وحدتِ ملت

اسلام کا کسی خاندان، ذات، قبیلہ یا نسل سے کوئی واسطہ اور رابطہ نہیں،

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

اسلام کا کسی خاندان، ذات، قبیلہ یا نسل سے کوئی واسطہ اور رابطہ نہیں، وہ تو ایک اصول، نظریہ اور نظامِ حیات کا نام ہے۔ ہر وہ فرد جو اﷲ کو اپنا رب ، محمدؐ کو اپنا رسول اور اسلام کو اپنا دین تسلیم کرنے پر راضی اور مطمئن ہوجائے۔ وہ مسلم کہلانے میں حق بجانب ہوتا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی نسل، رنگ، زبان یا خطہ زمین سے ہو۔

اس طرح اسلام نے رنگ، نسل، زبان، وطن، معیشت اور سیاست کی بنیادوں پر قومیت کی تعمیر کی بجائے خالص روحانی، جوہری اور نظریاتی بنیادوں کی نئی سمت اور نئی نہج پر قومیت کی تعمیر و تشکیل کی اور اسے جداگانہ تشخص دینے کے لیے ملت کے منفرد اور امتیازی نام سے تعبیر کیا اور عشق بتاں کو نہیں، عشق یزداں کو قومیت کی اصل قرار دیا۔

مسلمانوں کی قومیت نظریاتی ہے، جس کا سرچشمہ لا الٰہ الا اﷲ ہے۔ وہ مغرب کے تصورِ قومیت سے کیفیت، کمیت اور خصوصیت ہر لحاظ سے منفرد اور جدا ہے۔ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے نظریہ کو قومیت کی اساس قرار دے کر روئے زمین کے تمام خطوں میں بکھری ہوئی نوع انسانی کی بے شمار نسلوں اور قوموں کو مجتمع کرکے وحدت کی لڑی میں پروکر ایک امت بنادیا۔ اس نے قومیت کے پیرہن کو مذہب کے تانے بانے سے تیار کیا۔

وحدت نسل انسانی کا تصور اسلام کی روح رواں، جوہر اصلی اور نافۂ مُشک ہے، اسلام انسان کو علم و آگہی عطا کرتا ہے کہ تمام انسانوں کی اصل اور نسل ایک ہے۔ وہ ایک دوسرے کا خون اور گوشت و پوست ہیں۔ کیوںکہ وہ پہلا انسان جس نے دھرتی کی پیشانی پر قدم رکھا آدمؑ تھے، تمام انسانوں کا شجرہ انھی سے چلا ہے۔ ایک ہی ماں باپ کی سب اولاد ہیں، اس لیے تمام انسان صاحبِ عزو شرف ہیں۔ شرافت اور کرامت ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔ نجیب الطرفین ہونے کی وجہ سے اسلام میں سب انسان قابل صد احترام ہیں۔

تاریخ اسلام کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں فرزند توحید کا تصور ہے لیکن فرزند زمین کے تصور کا کوئی وجود نہیں، اصل چیز نسل، زبان، قوم اور وطن نہیں دین و ایمان ہے جو ہر چیز سے برتر اور عزیز تر ہے۔ جس پر دنیا کی ہر چیز کو قربان کیا جاسکتا ہے لیکن اسے دنیا کی کسی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔

رسولِ خداؐ نے مکہ سے ہجرت اور مدینہ میں سکونت اختیار کرکے اور وہاں ابدی آرام فرماکر وطنی قومیت کی جڑیں کاٹ دیں۔ اگر اسلام کا تصورِ قومیت مادی، حسی اور ارضی نوعیت کا ہوتا تو بلالِ حبشیؓ، سلمان فارسیؓ اور صہیب رومیؓ کسی حال میں بھی اسلام کے گھر میں داخل ہوکر ملت اسلامیہ کی رکنیت اختیار نہیں کرسکتے تھے۔ اگر رنگ، نسل، زبان یا وطن میں سے کسی کو بھی قومیت کی تشکیل کا بنیادی عامل تصور کرلیا جائے تو اس سے دین اسلام کی بنیادیں ہل جاتی ہیں، کلمہ طیبہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔

ہمارا تعلق لا الٰہ الا اﷲ سے تو رہ سکتا ہے جو زمان و مکان کی قیود سے بالاتر ہے لیکن محمد رسول اﷲؐ سے نسبت نہیں رہ سکتی، کیونکہ آپؐ کی نسل اور زبان ہم سے مختلف ہے۔ آپؐ کا وطن ہم سے کوسوں میل دور ہے، لیکن اس کے باوجود آج لاکھوں فرزندان توحید شمع رسالتؐ کے جاں نثار پروانے ہیں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اسلام میں قومیت کی بنیاد لونی، نسلی، لسانی، قومی اور وطنی نہیں بلکہ روحانی، جوہری، اخلاقی، اصولی اور نظریاتی بنیادوں کی ترکیب خاص پر ہے۔

