کوڑاچی کے کوڑے کا کیا کریں
کوڑاچی میں اتنا کوڑا کیسے پیدا ہوتا ہے
ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے چلنے والی قوموں کے لوگوں کی بہت سی نشانیوں میں سے ایک نشانی ان لوگوں کا سطحی انداز فکر بھی ہوتا ہے۔ یہ لوگ سطحی نعروں اور قیمہ بھرے نانوں پہ بھنگڑے ڈالتے، ہو جمالو کرتے اپنے حکمران منتخب کرتے ہیں۔ یہ سطحی علم اور معلومات کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے گریبان پکڑتے ہیں اور اپنی لاعلمی اور غلطی کا اعتراف کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ سطحی انداز فکر اور سوچ کے ساتھ مسائل کے حل تلاش کرتے ہیں۔
آپ دنیا بھر کے پانچ سب سے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک (ریفرنس: ورلڈ اکنامک فورم 2015ء) اور دنیا بھر کے چھٹے بدترین ناقابل رہائش شہر (ریفرنس: دا اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ 2016ء) کوڑاچی (سابقہ کراچی) شہر کے کوڑے کے مسئلے پر صوبائی حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محترم عہدیداروں کے گراں قدر بیانات کا جائزہ لیں یا اردو زبان کے تمام الفاظ کو زیر اور پیش کے بغیر زبر کے ساتھ بولنے اور مذکر الفاظ کو مونث اور مونث کو مذکر ادا کرنے والے معزز اینکر خواتین و حضرات کے بصیرت انگیز ٹاک شو ملاحظہ کریں، آپ کو شاید یہ دیکھ کر حیرت ہو کہ اس ساری بحث میں مسئلے سے متعلق بنیادی سوالات کوئی نہیں اٹھاتا۔ یہ چار بنیادی نکات ہیں۔
(1) کوڑاچی میں اتنا کوڑا کیسے پیدا ہوتا ہے، یعنی وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے ہر روز اتنا کوڑا پیدا ہوتا ہے؟
(2) اگر کوڑاچی کے ہر گھر پر تجارتی، صنعتی، تعلیمی، طبی، رفاہی یونٹ کا کوڑا ہر روز ان کے دروازے پر سے اٹھا بھی لیا جائے تو بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، کیونکہ آخر اتنا کوڑا آپ کہاں ڈمپ کریںگے، کتنی زمین کھود کھود کر اس کوڑے کو دفن کرکے زیر زمین آلودگی پیدا کریں گے، جو مٹی کے ساتھ پانی کو بھی زہر آلود کردیتی ہے اور اگر اس کوڑے کو جلائیں گے، چاہے شہر سے کتنی ہی دور جلائیں، نہ صرف شہر تک کثیف آلودگی مسلسل پہنچے گی بلکہ شہر کا گرم موسم مزید گرم ہوگا؟
(3) کوڑاچی کا صرف کوڑا ہی کوڑا نہیں بلکہ ہر روز اس کے سمندر میں گرنے والا ہزاروں ٹن فضلہ اور آلودہ پانی بھی کوڑے کی ہی ایک بدترین قسم ہے جو کوڑاچی کے سمندر کو بھی کوڑا بنا رہی ہے، تو پھر اس مسئلے کا کیا حل ہے؟
(4) کراچی کے سابقہ ناظمین شہر کے دور میں بڑے پیمانے پر شہر سے کوڑا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے لیے ٹرک، دوسری گاڑیاں اور مشینری وغیرہ خریدی گئی، جن سے شہر سے روزانہ کوڑا اٹھانے کا ایک اچھا نظام شروع ہو چکا تھا، تاہم 2010ء کے بعد یہ گاڑیاں اور مشینری وغیرہ زیادہ تر منظرعام سے غائب ہوگئی، جنھیں پھر کئی ٹی وی رپورٹس میں دکھایا گیا کہ مرمت اور دیکھ بھال سے محرومی اور عدم استعمال کی وجہ سے یہ کھڑے کھڑے اسکریپ ہو گئے اور کراچی کوڑاچی بن گیا، تو اس کا ذمے دار کون ہے؟ جب صوبائی حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تقریباً تمام وسائل اور اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں تو پھر ان تمام گاڑیوں اور مشینری کو اچھی حالت اور زیر استعمال رکھنا بھی اسی کی ذمے داری تھی۔ یہ ذمے داری کیوں نہیں پوری کی گئی؟
