من مانے فیصلے اور خواہشات
ملک کا صدر بننے کی خواہش 2008ء کے انتخابات میں آصف علی زرداری نے بھی نہیں کی تھی
پیپلزپارٹی کے سب سے کم عمر 28 سالہ چیئرمین بلاول کے خطاب کے جواب میں وفاقی وزیر رانا تنویر نے کہا ہے کہ بلاول زرداری 2018 میں خود وزیراعظم اور اپنے والد آصف علی زرداری کو دوبارہ صدر مملکت بنانا چاہتے ہیں تو اپنی پھوپھی کو بھی کوئی عہدہ دے دیں۔ بلاول زرداری یہ بات خود لاہور میں پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس پرکہہ چکے ہیں اورکچھ بھی چاہنا ہرکسی کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر سیاست میں خواہش عوام کے ووٹوں سے ہی پوری ہوتی ہے۔
ملک کا صدر بننے کی خواہش 2008ء کے انتخابات میں آصف علی زرداری نے بھی نہیں کی تھی سب سے زیادہ نشستیں لے کر پیپلزپارٹی تنہا حکومت نہیں بناسکتی تھی جس پر آصف زرداری نے میاں نواز شریف سے اتحاد کرکے پہلے پی پی پی کا وزیراعظم بنوایا پھر صدر پرویز مشرف کی جگہ خود صدر بننے کی راہ ہموار کی مگر اظہار نہیں کیا اور نواز شریف کی مدد لے کر پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹانے کی صوبوں سے قراردادیں منظور کرائیں اور مواخذے سے بچنے کے لیے صدر مشرف مستعفی ہوگئے۔ جس کے بعد جو خواہش دل میں تھی وہ آصف زرداری کی زبان پر آگئی اور انھوں نے نواز شریف سے کیے گئے اپنے وعدے کو پورا کرانے کی بجائے صدر مملکت بننے کی کوشش شروع کی اور نواز شریف کے حکومت چھوڑ دینے کے بعد بھی اپنی خواہش کی تکمیل میں کامیاب بھی رہے اور وہ کر دکھایا جو شاید کبھی انھوں نے نہیں سوچا تھا۔
جو کام بلاول کے والد نے سیاسی جوڑ توڑ اور حلیفوں کی مدد سے کر دکھایا تھا وہ حالات آج ہیں اور نہ اب پیپلزپارٹی 2008ء والی پوزیشن میں ہے بلکہ اب پی پی اور مسلم لیگ ن کے بعد تحریک انصاف تیسری سیاسی قوت ہے جو پارلیمانی طور پر تیسری سیاسی طاقت اور ایک صوبے کی حکمران جماعت ہے۔ ڈیڑھ سال بعد ہونے والے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے کوشاں عمران خان تو 2013 ہی میں وزیراعظم بننے کے خواہش مند تھے مگر ناکام رہے لیکن بلاول زرداری کی طرح اپنی خواہش کا برملا اظہار انھوں نے کبھی نہیں کیا اور ایک نوجوان جس نے کبھی کوئی الیکشن نہیں لڑا وہ کہہ چکا ہے کہ میں وزیراعظم اور آصف زرداری پھر صدر بنیںگے۔
یہ درست ہے کہ سیاسی جماعت بنانے کا مقصد عوام کی خدمت کے نام پر اقتدار کا حصول ہوتا ہے اور پارٹی سربراہ ہی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرکے وزیراعظم بننے کا خود کو حق دار سمجھتا ہے اور یہ پہلی بار ہوا کہ 2008ء میں پیپلزپارٹی نے سادہ اکثریت حاصل کرکے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنوایا تھا اور پی پی پی سربراہ آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑا تھا مگر بعد میں انھیں صدر مملکت بننے کا موقع ملا اور وہ واحد پارٹی سربراہ تھے جوصدر منتخب ہوئے تھے جب کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں کوئی پارٹی قائد صدر نہیں بنا تھا۔
