ترقی کا طویل سفر
آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہم نے اس پاک وطن کو پچھلے 69 سال میں کتنی ترقی دی ہے۔۔۔
PESHAWAR:
آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہم نے اس پاک وطن کو پچھلے 69 سال میں کتنی ترقی دی ہے، جس کا اعتراف آج عالمی ادارے بھی کررہے ہیں۔ دنیا کے ترقیاتی بینکوں کے اجلاسوں کا ریکارڈ رکھنے والے نیوز پیپر ''ایمرجنگ مارکیٹس'' نے بہترین اقتصادی کارکردگی پر اسحٰق ڈار کو 2016ء کے لیے جنوبی ایشیا کا بہترین وزیر خزانہ قرار دیا ہے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی ''اے پی پی'' کے مطابق نیوز پیپر کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسحٰق ڈار کو یہ ایوارڈ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاس میں ان کی بہترین اقتصادی کارکردگی کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ عالمی ادارے یورو منی نے پاکستانی معیشت کو بہتر بنانے میں کامیابی پر اشرف وتھرا کو دنیا کا بہترین گورنر اسٹیٹ بینک قرار دیا۔ یورو منی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی کارکردگی دنیا کے تمام ممالک سے بہترین رہی۔
اس بات کا اقرار ہم ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں کہ ہم امریکی (آئی ایم ایف کے) ایجنڈے کی تکمیل کرانے میں کامیاب رہے، بلکہ اس سعادت پر فخر بھی کرتے ہیں، مگر ایک خاص گروہ جو ملکی تعمیر و ترقی کے خلاف ہے، جسے سی پیک منصوبے میں 52 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری ہضم نہیں ہورہی، بغیر کسی ثبوت کے ہمیں امریکی ایجنٹ قرار دیتا ہے۔ اسے ایجنڈے اور ایجنٹ میں فرق ہی معلوم نہیں ہے۔ ان کے ایسے بیانات میں بھی ذرہ برابر صداقت نہیں، جن کی رو سے ہم نے دنیا سے یہ اعزازات لینے کے لیے کوئی رشوت دی یا امریکا سے سفارش کرائی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا دوسرے ممالک جو پاکستان کی ترقی دیکھ کر دیوانے ہوئے چلے جارہے ہیں، ہمیں راتوں کو فون کرکے اس تیز رفتار ترقی کے راز پوچھتے؟ کیا دیگر عالمی ادارے ہماری ترقی کی اولین پوزیشنوں کے ڈھول بجاتے؟ بس یہی بات ہے جنھوں نے ملک دشمنوں بلکہ غداروں کی بدہضمی خراب کرکے رکھ دی ہے۔
کاش انھوں نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کی تازہ ترین رپورٹ دیکھی ہوتی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے، گزشتہ سال کے دوران 28 دن تک کے2 لاکھ 44 ہزار 746 بچے غذائی قلت اور سہولتوں کے فقدان کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق 14 لاکھ 24 ہزار 651 بچے حفاظتی ٹیکے لگنے سے محروم رہے۔ ذرا بتائیے دنیا میں چھوٹے سے چھوٹے، غریب سے غریب کسی ملک کی بھی حکومت اتنے چھوٹے بچوں کی اتنی بڑی قربانی دینے کا اعزاز حاصل کرسکی؟ طبی جریدے ''دی لانسٹ'' کی رپورٹ کے مطابق مردہ بچوں کی پیدائش کے حوالے سے دنیا کے 186 ممالک میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 2 لاکھ 34 ہزار بچے حمل کے آخری 3 مہینوں کے دوران ہی وفات پا جاتے ہیں۔ ویسے تو جو دنیا میں آیا نہیں اس کی بات کرنا ہی فضول ہے، لیکن پھر بھی ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم پہلے نمبر پر ہیں۔
پولیو کے حوالے دنیا میں صرف 2 ممالک ہی ایسے بچے ہیں جہاں پولیو کا وائرس باقی رہ گیا ہے، ان 2 ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے دوسرا ملک افغانستان ہے، دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں افغانستان کی کیا حیثیت ہے، ایک دو سال میں افغانستان کا نام خود ہی اس فہرست سے نکل بھاگے گا۔
