پٹھان کا ٹرک… طورخم سے کراچی تک

کیا صرف ساٹھ پینسٹھ برس پہلے برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لیے یہی ملک بنایا تھا جو آج ہے؟

Abdulqhasan@hotmail.com

پشاور میں سانحہ پیش آیا تو اس خوبصورت شہر سے جڑی ہوئی کچھ یادیں تازہ ہو گئیں۔ میں یہ اس پشاور کی بات کر رہا ہوں جو اس شہر پر افغان مہاجرین کی یلغار سے پہلے کا شہر تھا۔ افغانوں نے تو اس شہر کا حلیہ ہی بدل دیا ہے۔ کیا خوبصورت اور اس خطے یعنی وسطی ایشیاء کی ثقافت میں ڈوبا ہوا شہر تھا جس میں پشتو، ہندکو اور فارسی بولی جاتی تھی۔ یہ تینوں اس شہر کی مقامی زبانیں تھیں اور اردو ان کے علاوہ تھی۔

پشاور کے گھر پورے پاکستان سے مختلف تھے۔ دیواروں پر خوبصورت قالین میں نے اس شہر میں دیکھے۔ پشاور کے ایک سیاسی کارکن مجھے ایک شادی میں لے گئے جو یحییٰ خان کے خاندان میں تھی۔ فرشی نشستیں گوشت کی کئی اقسام اور قہوے کے فنجان کھائے اور لڑھکائے جا رہے تھے۔ منظر پنجاب کی شادیوں سے بالکل مختلف تھا، اس کے برسوں بعد سمرقند میں ایک شادی میں شرکت کا ایسے ہی موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ اس خطے کی ثقافت پشاور سے کتنی ملتی جلتی ہے جو کئی زمانوں سے افغانستان کے راستے پشاور اور سمر قند کے گرد رقص کرتی چلی آ رہی۔ پشاور میں مجھے کسی پرانے پشوری نے بتایا کہ پشاور شہر کا رخ پنجاب کی طرف نہیں افغانستان کی طرف ہے۔

پنجاب تو اس کے پچھواڑے میں ہے۔ اب تو اس شہر کا کاروبار تمام حدیں عبور کر کے پاکستان بھر میں پھیل گیا ہے لیکن شروع میں اس کا رخ افغانستان کی طرف تھا چنانچہ افغانستان سے تعلقات بگڑے تو پشاور کے کئی کاروباری سخت نقصان میں رہے، ان کے پاس افغان کرنسی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ پشاور سے میرا ایک تعلق یوں بھی بنا کہ اس شہر میں میری برادری کی بہت بڑی اور موثر تعداد موجود ہے۔ بتایا گیا کہ ایک زمانے میں پشاور شہر کی یونین کونسلوں کے چیئرمین قریباً سبھی اعوان تھے۔ ہمارے اعوانوں کا برصغیر ہندوستان میں داخل ہونے کا پہلا پڑائو یہی شہر تھا۔ سلطان محمود غزنوی کے یہ فوجی راستے میں رکتے گئے اور ان کا آخری پڑائو ہماری وادی سون سکیسر ٹھہرا جس کے پہاڑوں میں امن تھا اور مویشیوں کے لیے سبز چارہ افراط میں تھا۔ پشاور سے وادی سون تک کے راستے میں جگہ جگہ یہ تھکے ماندے فوجی اعوان آباد ہوتے رہے۔ اسی راستے میں سر سکندر حیات کا خاندان بھی ایک جگہ مستقل رک گیا۔


بات پشاور شہر کی ہو رہی تھی۔ میں جس زمانے کی بات کر رہا ہوں، اس میں یہاں صحافت کوئی خاص نہیں تھی لیکن سیاست خوب تھی اور اس کی بڑی وجہ باچا خان کا خاندان تھا جس کی سیاست پورے برصغیر میں معروف تھی۔ باچا خان یعنی خان عبدالغفار خان کا سیاستدان بیٹا خان عبدالولی خان قومی سیاست کے سربرآوردہ لیڈروں میں سے تھا، اس لیے ان کے ساتھ نیاز مندی بہت پرانی تھی۔ لیکن پنجاب وغیرہ کے رؤسا کے مقابلے میں یہ لوگ زیادہ شائستہ اور جلد مانوس ہو جانے والے تھے۔ ولی خان اگرچہ پٹھان تھے لیکن ان کی سیاست پر پاکستانی رنگ بھی تھا اور ان کے رویوں سے اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ یہ کوئی پٹھان سیاستدان ہے۔

