قانون امیر و غریب سب کے لیے یکساں
خدا کرے ملک میں سستا اور سچا انصاف پاناما لیکس پیپرز کی سماعتوں سے برآمد ہو
سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہمارے لیے حکومت اور عام شہریوں کے مقدمات میں کوئی فرق نہیں ہے، مقدمات تولنے کا ترازو قانون ہے، ہر کیس اسی ترازو پر تول کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ پاناما لیکس ہو یا عام آدمی کا مقدمہ فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا، یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ حکومت کے خلاف مقدمات میں فیصلے نہیں ہوتے۔ فاضل جج نے یہ ریمارکس دو اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی عدم ادائیگی کے بارے میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے درخواست گزاروں کے مقدمات جلد نہ لگنے کی شکایت پر دیے ہیں۔
نامزد چیف جسٹس کے ریمارکس ملک کے عدالتی و معروضی حالات میں نہایت چشم کشا ہیں جن سے اس تاثر، تصور اور انداز نظر کے تبدیل ہونے کا اشارہ ملتا ہے جو ملکی عدالتوں کے سابقہ فیصلوں میں مدعیان مقدمات کے ضمن میں حاصل شدہ تجربات سے منسلک ہیں، بادی النظر میں چیف جسٹس نے اس آفاقی اصول کی اہمیت اجاگر کی ہے کہ عدلیہ کی نظر قانون کی نظر سے مقدمات کا فیصلہ کرتی ہے اور اس میں کسی قسم کی تخصیص، امتیاز، جھکاؤ یا ترجیح کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔
یوں بھی آزاد عدلیہ کا شعار شفاف اور قانونی بنیادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنانا ہوتا ہے، دنیا بھر میں اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو اس بات کا گہرا ادراک ہوتا ہے کہ ان کے فیصلوں کے بڑے دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں، لہٰذا ملکی سسٹم، معاشرتی اقدار اور حکمرانی کے بطن سے پیدا ہونے والے مختلف النوع تضادات، مسائل، سیاسی تنازعات، کرپشن، زیادتی اور سرکاری و نجی اداروں سے متعلق شکایات بھی اکثر مقدمات کی شکل میں عدلیہ کے روبرو آتی ہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ بعض اہم مقدمات کے فیصلوں کے اثرات و نتائج پر قانونی و آئینی ماہرین، میڈیا اور سیاست دانوں نے برسوں تبصرے بھی کیے۔
دوسری طرف ملکی نظام اور سماجی و معاشی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی سیاسی تاریخ میں عدلیہ کا ایک شاندار کردار رہا ہے، کئی ایسے فیصلے جاری ہوئے جس نے دیگر اہم ستونوں کی استقامت کا بھی حق ادا کیا، چنانچہ چیف جسٹس کے ارشادات کا تناظر وسیع اور فکر انگیز ہے، بالخصوص ان کا یہ کہنا قول فیصل ہے کہ یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ حکومت کے خلاف مقدمات میں فیصلے نہیں ہوتے، یوں عدل وانصاف کے سفر میں اہل وطن اب عدلیہ کے ایک نئے پیراڈائم کا مشاہدہ کرسکیں گے۔ تاریخ قوم کو سچ کی تلاش میں سیاسی اور سماجی اضطراب، التباس اور غیریقینی کے چنگل سے نکال کر شفاف انصاف اور فوری انصاف کی دہلیز تک لانے کے لیے بے تاب ہوگی۔
خدا کرے ایک طرف ملک میں سستا اور سچا انصاف پاناما لیکس پیپرز کی سماعتوں سے برآمد ہو، کرپشن کے حوالہ سے بہت سے کیسز ہیں، انتہائی ہائی پروفائل کیسز بھی ہیں جن میں بڑے بڑے نام آئے ہیں، یہی وہ کیسز ہیں جن کے فیصلوں پر عوامی تحفظات کا چیف جسٹس نے نہایت بلیغ اشارہ دیا ہے کہ کیسز قانون کے ترازو میں برابر تلتے رہیں گے، کسی کے مرتبے اور جاہ و جلال کا لحاظ نہیں رکھا جائے، یعنی ایک ہی صف میں محمود و ایاز کھڑے ہوں گے، معرض التوا میں پڑے ہزاروں لاکھوں کیسز کے فیصلے جتنی جلد ہوں گے فریقین کا وقت، سرمایہ اور عمر عزیز کی باقی ماندہ سانسیں چین و سکون سے بسر ہوں گی۔
