سفر ہے شرط

کچھ ان دیکھے خواب ایسے ہوتے ہیں جنکی تعبیر کی تلاش میں انسان اپنا گھر بار چھوڑ دیتا ہے۔

پروگرام یہ تھا کہ دوران سفر جیسے ہی کسی خو ش ادا نے مسکراکر ہیلو کیا ہم نے فوراً تصویر کے پیچھے اپنا نام اور پتہ لکھ کر اسے دے دیں گے۔

KARACHI:
اسکول کے زمانے میں ہمارے ایک استاد ہوا کرتے تھے، ما شاء اللہ اب بھی حیات ہیں۔ سیکھا تو ہم نے ان سے بہت کچھ ہے لیکن انکا ایک جملہ ذہن پر اب تک اسطرح نقش ہے کہ آج تک اس کے معنی کی تلاش جاری ہے اور یہ ہی تلاش ہمیں آج یہ سطور لکھنے پر مجبو ر کررہی ہے۔ بے فکر رہیے، یہ تلاش کسی اس قسم کی چیز کی نہیں جسکی تلاش میں مستنصر حسین تارڑ گھر سے نکلے اور ''نکلے تیری تلاش میں '' لکھ ڈالی۔ بہرحال قصہ مختصر اسکول کے دوران معلوم ہوا کہ ''سفر وسیلہ ظفر'' ہو تا ہے۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

بہرحال قصہ مختصر کہ وقت بھی آن پہنچا کہ ہم رخت سفر باندھ کر امریکہ جانے کو تیار بیٹھے تھے اس تیاری میں آگہی کی کن منازل سے گزرنا پڑا وہ ایک الگ داستان ہے۔ سفر میں اگر کوئی ہمسفر ساتھ نہ ہو تو لطف نہیں آتا، سو قرعہ فال ہمسفری نکلا محترم ضیاء صاحب کے نام جو ہمارے عزیز ترین دوست ظفر کے بڑے بھائی ہیں۔ جانتے تو ہم ضیاء صاحب کو عرصہ دراز سے ہیں لیکن پہچاننے کا موقع ہمیں اسی سفر میں ملا۔ چہرے مہرے سے انتہائی سنجیدہ لیکن عادت و اطوار اور سمجھ بوجھ میں انتہائی غیرسنجیدہ، طبیعت کے اتنے سادہ کہ بے اختیار منہ سے نکل جائے کہ
''اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا''۔

اچھے ہمسفر کی ساری دنیا دعا کر تی ہے اور ہمیں تو یہ موتی بن مانگے ہی مل گیا کہ نہ تکرار کا خوف اور نہ روٹھ جانے کا غم(قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ضیاء صاحب کو ہمارا عارضی ہمسفر ہی تصور کریں تاکہ کوئی غلط فہمی جنم نہ لے سکے)۔

28 جولائی کو وہ وقت بھی آن پہنچا جب ہمیں حیدرآباد سے کراچی کے لئے روانہ ہونا تھا۔ گھر والوں کو خدا حافظ کہتے ہوئے ہم گاڑی میں بیٹھ گئے کہ الفاظ زبان پر آ نہیں رہے تھے اور آنکھیں کہتی تھیں جو بات لب ادا نہیں کرسکتے وہ ہم ضرور آشکار کرینگے۔ ذہن اس وقت آنے والے لمبے سفر کے خوف سے پریشان تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ بہتر مستقبل اور معاشرے میں منفرد مقام حاصل کرنے کے لئے انسان کو کیا کیا قربانیا ں دینا پڑتی ہیں لیکن بہتر مستقبل سے مراد کیا ہے؟ کیا یہ صرف اپنے آپ کو دھوکا دینا تو نہیں یا اپنی جھوٹی انا کی تسکین کی خاطر انسان اپنے پیاروں سے جدائیوں کا عذاب سہتا ہے یا کچھ ان دیکھے خواب ہوتے ہیں جنکی تعبیر کی تلاش میں انسان اپنا گھر بار چھوڑ دیتا ہے اور دنیا کے اس گھنے جنگل میں اسطرح گم ہوجاتا ہے کہ بازگشت میں صرف تنبیہہ رہ جاتی ہے کہ،

یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا تھا وہ پھر نہ آیا میری بات مان جاؤ

