بھارتی فلموں کی نمائش
لاہور اور کراچی میں فلمی صنعت نے نئے سفر کا آغاز کیا مگر حکومت نے کبھی فلمی صنعت کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا
KARACHI:
اب پھر پاکستانی شائقین بھارتی فلموں سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔ پاکستانی سینما مالکان نے ملک میں سینما ہاؤس اور فلمی صنعت پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ستمبر میں کنٹرول لائن پر مسلسل فائرنگ سے پیدا ہونے والی کشیدگی اور بھارت میں پاکستانی اداکاروں کو فلموں میں کام نہ دینے کے فیصلے کے بعد پاکستانی سینما مالکان نے بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگادی تھی۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (P.E.M.R.A) نے بھارتی ڈراموں اور فلموں کی ٹی وی چینلز پر نمائش پر پابندی لگادی تھی، اس طرح شائقین بھارتی آرٹ سے محروم ہوگئے تھے۔ انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی کے دور رس نتائج کے سامنے آئے اور سینما جانے والے افراد کی تعداد کم ہوگئی، اس طرح سینماؤں کا خسارہ بڑھ گیا۔ ایک بڑے انگریزی اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک بھر میں بھارتی فلموں اور ڈراموں پر مشتمل سی ڈیز کی فروخت میں زبردست اضافہ ہوگیا۔
پاکستانی فلموں کا ارتقا ہندوستان میں فلم انڈسٹری کے ارتقا سے منسلک ہے۔ جب گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں ہندوستان میں فلمیں بننا شروع ہوئیں تو بمبئی کے علاوہ لاہور میں فلمی صنعت کے مراکز تھے۔ ہندوؤں کے علاوہ مسلمانوں نے بھی اداکاری، موسیقی اور پروڈکشن کے شعبے میں گہری دلچسپی لی تھی، یہی وجہ ہے کہ مسلمان اداکار ہندوستان کی فلموں میں اہم حیثیت اختیار کرگئے۔ اے جے کاردار، محبوب اور شوکت حسین رضوی جیسے ہدایتکاروں نے بہترین فلمیں تیار کیں، خواجہ خورشید انور نے موسیقی کو نئی زندگی دی، لتا منگیشتر کے ساتھ نورجہاں نے موسیقی سے لطف اندوز ہونے والوں کے دل موہ لیے اور منٹو جیسے ادیب کہانی کے شعبے میں مقبول تھے۔
1947ء تک ساحر لدھیانوی فلمی گانوں کی دوڑ میں شامل نہیں ہوئے تھے مگر کئی ہندو اداکار، ادیب اور شاعر لاہور کی فلمی صنعت سے وابستہ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ہندو صنعتکار پاکستان چھوڑ کر بھارت چلے گئے۔ ساحر لدھیانوی حمید اختر کے ساتھ لاہور آ گئے مگر دائیں بازو کے معروف صحافی شورش کاشمیری نے ساحر کو حمید اختر کی گمشدگی کی جھوٹی داستان سنا کر خوفزدہ کیا تھا اور خفیہ اہلکار ساحر کا پیچھا کرنے لگے تھے۔ ساحر ان حالات میں مایوس ہو کر لاہور چھوڑ گئے اور بمبئی کی فلمی صنعت کا حصہ بن گئے، اس طرح ساحر کے نغمے بھارت کی سرحدوں کو عبور کرکے پاکستان، افغانستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا تک پھیل گئے۔
لاہور اور کراچی میں فلمی صنعت نے نئے سفر کا آغاز کیا مگر حکومت نے کبھی فلمی صنعت کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ مذہبی طبقہ ایک عرصہ تک فلموں کو غیر اسلامی قرار دیتا رہا اور حکومت نے معیاری فلموں کی تیاری کے معاملے کو کبھی اہمیت نہیں دی، نہ فلمی صنعت کو ترقی دینے کے لیے ادارے بنائے اور نہ بینکوں سے قرض کی سہولت دی اور نہ ٹیکس کم کیے۔ پھر بھی 1960ء تک کئی معیاری فلمیں بنیں۔
