روبرو

حکیم صاحب کا ذہن صاف اور ان کی سوچ واضح تھی وہ آزادیٔ خیال اور آزادی اظہار دونوں کے قائل تھے

ایک محفل میں حکیم محمد سعید کو صحافیوں نے گھیر لیا۔ ایک صاحب بولے: حکیم صاحب یوں تو آپ ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ کی کتاب زندگی کا کوئی ورق ایسا ہو جو دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رہ گیا ہے۔

حکیم صاحب مسکرائے اور کہنے لگے: بھئی میں نے تو سب کچھ لکھ دیا ہے۔ اپنی اچھائیاں اور برائیاں سب عیاں کر دی ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کچھ چھپا رہ گیا ہے تو آپ سوال کیجیے، میں جواب دوں گا۔

حکیم محمد سعید ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ لوگ ان سے محبت کرتے تھے ان کے بارے میں جاننا چاہتے تھے، وہ کیا کھاتے ہیں، کب سوتے ہیں، وقت کو انھوں نے کس طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، ان کا مقصد حیات کیا ہے، ملک کو درپیش مسائل کا کیا حل ان کے پاس ہے، وہ عملی سیاست میں حصہ کیوں نہیں لیتے۔ ایسے بہت سے سوال تھے جن کا جواب لوگ چاہتے تھے۔

حکیم صاحب کا ذہن صاف اور ان کی سوچ واضح تھی وہ آزادیٔ خیال اور آزادی اظہار دونوں کے قائل تھے۔ چنانچہ اخبارات و جرائد کو انھوں نے جو انٹرویو دیے ان میں ہر سوال کا جواب چاہے وہ ان کی نجی زندگی سے متعلق ہو، علمی اور طبی کاوشوں سے ہو یا قومی مسائل سے، کھل کر دیا۔ ان انٹرویوز سے ان کے افکار و خیالات کی عکاسی ہوتی ہے اور ان کی شخصیت کے جوہر نمایاں ہوتے ہیں جو کردار کی بلندی، مقصد کی لگن اور اپنے وطن سے محبت سے عبارت ہے۔

''رُو برُو'' حکیم محمد سعید کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ہے۔ ایک انٹرویو ان کا نعیم بخاری نے ٹیلی ویژن کے لیے لیا تھا۔ اس انٹرویو میں چند ممتاز شخصیتیں بھی شریک تھیں۔ ان میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انوارالحق، پاکستان ٹائم کے سابق مدیر، صحافی اور ادیب محمد سعید، ماہر اقبالیات پروفیسر عثمان، لاہور ہائی کورٹ کے جج ڈاکٹر منیر احمد، ڈاکٹر بقائی اور ڈاکٹر ایم اے صوفی شامل تھے۔

نعیم بخاری نے سوال کیا، حکیم صاحب! آپ کا فلسفہ زندگی کیا ہے؟ حکیم صاحب نے جواب دیا، خدمت، اس کے سوا اور کوئی فلسفہ نہیں، انسان کو پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے۔

نعیم بخاری نے پوچھا یہ جو آپ سفید شیروانی، سفید پاجامہ اور سفید جوتے پہنے رہتے ہیں اور برسوں سے پہن رہے ہیں تو کیا اس کے پیچھے کوئی راز ہے؟حکیم صاحب نے جواب دیا ''یہ رنگ میں نے اس لیے پسند کیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ رنگ پسند تھا، اس میں تقدس ہے، پاکیزگی ہے، صفائی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں، پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہے؟ حکیم محمد سعید نے کہا ''اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے ہمیں پاکستان کے نظام تعلیم پر غور کرنا ہو گا، نصاب تعلیم پر نظر ڈالنا ہو گی، پاکستان میں جتنے بھی ماہرین تعلیم ہیں وہ اس پر متفق ہیں کہ ہم نے اپنے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں لوگوں کو پاکستان سے محبت کرنے کا کوئی درس دیا ہی نہیں، ہم تعلیم کے معاملے میں قومی آرزوؤں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں''۔


ایک جریدے کو دیے گئے انٹرویو میں حکیم صاحب نے طب کے پیشے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا ''طب ایک فن ہے، میری رائے میں اسے پیشہ قرار دینے میں احتیاط کا دامن پکڑنا چاہیے۔ جب تک یہ فن ہے انسان ہر قسم کے مادی فوائد سے بالا رہتا ہے لیکن جب طب پیشہ بن جاتی ہے تو مادی عمل جاری ہو جاتا ہے اور زر اندوزی لازماً در آتی ہے۔ طب عصری کی جدید دواؤں کی بنیاد بدقسمتی سے فن نہیں رہی بلکہ پیشہ بن گئی۔ انسانی وجود مادی قرار پایا تو روحانیت ختم ہو گئی، دوا سازی کا مقصد اور علاج کا مطمع نظر جب جراثیم کشی قرار پائی تو جہاں امراض پیدا کرنے والے جراثیم مرے وہاں صحت بخش جراثیم بھی ختم ہو گئے''۔

