خودکش حملوں میں بمبار کا سر قابلِ شناخت نہیں رہتا کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ میں انکشاف

پہلے بمبارکادھڑ اڑ جاتا تھا،اب چھرے سرکوریزہ ریزہ کردیتے ہیں،سانحہ کوئٹہ کے حملہ آورکی شناخت ٹانگوں سے کی گئی

یہ تاثردرست نہیں بمبار سکون آوردواؤں کے زیراثر ہوتا ہے،بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے ثبوت نہیں دیے گئے،جسٹس فائزعیسیٰ۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ میں خودکش حملوں میں استعمال ہونے والی جیکٹس کی ساخت و تکنیک اور حملہ کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلیوں کے متعلق حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پہلے خودکش جیکٹس پھٹنے سے حملہ آور کا دھڑ اور نچلا حصہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا تھا اور سر سلامت رہتا تھا جس سے شناخت میں آسانی ہوتی تھی،سر سلامت رہنے کی وجہ یہ تھی کہ بم پھٹنے کے بعد چھرے نیچے کی طرف حرکت کرتے ہوئے پھیل جاتے تھے لیکن اب دہشتگردوں نے تکنیک میں تبدیلی کردی ہے جس سے بم پھٹنے کے بعد چھرے اوپر کی طرف حرکت کرکے پھیلتے ہیں جس سے خود کش حملہ آور کا سر اور دھڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے لیکن ٹانگیں بچ جاتی ہیں۔

سانحہ کوئٹہ کے خود کش حملہ آور کی شناخت اس کی ٹانگوں، جوتوں اور موزوں سے کی گئی۔ کمیشن نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ خود کش بمبارسکون آورادویہ کے زیراثر اور ہیپناٹائز ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حملہ آور مکمل ہوش و حواس میں تھا، وہ اس قدر پراعتماد اور احتیاط کیساتھ چل رہا تھا کہ کوئی اسکی طرف متوجہ نہ ہو، وہ خود کو لوگوں کی نظروں سے بچا رہا تھا اور کوشش تھی کہ کوئی اس سے ٹچ بھی نہ ہو جائے، وہ لوگوں کے جمع ہونے کا انتظار کررہا تھا۔


رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ8 اگست کو بلال انور کاسی کے قتل اور اسپتال کے باہر خود کش حملہ میں وہی گروپ ملوث تھا جس نے 8 جون 2016 کو کوئٹہ یونیورسٹی لا کالج کے پرنسپل بیرسٹر امان اللہ اچکزئی، 4جولائی 2016 کو پولیس انسپکٹر مشتاق، ہزارہ قبیلے کی2خواتین اور 14 اکتوبر 2016 کو 2 ایف سی اہلکاروں کا قتل کیا، اگر تفتیش میں جدید سائنسی طریقوں اور فرانزک معائنہ کا استعمال ہو تو حملوں کو روکا جا سکتا ہے۔

کمیشن کے مزید انکشافات کے مطابق دھماکے میں استعمال ہونیوالی جیکٹ نیو سریاب پولیس اسٹیشن کے قریب سبی کو جانیوالی سڑک پرایک گھر میں بنائی گئی جو اسپتال سے19 کلومیٹر دور ہے، گھر سے متصل کوئی اور گھر نہیں،اس گھر میں خودکش جیکٹس اور آئی ای ڈیز تیار ہوتے تھے اور گھر کے باہر دس فٹ گہرا ایک گڑھا بھی تھا جس میں استعمال شدہ پلاسٹک وغیرہ پھینک دیا جاتا تھا۔

رپورٹ میں 8 اگست کو بلال انور کاسی کے قتل کے بعد اسپتال کے باہر خود کش حملہ اگست کے حملوں میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہو نے کا حکومتی دعویٰ مکمل طور پر مسترد تو نہیں کیا گیا لیکن کہا گیا ہے کہ بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم نہیںکیے گئے۔

رپورٹ میں کہاگیاکہ اگر بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کا دعویٰ مان بھی لیا جائے توپھربھی اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ دہشت گردوں کو اندر سے تعاون اور حمایت حاصل ہے،مقامی لوگوں کے تعاون کے بغیردہشت گردی کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا،بلال انور کاسی اور وکلاپرخود کش حملے میں ملوث گروپ اور افراد نے کئی دن سے ان کاتعاقب کیا، ان کے آنے جانے کے راستے معلوم کیے،وہ کہیں قریب ہی رہ رہے تھے۔
Load Next Story