پیپلز پارٹی اور پنجاب کی سیاست
مجھے یہ ساری باتیں بلاول ہاؤس لاہور میں پیپلزپارٹی کی حالیہ تاسیسی تقریبات کے حوالے سے یاد آئیں۔۔۔
پیپلزپارٹی نے پاکستان کی سیاست میں روشن خیال طبقے کو جس پرجوش انداز میں متحرک کیا،کوئی دوسری پارٹی ایسا نہیں کر سکی۔1967ء میں جب اس پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تواس کے منشور میں پہلی بار کسان، مزدور اور عام آدمی کے حق میں بات کی گئی اور بائیں بازو کے نظریات اپنائے گئے۔ اس انوکھے پن کی وجہ سے پیپلزپارٹی نے پاکستان کی سیاست میں ہل چل پیدا کر دی۔ اجارہ داریوں کے خاتمے کا نعرہ لے کر اٹھنے والی یہ جماعت دیکھتے ہی دیکھتے ملکی سیاست پر چھا گئی۔ ایسے دانشور، شاعر و ادیب اور اہل علم جو طبقاتی تقسیم کے خلاف تھے اور انسانی مساوات کے نظریے کے پرچارک تھے، وہ بھی اس پارٹی کا حصہ بن گئے۔
یوں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور مذہبی اشرافیہ کے ساتھ اس کا ٹکراؤ شروع ہو گیا۔ ان بالادست طبقات نے اسٹیبشلمنٹ کے تعاون سے پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ بنایا اور اسے ناکام بنانے کے لیے جنگ شروع کر دی۔ اس جنگ کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہوئی، پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو پھانسی دی گئی، انھیں جیلوں میں ڈالا گیا اور کوڑے مارے گئے، بیگم نصرت بھٹو کے سر میں لاٹھی ماری گئی، شاہنواز بھٹو کی پیرس میں موت ہوئی، مرتضیٰ بھٹو کو کراچی میں قتل کیا گیا اور آخر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں شہید کیا گیا۔ یوں دیکھا جائے تو اس پارٹی کے ساتھ سیاست میں جو کچھ ہوا وہ کسی کے ساتھ نہیں ہوا لیکن یہ پاکستان کی سیاست میں آج بھی زندہ ہے۔
مجھے یہ ساری باتیں بلاول ہاؤس لاہور میں پیپلزپارٹی کی حالیہ تاسیسی تقریبات کے حوالے سے یاد آئیں۔ بلاول بھٹو نے پہلی بار لاہور میں طویل قیام کیا اور سیاسی مصروفیت سے بھرپور دن گزارے۔بلاول بھٹو کی ان سیاسی سرگرمیوں سے سیاسی پنڈتوں نے اندازہ لگایا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب کی سیاست میں متحرک ہو رہی ہے اور 2017ء کے سال میں ان سرگرمیوں میں مزید تیزی آئے گی۔
سیاسی حلقوں میں یہ بحث تسلسل سے جاری ہے کہ کیا پیپلزپارٹی پاکستان خصوصاً پنجاب میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہے؟ اس حوالے سے میری پیپلزپارٹی کے بزرگ خیرخواہ، بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن کے چیئرمین بشیر ریاض، پیپلزپارٹی لاہور کے نوجوان متحرک رہنما فیصل میر اور پیپلزپارٹی کے پرانے نظریاتی کارکن طارق خورشید سے باتیں بھی ہوتی رہیں۔
ان کا مؤقف یہی تھا کہ گو بظاہر صورت حال ناسازگار ہے لیکن پیپلزپارٹی پنجاب میں واپس ضرور آئے گی کیونکہ ملک کے روشن خیال طبقے کے پاس اس پارٹی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں نظریاتی اعتبار سے ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں لہٰذا روشن خیال ، ماڈریٹ اور اقلیتوں کے لیے آج بھی پیپلزپارٹی پہلی ترجیح ہے۔ جھنگ کے صوبائی الیکشن میں صرف پیپلز پارٹی نے کھل کر الیکشن لڑا۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار نے اپنی پارٹی کے انتخابی نشان شیر پر الیکشن نہیں لڑا۔مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے بھی اپنے امیدوار کی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا جب کہ پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی اور دیگر لیڈر شپ وہاںپہنچی تھی۔