فیض احمد فیض، حمید اختر، احمد بشیر اور آئی اے رحمن جیسے سنجیدہ دانشور فلموں کی طرف متوجہ ہوئے۔ بعدازاں فلمی صنعت سے وابستہ بعض افراد جن کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ بھارتی فلموں کی نمائنش پر پابندی لگادی جائے تو پاکستانی فلمی صنعت بہت ترقی کرے گی، اس مفروضے کے مصنفین میں کچھ تو مقتدرہ سے توانائی لیتے تھے اور کچھ محدود سوچ کے حامل تھے اور ایک جذباتی فضا میں بھارتی فلموں پر پابندی کی مہم شروع ہو گئی۔
ایوب خان کی حکومت اس مہم سے متاثر ہوئی اور بھارتی فلموں پر پابندی لگادی گئی مگر اس پابندی کے منفی نتائج برآمد ہوئے۔ بہت سے ناجائز دولت کمانے والے مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افراد نے فلمی صنعت میں سرمایہ کاری کی اور بھارتی فلموں کی چربہ فلمیں بننے لگیں۔ چند لوگوں نے جو یورپ میں بھارتی فلمیں دیکھتے تھے، اس وقت یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ بھونڈے انداز میں بھارتی فلموں کی نقالی کرنے والی صنعت مضبوط بنیادوں پر کھڑی نہیں ہوسکے گی، مگر ان کی بات پر کسی نے توجہ نہ دی۔ البتہ بھارتی فلموں کے گانے خوب مقبول ہونے لگے۔
محمد رفیع، لتا منگیشکر اور دیگر کئی نامور گلوکاروں کی آوازیں گھر گھر گونجنے لگیں۔ لوگ آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو سیلون سے بھارتی گانے سنتے تھے۔ پھر کیسٹ ٹیکنالوجی عام ہونے کے بعد افغانستان کے راستے بھارتی فلمی گانوں کے کیسٹ ملک میں آسانی سے دستیاب ہونے لگے۔ اس عرصے میں بھارتی فلموں نے مشرق وسطیٰ، مشرق بعید، یورپ، امریکا اور کینیڈا میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ پہلے دلیپ کمار اور پھر امیتابھ بچن وغیرہ کا شمار بڑے اداکاروں میں ہونے لگا۔
بعد ازاں ملک میں جنرل ضیاء الحق کا سیاہ دور آیا۔ جنرل ضیاء الحق نے جماعت اسلامی کے محمود اعظم فاروقی کو وزیر اطلاعات بنایا۔ محمود اعظم فاروقی نے تو پی ٹی وی پر بھی فلم کی نمائش پر پابندی لگادی۔ خواتین اینکر کو چادر اوڑھا دی اور سینماؤں پر ٹیکس لگادیے۔ اس دور میں جنرل ضیاء الحق کی زیر نگرانی کام کرنے والی ایک ایجنسی نے بھارتی فلموں کی ملک میں نمائش کے ہتھیار کو بیرون ملک متحرک غیر ریاستی اداکاروں کی مدد کے لیے استعمال کرنے کا حربہ استعمال کیا۔ وی سی آر پر عائد پابندیاں ختم کردی گئیں اور ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہوگیا۔
کراچی میں رینبو سینٹر قائم ہوگیا۔ بمبئی سے بھارتی فلموں کے کیسٹ ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی پہنچتے اور ان کی ہزاروں کاپیاں بنتیں اور کیسٹ کرائے پر دینے والی دکانیں پورے پاکستان میں قائم ہوگئیں۔ سستے کیسٹ شہریوں کو دستیاب ہونے لگے۔ اب پاکستانی ناظرین اپنے گھروں میں بیٹھ کر بھارتی فلمیں دیکھنے لگے۔ پاکستانی فلمی صنعت کھوکھلی بنیادوں پر قائم تھی، یوں وہ مٹ گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے کسی بڑی سفارش پر ایک بھارتی فلم کی نمائش کی اجازت دے دی۔ جنرل ضیاء الحق کے خاندان کے شتروگھن سنہا سے تعلقات قائم ہوئے۔ یہ بھارتی فلم پورے ملک میں نمائش کے لیے پیش ہوئی۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب نے فلمی صنعت کی ہیئت کو تبدیل کردیا۔ اب بھارتی اور دیگر غیر ملکی چینل پاکستان میں نظر آنے لگے۔ پہلے ٹی وی کیبل پر بھارتی فلم پیش کی جاتی تھی، پھر بھارتی ڈرامے بھی عام ہوگئے۔ جنرل پرویز مشرف حکومت نے عالمگیریت کی اہمیت کو محسوس کیا اور بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت دے دی۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں جدید ٹیکنالوجی والے سینما ہاؤس پھر تعمیر ہوگئے۔
نوجوانوں کے لیے تھری ڈی ٹیکنالوجی سے فلم دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ مگر اس کے ساتھ ایک اور تبدیلی آئی، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے فلمیں بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ میڈیا ہاؤسز نے بھی فلمی صنعت پر توجہ دی۔ فلمی صنعت بیدار ہونے لگی۔ ملک میں اعلیٰ معیار کی اچھی فلمیں بننے لگیں۔ ہالینڈ میں شایع ہونے والے متنازع کارٹون کے خلاف احتجاج کی آڑ میں جنونیوں نے کراچی کے تاریخی پرنس اور نشاط سنیما کو جلا دیا تھا۔
50ء کی دہائی میں محترمہ فاطمہ جناح نے نشاط سنیما کا افتتاح کیا تھا مگر عوام کے سینماؤں میں جا کر فلم دیکھنے کے رجحان کی بناء پر سینماؤں کی ترقی کا عمل جاری رہا۔ آئی ایس پی آر نے معیاری فلموں کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح کئی معیاری فلمیں تیار ہوئیں۔ 50ء کی دہائی کی طرح صحت مند مقابلہ شروع ہوا۔ پاکستانی اداکاروں کو بھارتی فلمی صنعت میں مواقع ملے۔ کئی گلوکار بھارت جا کر عالمگیر شہریت کے مالک بن گئے۔
مودی حکومت کی کشمیر میں عوامی جدوجہد کو طاقت سے کچلنے کی پالیسی سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی اور اس کشیدگی کا نشانہ ٹی وی چینل اور فلمیں بنیں۔ فلمیں ثقافت، دوستی اور امن کی ترویج میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان اور اطراف کے ممالک میں مذہبی جنونیت ایک عنصریت بن گئی۔ اس عنصریت نے لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کردیا جس کے نتیجے میں صرف مدارس میں ہی نہیں بلکہ یونیورسٹیوں میں بھی دہشتگرد پیدا ہورہے ہیں۔ اس ذہن کی تبدیلی میں ڈرامے، موسیقی اور فلمیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اب نئی صدی کے سترہویں سال حکومت کو فلم کے ادارے کی اہمیت کو محسوس کرنا چاہیے اور فلمی صنعت کی سرپرستی کرنی چاہیے۔
پاکستان کی سرکاری یونیورسٹیوں میں فلم کا شعبہ نہیں ہے، یہ شعبہ قائم ہونا چاہیے۔ بھارت سمیت تمام ممالک کی فلموں کی نمائش ہونی چاہیے تاکہ صحت مند مقابلہ ہو سکے۔ اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ پر تو خواتین اب بھی بھارتی ڈرامے اور فلمیں دیکھ رہی ہیں لیکن اب پیمرا کو ٹی وی چینلز پر بھی بھارتی مواد نشر کرنے پر عائد پابندی ختم کرنی چاہیے تاکہ لوگ خاص طور پر خواتین کے لیے ٹی وی چینلز میں دلچسپی برقرار رہے۔ سینما مالکان کا یہ انتہائی مناسب فیصلہ ہے۔ حکومت کو اس فیصلے کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔
اب پھر پاکستانی شائقین بھارتی فلموں سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔ پاکستانی سینما مالکان نے ملک میں سینما ہاؤس اور فلمی صنعت پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ستمبر میں کنٹرول لائن پر مسلسل فائرنگ سے پیدا ہونے والی کشیدگی اور بھارت میں پاکستانی اداکاروں کو فلموں میں کام نہ دینے کے فیصلے کے بعد پاکستانی سینما مالکان نے بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگادی تھی۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (P.E.M.R.A) نے بھارتی ڈراموں اور فلموں کی ٹی وی چینلز پر نمائش پر پابندی لگادی تھی، اس طرح شائقین بھارتی آرٹ سے محروم ہوگئے تھے۔ انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی کے دور رس نتائج کے سامنے آئے اور سینما جانے والے افراد کی تعداد کم ہوگئی، اس طرح سینماؤں کا خسارہ بڑھ گیا۔ ایک بڑے انگریزی اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک بھر میں بھارتی فلموں اور ڈراموں پر مشتمل سی ڈیز کی فروخت میں زبردست اضافہ ہوگیا۔
پاکستانی فلموں کا ارتقا ہندوستان میں فلم انڈسٹری کے ارتقا سے منسلک ہے۔ جب گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں ہندوستان میں فلمیں بننا شروع ہوئیں تو بمبئی کے علاوہ لاہور میں فلمی صنعت کے مراکز تھے۔ ہندوؤں کے علاوہ مسلمانوں نے بھی اداکاری، موسیقی اور پروڈکشن کے شعبے میں گہری دلچسپی لی تھی، یہی وجہ ہے کہ مسلمان اداکار ہندوستان کی فلموں میں اہم حیثیت اختیار کرگئے۔ اے جے کاردار، محبوب اور شوکت حسین رضوی جیسے ہدایتکاروں نے بہترین فلمیں تیار کیں، خواجہ خورشید انور نے موسیقی کو نئی زندگی دی، لتا منگیشتر کے ساتھ نورجہاں نے موسیقی سے لطف اندوز ہونے والوں کے دل موہ لیے اور منٹو جیسے ادیب کہانی کے شعبے میں مقبول تھے۔
1947ء تک ساحر لدھیانوی فلمی گانوں کی دوڑ میں شامل نہیں ہوئے تھے مگر کئی ہندو اداکار، ادیب اور شاعر لاہور کی فلمی صنعت سے وابستہ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ہندو صنعتکار پاکستان چھوڑ کر بھارت چلے گئے۔ ساحر لدھیانوی حمید اختر کے ساتھ لاہور آ گئے مگر دائیں بازو کے معروف صحافی شورش کاشمیری نے ساحر کو حمید اختر کی گمشدگی کی جھوٹی داستان سنا کر خوفزدہ کیا تھا اور خفیہ اہلکار ساحر کا پیچھا کرنے لگے تھے۔ ساحر ان حالات میں مایوس ہو کر لاہور چھوڑ گئے اور بمبئی کی فلمی صنعت کا حصہ بن گئے، اس طرح ساحر کے نغمے بھارت کی سرحدوں کو عبور کرکے پاکستان، افغانستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا تک پھیل گئے۔
لاہور اور کراچی میں فلمی صنعت نے نئے سفر کا آغاز کیا مگر حکومت نے کبھی فلمی صنعت کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ مذہبی طبقہ ایک عرصہ تک فلموں کو غیر اسلامی قرار دیتا رہا اور حکومت نے معیاری فلموں کی تیاری کے معاملے کو کبھی اہمیت نہیں دی، نہ فلمی صنعت کو ترقی دینے کے لیے ادارے بنائے اور نہ بینکوں سے قرض کی سہولت دی اور نہ ٹیکس کم کیے۔ پھر بھی 1960ء تک کئی معیاری فلمیں بنیں۔
