جنرل کیانی اور فوج کے شہدا

ماضی میں فوج کی افسر شاہی کی مراعات کے قصے تو بڑھا چڑھا کر بھی بیان کیے گئے

ghalib1947@gmail.com

فوج کے موجودہ سربراہ جنرل کیانی نے ابتدائی عرصے میں جن عزائم کا اظہار کیا، اس پر پوری قوم نے اطمینان کا اظہار کیا اور آج تک ان کی تحسین و ستائش کا سلسلہ جاری ہے، ایک تو انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ خود اور ان کی زیر کمان فوج سیاست سے لاتعلق اور دور رہے گی، یہ وعدہ اس طرح پورا ہو گیا کہ موجودہ پارلیمنٹ اپنی آئینی ٹرم کی تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے۔دوسرے انھوں نے دو ہزار آٹھ کو فوج کے سال کے طور پر منانے کا اعلان کیا، اس وقت ابھی مشرف ایوان صدر میں موجود تھا، اس لیے فوج کے اس ایجنڈے کی تکمیل میں قوم نے اس جوش وخروش کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی ضرورت تھی۔

جنرل کیانی اور ان کے ساتھی اکیلے اس مشن کی تکمیل میں مصروف رہے مگر انھوں نے ایسے دور رس اقدامات کیے جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے۔ان لا تعداد اقدامات میں سر فہرست یہ تھا کہ فوج کے شہدا ، معذوروں اور زخمیوں کی خصوصی طور پر دیکھ بھال کی جائے گی۔ ماضی میں فوج کی افسر شاہی کی مراعات کے قصے تو بڑھا چڑھا کر بھی بیان کیے گئے مگرعام فوجی شہدا ا ور ان کے ورثاء کے لیے فلاحی اقدامات کاکسی نے بھولے سے بھی ذکر نہیں چھیڑا۔ وہ جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کر دیا ، ان کی یاد میں ہم دو حرف بھی قلم یا زبان پر نہ لا سکے، بے حسی کا نوحہ یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا، پچھلے بارہ برس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے سات ہزار فوجی جوان اور افسر شہادت سے ہمکنار ہوئے لیکن سول سوسائٹی کا کوئی نمایندہ ان کی میتوں کوکندھا دینے کے لیے آگے نہیں بڑھا، ہمارے وہ سیاسی لیڈر جو اپنے حلقے میں کوئی جنازہ، کوئی رسم قل یا چہلم کی تقریب مس نہیں کرتے، انھوں نے فوج کے ان شہدا کے ورثاء کو پرسا نہیں دیا۔

میں آج جذبات میں نہیں آئوں گا، مرصع اور مقفع زبان استعمال نہیں کروں گا، مگر دل کو چھید دینے والے سوالات ضرور اٹھائوں گا، کیا ہم نے فرض کر لیا ہے کہ ہمارے شہدا کسی ویت نام یا کانگویا لائوس یا کمبوڈیا کی جنگ میں موت کی بھینٹ چڑھ گئے، کیا ہم نے انھیں واقعی اجرتی محافظ کا کردار سونپ دیا ہے،ہم میں سے بہت ایسے ہیں جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ فوج اگر جانیں قربان کرتی ہے تو اس کے لیے اسے تنخواہ دی جاتی ہے۔ اسے مراعات سے نوازاجاتا ہے۔یہ ژولیدہ فکری ہے، کج بحثی ہے، محسن کشی ہے،شہید کی لاش کا مثلہ کرنے کے مترادف ہے ، ہم نے تو ترانے گائے تھے ، ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے، ہماری فضائیں اس نغمے سے گونجتی رہی ہیں کہ اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو۔