لگتا تھا کہ سوچ کے دھارے یقیناً کوئی نیا فلسفہ تخلیق کردیں گے کہ اچانک جھٹکے کے ساتھ گاڑی رک گئی اور نہ صرف گاڑی رکی وہ سلسلہ خیال بھی رک گیا جو ہمیں ایک بڑے فلسفی کے روپ میں پیش کرنے والا تھا۔ معلوم ہوا آرمی کے اشارے پر گاڑی رکی ہے اور تلاشی دینی ہوگی۔ حیدرآباد اور کراچی میں رہنے والے والوں کے لئے یہ کوئی نئی بات نہ تھی کیونکہ ان دونوں شہروں کا امن و سکون نہ جانے کون چرالے گیا ہے اور بیچارے آرمی والے ہر ایک کو روک کر کہتے ہیں کہ
کہیں تمہی تو وہ نہیں جسکی ہمیں تلاش ہے

تقریباً 8 بجے کراچی پہنچے تو معلوم ہوا کہ فلائٹ آج رات کو ڈھائی بجے ہے ہم سمجھ رہے تھے کل صبح تک روانگی ہوگی ۔ اس اچانک تبدیلی کو ہمارے چہرے پر مزید حیرانگی اور پریشانی کے آثارظاہر ہونے اور ان آثار کو محفوظ رکرنے کے لئے ہم نے فوراً Polaride کیمرے سے اپنی تصویریں بنوائیں تا کہ سند رہے کہ ہماری روانگی کے سلسلہ میں صرف طارق ہی پریشان نہ تھے بلکہ ہم بھی حسب توفیق پریشان تھے اور دوسرے یہ کہ سفر میں بھی یہ کام آجائیں۔

سنا ہے کہ اس قسم کے سفر میں شعلہ بدن حسینائیں اور شیریں سخن دلربائیں پاکستانی حُسن پر فدا ہونے کے لئے تیار بیٹھی ہوتی ہے (اب تک سفر ناموں میں ایسا ہی پڑھا ہے) اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہمارے پاس سے کوئی مایوس ہو کر جائے تو پروگرام یہ تھا کہ جیسے ہی کسی خو ش ادا نے مسکراکر ہیلو کیا ہم نے فوراً تصویر کے پیچھے اپنا نام اور پتہ لکھ کر اسے دے دیں گے کہ اب تک اس قسم کے خطوط اسی طرح ہم تک پہنچتے تھے۔

ائیرپورٹ پر سب کو الوداع کہہ کر بالآخر وہ وقت بھی آگیا جہاں سے سفر صرف ہمیں اور ضیاء صاحب کو کرنا تھا۔ ایئرلائن کے کاؤنٹر پر پہنچ کر احساس ہوا کہ اگر ابتدا اتنی حسین ہے تو اس حساب سے تصویریں یقیناً کم پڑیں گی۔ اس حسین دلربا نے جس خوش ادا کے ساتھ ہمارا پاسپورٹ اور ٹکٹ دیکھا اور بڑی دلنوائی سے کہا، اتنی دور جارہے ہیں آپ؟ اس خاتون خوش نوا کی باتوں سن کر دل چاہا کہ اس سے کہیں کہ جی نہیں ہمیں تو منزل یہاں نظر آگئی ہے سو باقی سفر ہم ملتوی کرتے ہیں اور زندگی آپ کی چشم غزالاں کے نام کرتے ہیں لیکن پہلو میں ضیاء صاحب نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تو دل کی بات دل ہی میں رہ گئی ۔

جہا ز کی روانگی میں تقریباً دوگھنٹے باقی تھے سو آنکھیں بند کی اور ان دو گھنٹوں میں زندگی کے 25 برس میرے سامنے تھے۔ ماضی، حال اور مستقبل کا ایک حسین امتزاج تھا۔ اماوس کی گہری رات، امیدوں کے چراغ ، روشن ماہتاب کی خواہش اور میں اکیلا پریشان کہ
زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں
میں کس کو سوچوں اورکس کو بھولوں
میں کس کو چاہوں اور کس کو چھوڑوں
میرے خدایا میں عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں

خوابوں اور احساسوں کا یہ سلسلہ ایک مترنم آواز پر منقطع ہوا کہ ''خواتین و حضرات فلائٹ نمبرPR740 پرواز کے لئے تیار ہے''۔ کچھ ہی دیر میں ہم دیوہیکل 747 کے سامنے تھے اور زبان پر قاسمی صاحب کی نظم کے ''انسان عظیم ہے خدایا'' اور میں سوچ رہا تھا کہ جب انسان کی تخلیق اتنی بڑی ہے کہ ہزاروں ٹن وزن کے ساتھ پرندوں کی طرح فضا میں اڑسکتی ہے تو وہ خود کتنا عظیم ہوگا جس نے انسان کو بنایا۔ سیڑھیاں چڑھ کر جہاز پر پہنچے تو احساس ہوا کہ خدا کی سب سے حسین تخلیق انسان ہی ہے، کہ ہمارے سامنے مشرقی حسن کے دو بہترین ماڈل اپنی مسکراہٹوں کے پھول برسارہے تھے اسی مسکراہٹ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنی سیٹ تک پہنچے۔