ملک میں پہلی بار وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دوسرے دور میں پنجاب میں اپنے بھائی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنوایا تھا جس کی وجہ سے گجرات کے چوہدری ناراض بھی ہوئے تھے مگر وزیراعظم نے اپنے بھائی کو قابل اعتماد سمجھا تھا اور کسی پارٹی رہنما کو اس لائق نہیں سمجھا تھا۔ شہباز شریف 2008 کے بعد 2013 میں اپنے بھائی کی طرح تیسری بار وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے اور انھوں نے بھی تو اہم محکمے اپنے پاس رکھے اور تین سال تک اپنی کابینہ میں توسیع نہیں کی اور دن رات کی تنہا محنت کے بعد اب انھوں نے 12 نئے وزیر پنجاب کابینہ میں شامل کرکے خود پر سے سرکاری بوجھ ہلکا تو کیا مگر اپنی جسمانی بیماریوں میں اضافہ ضرورکرلیا ہے۔
موجودہ حکومت پر مسلسل تنقید ہورہی ہے کہ وزیر خارجہ نہ ہونے سے وزارت خارجہکے امور وزیر مملکت اور معاون خصوصی کے ذریعیچلائے جا رہے ہیں۔ بلاول زرداری کا ایک مطالبہ وزیر خارجہ کا تقرر بھی ہے جس پر حکمران توجہ نہیں دے رہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ کیا مسلم لیگ ن میں کوئی ایسا قابل نہیں جو مکمل وزیر خارجہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ حکمرانوں کا زیادہ زور غیر ملکی دوروں پر رہا ہے جو کام وزیر خارجہ کرسکتا ہے وہ وزیراعظم خود کررہے ہیں مگر تنقید کے باوجود وہ محکمہ خارجہ خود چھوڑ کر کسی اپنے با اعتماد رہنما کو وزیر خارجہ نہیں بنا رہے۔
موجودہ حکمرانوں کی طرح من مانے فیصلے وزیراعظم بھٹو بھی کیا کرتے تھے جو بعد میں ان کے خلاف گئے اور ان کی مقبولیت بھی متاثر ہوئی۔ صدر زرداری نے کرپشن میں مبینہ طور پر ملوث وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نا اہلیت کے بعد چند ماہ کے لیے پی پی پی کا جو دوسرا وزیراعظم راجہ پرویز اشرف تھے ان پر بھی الزامات تھے مگر حلیفوں کے اعتراض کے بعد اور پیپلزپارٹی سندھ کے علاوہ ہر جگہ شکست سے دو چار ہوئی۔ 8 سال تک سندھ کو معمر وزیراعلیٰ ملا اور ان کی بہن فریال تالپور عملی طور پر سندھ کے معاملات پر حاوی رہیں جب کہ پی پی پی کے گزشتہ دور میں پیر پگاڑا مرحوم کہتے تھے کہ سندھ میں کہنے کو ایک مگر عملی طور پر چار وزیر اعلیٰ ہیں۔
عمران خان اصول اور انصاف کے دعویدار ہیں مگر جسٹس صبیح کے فیصلے پر عمل کرکے جہانگیر ترین اور وزیراعلیٰ کے پی کے کو نہیں ہٹایا اور برقرار رکھ کر ثابت کر دکھایا کہ وہ من مانی کے عادی اور یوٹرن لینے میں خود کو مشہورکرلیا ہے۔ آصف زرداری بادشاہوں کی طرح نوازنے میں مشہور ہیں جنھوں نے سکھر میں باپ کو سینیٹر ایک بیٹے کو ممبر قومی اسمبلی بنانے کے بعد دوسرے بیٹے کو میئر سکھر بنادیا مگر خورشید شاہ سمیت کسی کو اعتراض کی ہمت نہیں ہوسکی جو ایوان میں سچ کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اقتدار میں آکر ملک کو ذاتی جاگیر سمجھ لیا جاتا ہے اور حکمران بننے والے خود کو عقل کل سمجھنے لگتے ہیں تو ان کے گرد جمع ہوجانے والے ان کی ہر بات کی تائید اپنا فرض اولین بنالیتے ہیں اور خود بھی جی حضوری کرکے فائدے اٹھاتے ہیں۔ پارٹی رہنماؤں میں اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ پارٹی سربراہ کو درست اورغلط کا پتا بتاسکیں کیونکہ ایسی حقیقت سن کر سربراہ ناراض ہوجاتا ہے اورہرغلط فیصلے کی تائید سربراہ کی من مانیاں بڑھاتی جاتی ہیں۔
