مشکلات پر ردِ عمل کے انداز
گاجر، انڈے اور کافی کے اندر ایک دوسرے سے مختلف اجزاء اور خواص پائے جاتے ہیں
وہ سخت پریشان تھی۔ مشکلات بار بار اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہی تھیں۔ ایک کے بعد ایک مشکل کا سامنا کرتے کرتے وہ خود کو بدنصیب سمجھنے لگی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب اس کے ساتھ ہی کیوں ہورہا ہے۔ مصیبتوں اور مشکلات کو کیسے برداشت کیا جائے اور ان سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔۔۔۔؟ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا مشکلات سے محفوظ ایک آسان اور خوشیوں بھری زندگی گزارنا میرا حق نہیں۔؟ اس نے سوچا کہ اپنے دکھوں، خوشیوں سے محرومیوں اور اپنی ناکامیابیوں سے اپنی ماں کو آگاہ کر ہی دینا چاہیے۔ نوجوان خاتون سفر کرکے اپنی ماں کے گھر پہنچی، اس نے ماں کو بتایا کہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کرتے کرتے وہ تھک گئی ہے۔ ایک مشکل ختم نہیں ہوتی کہ دوسری سامنے موجود ہ ہوتی ہے۔
ماں نے اپنی بیٹی کی بات تحمل سے سنی، وہ دکھی تو ہوئی لیکن اس نے اپنی بیٹی کے مصائب کو کسی جادو ٹونے یا سفلی کا نتیجہ قرار نہیں دیا نہ ہی بندشوں سے نجات کے لیے کوئی وظیفہ پڑھنے کا کہا۔ وہ اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ باورچی خانے میں لے گئی۔ ماں نے تین برتنوں میں پانی ڈال کر ہر برتن میں علیحدہ علیحدہ گاجریں، انڈے اور کافی کے بیج ڈال دیے اور انھیں چولہوں پر تیز آگ پر رکھ دیا۔ تھوڑی دیر بعد پانی ابلنے لگا۔ ماں نے تینوں چولہے بجھا دیے۔ برتنوں میں سے گاجریں، انڈے اور کافی کے بیج نکال کر علیحدہ علیحدہ پیالیوں میں ڈال دیے۔ پھر بیٹی سے کہا کہ بتاؤ کہ گاجریں اب کیسی ہیں۔؟ بیٹی نے ان گاجروں کو ہاتھ لگایا اور محسوس کیا کہ گاجریں نرم ہو چکی ہیں۔ اس کے بعد ماں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ ایک انڈا اٹھائے اور اسے توڑ ڈالے۔ چھلکا اتارنے کے بعد بیٹی نے محسوس کیا کہ انڈہ ابل کر سخت ہو چکا ہے۔ آخر میں ماں نے بیٹی سے کہا کہ وہ کافی کی ایک چسکی لے کر دیکھے۔ بیٹی نے کافی چکھی تو اسے بے حد خوش ذائقہ محسوس ہوئی۔
بیٹی نے اپنی ماں سے کہا: ''ماں! میں نے آپ کو اپنی مشکلات بتائی ہیں۔ انھیں سن کر آپ مجھے کچن میں لے آئیں۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟'' ماں نے بتایا کہ دیکھو بیٹی! ان تین مختلف اشیاء نے ایک ہی جیسی گرم صورتحال کا سامنا کیا، ان تینوں اشیاء کو ابلتے ہوئے پانی میں کچھ دیر رہنا پڑا، لیکن ہر ایک شے پر مختلف اثرات مرتب ہوئے۔ پانی میں ڈالنے سے پہلے گاجریں بہت سخت اور غیرلچکدار تھیں لیکن پانی کی حرارت اور ابال کی وجہ سے ان میں نرمی اور لچک پیدا ہو گئی۔ انڈا اندر سے بہت ہی نازک تھا۔ اس کا بیرونی چھلکا نہایت سخت تھا جو اس کے اندر موجود مایع کی حفاظت پر مامور تھا۔ پانی میں ابلنے کے بعد انڈے کا اندرونی حصہ سخت اور بیرونی چھلکا کچھ نرم ہو گیا۔ پسی ہوئی کافی البتہ بہت ہی غیرمعمولی حیثیت کی حامل تھی، ابلتے ہوئے پانی میں اپنی ہیئت تبدیل کرنے کے بجائے کافی نے پانی کو ہی تبدیل کر دیا۔
اس کہانی سے ہمیں کیا سبق حاصل ہوتا ہے اور کیا پیغام ملتا ہے؟
