ہمارا ادبی شناختی کارڈ

ہماری ادبی شناخت بہت مشکل سے دوچار ہے۔۔۔

zahedahina@gmail.com

آج کے دن مجھے جو موضوع تفویض ہوا ہے، اس نے مجھے الجھن میں ڈال دیا ہے۔ مجھ ایسے کم علم کے لیے تو کوئی بے ضرر سا موضوع مناسب رہتا۔ مثال کے طور پر یہ کہ مراۃ العروس کی تمیزدار بہو پر ایک مختصر شُذرہ لکھو، یا پھر یہ کہ مولوی اسماعیل میرٹھی کی اس لڑکی کا تعارف کراؤ جو 100 برس سے دال بگھار رہی ہے کہ یہی اس کا مقدر ہے اور اگر وہ اس سے انحراف کرے تو مختاراں مائی یا ملالہ بنادی جاتی ہے۔

میں اپنی شناخت بیتال پچیسی، داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا میں تلاش کروں یا باغ و بہار، عجائب القصص، مراۃ العروس، فسانہ آزاد اور امراؤ جان ادا میں ڈھونڈوں۔ اگر میں پریم چند، سدرشن، کرشن چندر اور بیدی کا حوالہ دوں تو مجھ سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اپنے مذہبی تشخص کے نام پر تم لوگوں نے کروڑوں انسانوں کو بے گھر اور بے در کیا، لاکھوں کو خون میں نہلایا اور پھر جو کچھ تمہارے ہاتھ آیا اسے مملکت خداداد کا نام دیا۔ 71ء میں مشرقی پاکستان نے خون میں نہا کر جب تم سے نجات حاصل کی تو اس کے بعد رہ جانے والی زمین کو بھی تمہارے بہت سے پُرجوش اور خوش فہم لکھاری مملکت خداداد کہتے ہیں۔

ہماری ادبی شناخت بہت مشکل سے دوچار ہے۔ پریم چند خواہ کربلا کے بارے میں ڈراما لکھیں یا 'حج اکبر' ان کے بارے میں شک و شبہ رہتا ہے۔ قرۃ العین حیدر اور ساحر لدھیانوی بھی ہماری ادبی شناخت کا حوالہ نہیں بنتے کہ انھوں نے پاکستان آنے کے بعد ہندوستان واپسی کا سفر اختیار کیا اور غداری کے مرتکب ہوئے۔ قرۃ العین حیدر 'آگ کا دریا' ایسا فساد انگیز پشتارہ لکھ گئیں کہ جس پر بعض حلقوں میں آج بھی اعتراضات کے پہاڑ اٹھائے جاتے ہیں اور ساحر لدھیانوی امن کا پرچار کرنے والی اپنی نظموں کی وجہ سے ہمارے غازیوں کے پسندیدہ نہیں ہوسکتے۔

ایک ایسی پریشان کن صورت حال میں ہمارا ادبی شناختی کارڈ بنے تو کیسے۔ ہم پر جب زوال آیا تو ہم نے اسے تنگ نظری کی عینک سے دیکھا اور ایک دوسرے سے جدا نظر آنے کے لیے ایک دوسرے کو کاٹنے میں جٹ گئے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جہاں برصغیر کی گنگا جمنی تہذیب جتنا جڑاؤ اور اتنا گتھا پن ہو، وہاں جب ایک دوسرے کو چھروں اور کرپانوں سے الگ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ہمارے اپنے بازو اور ہماری ٹانگیں بھی کٹ جائیں گی۔

ہم تہذیبوں، قوموں، قومیتوں، زبانوں، بولیوں، میلوں، ٹھیلوں، رواداری اور دوست داری کے گھنے جنگل ''برصغیر'' پر کلہاڑیاں اور آریاں لے کر پل پڑے۔ علیحدگی کی اس دیوانگی میں، تشخص کی اس تلاش میں کون بچا؟ کوئی بھی تو نہیں۔ ہندو کٹر پنتھی نفرتوں کی چھلنی سے ہندوستان کی تہذیب میں سے مسلمانوں کو الگ کر رہے ہیں اور مسلمان بنیاد پرست، انتہا پسندی کے رندے سے سیکڑوں برس پرانے اجتماعی حافظے کو چھیل کر ایک طرف رکھ رہے ہیں۔ ان کٹر پنتھیوں اور بنیاد پرستوں نے ایک دوسرے سے نفرت اس انتہا کو پہنچائی کہ اب مملکت خداداد میں انسان اور مسلمان نہیں ہزارہ، شیعہ، بریلوی اور احمدی بستے ہیں اور بستے بھی کیا ہیں اجاڑے جاتے ہیں۔ عورتوں پر پڑنے والی افتادان سب سے جدا ہے۔