آپ ان چار بنیادی نکات کے جوابات تلاش کر لیں آپ کو کوڑاچی کے کوڑے کا حل سمجھ میں آجائے گا، تاہم اس کے لیے آپ کو سطحی سوچ سے ذرا پرے کچھ گہرائی میں جاکر سوچنا ہوگا۔
مثلاً (1) آپ نے اگر کبھی غور کیا ہو تو جابجا کوڑے کے ڈھیروں، ابلتے گٹروں اور بند نالوں میں آپ کو ہر طرف پلاسٹک کی تھیلیاں ہی تھیلیاں نظر آئیںگی۔ زیادہ تر شہری کوڑا ان پلاسٹک کی تھیلیوں پر مشتمل ہے، جو ہر روز صرف اسی شہر میں ہی کروڑوں کی تعداد میں پھینکی جاتی ہیں۔ معاشرے میں پھلتی پھولتی جہالت کے پیش نظر یہ توقع رکھنا کہ شہری اور دکاندار خود سے کچھ احساس کرتے ہوئے ان کا استعمال بند یا کم کر دیںگے سو فیصد حماقت ہو گی اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی قانون سے کچھ ہو گا کیونکہ ہمارے ہاں قانون بنائے ہی توڑنے کے لیے جاتے ہیں۔ البتہ بے اختیار بلدیہ عظمیٰ مختلف کمپنیوں اور نجی اداروں کے ساتھ مل کر روزمرہ کا گھریلو سودا سلف لانے کے لیے کپڑے کے تھیلے جن کی ایک طرف متعلقہ کمپنی یا ادارے کے برینڈنگ ہو اور دوسری طرف پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال کرنے کے نقصانات درج ہوں، جیسے سگریٹ کے ہوتے ہیں، شہریوں میں مفت تقسیم کرنے کے علاوہ ان کمپنیوں اور اداروں کے ساتھ مل کر اس ضمن میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر آگہی مہم بھی چلاسکتی ہے اور اگر صوبائی حکومت بھی اس سلسلے میں کمال مہربانی سے کوڑاچی کی نمایندہ بلدیہ عظمیٰ کو کچھ بھیک دے دے تو کیا ہی خوش قسمتی کی بات ہو۔
(2) کوڑاچی کے کوڑے کو ڈسپوز آف کرنے یعنی بحفاظت ٹھکانے لگانے کے لیے دو نظام قائم کرنے ہوںگے۔ ایک ری سائیکل کرنے کے قابل کوڑے کو ری سائیکل کرنے اور دوسرا کوڑے سے توانائی پیدا کرنے کا۔ نہ صرف کوڑے بلکہ انسانی اور حیوانی فضلے سے بائیو گیس پیدا کرنے کا نظام بھی درکار ہے۔ تاہم اس سلسلے میں کوڑاچی شہر کی سول سوسائٹی کو ماحولیات اور گرین انرجی کے ماہرین اور ملکی اور بین الاقوامی ماحولیاتی تنظیموں اور ماہرین کے ساتھ مل کر ایک شہری پینل بنانا ہو گا جو یہ نظر رکھے کہ کہیں شہر میں کوڑے سے توانائی پیدا کرنے والے ایسے کارخانے نہ لگ جائیں جن میں کرپشن اور کمیشن کے عوض پرانی متروک یا سستی مشینری یا ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی ہو، جس سے کوڑاچی شہر کوڑے کی آلودگی سے پیچھا چھڑائے تو فضائی آلودگی کا شکار ہوجائے۔ ایسے کوڑے سے توانائی پیدا کرنے والے کارخانوں کے لیے جدید ماحول دوست ٹیکنالوجی کا ہونا لازمی ہے۔
(3) سمندر میں گرنے والے فضلے اور پانی کو فلٹر کرنے کے لیے بھی ایک مکمل نظام بنانا ہوگا جس کے لیے بلدیہ عظمیٰ وفاقی حکومت سے دست بستہ درخواست کرسکتی ہے۔
(4) صوبائی حکومت کے کنٹرول کے دوران ضایع، ناکارہ اور تباہ ہونے والی شہری حکومت کی گاڑیوں اور مشینریوں کو صوبائی حکومت کو بحال یا بدل کر نئی خریدکر بلدیہ عظمیٰ کے حوالے کرنی چاہئیں اور اس ضمن میں بلدیہ عظمیٰ کو صوبائی حکومت سے رحم کی درخواست کرنی چاہیے۔ ان چار نکات کے چار جوابات پر عمل ہوجائے تو کوڑاچی کے کوڑے کا مسئلہ حل ہوجائے، کوڑاچی پھر شاید کچھ کراچی بن جائے مگر عمل کون کرے؟