ملک کا صدر بننے کی خواہش 2008ء کے انتخابات میں آصف علی زرداری نے بھی نہیں کی تھی سب سے زیادہ نشستیں لے کر پیپلزپارٹی تنہا حکومت نہیں بناسکتی تھی جس پر آصف زرداری نے میاں نواز شریف سے اتحاد کرکے پہلے پی پی پی کا وزیراعظم بنوایا پھر صدر پرویز مشرف کی جگہ خود صدر بننے کی راہ ہموار کی مگر اظہار نہیں کیا اور نواز شریف کی مدد لے کر پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹانے کی صوبوں سے قراردادیں منظور کرائیں اور مواخذے سے بچنے کے لیے صدر مشرف مستعفی ہوگئے۔ جس کے بعد جو خواہش دل میں تھی وہ آصف زرداری کی زبان پر آگئی اور انھوں نے نواز شریف سے کیے گئے اپنے وعدے کو پورا کرانے کی بجائے صدر مملکت بننے کی کوشش شروع کی اور نواز شریف کے حکومت چھوڑ دینے کے بعد بھی اپنی خواہش کی تکمیل میں کامیاب بھی رہے اور وہ کر دکھایا جو شاید کبھی انھوں نے نہیں سوچا تھا۔
جو کام بلاول کے والد نے سیاسی جوڑ توڑ اور حلیفوں کی مدد سے کر دکھایا تھا وہ حالات آج ہیں اور نہ اب پیپلزپارٹی 2008ء والی پوزیشن میں ہے بلکہ اب پی پی اور مسلم لیگ ن کے بعد تحریک انصاف تیسری سیاسی قوت ہے جو پارلیمانی طور پر تیسری سیاسی طاقت اور ایک صوبے کی حکمران جماعت ہے۔ ڈیڑھ سال بعد ہونے والے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے کوشاں عمران خان تو 2013 ہی میں وزیراعظم بننے کے خواہش مند تھے مگر ناکام رہے لیکن بلاول زرداری کی طرح اپنی خواہش کا برملا اظہار انھوں نے کبھی نہیں کیا اور ایک نوجوان جس نے کبھی کوئی الیکشن نہیں لڑا وہ کہہ چکا ہے کہ میں وزیراعظم اور آصف زرداری پھر صدر بنیںگے۔
یہ درست ہے کہ سیاسی جماعت بنانے کا مقصد عوام کی خدمت کے نام پر اقتدار کا حصول ہوتا ہے اور پارٹی سربراہ ہی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرکے وزیراعظم بننے کا خود کو حق دار سمجھتا ہے اور یہ پہلی بار ہوا کہ 2008ء میں پیپلزپارٹی نے سادہ اکثریت حاصل کرکے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنوایا تھا اور پی پی پی سربراہ آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑا تھا مگر بعد میں انھیں صدر مملکت بننے کا موقع ملا اور وہ واحد پارٹی سربراہ تھے جوصدر منتخب ہوئے تھے جب کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں کوئی پارٹی قائد صدر نہیں بنا تھا۔
