سفارش کے باوجود وزارت داخلہ نے 2 دہشتگرد تنظیموں پر پابندی نہیں لگائی جوڈیشل کمیشن
بلوچستان حکومت نے جمعیت الاحرار اور لشکرجھنگوی العالمی کو کالعدم کرنے کیلیے اگست میں 2 خط لکھے‘ کوئی جواب نہیں دیا گیا
سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کیلیے قائم جوڈیشل کمیشن نے 2 دہشت گرد تنظیموں جمعیت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی پر پابنسی نہ لگانے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن نے سوال کیا ہے کہ جب انسداد دہشت گردی اور نیکٹا ایکٹ کے تحت دہشت گرد تنظیموں کیخلاف کارروائی وزارت داخلہ کی ذمے داری ہے توپھر پابندی کیلیے کسی انٹیلی جنس ایجنسی کی تصدیق حاصل کرنا خصوصاً اس صورتحال میں جب وہ تنظیمیں خود دہشت گردی میں ملوث ہونے کا اقرارکررہی ہوں، سمجھ سے بالاتر منطق ہے۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان حکومت نے مذکورہ دونوں تنظیموں پر پابندی عائدکرنے کیلیے16 اگست کو دو خطوط وفاقی وزارت داخلہ کو لکھے لیکن کوئی جواب نہیں دیاگیاجبکہ ڈائریکٹر جنرل نیکٹا نے آئی ایس آئی کو لکھا کہ تنظیموں پرالزامات کی تصدیق کرے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وفاقی سیکریٹری داخلہ نے اپنے بیان میں پابندی نہ لگانے کے سوال کے جواب میں کہا کہ انھیں معلوم نہیں جبکہ تسلیم کیاکہ ان پر پابندی عائدکرنی چاہیے۔
مزید کہا گیاکہ جمعیت الاحرار نے15مارچ 2015 کو لاہور میں چرچ پرحملے کی ذمے داری احسان اللہ احسان کے بیان کے ذریعے قبول کی،دہشت گردی کے اس واقعے میں کئی بے گناہ معصوم افراد لقمہ اجل بنے، اس واقعے کی بنیاد پر حکومت برطانیہ نے مذکورہ تنظیم پر پابندی عائدکردی لیکن حکومت پاکستان نے اس وقت پابندی عائد کی جب ایک سال 5ماہ (17ماہ) بعدانکوائری کمیشن نے معاملہ اٹھایا اور 11 نومبر 2016 کواس پراورلشکر جھنگوی العالمی پر پابندی عائدکی گئی۔
کمیشن نے نتیجہ اخذکرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث کسی تنظیم کوکالعدم کرنے اوران پر قانون کے مطابق پابندیاں عائدکرنے کیلیے وزارت داخلہ کوکسی کی تصدیق یااجازت کی ضرورت نہیں لیکن دہشت گردی کیخلاف جنگ میں وزارت داخلہ ابہام کا شکار ہے۔
کمیشن کی رپورٹ کے مزید مندرجات کے مطابق ان دونوں گروپوں کی طرف سے دہشت گرد حملوں کی ذمے داری قبول کرنے اور حکومت بلوچستان کی طرف سے ان پرپابندی لگانے کی سفارش کے باوجود وزارت داخلہ نے دونوں تنظیموں کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔
کمیشن نے سوال کیا ہے کہ جب انسداد دہشت گردی اور نیکٹا ایکٹ کے تحت دہشت گرد تنظیموں کیخلاف کارروائی وزارت داخلہ کی ذمے داری ہے توپھر پابندی کیلیے کسی انٹیلی جنس ایجنسی کی تصدیق حاصل کرنا خصوصاً اس صورتحال میں جب وہ تنظیمیں خود دہشت گردی میں ملوث ہونے کا اقرارکررہی ہوں، سمجھ سے بالاتر منطق ہے۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان حکومت نے مذکورہ دونوں تنظیموں پر پابندی عائدکرنے کیلیے16 اگست کو دو خطوط وفاقی وزارت داخلہ کو لکھے لیکن کوئی جواب نہیں دیاگیاجبکہ ڈائریکٹر جنرل نیکٹا نے آئی ایس آئی کو لکھا کہ تنظیموں پرالزامات کی تصدیق کرے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وفاقی سیکریٹری داخلہ نے اپنے بیان میں پابندی نہ لگانے کے سوال کے جواب میں کہا کہ انھیں معلوم نہیں جبکہ تسلیم کیاکہ ان پر پابندی عائدکرنی چاہیے۔
مزید کہا گیاکہ جمعیت الاحرار نے15مارچ 2015 کو لاہور میں چرچ پرحملے کی ذمے داری احسان اللہ احسان کے بیان کے ذریعے قبول کی،دہشت گردی کے اس واقعے میں کئی بے گناہ معصوم افراد لقمہ اجل بنے، اس واقعے کی بنیاد پر حکومت برطانیہ نے مذکورہ تنظیم پر پابندی عائدکردی لیکن حکومت پاکستان نے اس وقت پابندی عائد کی جب ایک سال 5ماہ (17ماہ) بعدانکوائری کمیشن نے معاملہ اٹھایا اور 11 نومبر 2016 کواس پراورلشکر جھنگوی العالمی پر پابندی عائدکی گئی۔
کمیشن نے نتیجہ اخذکرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث کسی تنظیم کوکالعدم کرنے اوران پر قانون کے مطابق پابندیاں عائدکرنے کیلیے وزارت داخلہ کوکسی کی تصدیق یااجازت کی ضرورت نہیں لیکن دہشت گردی کیخلاف جنگ میں وزارت داخلہ ابہام کا شکار ہے۔