ڈویژن بینچ کے سربراہ جسٹس ثاقب نثار نے صائب کہا کہ ریاست کی ذمے داری ہے پنگھوڑے سے لے کر قبر تک اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے اور شہریوں کو حقوق کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا نہ کرے، بنیادی انسانی حقوق میں جینے کا حق بھی شامل ہے۔ سرکاری ملازمین کی پنشن کے حوالے سے معزز عدالت کے کمنٹس چشم کشا ہیں جس میں 1360 روپے ماہانہ پنشن ملنے کے حوالے سے جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ یہ ملازمین کی تضحیک کے مترادف ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آئیڈیل نظام تو اس طرح ہونا چاہیے کہ جس دن سرکاری ملازم ریٹائر ہو اس دن پنشن سمیت دیگر مراعات حوالے کرکے احتراماً رخصت کیا جائے، لیکن یہاں ریٹائرمنٹ کے بعد پنشنرز کا جو حال ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ دوسری جانب ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حکومتی اور بڑے سیاسی زعما جن پر اربوں کھربوں کرپشن کے الزامات ہیں وہ قانونی موشگافیوں اور تعلقات کا سہارا لے کر آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ بلوچستان کے ایک بڑے کرپشن سکینڈل کے ملزم سابق سیکریٹری خزانہ بلوچستان کی کرپشن کا واقعہ خاص تعجب خیز ہے۔
بلوچستان سیکریٹری خزانہ پر 2 ارب دس کروڑ کرپشن کا الزام تھا۔ اس قسم کے سنگین معاملات میں انصاف کے حقیقی تقاضوں کو پورا کرنا ہی اہم ٹاسک ہے۔ ملزمان کی سزا سے بریت کرپشن کے دیگر محرکین کی حوصلہ افزائی کا باعث ہرگز نہ بنے ، اس ضمن مین کرپشن کے خلاف شعور بیدار کرنے کی مہم ہر قیمت پر نتیجہ خیز ہونی چاہیے۔ صائب ہوگا کہ وہ اقدامات اٹھائے جائیں جن کے تناظر میں ہمہ اقسام کی کرپشن کے واقعات کی بیخ کنی اور ملزمان کی حوصلہ شکنی ہو۔ ملکی سیاست میں مہم جوئی، اشتعال اور کشمکش و اضطراب نے عوام کو انصاف کے اداروں سے بددل کیا ہے، عدلیہ کو اپنے وقار کی بحالی کے لیے سخت اور جرأت مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔
نامزد چیف جسٹس کے ریمارکس ملک کے عدالتی و معروضی حالات میں نہایت چشم کشا ہیں جن سے اس تاثر، تصور اور انداز نظر کے تبدیل ہونے کا اشارہ ملتا ہے جو ملکی عدالتوں کے سابقہ فیصلوں میں مدعیان مقدمات کے ضمن میں حاصل شدہ تجربات سے منسلک ہیں، بادی النظر میں چیف جسٹس نے اس آفاقی اصول کی اہمیت اجاگر کی ہے کہ عدلیہ کی نظر قانون کی نظر سے مقدمات کا فیصلہ کرتی ہے اور اس میں کسی قسم کی تخصیص، امتیاز، جھکاؤ یا ترجیح کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔
یوں بھی آزاد عدلیہ کا شعار شفاف اور قانونی بنیادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنانا ہوتا ہے، دنیا بھر میں اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو اس بات کا گہرا ادراک ہوتا ہے کہ ان کے فیصلوں کے بڑے دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں، لہٰذا ملکی سسٹم، معاشرتی اقدار اور حکمرانی کے بطن سے پیدا ہونے والے مختلف النوع تضادات، مسائل، سیاسی تنازعات، کرپشن، زیادتی اور سرکاری و نجی اداروں سے متعلق شکایات بھی اکثر مقدمات کی شکل میں عدلیہ کے روبرو آتی ہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ بعض اہم مقدمات کے فیصلوں کے اثرات و نتائج پر قانونی و آئینی ماہرین، میڈیا اور سیاست دانوں نے برسوں تبصرے بھی کیے۔