مجھے اس وقت سے خوف آتا ہے جب ہماری ادبی شناخت مختلف فرقوں اور مسلکوں کے حوالے سے ہونے لگے۔ اس وقت بھی کچھ لکھنے والوں کے بارے میں ہم نے یاد فراموشی اختیار کی ہے۔ اگر کسی تحریر میں لفظ ''احمدی'' لکھا ہوا ہو تو وہ سرے سے اڑا دیا جاتا ہے، یا بہت کرم ہو تو 'قادیانی' لکھ دیا جاتا ہے۔ ہزارہ والوں کا خون پانی کی طرح بہادیا جائے تو ہمارا دیب ادھر سے نگاہیں پھیر لیتا ہے کہ کہیں اسے بھی ہزارہ وال میں شمار نہ کرلیا جائے ۔غائب کردیے جانے والے بلوچوں کا ذکر ہی کیا کہ وہ را کے ایجنٹ ہیں۔ تنگ دلی کا وہ عالم ہوا ہے کہ امجد صابری کو سوز و سلام پڑھنے کے جرم میں بھون دیا جاتا ہے۔

راندۂ درگاہ ترقی پسند برے تھے، بھلے تھے، جیسے بھی تھے، ہر ظلم و ناانصافی کے خلاف لکھتے تھے، آواز بلند کرتے تھے لیکن محمد حسن عسکری اور ان کے قبیلے کا بھلا ہو جس نے پاکستانی ادب اور اسلامی ادب کا وہ نعرہ بلند کیا جس نے اچھے اچھوں کی بولتی بند کردی۔ پاکستان کے وجود میں آتے ہی ادبی پرچے ضبط ہونے لگے، 'سویرا' پر پابندی لگی، اس کا جرم فیض کی نظم کی اشاعت تھی، جب اس پر بھی جی نہیں بھرا تو پنڈی سازش کیس تخلیق کیا گیا، فیض، سبط حسن اور دوسرے قید ہوئے، نتیجے میں ہمارے یہاں ادب کی بڑھواڑ ماری گئی۔ رہ گیا اسلامی ادب تو اس کا گلشن جانے کہاں لہلہاتا رہا۔ ہماری ادبی شناخت کے حوالے سے سچ بہت کڑوا ہے۔

اس وقت ہم پرانے مال سے کام چلا رہے ہیں۔ وہ اہم تحریریں جو ہمارے سامنے آرہی ہیں اب بھی ان ہی لوگوں کی ہیں جن میں سے بیشتر 75 اور 85 کے ہوچکے۔ نئے لکھنے والے یقیناً بہت کچھ لے کر آئیں گے لیکن اعلیٰ ادب کے لیے ایک کثیرالمشرب سماج کا ہونا ضروری ہے اور ہم نے اپنے نئے لکھنے والوں کو اس سے محروم کردیا ہے اور ان کی نسوں میں خوف کا زہر اتار دیا ہے، وہ خوف جو قلم کی نوک میں زنگ کی طرح جم جاتا ہے۔ وہ سماج جہاں پولیس خواجہ سراؤں کو سڑک پر گھسیٹتی ہو اور لٹا لٹا کر مارتی ہو، وہاں 'نرک' لکھنے والی نسیم انجم کی کیا قدر و توقیر ہوگی کہ جس نے ان خواجہ سراؤں کی زندگی کا درد لکھا۔


ہماری اصلی تے وڈی سرکار ابھی تک گڈ اور بیڈ طالبان کے پھیر میں پڑی ہوئی ہے، لکھنے والوں کے لیے وہ صرف ظالمان ہیں جو فوجیوں کا سر اتاریں تو ان سے فٹ بال کھیلتے ہیں اور بچوں کے کسی اسکول میں گھس جائیں تو آٹھ دس اور بارہ برس کے بچوں کو منہ کے بل لٹا کر ذبح کرتے ہیں کہ دم مشکل سے نکلے۔ ان بچوں کا جرم یہ تھا کہ ان کے باپ دوسرے مسلک کے تھے۔ خالدہ حسین، الطاف فاطمہ، منشا یاد، شیرشاہ سید، نورالہدیٰ شاہ اور کئی دوسروں نے اس ظلم و تعدی کے بارے میں لکھا۔ اس ظالمان گردی کے بارے کئی تحریریں میری بھی ہیں۔