اسی انٹرویو میں ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کی سب سے بڑی آرزو کیا ہے؟ حکیم محمد سعید نے جواب دیا ''میرا اب سب سے اہم مقصد زندگی شہر علم بسانا ہے۔ مدینۃ الحکمت کو علم و ہنر سے آباد کرنا ہے، یہ کام میری بقیہ زندگی میں اولیت کا مقام حاصل کرتا رہے گا میں ہمدرد یونیورسٹی پوری عظمتوں کے ساتھ بناکر دم لوںگا''۔

حکیم صاحب کی یہ آرزو جو اس انٹرویو کے وقت ایک خواب تھی، پوری ہوکر رہی اور وہ خواب ایک حقیقت بن گیا۔

تعلیم کی اہمیت کے بارے میں ایک سوال پر حکیم صاحب نے کہا ''ہم نے پاکستان سے محبت ہی نہ کی اور طالب علم ہماری محبت سے محروم رہا۔ اگر محبت ہوتی اور فہم و فراست کا قحط نہ ہوتا تو لازماً تعلیم ہمارا ہدف اول ہوتی۔ اس حقیقت کو کون نہیں جانتا کہ قوموں کے عروج و زوال کا تعلق علم و حکمت کے پیمانے سے ہوا کرتا ہے۔ جاہل قوم کبھی سربلند نہیں ہو سکتی۔ علم یافتہ قوم ہمیشہ سرفراز ہواکرتی ہے۔ پاکستان کے سیاست دانوں اور صاحبانِ اقتدار کے بارے میں شبہ کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے دوست ہیں۔

اگر وہ دوست ہوتے تو پاکستان میں تعلیم کو اولیت حاصل ہوتی'' اپنی شہادت سے ایک مہینہ پہلے اسی موضوع پر پنجاب یونیورسٹی کی طالبات کے اس سوال پر کہ پاکستان میں ''ایجوکیشن فار آل'' کا جواب پورا کرنے کے لیے کیا قدم اٹھائے جائیں، حکیم محمد سعید نے کہا موجودہ سیاست دانوں کو خارج از سیاست کیا جائے، پارلیمان اور اسمبلیوں سے جاگیرداروں، زمینداروں کو نکالا جائے، ایک صالح قیادت کو ملک سونپا جائے جس کی اولیت تعلیم ہو اور وہ بیت المال اور زکوٰۃ کا خرچ دیانت سے کرے، اقرأ ٹیکس تعلیم پر خرچ کرے، دولت مندوں سے اسکول قائم کرائے''۔

حکیم صاحب سے ان کی نجی زندگی کے بارے میں بھی بہت سوال کیے گئے، ایک سوال یہ تھا کہ آپ کا رجحان حکمت کی طرف کیوں تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا بھئی بات یہ ہے کہ ہم تو صحافی بننا چاہتے تھے۔ ہمارے سامنے تین مثالیں تھیں جن سے ہمارا گہرا تعلق تھا۔ خواجہ حسن نظامی، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا محمد علی جوہر ، ان تینوں صحافیوں کی بلندی تک میں پہنچنا چاہتا تھا مگر خاندان کا مسئلہ تھا طب، یہ ہمارا آبائی فن تھا اسے چھوڑا نہیں جا سکتا تھا، میرے بڑے بھائی نے جب مجھے اس طرف توجہ دلائی تو میں نے صحافت کا خیال چھوڑ دیا۔

اس سوال پر کہ آپ کا پسندیدہ شاعر کون ہے۔ حکیم محمد سعید نے کہا میں اس معاملے میں بدذوق ہوں مجھے ایک شعر بھی یاد نہیں ہو سکا مگر میں فیض کے کلام کی داد دیتا رہا ہوں، غالب کا اس لیے رسیا ہوں کہ وہ جہاں محو خواب ہیں وہ میری زمین ہے، مومن خاں کا کلام اس لیے پسند ہے کہ وہ حکیم تھے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کیسے لوگ پسند ہیں تو انھوں نے کہا ''مسکراتے لوگ۔ مسکراہٹ جب ہی آتی ہے جب دل نغمہ سرا ہوتا ہے، ضمیر روشن ہوتا ہے تو چہرے پر مسکراہٹوں کا نور آ جاتا ہے''۔
Load Next Story