سبق یہ ہے کہ مسائل و مشکلات کو ایک نئے اور حیرت انگیز جہاں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، بالکل کافی کی طرح جس نے اپنی غیرمعمولی توانائی اور خاصیت کے باعث پانی کو ایک خوش ذائقہ مشروب میں بدل دیا۔ پیغام یہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں اور اپنے خواص سے صحیح انداز میں کام لیا جائے۔
گاجر، انڈے اور کافی کے اندر ایک دوسرے سے مختلف اجزاء اور خواص پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک ہی ماحول میں الگ الگ ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ ہر آدمی کی شخصیت میں بھی دوسروں سے مختلف خواص یا گوشے پائے جاتے ہیں۔کسی مرد یا عورت میں مثبت خواص زیادہ ہوتے ہیں تو کسی میں منفی خواص حاوی ہوتے ہیں۔۔۔۔ ان خواص اور ان پر مثبت یا منفی سوچ میں سے کسی کی بالا دستی کی وجہ سے ایک ہی جیسے حالات میں مختلف لوگ ایک دوسرے سے مختلف ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ کہانی میں نے دور حاضر کے ایک نامور موٹیویشنل مقرر اور کئی مقبول کتابوں کے مصنف وین والٹر ڈائیر(2015ء۔ 1940ء) Wayne Walter Dyer کی ایک کتاب'' انسپائریشن'' سے اخذ کی ہے۔ اپنی شاندار تحریروں اور قابل عمل مشوروں کی وجہ سے وین ڈائیر کو بابائے ترغیبات'' Father Of Motivation '' کا لقب بھی دیا گیا۔
والٹر ڈائیر کے بیان کردہ یہ نکات اور اصول افراد پر بھی صادق آتے ہیں اور معاشروں پر بھی۔ محدود سوچ کے حامل، تن آسان اور سست لوگ مشکل حالات کو ناکامی بنا لیتے ہیں۔ وسیع النظر اور دوربین، مثبت سوچ رکھنے والے افراد مشکلات اور رکاوٹوں کو سیکھنے اور آگے بڑھنے کا ذریعہ یا اوپر جانے کے لیے سیڑھی بنا دیتے ہیں۔ پر عزم اور مثبت سوچ رکھنے والے معاشروں میں بھی مشکلات میں نئی امنگیں، نئے جذبے بیدار ہوجاتے ہیں۔ قوموں کی چند مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے ایٹم بم گرا کر جاپان کو تباہ کردیا تھا۔ دو بڑے شہر ہیرو شیما اور ناگا ساکی ملبے کا ڈھیر بننے کے ساتھ ساتھ ہزاروں معصوم شہریوں کے قبرستان بھی بن گئے۔ جاپان کی معیشت تباہ ہوگئی۔ جنگ میں شکست اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کے صدمے کے باوجود جاپان کی حکومت اور عوام نے شکست نہیں مانی۔ بہت بڑی تباہی کے بعد دو تین عشروں میں ہی جاپان عالمی معیشت میں اولین نمبروں پر آ گیا۔
مشکلات میں ہمت ہار دینے والوں کو دیکھنا ہو تو عراق اور ایشیاء کے کئی دوسرے ملکوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ عراق پر بھی امریکا اور اتحادی افواج نے قہر ڈھایا۔ وہاں معصوم شہریوں، مردوں عورتوں حتیٰ کہ کمسن اور شیرخوار بچوں کی جانیں گئیں۔
لیکن اس تباہی کے بعد عراق میں کوئی نہ تھا جو اپنی قوم میں ایک نیا جذبہ، نئی روح پھونکتا۔ صدیوں کی اعلیٰ تہذیبی روایات کی حامل عراقی قوم آج بے بسی اور محرومیوں کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اس محرومی کا جواز پیش کرتے ہوئے کچھ دانشور یہ کہتے ہیں کہ امریکنوں کی جانب سے بغداد پر مسلسل اور شدید بم باری سے تباہی کے بعد عراقی قوم دوبارہ کیسے اٹھتی ۔؟ اس دلیل کو سامنے رکھتے ہوئے آئیے چند دہائیاں پیشتر7 ستمبر 1940ء تا مئی1941ء انگلستان کے دارالحکومت لندن اور دیگر کئی صنعتی اور ساحلی شہروں پر جرمن ایئر فورس کے بم بار طیاروں کی مسلسل اور شدید بم باری (جسے Blitz کا نام بھی دیا گیا ہے۔ ) کی تباہ کاریوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔
لندن پر جرمن طیاروں کی بم باری سے شہر کا بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ لندن کی تقریباً آدھی آبادی بم باری سے ہلاک ہوئی۔ برطانیہ کے شہروں پر جرمن طیاروں کی بم باری 267دنوں تک جاری رہی۔ جرمن حملوں نے برطانیہ کی معیشت اور تاج برطانیہ کی شان و شوکت کو خاک میں ملا دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں کے ہاتھوں زخم کھانے کے بعد برطانوی دولت مشترکہ کے کئی ملک برطانوی راج سے آزاد ہوگئے۔ برٹش سلطنت سمٹ کر رہ گئی لیکن برطانیہ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا اور دنیا بھر میں ایک اعلیٰ مقام کا حامل ہے۔
برطانیہ کی تباہی کا سبب بننے والا جرمنی خود بھی بعد میں تباہی سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اتحادی افواج کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد جرمن ریاست دو حصوں مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی میں تبدیل ہوگئی۔ لیکن آج جرمنی دوبارہ متحد ہے اور اس کی معیشت دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہے۔
تقریباً 19سال جاری رہنے والی جنگ میں شمالی ویت نام کے عوام نے امریکا کے زیر قیادت اینٹی کمیونسٹ اتحاد کی افواج سے مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں لاکھوں ویت نامی ہلاک ہوگئے، ویت نام کے کئی شہر تباہ ہوئے۔ جنگ کے بعد ویت نام کے عوام دوبارہ اٹھے، ترقی کا عزم کیا۔ آج ویت نام کی معیشت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملکوں کے ہم پلہ ہوتی جارہی ہے۔
جنگوں کی تباہی دنیا کے کئی ملکوں کی مخالفت اور شدید مشکلات کا سامنا کرنے والی مختلف قوموں کے ردعمل اور ان کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اب یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم احساس شکست رکھنے والی قوموں کا حال دیکھ کر کوئی مشکل پڑنے پر خود بھی مایوس ہو کر بیٹھ جائیں یا جاپان، برطانیہ، جرمنی اور ویت نام جیسے ملکوں کے عوام اور حکومت کے طرز عمل سے خود اپنے لیے امید اور عزم کے دیے روشن کریں۔
ماں نے اپنی بیٹی کی بات تحمل سے سنی، وہ دکھی تو ہوئی لیکن اس نے اپنی بیٹی کے مصائب کو کسی جادو ٹونے یا سفلی کا نتیجہ قرار نہیں دیا نہ ہی بندشوں سے نجات کے لیے کوئی وظیفہ پڑھنے کا کہا۔ وہ اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ باورچی خانے میں لے گئی۔ ماں نے تین برتنوں میں پانی ڈال کر ہر برتن میں علیحدہ علیحدہ گاجریں، انڈے اور کافی کے بیج ڈال دیے اور انھیں چولہوں پر تیز آگ پر رکھ دیا۔ تھوڑی دیر بعد پانی ابلنے لگا۔ ماں نے تینوں چولہے بجھا دیے۔ برتنوں میں سے گاجریں، انڈے اور کافی کے بیج نکال کر علیحدہ علیحدہ پیالیوں میں ڈال دیے۔ پھر بیٹی سے کہا کہ بتاؤ کہ گاجریں اب کیسی ہیں۔؟ بیٹی نے ان گاجروں کو ہاتھ لگایا اور محسوس کیا کہ گاجریں نرم ہو چکی ہیں۔ اس کے بعد ماں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ ایک انڈا اٹھائے اور اسے توڑ ڈالے۔ چھلکا اتارنے کے بعد بیٹی نے محسوس کیا کہ انڈہ ابل کر سخت ہو چکا ہے۔ آخر میں ماں نے بیٹی سے کہا کہ وہ کافی کی ایک چسکی لے کر دیکھے۔ بیٹی نے کافی چکھی تو اسے بے حد خوش ذائقہ محسوس ہوئی۔