دوسری طرف ملکی نظام اور سماجی و معاشی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی سیاسی تاریخ میں عدلیہ کا ایک شاندار کردار رہا ہے، کئی ایسے فیصلے جاری ہوئے جس نے دیگر اہم ستونوں کی استقامت کا بھی حق ادا کیا، چنانچہ چیف جسٹس کے ارشادات کا تناظر وسیع اور فکر انگیز ہے، بالخصوص ان کا یہ کہنا قول فیصل ہے کہ یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ حکومت کے خلاف مقدمات میں فیصلے نہیں ہوتے، یوں عدل وانصاف کے سفر میں اہل وطن اب عدلیہ کے ایک نئے پیراڈائم کا مشاہدہ کرسکیں گے۔ تاریخ قوم کو سچ کی تلاش میں سیاسی اور سماجی اضطراب، التباس اور غیریقینی کے چنگل سے نکال کر شفاف انصاف اور فوری انصاف کی دہلیز تک لانے کے لیے بے تاب ہوگی۔
خدا کرے ایک طرف ملک میں سستا اور سچا انصاف پاناما لیکس پیپرز کی سماعتوں سے برآمد ہو، کرپشن کے حوالہ سے بہت سے کیسز ہیں، انتہائی ہائی پروفائل کیسز بھی ہیں جن میں بڑے بڑے نام آئے ہیں، یہی وہ کیسز ہیں جن کے فیصلوں پر عوامی تحفظات کا چیف جسٹس نے نہایت بلیغ اشارہ دیا ہے کہ کیسز قانون کے ترازو میں برابر تلتے رہیں گے، کسی کے مرتبے اور جاہ و جلال کا لحاظ نہیں رکھا جائے، یعنی ایک ہی صف میں محمود و ایاز کھڑے ہوں گے، معرض التوا میں پڑے ہزاروں لاکھوں کیسز کے فیصلے جتنی جلد ہوں گے فریقین کا وقت، سرمایہ اور عمر عزیز کی باقی ماندہ سانسیں چین و سکون سے بسر ہوں گی۔
ڈویژن بینچ کے سربراہ جسٹس ثاقب نثار نے صائب کہا کہ ریاست کی ذمے داری ہے پنگھوڑے سے لے کر قبر تک اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے اور شہریوں کو حقوق کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا نہ کرے، بنیادی انسانی حقوق میں جینے کا حق بھی شامل ہے۔ سرکاری ملازمین کی پنشن کے حوالے سے معزز عدالت کے کمنٹس چشم کشا ہیں جس میں 1360 روپے ماہانہ پنشن ملنے کے حوالے سے جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ یہ ملازمین کی تضحیک کے مترادف ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آئیڈیل نظام تو اس طرح ہونا چاہیے کہ جس دن سرکاری ملازم ریٹائر ہو اس دن پنشن سمیت دیگر مراعات حوالے کرکے احتراماً رخصت کیا جائے، لیکن یہاں ریٹائرمنٹ کے بعد پنشنرز کا جو حال ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ دوسری جانب ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حکومتی اور بڑے سیاسی زعما جن پر اربوں کھربوں کرپشن کے الزامات ہیں وہ قانونی موشگافیوں اور تعلقات کا سہارا لے کر آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ بلوچستان کے ایک بڑے کرپشن سکینڈل کے ملزم سابق سیکریٹری خزانہ بلوچستان کی کرپشن کا واقعہ خاص تعجب خیز ہے۔
بلوچستان سیکریٹری خزانہ پر 2 ارب دس کروڑ کرپشن کا الزام تھا۔ اس قسم کے سنگین معاملات میں انصاف کے حقیقی تقاضوں کو پورا کرنا ہی اہم ٹاسک ہے۔ ملزمان کی سزا سے بریت کرپشن کے دیگر محرکین کی حوصلہ افزائی کا باعث ہرگز نہ بنے ، اس ضمن مین کرپشن کے خلاف شعور بیدار کرنے کی مہم ہر قیمت پر نتیجہ خیز ہونی چاہیے۔ صائب ہوگا کہ وہ اقدامات اٹھائے جائیں جن کے تناظر میں ہمہ اقسام کی کرپشن کے واقعات کی بیخ کنی اور ملزمان کی حوصلہ شکنی ہو۔ ملکی سیاست میں مہم جوئی، اشتعال اور کشمکش و اضطراب نے عوام کو انصاف کے اداروں سے بددل کیا ہے، عدلیہ کو اپنے وقار کی بحالی کے لیے سخت اور جرأت مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