لاہور میں ہونے والی یوم تاسیس کی تقریب میں فیصل میر نے بہت متحرک کردار ادا کیا۔ بشیر ریاض پیرانہ سالی کے باوجود پارٹی کارکنوں اورصحافیوں سے فرداً فرداً ملتے رہے۔ جس روز میں بلاول ہاؤس میں تھا وہ یوم تاسیس کی تقریبات کا پہلا روز تھا اور سینٹرل پنجاب پارٹی کا کنونشن تھا۔ بہت عرصے کے بعد لاہور میں پیپلزپارٹی کا خاصا بڑا اجتماع دیکھنے میں آیا۔کارکنوں اور لیڈروں میں جوش وجذبہ بھی موجود تھا۔ پوری پارٹی قیادت وہاں موجود تھی اور کسی قسم کا کوئی پروٹوکول نہیں تھا جس کو جہاں جگہ ملی وہاں بیٹھ گیا۔
بلاول ہاوس میں داخلے کے لیے سیکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت ہیں، اگر یہ انتظامات نہ ہوتے تو جلسہ خاصا بڑا ہو سکتا تھا لیکن سچ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سیکیورٹی کے معاملے میں رسک نہیں لے سکتی۔ یہ تو آنکھوں دیکھے حال کی ایک جھلک تھی لیکن سوال وہی ہے کہ کیا پیپلز پارٹی پنجاب میں دوبارہ واپس آ سکتی ہے؟ آج کے حالات میں اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں ہے۔1977ء کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب میںاپنی حکومت نہیںبناسکی۔ پیپلزپارٹی نے 1977ء کے بعد مرکز میں تین بار حکومتیں بنائیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی حکومتیں بنائیں لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود وہ پنجاب میں اپنا وزیراعلیٰ نہ لا سکی لیکن وہ پنجاب کی بڑی اور پاپولر پارٹی کے طور پر ہمیشہ موجود رہی۔ اس نے مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کو پنجاب میں ہمیشہ ٹف ٹائم دیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی پنجاب میں توقعات پر پورا نہ اتری، عمومی تاثر تھا کہ پیپلز پارٹی کو ہمدردی کاووٹ ملے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ مسلم لیگ ن بھی پنجاب اسمبلی میں اتنی اکثریت حاصل نہیں کر سکی کہ تنہا حکومت بنا سکتی ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے پنجاب میں مخلوط حکومت قائم کی لیکن ان کے وزراء بے اختیار ہی رہے لیکن 2008ء سے 2013ء تک کے پانچ سالہ دور میں پیپلزپارٹی پنجاب میں حقیقی تنہائی کا شکار ہوئی۔ پارٹی کا کارکن ہی نہیں بلکہ پنجاب کی لیڈر شپ بھی حالات سے مایوس ہو گئی، پنجاب میں پارٹی کی تنہائی کی وجہ آصف زرداری کی مفاہمتی پالیسی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھانتہاپسندی کی سوچ کے غلبے نے پنجاب کے معاشرے کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اس سوچ اور نظریے نے مسلم لیگ ن کو طاقتور بنایا، دہشتگرد اور انتہاپسند گروہوں کے نشانے پر بھی پیپلزپارٹی رہی جب کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ ن پوری آزادی سے کھلے عام جلسے کرتے ہیں اور انھیں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
2013ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی پنجاب میں دہشتگردی کے خوف کے باعث الیکشن مہم ہی نہیں چلا سکی۔اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور 2018ء میں یہ مزید ساز گار ہو جائیں گے' پیپلز پارٹی پنجاب میں کھل کر انتخابی مہم چلا سکے گی' آصف زرداری کی وطن واپسی یونہی نہیں ہے اور نہ ہی بلاول بھٹو کا نواز شریف کو احتجاج کرنے کا چیلنج بلاوجہ ہے' بلاول بھٹو زرداری نے جو مطالبات پیش کر رکھے ہیں' اگر حکومت نے وہ نہ مانے تو پیپلز پارٹی لازماً احتجاج کا راستہ اختیار کرے گی البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت اگر ایک دو مطالبات تسلیم کر لے تو پیپلز پارٹی بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کر سکتی ہے لیکن اب پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے خلاف خصوصاً میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بارے میں جارحانہ پالیسی اختیار کرے گی اور اس معاملے میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطہ کاری بھی جاری رہے گی۔