ہم نے ان کے لیے دعائیں کی تھیں: میریا ڈھول سپاہیا ، تینوں رب دیاں رکھاں۔ہم نے اس مقدس عزم کا اظہار کیا تھا :رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔ہم نے ان کے شاہنامے گائے: میرا ماہی چھیل چھبیلا، ہائے کرنیل نی جرنیل نی۔اور ہم نے ان کا لہو گرمانے کی کوشش کی:اے مرد مجاہد جاگ ذرا ، پھر وقت شہادت ہے آیا۔ اور جب یہ شہادت کے بلند ترین درجے پر سرفراز ہو گئے تو کیا یہ ضروری تھا کہ ہم انھیں بھول جائیں،ان میں سے کتنے ہی شہید ہو گئے ، کتنے ہی ایسے تھے جو سینوں سے بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے اور قیمہ بن گئے، یہ گمنام شہید تھے، ان کی کوئی لوح مزار نہیں۔

ان کی قبروں پر کوئی پھولوں کی چادر چڑھانے والا نہیں۔اور ان میں سے کتنے ہیں جو معذور ہو گئے، ان کے ہاتھ پائوں کٹ گئے اور وہ کام کاج کے بھی قابل نہ رہے، ہم نے انھیں اور ان کے خاندانوں کو بے بسی کے جہنم میں دہکنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا۔مگر جنرل کیانی نے ان کے دکھ درد کو محسوس کیا، فوج میں ان لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے پہلے سے اسکیمیں موجود ہیں ، مگر یہ ناکافی تھیں اور ان پر عمل کرنے میں وقت لگتا تھا، شہدا کے ورثاء کو دفتروں کے چکر کاٹنے پڑتے تھے اور زخمیوں اور معذوروں کے لیے تو ان دفاتر تک رسائی بھی مشکل ہو جاتی تھی، جنرل کیانی نے اس نظام کو آسان تر کر دیا، مشکلات اور سرخ فیتے کا خاتمہ کر دیا۔اور انقلابی اصلاحات روشناس کرائیں۔


پہلااقدام تو سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے، اب شہادت یا ملازمت کے دوران فطری موت سے ہمکنار ہونے والے سپاہیوں اور جونئیر کمیشنڈ افسران کے لیے اس امر کی ضمانت فراہم کی گئی ہے کہ ان کے ورثاء کو پانچ مرلے کا مکان فراہم کیا جائے گا۔لاہور میں جہاں تا حد نظر ڈی ایچ اے پھیلا ہوا ہے، وہیں ایک سیکٹر بڑی تیزی سے ڈیویلپ کیا جا رہا ہے جہاں شہدا کے خاندانوں کو الاٹمنٹ کاغذات جاری کیے جا چکے ہیں اور جیسے جیسے ترقیاتی کام مکمل ہو جائیں گے، یہاں مکان بننے شروع ہو جائیں گے ، پہلے اسکیم یہ تھی کہ مکان بنانے کے لیے اخراجات نقداد اکر دیے جائیں لیکن اب پاک فوج نے خود مکان تعمیر کرنے کی ذمے داری قبول کر لی ہے تاکہ ایک جیسے معیار تعمیر کو ملحوظ رکھا جا سکے اور لواحقین کو اس تردد میں نہ ڈالا جائے۔

اس امر کو بھی ملحوظ رکھا جا ر ہاہے کہ شہید کے قریب ترین عزیز کے تعین کے لیے شفاف طریقہ کار اپنایا جائے ا ور صوابدیدی اختیارات کے استعمال کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔شہدا اور زخمیوں کے بینیوولینٹ فنڈ اور دیگر الائونسوں میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا گیا ہے،فوجیوں اور جونئیر کمیشنڈ افسروں کے لیے گروپ انشورنس کی رقم بڑھا کر سات لاکھ اور پانچ لاکھ کر دی گئی ہے۔شہدا کے بیٹوں یا بھائیوں کی فوج میں ریکروٹمنٹ کے لیے قواعد نرم کر دیے گئے ہیں۔شہدا کے بچوں کو فوجی فائونڈیشن کے اداروں میں مفت تعلیم کی ضمانت دی گئی ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعلیمی اداروں میں بھی حسب ضرورت ان کے داخلے کو یقینی بنایا جائے گا۔شہدا کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کو قرعہ اندازی سے مستثنی کر دیا گیا ہے اور پلاٹ سب کے لیے، پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔

پلاٹ کے لیے فوری ادائیگی اور اقساط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کوئی جرمانہ وصول نہیں کیا جائے گا۔فوجی کاروائی کے دوران جو غیر لڑاکا سویلین افراد شہید یا زخمی ہوں گے ، ان کے کفن دفن کے انتظامات اور اخراجات فوج کے ذمے ہوں گے، ان کے خاندانوں کو پچاس ہزار نقد امداد بھی دی جائے گی۔انھیں بھی پانچ مرلے کا پلاٹ الاٹ کیا جائے گا۔ملٹری کالج جہلم اور ملٹری کالج مری میں شہدا کے بچوں کی کفالت کے لیے وظائف دیے جارہے ہیں۔ حکومتی وظائف اس کے علاوہ ہوں گے۔ شہدا کے اہل خانہ کی طبی ضروریات کے لیئے خصوصی کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔

شہدا کے ورثاء اور جنگ میںزخمی ہونے والوں کے قریبی عزیز کو فوج اور حکومتی اداروں میں ملازمت فراہم کی جائے گی۔شہدا کے لوح مزار میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے ایک خصوصی ڈیزائن کی منظوری دی گئی ہے تاکہ قبرستان میں شہید کی قبر کو دور سے پہچانا جا سکے۔

میں بہت کچھ لکھ چکا جو جنرل کیانی کے ذہن رسا میں اپنے جوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے آ سکا۔میں اس پر صرف ایک اضافہ کر سکتا ہوں۔ قرآن کہتا ہے کہ شہید زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا ادراک نہیں۔میں شہید کو زندہ وپایندہ تصور کرتا ہوں، جو کچھ ان کے خاندانوں کے نام پر کیا جا ہارہے، یہ دراصل ان شہیدوں کی عظمت اور عزیمت کو سلام ہے۔کاش! میری ایک خواہش پوری ہو سکے، دنیا نے ہر خوشبو اور عطر بنا لیا، کیا کوئی شہید کے بدن کی خوشبو کو بھی محفوظ کر سکتا ہے، میں نے یہ خوشبو پہلی مرتبہ65 کی جنگ کے دوران گنڈا سنگھ والہ قصور روڈ پر سفر کرتے ہوئے اپنی مشام جاں بنائی تھی اور یہ اب تک میری نس نس میں رچی بسی ہوئی ہے، میں اور میرے بڑے بھائی میاں محمد اس جنگ کے دوران اپنی والدہ کی تلاش میں فتوحی والہ گئے تھے، گائوں خالی پڑا تھا، ہم ایک سائیکل پر سوار تھے، پیچھے سے ایک بھاری ٹرک آیا، اس میں سے کیا بھینی بھینی سی خوشبو آر ہی تھی، میں جس قدر تیز سائیکل چلا سکتا تھا، ٹرک کا پیچھا کرتا رہا، اس خوشبو کو اپنی رگ رگ میں جذب کرتا رہا۔

وہ دن اور آج کا دن یہ خوشبو میرا جزو بدن ہی نہیں ،میری روح کا حصہ بن چکی ہے، جنرل کیانی کو سلام جنہوں نے ان شہیدوں کی خوشبو کی قدر ومنزلت کا احساس کیا۔ہر باپ اپنے بچوں کی اچھائی سوچتا ہے، جنرل کیانی بھی فوج کے مائی با پ کی حیثیت رکھتے ہیں اور انھوں نے اپنی اولاد کی طرح ان کی حاجتوں کو محسوس کیا اوروہ ہمہ وقت ان کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔میرا نہیں خیال کہ قوم کبھی اس معصوم بچے کو فراموش کر سکے گی جو کارگل میں ایک شہید کا بیٹا تھا، اس سے لاہور کے فائیو اسٹار ہال کی تقریب میں پوچھا گیا کہ وہ بڑا ہو کر کیا بنے گا تو اس نے بلا سوچے سمجھے جواب دیا تھا : میں بڑا ہو کر شہید بنوں گا۔ان زندہ و تابندہ جذبوں کو سلام عجز ونیاز!!
Load Next Story