ملک میں پہلی بار وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دوسرے دور میں پنجاب میں اپنے بھائی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنوایا تھا جس کی وجہ سے گجرات کے چوہدری ناراض بھی ہوئے تھے مگر وزیراعظم نے اپنے بھائی کو قابل اعتماد سمجھا تھا اور کسی پارٹی رہنما کو اس لائق نہیں سمجھا تھا۔ شہباز شریف 2008 کے بعد 2013 میں اپنے بھائی کی طرح تیسری بار وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے اور انھوں نے بھی تو اہم محکمے اپنے پاس رکھے اور تین سال تک اپنی کابینہ میں توسیع نہیں کی اور دن رات کی تنہا محنت کے بعد اب انھوں نے 12 نئے وزیر پنجاب کابینہ میں شامل کرکے خود پر سے سرکاری بوجھ ہلکا تو کیا مگر اپنی جسمانی بیماریوں میں اضافہ ضرورکرلیا ہے۔
موجودہ حکومت پر مسلسل تنقید ہورہی ہے کہ وزیر خارجہ نہ ہونے سے وزارت خارجہکے امور وزیر مملکت اور معاون خصوصی کے ذریعیچلائے جا رہے ہیں۔ بلاول زرداری کا ایک مطالبہ وزیر خارجہ کا تقرر بھی ہے جس پر حکمران توجہ نہیں دے رہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ کیا مسلم لیگ ن میں کوئی ایسا قابل نہیں جو مکمل وزیر خارجہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ حکمرانوں کا زیادہ زور غیر ملکی دوروں پر رہا ہے جو کام وزیر خارجہ کرسکتا ہے وہ وزیراعظم خود کررہے ہیں مگر تنقید کے باوجود وہ محکمہ خارجہ خود چھوڑ کر کسی اپنے با اعتماد رہنما کو وزیر خارجہ نہیں بنا رہے۔
موجودہ حکمرانوں کی طرح من مانے فیصلے وزیراعظم بھٹو بھی کیا کرتے تھے جو بعد میں ان کے خلاف گئے اور ان کی مقبولیت بھی متاثر ہوئی۔ صدر زرداری نے کرپشن میں مبینہ طور پر ملوث وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نا اہلیت کے بعد چند ماہ کے لیے پی پی پی کا جو دوسرا وزیراعظم راجہ پرویز اشرف تھے ان پر بھی الزامات تھے مگر حلیفوں کے اعتراض کے بعد اور پیپلزپارٹی سندھ کے علاوہ ہر جگہ شکست سے دو چار ہوئی۔ 8 سال تک سندھ کو معمر وزیراعلیٰ ملا اور ان کی بہن فریال تالپور عملی طور پر سندھ کے معاملات پر حاوی رہیں جب کہ پی پی پی کے گزشتہ دور میں پیر پگاڑا مرحوم کہتے تھے کہ سندھ میں کہنے کو ایک مگر عملی طور پر چار وزیر اعلیٰ ہیں۔
عمران خان اصول اور انصاف کے دعویدار ہیں مگر جسٹس صبیح کے فیصلے پر عمل کرکے جہانگیر ترین اور وزیراعلیٰ کے پی کے کو نہیں ہٹایا اور برقرار رکھ کر ثابت کر دکھایا کہ وہ من مانی کے عادی اور یوٹرن لینے میں خود کو مشہورکرلیا ہے۔ آصف زرداری بادشاہوں کی طرح نوازنے میں مشہور ہیں جنھوں نے سکھر میں باپ کو سینیٹر ایک بیٹے کو ممبر قومی اسمبلی بنانے کے بعد دوسرے بیٹے کو میئر سکھر بنادیا مگر خورشید شاہ سمیت کسی کو اعتراض کی ہمت نہیں ہوسکی جو ایوان میں سچ کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اقتدار میں آکر ملک کو ذاتی جاگیر سمجھ لیا جاتا ہے اور حکمران بننے والے خود کو عقل کل سمجھنے لگتے ہیں تو ان کے گرد جمع ہوجانے والے ان کی ہر بات کی تائید اپنا فرض اولین بنالیتے ہیں اور خود بھی جی حضوری کرکے فائدے اٹھاتے ہیں۔ پارٹی رہنماؤں میں اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ پارٹی سربراہ کو درست اورغلط کا پتا بتاسکیں کیونکہ ایسی حقیقت سن کر سربراہ ناراض ہوجاتا ہے اورہرغلط فیصلے کی تائید سربراہ کی من مانیاں بڑھاتی جاتی ہیں۔