یوں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور مذہبی اشرافیہ کے ساتھ اس کا ٹکراؤ شروع ہو گیا۔ ان بالادست طبقات نے اسٹیبشلمنٹ کے تعاون سے پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ بنایا اور اسے ناکام بنانے کے لیے جنگ شروع کر دی۔ اس جنگ کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہوئی، پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو پھانسی دی گئی، انھیں جیلوں میں ڈالا گیا اور کوڑے مارے گئے، بیگم نصرت بھٹو کے سر میں لاٹھی ماری گئی، شاہنواز بھٹو کی پیرس میں موت ہوئی، مرتضیٰ بھٹو کو کراچی میں قتل کیا گیا اور آخر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں شہید کیا گیا۔ یوں دیکھا جائے تو اس پارٹی کے ساتھ سیاست میں جو کچھ ہوا وہ کسی کے ساتھ نہیں ہوا لیکن یہ پاکستان کی سیاست میں آج بھی زندہ ہے۔
مجھے یہ ساری باتیں بلاول ہاؤس لاہور میں پیپلزپارٹی کی حالیہ تاسیسی تقریبات کے حوالے سے یاد آئیں۔ بلاول بھٹو نے پہلی بار لاہور میں طویل قیام کیا اور سیاسی مصروفیت سے بھرپور دن گزارے۔بلاول بھٹو کی ان سیاسی سرگرمیوں سے سیاسی پنڈتوں نے اندازہ لگایا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب کی سیاست میں متحرک ہو رہی ہے اور 2017ء کے سال میں ان سرگرمیوں میں مزید تیزی آئے گی۔
سیاسی حلقوں میں یہ بحث تسلسل سے جاری ہے کہ کیا پیپلزپارٹی پاکستان خصوصاً پنجاب میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہے؟ اس حوالے سے میری پیپلزپارٹی کے بزرگ خیرخواہ، بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن کے چیئرمین بشیر ریاض، پیپلزپارٹی لاہور کے نوجوان متحرک رہنما فیصل میر اور پیپلزپارٹی کے پرانے نظریاتی کارکن طارق خورشید سے باتیں بھی ہوتی رہیں۔
ان کا مؤقف یہی تھا کہ گو بظاہر صورت حال ناسازگار ہے لیکن پیپلزپارٹی پنجاب میں واپس ضرور آئے گی کیونکہ ملک کے روشن خیال طبقے کے پاس اس پارٹی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں نظریاتی اعتبار سے ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں لہٰذا روشن خیال ، ماڈریٹ اور اقلیتوں کے لیے آج بھی پیپلزپارٹی پہلی ترجیح ہے۔ جھنگ کے صوبائی الیکشن میں صرف پیپلز پارٹی نے کھل کر الیکشن لڑا۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار نے اپنی پارٹی کے انتخابی نشان شیر پر الیکشن نہیں لڑا۔مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے بھی اپنے امیدوار کی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا جب کہ پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی اور دیگر لیڈر شپ وہاںپہنچی تھی۔
لاہور میں ہونے والی یوم تاسیس کی تقریب میں فیصل میر نے بہت متحرک کردار ادا کیا۔ بشیر ریاض پیرانہ سالی کے باوجود پارٹی کارکنوں اورصحافیوں سے فرداً فرداً ملتے رہے۔ جس روز میں بلاول ہاؤس میں تھا وہ یوم تاسیس کی تقریبات کا پہلا روز تھا اور سینٹرل پنجاب پارٹی کا کنونشن تھا۔ بہت عرصے کے بعد لاہور میں پیپلزپارٹی کا خاصا بڑا اجتماع دیکھنے میں آیا۔کارکنوں اور لیڈروں میں جوش وجذبہ بھی موجود تھا۔ پوری پارٹی قیادت وہاں موجود تھی اور کسی قسم کا کوئی پروٹوکول نہیں تھا جس کو جہاں جگہ ملی وہاں بیٹھ گیا۔