برابر والی سیٹ پر ایک ادھیڑ عمر خاتون مطالعہ میں مصروف تھیں۔ ہیلو ہائے کے بعد وہ پھر مطالعہ میں مصروف ہوگئیں اور اسے ہم نے اپنی خوش نصیبی جانا کہ انکی عمر اور ہمارے وقت کا تقاضہ یہی تھا کہ بات آگے نہ بڑھے۔ کچھ ہی دیر میں جہاز فضا میں تھا اورمیں نے پہلی دفعہ ایک طائرانہ نظرکراچی پر ڈالی۔ کراچی واقعی حسین تھا اور اگر حسن خوابیدہ ہو تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے تو کراچی خوابیدہ بھی تھا، رات کے ساڑھے تین بج رہے تھے۔ خوبصورت آنکھیں، زندہ چہرے اور میٹھی نیند ہماری کمزوریاں ہیں، سو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیٹ کو ایزی کیا اور آنکھیں بند کرلی اور پھر و ہی سلسلہ خواب و عذاب شروع ہوگیا۔ آنکھ کھلی تو پورے جہاز پر ایک طوفان بد تمیزی برپا تھا ، غور کرنے پر معلوم ہوا ناشتہ کا سلسلہ چل رہا ہے اور سلسلہ کچھ یو ں ہے کہ ''جو بڑھ کر تھام لے ناشتہ اسی کا ہے''۔

ہم نے جو اپنے ہمسفروں پر نظر ڈالنی شروع کی تو اندازہ ہو ا کہ ''جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے '' کہ ہماری سامنے والی سیٹ پر ایک حسنِ مجسم پلکیں وار کئے ہماری طرف تک رہا تھا، اور ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ اس سراپا حسن نے ساری رات اسی طرح گزاری ہوگی۔ پہلی دفعہ اپنے آپ پر رشک آنے لگا۔ دائیں طرف مڑ کر دیکھ تو ایک جواں سال جوڑا اس بات پر ناراض لگتا تھا کہ اس شورشرابے میں بے خودی کا خمار ٹوٹ چکا تھا اور انکا حلیہ زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ،
یہ اڑی اڑی سی رنگت ، یہ کھلے کھلے سے گیسو
تیری صبح کہہ رہی ہے تیری رات کا فسانہ

ضیاء صاحب کی طرف دیکھا توآنکھیں نیند سے سرخ نظر آئیں اور ہم سمجھ گئے کہ ''اس رات کے فسانہ''کے چشم دید گواہ کے فرائض ضیاء صاحب نے انجام دیئے ہیں۔ آنکھیں تو انکی ویسی ہی سرخ تھیں، راز کھلنے کی ندامت میں چہرہ بھی سرخ ہوگیا اور ہم ایک دفعہ پھر سوچنے لگے ''جوسوتا ہے وہ کھوتا ہے'' (قارئین سے گزارش ہے وہ اسے اردو والا ''کھوتا'' ہی پڑھیں، پنجابی والا ''کھوتا'' نہیں)

کیپٹن نے اعلان کیا کہ ہم کچھ ہی دیر میں روم (Rome) میں اترنے والے ہیں۔ کھڑکی سے باہر دیکھا تو شہر روم زیر نگیں تھا کہ جسکی داستان عروج و زوال قوموں کے لئے ایک عبرتناک سبق ہے۔ سچ ہے کہ جب قومیں اپنے اصلاف کے کارناموں کے سہارے جینے کی کوشش کریں اور خود کچھ نہ کرنے کی قسم اٹھالیں تو تاریخ ان قوموں کو داستان عبرت بنادیتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے(آمین)۔

جہاز آہستہ آہستہ رینگتا ہوا ایک سرنگ Tunel سے جا لگا، اور ہمیں اندازہ ہو ا کہ مسافر چاہے جہاز کا ہو یا بس کا، حرکتیں ایک سی ہی کرتا ہے۔ ہم نے بھی سامان اٹھایا اور چہرے پر افسردگی طاری کی کہ یقیناً وہ ہی رُخ جمال جو ہمیں جہاز پر چڑھتے ہوئے مسکرا مسکرا کر خوش آمدید کہہ رہی تھی یقیناً ہماری جدائی پر افسردہ خاطر ہوگی اور آنکھوں میں آنسو لئے ہمیں خداحافظ کہے گی لیکن وہا ں تو وہ ہی شگفتہ چہرہ بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا شکریہ ادا کررہا تھا اور ہم پریشان تھے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟ کونسی مسکراہٹ سچی ہے؟ اور کونسی بناوٹی اور جواب ملا زیادہ خوش فہمی میں نہ رہئے۔ یہ مسکراہٹ بس ڈیوٹی ہے۔