وفاقی وزارت داخلہ سے شہریوں کی درخواست: اگر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لیے نادرا شام 5 سے 9 بجے تک کی ایوننگ شفٹ بھی شروع کردے تو دن بھر روزگار میں مصروف عام فانی انسانوں کے لیے آسانی پیدا ہوجائے گی، ساتھ ہی ایوننگ شفٹ میں نئے لوگوں کو روزگار بھی مل سکے گا۔
آپ دنیا بھر کے پانچ سب سے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک (ریفرنس: ورلڈ اکنامک فورم 2015ء) اور دنیا بھر کے چھٹے بدترین ناقابل رہائش شہر (ریفرنس: دا اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ 2016ء) کوڑاچی (سابقہ کراچی) شہر کے کوڑے کے مسئلے پر صوبائی حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محترم عہدیداروں کے گراں قدر بیانات کا جائزہ لیں یا اردو زبان کے تمام الفاظ کو زیر اور پیش کے بغیر زبر کے ساتھ بولنے اور مذکر الفاظ کو مونث اور مونث کو مذکر ادا کرنے والے معزز اینکر خواتین و حضرات کے بصیرت انگیز ٹاک شو ملاحظہ کریں، آپ کو شاید یہ دیکھ کر حیرت ہو کہ اس ساری بحث میں مسئلے سے متعلق بنیادی سوالات کوئی نہیں اٹھاتا۔ یہ چار بنیادی نکات ہیں۔
(1) کوڑاچی میں اتنا کوڑا کیسے پیدا ہوتا ہے، یعنی وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے ہر روز اتنا کوڑا پیدا ہوتا ہے؟
(2) اگر کوڑاچی کے ہر گھر پر تجارتی، صنعتی، تعلیمی، طبی، رفاہی یونٹ کا کوڑا ہر روز ان کے دروازے پر سے اٹھا بھی لیا جائے تو بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، کیونکہ آخر اتنا کوڑا آپ کہاں ڈمپ کریںگے، کتنی زمین کھود کھود کر اس کوڑے کو دفن کرکے زیر زمین آلودگی پیدا کریں گے، جو مٹی کے ساتھ پانی کو بھی زہر آلود کردیتی ہے اور اگر اس کوڑے کو جلائیں گے، چاہے شہر سے کتنی ہی دور جلائیں، نہ صرف شہر تک کثیف آلودگی مسلسل پہنچے گی بلکہ شہر کا گرم موسم مزید گرم ہوگا؟
(3) کوڑاچی کا صرف کوڑا ہی کوڑا نہیں بلکہ ہر روز اس کے سمندر میں گرنے والا ہزاروں ٹن فضلہ اور آلودہ پانی بھی کوڑے کی ہی ایک بدترین قسم ہے جو کوڑاچی کے سمندر کو بھی کوڑا بنا رہی ہے، تو پھر اس مسئلے کا کیا حل ہے؟
(4) کراچی کے سابقہ ناظمین شہر کے دور میں بڑے پیمانے پر شہر سے کوڑا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے لیے ٹرک، دوسری گاڑیاں اور مشینری وغیرہ خریدی گئی، جن سے شہر سے روزانہ کوڑا اٹھانے کا ایک اچھا نظام شروع ہو چکا تھا، تاہم 2010ء کے بعد یہ گاڑیاں اور مشینری وغیرہ زیادہ تر منظرعام سے غائب ہوگئی، جنھیں پھر کئی ٹی وی رپورٹس میں دکھایا گیا کہ مرمت اور دیکھ بھال سے محرومی اور عدم استعمال کی وجہ سے یہ کھڑے کھڑے اسکریپ ہو گئے اور کراچی کوڑاچی بن گیا، تو اس کا ذمے دار کون ہے؟ جب صوبائی حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تقریباً تمام وسائل اور اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں تو پھر ان تمام گاڑیوں اور مشینری کو اچھی حالت اور زیر استعمال رکھنا بھی اسی کی ذمے داری تھی۔ یہ ذمے داری کیوں نہیں پوری کی گئی؟
آپ ان چار بنیادی نکات کے جوابات تلاش کر لیں آپ کو کوڑاچی کے کوڑے کا حل سمجھ میں آجائے گا، تاہم اس کے لیے آپ کو سطحی سوچ سے ذرا پرے کچھ گہرائی میں جاکر سوچنا ہوگا۔
