکن اب پاکستانی فوج کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا جس کے بعد اگر آپ کو یاد ہو تو سارا مالاکنڈ خالی کروا لیا گیا اور دنیا کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر خیمہ بستیوں میں پناہ لی۔
پاک فوج نے دہشت گردوں کو سوات سے تو نکال دیا لیکن وہ سارے صوبے اور قبائلی علاقوں بلکہ سارے ملک میں پھیل گئے ۔بشیراحمد بلورشہید کہا کرتے تھے کہ ماضی کے غلط فیصلوں نے ہمارے ملک اور قوم کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا اور پھر بشیر احمد بلورشہید کھل کر دہشت گردوں کے خلاف میدان میں نکل پڑے
۔جہاں دھماکہ ہوتا بشیر بلورشہید جو اس وقت سینئر وزیربھی تھے فوری طور پر دھماکے کی جگہ پہنچ جاتے ۔دہشت گردی کے واقعے اور دہشت گردوں کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے، اسپتال جاتے اور مریضوں کی عیادت کرتے ،ٹیلی وژن انٹرویوز میں بے باک تبصرے کرتے ،میں نے انھیں کئی بار روتے دیکھا! انھیں ان کے دوست احباب اکثر منع کرتے کہ اس طرح کھل کر دہشت گردوں کے خلاف بیان نہ دیاکریں، بم دھماکوں کی جگہ پر جانے سے اجنتاب برتیں مگر وہ کہتے تھے کہ ''جو رات قبر میں ہے وہ آ کر رہے گی''۔
پانچ بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے کسی بھی طور عوام سے دور نہیں رہ سکتے تھے ۔انھیں تین بار نشانہ بنایا گیا لیکن وہ بال بال بچ گئے تھے ۔ان دھماکوں اور موت کو انتہائی قریب سے دیکھنے کے باوجود بشیر احمد بلورشہید کا جذبہ حب الوطنی مزید توانا ہوتا چلا گیا ۔دہشت گرد ان کی تاک میں تھے اور 22 دسمبر 2012 کی ایک سہ پہر جب وہ اپنے بڑے بھائی غلام احمد بلور کے ہمراہ ایک سیاسی جلسے میں شرکت کے بعد واپس آ رہے تھے کہ ان کے قریب پہنچنے والے ایک خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا اور یوں ایک عظیم اورنڈرسیاست دان بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ دے کر خود کو شہادت کے مرتبے پر فائز کر گیا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے کئی دیگر اراکین اسمبلی اور کارکن بھی دہشت گردوں کا نشانہ بنے جتنی قربانیاں اس پارٹی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی ہیں اس کی مثال کسی دوسری سیاسی جماعت میں نہیں ملتی اور مجھے یقین ہے کہ اس پارٹی کے لیڈروں کو غدار کہنے والے اب کبھی بھی یہ الفاظ نہیں دہرائیں گے، نہ صرف عوامی نیشنل پارٹی بلکہ بلور خاندان کی جمہوریت کے لیے قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جا سکیں گی۔بائیس دسمبر کو ان کی شہادت کی چوتھی برسی منائی جائے گی۔ گویا شہدائے اے پی ایس کی دوسری برسی ابھی ختم نہیں ہوئی کہ شہید بشیر احمد بلور کی برسی کے بینر شہر بھر میں آویزاں ہو گئے ہیں۔ یادیں پھر سے تازہ ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
اب جب کہ صوبے اور ملک میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کسی حد تک امن بحال ہو رہا ہے ،حاجی غلام احمد بلور اور بشیر احمد بلورشہید کے خاندان کے افراد یقیناً خوش قسمت ہیں کہ شہید کا خون بھی ملک و قوم کی قسمت سنوارنے میں کام آیا، مجھے یہ یقین بھی ہے کہ شہید کی روح یہ تقاضا کر رہی ہو گی کہ خدارا میری قربانی کو ضائع نہ ہونے دیجے گا۔شکریہ شہید بشیر احمد بلور پشاور کے باسی آپ کو کبھی نہیں بھولیں گے۔