ہیپاٹائٹس کی بات کریں تو عالمی ادارہ صحت ہی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے ہیپاٹائٹس میں مبتلا 50 کروڑ افراد میں سے 4 کروڑ صرف پاکستانی ہیں، یعنی ملک میں ہر پانچواں شخص اس موذی مرض میں مبتلا ہے، اسی طرح ہیپاٹائٹس سے دنیا بھر میں مجموعی طور پر ہلاک ہونے والے سالانہ 10 لاکھ افراد میں سے ڈیڑھ لاکھ کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہاں بھی افغانستان میں پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کے شواہد عیاں ہیں لیکن قوم کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، وزیراعظم کے وژن 2025 کے مطابق ہم جلد ہی نمبر ون پر آجائیں گے۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک اور رپورٹ کے مطابق ٹی بی سے مرنے والے افراد کی فہرست میں پاکستان چوتھے نمبر پر آتا ہے، جہاں ہر سال 60 ہزار افراد ٹی بی سے موت کا شکار بن جاتے ہیں۔ یہ تعداد ہمارے ہدف کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے، بڑے بڑے منصوبوں سے فرصت ملتے ہی، ذرا سی توجہ بھی ہم نے اس طرف کی تو دنیا کو حیران کردیں گے۔
گلوبل ہنگر انڈیکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق بھوک کے شکار 118 ممالک میں پاکستان 11ویں نمبر پر ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ 10 ممالک جو غذائی قلت کے حوالے سے ہم سے آگے ہیں، بھوک، افلاس اور بیماریوں میں پاکستان کے باحوصلہ عوام کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے، اور یہ ممالک جلد ہی دنیا کے نقشے سے مٹ جائیں گے، ہمارے عوام انتہائی بہادری سے ان کا مقابلہ کرتے ہوئے 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے ہی ملک کو غذائی قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر لے آئیں گے۔
دنیا بھر میں پاکستانی پاسپورٹ انتہائی کم اہمیت کا حامل ہے اور اس حوالے سے افغانستان کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے۔ اس بات کا انکشاف ہیلنے اینڈ پارٹنرز کی 2016ء کی نئی رپورٹ میں کیا گیا ہے، جس میں پاکستان کو دنیا کے کمزور ترین ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ظاہر کیا گیا ہے۔
عالمی اقتصادی فورم کی طرف سے افرادی قوت انڈیکس سے متعلق جاری تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان افرادی قوت کے حوالے سے دنیا کے 124 ملکوں میں 113 نمبر پر ہے، جس کی ایک بڑی وجہ تعلیم کے شعبے میں اس کی خراب کارکردگی ہے۔ یعنی افرادی قوت کے حوالے سے بدترین صورتحال رکھنے والے ممالک میں پاکستان دنیا بھر میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود (پاکستانی حکومت کے تازہ ترین سرکاری اعدادوشمار کے مطابق) 10سال کے دوران 57 لاکھ 74 ہزار سے زائد پاکستانی ہنر حاصل کرکے روزگار کے لیے ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ حکومتی حلقے اس سے متعلق تشویش میں مبتلا ہیں اور بہت جلد یہ سلسلہ بند کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، کیونکہ اگر صورتحال یہی رہی تو وزیراعظم کے وژن 2025ء کی تعبیر ملنے تک ملک کی ساری آبادی ہی بیرون ممالک منتقل ہوجائے گی۔
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ بھی انحطاط کا شکار ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق ہمارا ملک خواندگی کی شرح کے لحاظ سے دنیا کے 120 ممالک میں 113 ویں نمبر پر ہے۔ یعنی تعلیمی انحطاط کے اعتبار سے پاکستان کو دنیا میں ساتویں نمبر پر ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو بظاہر کافی ہے مگر پاکستان میں جمہوریت کو اور بھی زیادہ مستحکم کرنے کے لیے تعلیمی انحطاط میں پہلے نمبر پر آنا ضروری ہے، ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ بھی اسی لیے کیا گیا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ دلجمعی سے کام کرسکیں اور آیندہ عام انتخابات میں کامیابی کے فورا بعد ملک کو تعلیمی انحطاط کے حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر پر لایا جاسکے۔
آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہم نے اس پاک وطن کو پچھلے 69 سال میں کتنی ترقی دی ہے، جس کا اعتراف آج عالمی ادارے بھی کررہے ہیں۔ دنیا کے ترقیاتی بینکوں کے اجلاسوں کا ریکارڈ رکھنے والے نیوز پیپر ''ایمرجنگ مارکیٹس'' نے بہترین اقتصادی کارکردگی پر اسحٰق ڈار کو 2016ء کے لیے جنوبی ایشیا کا بہترین وزیر خزانہ قرار دیا ہے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی ''اے پی پی'' کے مطابق نیوز پیپر کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسحٰق ڈار کو یہ ایوارڈ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاس میں ان کی بہترین اقتصادی کارکردگی کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ عالمی ادارے یورو منی نے پاکستانی معیشت کو بہتر بنانے میں کامیابی پر اشرف وتھرا کو دنیا کا بہترین گورنر اسٹیٹ بینک قرار دیا۔ یورو منی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی کارکردگی دنیا کے تمام ممالک سے بہترین رہی۔
اس بات کا اقرار ہم ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں کہ ہم امریکی (آئی ایم ایف کے) ایجنڈے کی تکمیل کرانے میں کامیاب رہے، بلکہ اس سعادت پر فخر بھی کرتے ہیں، مگر ایک خاص گروہ جو ملکی تعمیر و ترقی کے خلاف ہے، جسے سی پیک منصوبے میں 52 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری ہضم نہیں ہورہی، بغیر کسی ثبوت کے ہمیں امریکی ایجنٹ قرار دیتا ہے۔ اسے ایجنڈے اور ایجنٹ میں فرق ہی معلوم نہیں ہے۔ ان کے ایسے بیانات میں بھی ذرہ برابر صداقت نہیں، جن کی رو سے ہم نے دنیا سے یہ اعزازات لینے کے لیے کوئی رشوت دی یا امریکا سے سفارش کرائی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا دوسرے ممالک جو پاکستان کی ترقی دیکھ کر دیوانے ہوئے چلے جارہے ہیں، ہمیں راتوں کو فون کرکے اس تیز رفتار ترقی کے راز پوچھتے؟ کیا دیگر عالمی ادارے ہماری ترقی کی اولین پوزیشنوں کے ڈھول بجاتے؟ بس یہی بات ہے جنھوں نے ملک دشمنوں بلکہ غداروں کی بدہضمی خراب کرکے رکھ دی ہے۔
کاش انھوں نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کی تازہ ترین رپورٹ دیکھی ہوتی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے، گزشتہ سال کے دوران 28 دن تک کے2 لاکھ 44 ہزار 746 بچے غذائی قلت اور سہولتوں کے فقدان کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق 14 لاکھ 24 ہزار 651 بچے حفاظتی ٹیکے لگنے سے محروم رہے۔ ذرا بتائیے دنیا میں چھوٹے سے چھوٹے، غریب سے غریب کسی ملک کی بھی حکومت اتنے چھوٹے بچوں کی اتنی بڑی قربانی دینے کا اعزاز حاصل کرسکی؟ طبی جریدے ''دی لانسٹ'' کی رپورٹ کے مطابق مردہ بچوں کی پیدائش کے حوالے سے دنیا کے 186 ممالک میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 2 لاکھ 34 ہزار بچے حمل کے آخری 3 مہینوں کے دوران ہی وفات پا جاتے ہیں۔ ویسے تو جو دنیا میں آیا نہیں اس کی بات کرنا ہی فضول ہے، لیکن پھر بھی ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم پہلے نمبر پر ہیں۔
پولیو کے حوالے دنیا میں صرف 2 ممالک ہی ایسے بچے ہیں جہاں پولیو کا وائرس باقی رہ گیا ہے، ان 2 ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے دوسرا ملک افغانستان ہے، دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں افغانستان کی کیا حیثیت ہے، ایک دو سال میں افغانستان کا نام خود ہی اس فہرست سے نکل بھاگے گا۔