ون یونٹ کی مخالفت کا مسئلہ نمایاں تھا لیکن خان صاحب اس کے حق میں تھے جب کہ چھوٹے صوبوں کے لوگ بجا طور پر اس کے خلاف تھے، میں نے ان دنوں خان صاحب سے پوچھا کہ وہ اس کے حق میں کیوں ہیں تو انھوں نے کہا کہ پٹھان کا ٹرک طورخم سے چلتا ہے اور کراچی جا کر رکتا ہے، میں کیا کروں۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ پٹھانوں کی جائیداد پشاور کے مقابلے میں لاہور میں زیادہ ہے۔ چوہدری ظہور الٰہی نے ایک بار باچا خان کو لاہور میں مدعو کیا اور اندرون لاہور ان کا زبردست استقبال کیا گیا لیکن باچا خان اپنے تعصبات میں بہت سخت تھے۔ جناب اجمل خٹک صاحب ہمارے صحافی مہربان تھے، وہ انجام پشاور میں تھے، ان کی قیادت میں ہم نے اندرون سندھ کا مطالعاتی سفر بھی کیا تھا۔ وہ ولی خان کے قریبی ساتھی تھے اور خان صاحب کے ساتھ یہ بھی رابطے کا ایک قریبی ذریعہ تھے۔ مجھے جب بھی پشاور جانے کا موقع ملتا تو میں وہاں کئی دنوں تک قیام کرتا، مجھے یہ شہر بہت پسند تھا کہ پاکستان میں میرے لیے یہ سب سے زیادہ پسندیدہ شہر تھا جس کی دلکش مسلم ایشیاء کی ثقافت مجھے بہت پسند تھی۔

اس کے چوڑی دیواروں والے قالینوں سے آراستہ گھر، تخت پوش اور اونچے دشمنوں سے محفوظ دروازے۔ ایک پنجابی کے لیے پشاور میں اجنبیت زیادہ تھی۔ پشتو سے مکمل بے خبری اور لباس بھی مختلف، رہن سہن میں بھی مختلف، انداز اور انسانی شکل و صورت سبھی جدا لیکن پھر بھی میں سوچتا کہ اگر مجھے کبھی کسی شہر میں قیام کا فیصلہ کرنا پڑا تو میں پشاور کو یقیناً ترجیح دوں گا۔ یہ معزز شرفاء کا ایک آسان شہر تھا۔ اب کہتے ہیں کہ وہ پشاور باقی نہیں رہا۔ بہت کچھ بدل گیا ہے، لاہور بھی اب کچھ اور ہو گیا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہم خود بھی بہت کچھ بدل چکے ہیں۔ ہم زبانوں، صوبوں اور مفادات کے قیدی ہو چکے ہیں۔

بعض اوقات تو دل بھرا جاتا ہے جب ایک صوبے کو دوسرے صوبے کے خلاف کچھ کہتے اور کرتے دیکھتے ہیں۔ کیا صرف ساٹھ پینسٹھ برس پہلے برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لیے یہی ملک بنایا تھا جو آج ہے، درست کہ سابقہ صوبہ سرحد میں ریفرنڈم ہوا کہ اسے پاکستان کے ساتھ جانا ہے یا بھارت کے، اس سوال پر اکثریت نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا جس کے بعد دو چار لیڈروں کو چھوڑ کر عوام نے اس ریفرنڈم کی تلخیوں کو بھلا دیا۔ آج اسی صوبے کے ایک لیڈر نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے مقابلے میں جان دے دی ہے اور پٹھان کا ٹرک طورخم سے کراچی تک چلتا ہے۔ پورا ملک عبور کر کے۔
Load Next Story