ڈاکٹر انوار احمد نے 'اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ' مرتب کیا۔ ہم اس قصے سے اپنی ادبی شناخت متعین کرنا چاہیں تو پھر وہی جھگڑا اٹھ کھڑا ہوتا ہے، اس میں بھی انھوں نے بہت سے کفار سمیٹ لیے ہیں۔ کچھ نام نہاد مسلمان بھی ہیں جن کی تحریروں سے رواداری، انسان دوستی اور سیکولر ازم کی بو آتی ہے۔ سب گردن زدنی۔

اپنی ادبی شناخت کی تلاش کی جستجو ڈاکٹر انوار احمد، مرزا حامد بیگ اور دوسروں کے سپرد کر کے نئی دنیا میں اپنی حیثیت اور اپنے مقام کو ڈھونڈیئے تو معاملہ کچھ زیادہ ہی دگرگوں ہے۔ ہم اپنی کتنی ہی تعریف اور توصیف کرلیں، انگریزی میں لکھ کر یا ترجمے کروا کے یہ دعویٰ کرنے لگیں کہ ہمارا ادب، عالمی ادب کی ہمسری کرتا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ ہمارے ان دعوؤں کو نہایت مشفقانہ انداز میں سنا جاتا ہے اور ازراہ سرپرستی گردن کو ہلکی سی جنبش دے دی جاتی ہے۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ لاطینی امریکا اور افریقا میں بڑا ادب تخلیق ہورہا ہے۔ ان کی تحریریں آج کے مسائل سے جھونجھ رہی ہیں اور انسان کے دکھوں کا احاطہ کررہی ہیں۔

ہم 'ہر ملک، ملک ماست' کا نعرہ لگاتے ہوئے سٹرٹیجک ڈیپتھ کی تلاش میں نکلے تھے اور اب افغانستان کی ڈانٹ سنتے ہیں، وہ Heart of Asia ہے اور ہم کسی شمار قطار میں نہیں۔ ہماری خوش فہمیوں کا یہ عالم ہے کہ کچھ لوگوں کے خیال میں وہ وقت آنے والا ہے جب پاکستان کی 'ہاں' اور 'نہ' سے اقوام عالم کی قسمت کے فیصلے ہوا کریں گے۔ وہ پیش گوئیاں اور خواب بھی یوٹیوب پر گردش میں ہیں جن کے مطابق پاکستان کو خطے کی ہی نہیں دنیا کی امامت سونپ دی جائے گی۔ یہ باتیں کرنے اور لکھنے والے کوئی عامل کامل یا سو سالہ سنیاسی باوا نہیں، ادیب اور دانشور ہیں۔

ان باتوں کی روشنی میں جدید دنیا ہمارا ادب تو دور کی بات ہے، ہمیں قوم اور ملک کے طور پر جانے کس رنگ میں دیکھے، اور ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کرے۔ مجھے تو اب یہ گمان ہونے لگا ہے کہ چند دنوں پہلے سٹیفن ہاکنگ نے اپنے لوگوں کو کسی قابل رہائش سیارے کی تلاش اور اس پر انسانی آبادی بسانے کا جو مشورہ دیا ہے، وہ ماحولیات کے بگاڑ کے معاملے سے زیادہ ہمارے خوف کے سبب ہے۔ ہم جس طرح علی الاعلان آبادی میں اضافے اور خوابوں کی تلاش میں نکلنے والے نوجوانوں کے کشت و خون کے نشانات ساری دنیا میں پھیلا رہے ہیں، جس طرح علم، تعلیمی اداروں اور کتابوں کے درپے ہیں، اس کے بعد سٹیفن ہاکنگ اور نوم چومسکی کو اپنے سائنس دانوں کو ایسے ہی مشورے دینے چاہئیں۔

آخر میں یہ عرض کروں آج کا موضوع سوال بن کر میرے ذہن میں جوں کا توں موجود ہے کہ ہماری ادبی شناخت کیا ہے اور اس کا جدید دنیا سے کیا ربط و رشتہ ہے؟ ایسے موقعوں پر حسبِ معمول غالب یاد آجاتے ہیں:

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے

(کراچی آرٹس کونسل کی 9 ویں عالمی اردو کانفرنس میں پڑھا گیا)
Load Next Story