ہیپاٹائٹس کی بات کریں تو عالمی ادارہ صحت ہی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے ہیپاٹائٹس میں مبتلا 50 کروڑ افراد میں سے 4 کروڑ صرف پاکستانی ہیں، یعنی ملک میں ہر پانچواں شخص اس موذی مرض میں مبتلا ہے، اسی طرح ہیپاٹائٹس سے دنیا بھر میں مجموعی طور پر ہلاک ہونے والے سالانہ 10 لاکھ افراد میں سے ڈیڑھ لاکھ کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہاں بھی افغانستان میں پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کے شواہد عیاں ہیں لیکن قوم کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، وزیراعظم کے وژن 2025 کے مطابق ہم جلد ہی نمبر ون پر آجائیں گے۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک اور رپورٹ کے مطابق ٹی بی سے مرنے والے افراد کی فہرست میں پاکستان چوتھے نمبر پر آتا ہے، جہاں ہر سال 60 ہزار افراد ٹی بی سے موت کا شکار بن جاتے ہیں۔ یہ تعداد ہمارے ہدف کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے، بڑے بڑے منصوبوں سے فرصت ملتے ہی، ذرا سی توجہ بھی ہم نے اس طرف کی تو دنیا کو حیران کردیں گے۔
گلوبل ہنگر انڈیکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق بھوک کے شکار 118 ممالک میں پاکستان 11ویں نمبر پر ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ 10 ممالک جو غذائی قلت کے حوالے سے ہم سے آگے ہیں، بھوک، افلاس اور بیماریوں میں پاکستان کے باحوصلہ عوام کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے، اور یہ ممالک جلد ہی دنیا کے نقشے سے مٹ جائیں گے، ہمارے عوام انتہائی بہادری سے ان کا مقابلہ کرتے ہوئے 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے ہی ملک کو غذائی قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر لے آئیں گے۔
دنیا بھر میں پاکستانی پاسپورٹ انتہائی کم اہمیت کا حامل ہے اور اس حوالے سے افغانستان کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے۔ اس بات کا انکشاف ہیلنے اینڈ پارٹنرز کی 2016ء کی نئی رپورٹ میں کیا گیا ہے، جس میں پاکستان کو دنیا کے کمزور ترین ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ظاہر کیا گیا ہے۔
عالمی اقتصادی فورم کی طرف سے افرادی قوت انڈیکس سے متعلق جاری تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان افرادی قوت کے حوالے سے دنیا کے 124 ملکوں میں 113 نمبر پر ہے، جس کی ایک بڑی وجہ تعلیم کے شعبے میں اس کی خراب کارکردگی ہے۔ یعنی افرادی قوت کے حوالے سے بدترین صورتحال رکھنے والے ممالک میں پاکستان دنیا بھر میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود (پاکستانی حکومت کے تازہ ترین سرکاری اعدادوشمار کے مطابق) 10سال کے دوران 57 لاکھ 74 ہزار سے زائد پاکستانی ہنر حاصل کرکے روزگار کے لیے ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ حکومتی حلقے اس سے متعلق تشویش میں مبتلا ہیں اور بہت جلد یہ سلسلہ بند کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، کیونکہ اگر صورتحال یہی رہی تو وزیراعظم کے وژن 2025ء کی تعبیر ملنے تک ملک کی ساری آبادی ہی بیرون ممالک منتقل ہوجائے گی۔
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ بھی انحطاط کا شکار ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق ہمارا ملک خواندگی کی شرح کے لحاظ سے دنیا کے 120 ممالک میں 113 ویں نمبر پر ہے۔ یعنی تعلیمی انحطاط کے اعتبار سے پاکستان کو دنیا میں ساتویں نمبر پر ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو بظاہر کافی ہے مگر پاکستان میں جمہوریت کو اور بھی زیادہ مستحکم کرنے کے لیے تعلیمی انحطاط میں پہلے نمبر پر آنا ضروری ہے، ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ بھی اسی لیے کیا گیا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ دلجمعی سے کام کرسکیں اور آیندہ عام انتخابات میں کامیابی کے فورا بعد ملک کو تعلیمی انحطاط کے حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر پر لایا جاسکے۔