2سال بعد بھی سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی نہ ہوسکی سماجی رہنما
ہزاروںمتاثرہ افرادکراچی آگئے،متاثرین زمینداروں کے پاس واپس جانا نہیں چاہتے
ISLAMABAD:
2010 کے تباہ کن سیلاب کے دوسال مکمل ہونے پرسول سوسائٹی کی نمائندہ تنظیموں پر مشتمل عوامی کمیشن نے متاثرین کی بحالی کے کام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست متا ثرین کی فلاح وبہبود کے لیے سنجیدگی سے کام کرے.
2سال بعد بھی سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی نہ ہوسکی،ان خیالات کا اظہار ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی،پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ ( پائلر ) کے ڈائریکٹر کرامت علی،پاکستان فشرفوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ اور دیگر نے سیلاب 2010 کے نقصانات اور بحالی پر پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا،
انھوں نے کہا کہ سرکاری اعداد و شمارکے مطابق2010کے سیلاب سے پاکستان بھرمیں بیس لاکھ سے زائد افراد متا ثر ہوئے تھے، ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کی رپورٹ میں سیلاب سے پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ 855ارب روپے (دس بلین امریکی ڈالر) لگایا گیا،سیلاب سے بری طرح متاثرہ علاقوں میں سندھ سرفہرست رہا ،
متاثرہ آبادی کے ایک بڑی حصے کوکراچی اورحیدرآبادکے محفوظ علاقوں میں قائم کیے گئے کیمپوں میں منتقل کردیا گیا آج بھی بے دخل افراد کا بڑا حصہ کراچی کے مختلف علاقوں مثلاً سپر ہائی وے،
گلشن معمار کے قریب واقع لیبر اسکوائر کیمپ اور ہاکس بے میں قائم خیموں یا عارضی رہائشی انتظامات میں زندگی گزار رہا ہے اور واپس جانا نہیں چاہتا، متاثرین کی اکثریت زرعی زمینوں کی ملکیت نہیں رکھتی تھی بلکہ وہ بڑے زمین
2010 کے تباہ کن سیلاب کے دوسال مکمل ہونے پرسول سوسائٹی کی نمائندہ تنظیموں پر مشتمل عوامی کمیشن نے متاثرین کی بحالی کے کام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست متا ثرین کی فلاح وبہبود کے لیے سنجیدگی سے کام کرے.
2سال بعد بھی سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی نہ ہوسکی،ان خیالات کا اظہار ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی،پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ ( پائلر ) کے ڈائریکٹر کرامت علی،پاکستان فشرفوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ اور دیگر نے سیلاب 2010 کے نقصانات اور بحالی پر پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا،
انھوں نے کہا کہ سرکاری اعداد و شمارکے مطابق2010کے سیلاب سے پاکستان بھرمیں بیس لاکھ سے زائد افراد متا ثر ہوئے تھے، ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کی رپورٹ میں سیلاب سے پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ 855ارب روپے (دس بلین امریکی ڈالر) لگایا گیا،سیلاب سے بری طرح متاثرہ علاقوں میں سندھ سرفہرست رہا ،
متاثرہ آبادی کے ایک بڑی حصے کوکراچی اورحیدرآبادکے محفوظ علاقوں میں قائم کیے گئے کیمپوں میں منتقل کردیا گیا آج بھی بے دخل افراد کا بڑا حصہ کراچی کے مختلف علاقوں مثلاً سپر ہائی وے،
گلشن معمار کے قریب واقع لیبر اسکوائر کیمپ اور ہاکس بے میں قائم خیموں یا عارضی رہائشی انتظامات میں زندگی گزار رہا ہے اور واپس جانا نہیں چاہتا، متاثرین کی اکثریت زرعی زمینوں کی ملکیت نہیں رکھتی تھی بلکہ وہ بڑے زمین