بلاول ہاوس میں داخلے کے لیے سیکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت ہیں، اگر یہ انتظامات نہ ہوتے تو جلسہ خاصا بڑا ہو سکتا تھا لیکن سچ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سیکیورٹی کے معاملے میں رسک نہیں لے سکتی۔ یہ تو آنکھوں دیکھے حال کی ایک جھلک تھی لیکن سوال وہی ہے کہ کیا پیپلز پارٹی پنجاب میں دوبارہ واپس آ سکتی ہے؟ آج کے حالات میں اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں ہے۔1977ء کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب میںاپنی حکومت نہیںبناسکی۔ پیپلزپارٹی نے 1977ء کے بعد مرکز میں تین بار حکومتیں بنائیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی حکومتیں بنائیں لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود وہ پنجاب میں اپنا وزیراعلیٰ نہ لا سکی لیکن وہ پنجاب کی بڑی اور پاپولر پارٹی کے طور پر ہمیشہ موجود رہی۔ اس نے مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کو پنجاب میں ہمیشہ ٹف ٹائم دیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی پنجاب میں توقعات پر پورا نہ اتری، عمومی تاثر تھا کہ پیپلز پارٹی کو ہمدردی کاووٹ ملے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ مسلم لیگ ن بھی پنجاب اسمبلی میں اتنی اکثریت حاصل نہیں کر سکی کہ تنہا حکومت بنا سکتی ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے پنجاب میں مخلوط حکومت قائم کی لیکن ان کے وزراء بے اختیار ہی رہے لیکن 2008ء سے 2013ء تک کے پانچ سالہ دور میں پیپلزپارٹی پنجاب میں حقیقی تنہائی کا شکار ہوئی۔ پارٹی کا کارکن ہی نہیں بلکہ پنجاب کی لیڈر شپ بھی حالات سے مایوس ہو گئی، پنجاب میں پارٹی کی تنہائی کی وجہ آصف زرداری کی مفاہمتی پالیسی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھانتہاپسندی کی سوچ کے غلبے نے پنجاب کے معاشرے کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اس سوچ اور نظریے نے مسلم لیگ ن کو طاقتور بنایا، دہشتگرد اور انتہاپسند گروہوں کے نشانے پر بھی پیپلزپارٹی رہی جب کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ ن پوری آزادی سے کھلے عام جلسے کرتے ہیں اور انھیں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
2013ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی پنجاب میں دہشتگردی کے خوف کے باعث الیکشن مہم ہی نہیں چلا سکی۔اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور 2018ء میں یہ مزید ساز گار ہو جائیں گے' پیپلز پارٹی پنجاب میں کھل کر انتخابی مہم چلا سکے گی' آصف زرداری کی وطن واپسی یونہی نہیں ہے اور نہ ہی بلاول بھٹو کا نواز شریف کو احتجاج کرنے کا چیلنج بلاوجہ ہے' بلاول بھٹو زرداری نے جو مطالبات پیش کر رکھے ہیں' اگر حکومت نے وہ نہ مانے تو پیپلز پارٹی لازماً احتجاج کا راستہ اختیار کرے گی البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت اگر ایک دو مطالبات تسلیم کر لے تو پیپلز پارٹی بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کر سکتی ہے لیکن اب پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے خلاف خصوصاً میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بارے میں جارحانہ پالیسی اختیار کرے گی اور اس معاملے میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطہ کاری بھی جاری رہے گی۔