روم کا ائیر پورٹ دیکھ کر یورپیئن کے نفیس ذوق کا اندازہ ہوا، نظر ہے کہ کہیں ٹہرتی ہی نہیں خوبصورتی سے سجی ہوئی دکانیں، ریستوران، بک شاپس دعوت نظارہ دے رہی تھیں۔ اس وسیع و عریض ٹرانزٹ لاؤنج میں دو چار مسافر ہی نظر آرہے تھے۔ کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے اگلی پرواز کا بورڈنگ کارڈ ہمارے حوالے کیا انگلش انکو اتنی ہی آنی تھی جتنی ہمیں اطالوی، اس لئے زیادہ تر کام مسکراہٹ سے ہی چلانا پڑا۔ ہماری اگلی منزل پیرس تھی اور اسکے بعد میامی۔

اگلی پرواز میں ابھی کافی وقت تھا، سو ایک دفعہ پھر ایئر پورٹ کا چکر لگایا، خوبصورتی سے سجی ہوئی دکانیں اور بنی سنوری میزبانیں دیکھیں، اور حقیقت تو یہ ہے کہ دکانیں کم دیکھیں اور میزبان دوشیزاؤں کو زیادہ، کیونکہ جیب میں اطالوی لیرا تو نہ تھا ہاں پہلو میں دل ضرور تھا۔ ایک بات پر حیرانی ہوئی کہ سب سے زیادہ رش کتابوں کی دکان پر نظر آیا ہر شخص کتاب خرید رہا تھا اور کتاب پڑھ رہا تھا۔ ہم جیسے کم ہی تھے جو صرف کتابی چہرے دیکھ رہے تھے اور اندازہ ہوا کہ یورپیئن اقوام کی بے مثال کامیابی کا راز اس بات میں ہی ہے کہ یہ قومیں کتاب کی اہمیت سے آشنا ہیں۔ ذہن پر ایک دفعہ پھر بقراطی سوار ہوگئی کہ ہم بحیثیت قوم کیوں کتاب سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اگر کہیں کسی کے ہاتھ میں کوئی کتاب نظر آتی بھی ہے تو بے اختیار اکبر الہ آبادی یاد آجاتے ہیں کہ،
ہم کل ایسی کتابیں لائق سمجھتے ہیں
کہ جنکو پڑھ کر بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

بہرحال اس بقراطی کو ذہن سے جھٹکا اور ایک کونے میں بیٹھ گئے تاکہ بصارتوں کو رزق فراہم کرسکیں (بحیثیت قوم یہ بھی ہماری عادت ہے کہ چاہے پیٹ بھرے نہ بھرے آنکھوں کو نظارہ حسن ملتے رہنا چاہئے)۔ اطالوی حسن بھی بڑی دلنشین چیز ہے ہم سے کچھ دور بیٹھی ہوئی ایک نازک اندام نے اسطرح بے حجابانہ انگڑائی لی کہ بے ساختہ ہمارے منہ سے نکل گیا۔

جسم بلور سا نازک ہے جوانی بھر پور
اب کے انگڑائی نہ ٹوٹی تو بدن ٹوٹ جائے گا

بدن تو اس نازک اندام کا نہ ٹوٹا ہاں ہمارا سلسلہ خیال ٹوٹ گیا، کیونکہ اگلی پرواز روانگی کے لئے تیار تھی۔ پیرس ہوتے ہوئے بالآخر ہم سر زمین امریکہ پہنچ ہی گئے۔ ہمارے لئے تو یہ وہ ہی جہاں لگتا تھا کہ جسکے لئے اقبال کہہ گئے ہیں کہ،
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ایئرپورٹ پر ظفیر صاحب بمعہ اپنے دوستوں کے موجود تھے جنہوں نے ہمارا استقبال خوشدلی سے کیا، ہم بھی مسرور تھے۔ شروع کے ایک دو ہفتہ تو امریکہ پہنچنے کے سرور میں گزرے اور جب یہ نشہ اترا تو پھر اچھی طرح اقبال کا دوسرا مصرعہ بھی سمجھ آگیا کہ،
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں
Load Next Story