بیٹی نے اپنی ماں سے کہا: ''ماں! میں نے آپ کو اپنی مشکلات بتائی ہیں۔ انھیں سن کر آپ مجھے کچن میں لے آئیں۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟'' ماں نے بتایا کہ دیکھو بیٹی! ان تین مختلف اشیاء نے ایک ہی جیسی گرم صورتحال کا سامنا کیا، ان تینوں اشیاء کو ابلتے ہوئے پانی میں کچھ دیر رہنا پڑا، لیکن ہر ایک شے پر مختلف اثرات مرتب ہوئے۔ پانی میں ڈالنے سے پہلے گاجریں بہت سخت اور غیرلچکدار تھیں لیکن پانی کی حرارت اور ابال کی وجہ سے ان میں نرمی اور لچک پیدا ہو گئی۔ انڈا اندر سے بہت ہی نازک تھا۔ اس کا بیرونی چھلکا نہایت سخت تھا جو اس کے اندر موجود مایع کی حفاظت پر مامور تھا۔ پانی میں ابلنے کے بعد انڈے کا اندرونی حصہ سخت اور بیرونی چھلکا کچھ نرم ہو گیا۔ پسی ہوئی کافی البتہ بہت ہی غیرمعمولی حیثیت کی حامل تھی، ابلتے ہوئے پانی میں اپنی ہیئت تبدیل کرنے کے بجائے کافی نے پانی کو ہی تبدیل کر دیا۔
اس کہانی سے ہمیں کیا سبق حاصل ہوتا ہے اور کیا پیغام ملتا ہے؟
سبق یہ ہے کہ مسائل و مشکلات کو ایک نئے اور حیرت انگیز جہاں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، بالکل کافی کی طرح جس نے اپنی غیرمعمولی توانائی اور خاصیت کے باعث پانی کو ایک خوش ذائقہ مشروب میں بدل دیا۔ پیغام یہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں اور اپنے خواص سے صحیح انداز میں کام لیا جائے۔
گاجر، انڈے اور کافی کے اندر ایک دوسرے سے مختلف اجزاء اور خواص پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک ہی ماحول میں الگ الگ ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ ہر آدمی کی شخصیت میں بھی دوسروں سے مختلف خواص یا گوشے پائے جاتے ہیں۔کسی مرد یا عورت میں مثبت خواص زیادہ ہوتے ہیں تو کسی میں منفی خواص حاوی ہوتے ہیں۔۔۔۔ ان خواص اور ان پر مثبت یا منفی سوچ میں سے کسی کی بالا دستی کی وجہ سے ایک ہی جیسے حالات میں مختلف لوگ ایک دوسرے سے مختلف ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ کہانی میں نے دور حاضر کے ایک نامور موٹیویشنل مقرر اور کئی مقبول کتابوں کے مصنف وین والٹر ڈائیر(2015ء۔ 1940ء) Wayne Walter Dyer کی ایک کتاب'' انسپائریشن'' سے اخذ کی ہے۔ اپنی شاندار تحریروں اور قابل عمل مشوروں کی وجہ سے وین ڈائیر کو بابائے ترغیبات'' Father Of Motivation '' کا لقب بھی دیا گیا۔
والٹر ڈائیر کے بیان کردہ یہ نکات اور اصول افراد پر بھی صادق آتے ہیں اور معاشروں پر بھی۔ محدود سوچ کے حامل، تن آسان اور سست لوگ مشکل حالات کو ناکامی بنا لیتے ہیں۔ وسیع النظر اور دوربین، مثبت سوچ رکھنے والے افراد مشکلات اور رکاوٹوں کو سیکھنے اور آگے بڑھنے کا ذریعہ یا اوپر جانے کے لیے سیڑھی بنا دیتے ہیں۔ پر عزم اور مثبت سوچ رکھنے والے معاشروں میں بھی مشکلات میں نئی امنگیں، نئے جذبے بیدار ہوجاتے ہیں۔ قوموں کی چند مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے ایٹم بم گرا کر جاپان کو تباہ کردیا تھا۔ دو بڑے شہر ہیرو شیما اور ناگا ساکی ملبے کا ڈھیر بننے کے ساتھ ساتھ ہزاروں معصوم شہریوں کے قبرستان بھی بن گئے۔ جاپان کی معیشت تباہ ہوگئی۔ جنگ میں شکست اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کے صدمے کے باوجود جاپان کی حکومت اور عوام نے شکست نہیں مانی۔ بہت بڑی تباہی کے بعد دو تین عشروں میں ہی جاپان عالمی معیشت میں اولین نمبروں پر آ گیا۔