رسولؐ خدا نے اختلاف رنگ و نسل مٹاکر تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنادیا اور اخوت ومحبت کا ایسا اٹوٹ انگ اور مضبوط رشتہ قائم فرمادیا جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ دین کا رشتہ تمام مسلمانوں کو ایک وحدت میں جوڑ دیتا ہے اور ان کی ایک عالمگیر برادری قائم کرتا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے لیے ہمدرد، غم گسار، جانثار اور جذبہ ایثار سے سرشار ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ریشم کی طرح نرم ہوتے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے اخوت کے مفہوم، تقاضوں اور مطالبوں پر تفصیلی روشنی ڈالی تاکہ مسلمان اس کی روح کو باآسانی سمجھ سکیں اور اپنی فکری سمت کو درست رکھ سکیں۔ اخوت سے متعلق آپؐ کے چند ارشادات مندرجہ ذیل ہیں۔

(1) مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے۔

(2) ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت حرام ہے۔


(3) مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اس کی تذلیل نہیں کرتا، ایک آدمی کے لیے یہی شر کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔

(4) اہل ایمان کے ساتھ ایک مومن کا تعلق ویسا ہی ہے جیسا کہ سر کے ساتھ جسم کا تعلق ہے۔ وہ اہل ایمان کی ہر تکلیف کو اسی طرح محسوس کرتا ہے، جس طرح سر جسم کے ہر حصے کا درد محسوس کرتا ہے۔

(5) مومنوں کی مثال آپس کی محبت، وابستگی اور ایک دوسرے پر رحم و کرم کے معاملے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کی حالت ہوتی ہے کہ اس کے کسی عضو کو بھی تکلیف ہو تو سارا جسم اس پر نجار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

(6) مومن ایک دوسرے کے لیے ایک دیوار کی اینٹوں کی طرح ہوتے ہیں کہ ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے۔

وحدت کو کثرت میں بدلنے والوں سے اور نسلی، لسانی، قومی اور وطنی امتیازات کی دیواروں کو انسانوں کے درمیان کھڑی کرنے والوں سے رب الناس ملک الناس اور الٰہ الناس کو سخت نفرت ہے کیونکہ اس میں اس کی عیال کی تباہی اور بربادی کے مہلک اثرات پنہاں ہیں۔

دین اسلام، اہل ایمان کے دلوں میں یہ زندہ جذبہ اور احساس پیدا کرتا ہے کہ دین کے مقدس ترین رشتے کی بنا پر وہ سب ایک ہیں۔ وحدتِ کائنات، وحدت الٰہ، وحدت انسان کی طرح وحدت مسلمان ایک اٹل حقیقت ہے اور امت مسلمہ کی قوت، عظمت اور شان و شوکت کا راز جذب باہم اور ہم آہنگ رہنے میں مضمر ہے جسم وحدت کی صحت کے لیے پرہیز اور علاج کا خیال رکھنا ہر مسلمان کا اس کی قوت اور استطاعت کے مطابق ایک دینی فریضہ ہے، وحدت مسلمان کا منکر گویا وحدت الٰہ کا منکر ہے، غیر شعوری طور پر ضرب لگانے والا اسلام کا دانا دشمن ہے اور دونوں ہی اﷲ کو سخت ناپسندیدہ ہیں اﷲ کو تو وہ پسندیدہ ہے جو اس کی قوت کو بحال، برقرار اور اضافہ کرنے میں کوشاں رہے وحدت اسلام کی فطرت مختاری، بلندی اور برتری ہے اور کثرت کی فطرت کمزوری، پستی اور مجبوری ہے، اس لیے دین اسلام نے وحدت کا دامن مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ہے اور کثرت میں تقسیم ہونے سے سخت منع فرمایا ہے۔ فرمان رسول ؐ ہے:

''میں تمہیں بتاؤں کہ روزے اور خیرات اور نماز سے بھی افضل کیا چیز ہے؟ وہ ہے بگاڑ میں صلح کرانا اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں فساد ڈالنا وہ فعل ہے جو آدمی کی ساری نیکیوں پر پانی پھیر دیتا ہے''۔

جو افراد شیطانی چکر، نفسانی خواہشات اور دشمنان اسلام کے مصاحب کے دام سے تادم مرگ بچے رہتے ہیں وحدت کی زبان اور اخوت کا بیان کر ملت میں گم رہتے ہیں ان کو موت آتی ہے تو اس حال میں کہ وہ سچے مومن ہوتے ہیں ان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

''یہ چیز بڑے نصیب والے کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی'' (حٰم السجدہ آیت 35)،

اگر کوئی مردِ مومن، مردِ حق، اﷲ کی رضا اور خوشنودی خریدنے کے لیے ایمان اور اخلاص کے ساتھ وحدت ملت کے قیام، بقا اور استحکام کے لیے کام کرے اور اﷲ رب العزت اس کی محنت، لگن اور خلوص کو شرف قبولیت عطا فرمادے تو: ''یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے... یہ بڑے نصیب کی بات ہے''

بہارِ وحدت اسلام کو خزاں میں بدلنے والے اپنی ذمے داری کے بارے میں رب کعبہ کے حضور حاضری کے وقت کیا جواب دیںگے؟
Load Next Story