مثلاً (1) آپ نے اگر کبھی غور کیا ہو تو جابجا کوڑے کے ڈھیروں، ابلتے گٹروں اور بند نالوں میں آپ کو ہر طرف پلاسٹک کی تھیلیاں ہی تھیلیاں نظر آئیںگی۔ زیادہ تر شہری کوڑا ان پلاسٹک کی تھیلیوں پر مشتمل ہے، جو ہر روز صرف اسی شہر میں ہی کروڑوں کی تعداد میں پھینکی جاتی ہیں۔ معاشرے میں پھلتی پھولتی جہالت کے پیش نظر یہ توقع رکھنا کہ شہری اور دکاندار خود سے کچھ احساس کرتے ہوئے ان کا استعمال بند یا کم کر دیںگے سو فیصد حماقت ہو گی اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی قانون سے کچھ ہو گا کیونکہ ہمارے ہاں قانون بنائے ہی توڑنے کے لیے جاتے ہیں۔ البتہ بے اختیار بلدیہ عظمیٰ مختلف کمپنیوں اور نجی اداروں کے ساتھ مل کر روزمرہ کا گھریلو سودا سلف لانے کے لیے کپڑے کے تھیلے جن کی ایک طرف متعلقہ کمپنی یا ادارے کے برینڈنگ ہو اور دوسری طرف پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال کرنے کے نقصانات درج ہوں، جیسے سگریٹ کے ہوتے ہیں، شہریوں میں مفت تقسیم کرنے کے علاوہ ان کمپنیوں اور اداروں کے ساتھ مل کر اس ضمن میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر آگہی مہم بھی چلاسکتی ہے اور اگر صوبائی حکومت بھی اس سلسلے میں کمال مہربانی سے کوڑاچی کی نمایندہ بلدیہ عظمیٰ کو کچھ بھیک دے دے تو کیا ہی خوش قسمتی کی بات ہو۔
(2) کوڑاچی کے کوڑے کو ڈسپوز آف کرنے یعنی بحفاظت ٹھکانے لگانے کے لیے دو نظام قائم کرنے ہوںگے۔ ایک ری سائیکل کرنے کے قابل کوڑے کو ری سائیکل کرنے اور دوسرا کوڑے سے توانائی پیدا کرنے کا۔ نہ صرف کوڑے بلکہ انسانی اور حیوانی فضلے سے بائیو گیس پیدا کرنے کا نظام بھی درکار ہے۔ تاہم اس سلسلے میں کوڑاچی شہر کی سول سوسائٹی کو ماحولیات اور گرین انرجی کے ماہرین اور ملکی اور بین الاقوامی ماحولیاتی تنظیموں اور ماہرین کے ساتھ مل کر ایک شہری پینل بنانا ہو گا جو یہ نظر رکھے کہ کہیں شہر میں کوڑے سے توانائی پیدا کرنے والے ایسے کارخانے نہ لگ جائیں جن میں کرپشن اور کمیشن کے عوض پرانی متروک یا سستی مشینری یا ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی ہو، جس سے کوڑاچی شہر کوڑے کی آلودگی سے پیچھا چھڑائے تو فضائی آلودگی کا شکار ہوجائے۔ ایسے کوڑے سے توانائی پیدا کرنے والے کارخانوں کے لیے جدید ماحول دوست ٹیکنالوجی کا ہونا لازمی ہے۔
(3) سمندر میں گرنے والے فضلے اور پانی کو فلٹر کرنے کے لیے بھی ایک مکمل نظام بنانا ہوگا جس کے لیے بلدیہ عظمیٰ وفاقی حکومت سے دست بستہ درخواست کرسکتی ہے۔
(4) صوبائی حکومت کے کنٹرول کے دوران ضایع، ناکارہ اور تباہ ہونے والی شہری حکومت کی گاڑیوں اور مشینریوں کو صوبائی حکومت کو بحال یا بدل کر نئی خریدکر بلدیہ عظمیٰ کے حوالے کرنی چاہئیں اور اس ضمن میں بلدیہ عظمیٰ کو صوبائی حکومت سے رحم کی درخواست کرنی چاہیے۔ ان چار نکات کے چار جوابات پر عمل ہوجائے تو کوڑاچی کے کوڑے کا مسئلہ حل ہوجائے، کوڑاچی پھر شاید کچھ کراچی بن جائے مگر عمل کون کرے؟
وفاقی وزارت داخلہ سے شہریوں کی درخواست: اگر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لیے نادرا شام 5 سے 9 بجے تک کی ایوننگ شفٹ بھی شروع کردے تو دن بھر روزگار میں مصروف عام فانی انسانوں کے لیے آسانی پیدا ہوجائے گی، ساتھ ہی ایوننگ شفٹ میں نئے لوگوں کو روزگار بھی مل سکے گا۔