مشکلات میں ہمت ہار دینے والوں کو دیکھنا ہو تو عراق اور ایشیاء کے کئی دوسرے ملکوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ عراق پر بھی امریکا اور اتحادی افواج نے قہر ڈھایا۔ وہاں معصوم شہریوں، مردوں عورتوں حتیٰ کہ کمسن اور شیرخوار بچوں کی جانیں گئیں۔
لیکن اس تباہی کے بعد عراق میں کوئی نہ تھا جو اپنی قوم میں ایک نیا جذبہ، نئی روح پھونکتا۔ صدیوں کی اعلیٰ تہذیبی روایات کی حامل عراقی قوم آج بے بسی اور محرومیوں کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اس محرومی کا جواز پیش کرتے ہوئے کچھ دانشور یہ کہتے ہیں کہ امریکنوں کی جانب سے بغداد پر مسلسل اور شدید بم باری سے تباہی کے بعد عراقی قوم دوبارہ کیسے اٹھتی ۔؟ اس دلیل کو سامنے رکھتے ہوئے آئیے چند دہائیاں پیشتر7 ستمبر 1940ء تا مئی1941ء انگلستان کے دارالحکومت لندن اور دیگر کئی صنعتی اور ساحلی شہروں پر جرمن ایئر فورس کے بم بار طیاروں کی مسلسل اور شدید بم باری (جسے Blitz کا نام بھی دیا گیا ہے۔ ) کی تباہ کاریوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔
لندن پر جرمن طیاروں کی بم باری سے شہر کا بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ لندن کی تقریباً آدھی آبادی بم باری سے ہلاک ہوئی۔ برطانیہ کے شہروں پر جرمن طیاروں کی بم باری 267دنوں تک جاری رہی۔ جرمن حملوں نے برطانیہ کی معیشت اور تاج برطانیہ کی شان و شوکت کو خاک میں ملا دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں کے ہاتھوں زخم کھانے کے بعد برطانوی دولت مشترکہ کے کئی ملک برطانوی راج سے آزاد ہوگئے۔ برٹش سلطنت سمٹ کر رہ گئی لیکن برطانیہ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا اور دنیا بھر میں ایک اعلیٰ مقام کا حامل ہے۔
برطانیہ کی تباہی کا سبب بننے والا جرمنی خود بھی بعد میں تباہی سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اتحادی افواج کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد جرمن ریاست دو حصوں مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی میں تبدیل ہوگئی۔ لیکن آج جرمنی دوبارہ متحد ہے اور اس کی معیشت دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہے۔
تقریباً 19سال جاری رہنے والی جنگ میں شمالی ویت نام کے عوام نے امریکا کے زیر قیادت اینٹی کمیونسٹ اتحاد کی افواج سے مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں لاکھوں ویت نامی ہلاک ہوگئے، ویت نام کے کئی شہر تباہ ہوئے۔ جنگ کے بعد ویت نام کے عوام دوبارہ اٹھے، ترقی کا عزم کیا۔ آج ویت نام کی معیشت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملکوں کے ہم پلہ ہوتی جارہی ہے۔
جنگوں کی تباہی دنیا کے کئی ملکوں کی مخالفت اور شدید مشکلات کا سامنا کرنے والی مختلف قوموں کے ردعمل اور ان کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اب یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم احساس شکست رکھنے والی قوموں کا حال دیکھ کر کوئی مشکل پڑنے پر خود بھی مایوس ہو کر بیٹھ جائیں یا جاپان، برطانیہ، جرمنی اور ویت نام جیسے ملکوں کے عوام اور حکومت کے طرز عمل سے خود اپنے لیے امید اور عزم کے دیے روشن کریں۔