فیض احمد فیض، حمید اختر، احمد بشیر اور آئی اے رحمن جیسے سنجیدہ دانشور فلموں کی طرف متوجہ ہوئے۔ بعدازاں فلمی صنعت سے وابستہ بعض افراد جن کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ بھارتی فلموں کی نمائنش پر پابندی لگادی جائے تو پاکستانی فلمی صنعت بہت ترقی کرے گی، اس مفروضے کے مصنفین میں کچھ تو مقتدرہ سے توانائی لیتے تھے اور کچھ محدود سوچ کے حامل تھے اور ایک جذباتی فضا میں بھارتی فلموں پر پابندی کی مہم شروع ہو گئی۔
ایوب خان کی حکومت اس مہم سے متاثر ہوئی اور بھارتی فلموں پر پابندی لگادی گئی مگر اس پابندی کے منفی نتائج برآمد ہوئے۔ بہت سے ناجائز دولت کمانے والے مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افراد نے فلمی صنعت میں سرمایہ کاری کی اور بھارتی فلموں کی چربہ فلمیں بننے لگیں۔ چند لوگوں نے جو یورپ میں بھارتی فلمیں دیکھتے تھے، اس وقت یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ بھونڈے انداز میں بھارتی فلموں کی نقالی کرنے والی صنعت مضبوط بنیادوں پر کھڑی نہیں ہوسکے گی، مگر ان کی بات پر کسی نے توجہ نہ دی۔ البتہ بھارتی فلموں کے گانے خوب مقبول ہونے لگے۔
محمد رفیع، لتا منگیشکر اور دیگر کئی نامور گلوکاروں کی آوازیں گھر گھر گونجنے لگیں۔ لوگ آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو سیلون سے بھارتی گانے سنتے تھے۔ پھر کیسٹ ٹیکنالوجی عام ہونے کے بعد افغانستان کے راستے بھارتی فلمی گانوں کے کیسٹ ملک میں آسانی سے دستیاب ہونے لگے۔ اس عرصے میں بھارتی فلموں نے مشرق وسطیٰ، مشرق بعید، یورپ، امریکا اور کینیڈا میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ پہلے دلیپ کمار اور پھر امیتابھ بچن وغیرہ کا شمار بڑے اداکاروں میں ہونے لگا۔
بعد ازاں ملک میں جنرل ضیاء الحق کا سیاہ دور آیا۔ جنرل ضیاء الحق نے جماعت اسلامی کے محمود اعظم فاروقی کو وزیر اطلاعات بنایا۔ محمود اعظم فاروقی نے تو پی ٹی وی پر بھی فلم کی نمائش پر پابندی لگادی۔ خواتین اینکر کو چادر اوڑھا دی اور سینماؤں پر ٹیکس لگادیے۔ اس دور میں جنرل ضیاء الحق کی زیر نگرانی کام کرنے والی ایک ایجنسی نے بھارتی فلموں کی ملک میں نمائش کے ہتھیار کو بیرون ملک متحرک غیر ریاستی اداکاروں کی مدد کے لیے استعمال کرنے کا حربہ استعمال کیا۔ وی سی آر پر عائد پابندیاں ختم کردی گئیں اور ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہوگیا۔
کراچی میں رینبو سینٹر قائم ہوگیا۔ بمبئی سے بھارتی فلموں کے کیسٹ ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی پہنچتے اور ان کی ہزاروں کاپیاں بنتیں اور کیسٹ کرائے پر دینے والی دکانیں پورے پاکستان میں قائم ہوگئیں۔ سستے کیسٹ شہریوں کو دستیاب ہونے لگے۔ اب پاکستانی ناظرین اپنے گھروں میں بیٹھ کر بھارتی فلمیں دیکھنے لگے۔ پاکستانی فلمی صنعت کھوکھلی بنیادوں پر قائم تھی، یوں وہ مٹ گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے کسی بڑی سفارش پر ایک بھارتی فلم کی نمائش کی اجازت دے دی۔ جنرل ضیاء الحق کے خاندان کے شتروگھن سنہا سے تعلقات قائم ہوئے۔ یہ بھارتی فلم پورے ملک میں نمائش کے لیے پیش ہوئی۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب نے فلمی صنعت کی ہیئت کو تبدیل کردیا۔ اب بھارتی اور دیگر غیر ملکی چینل پاکستان میں نظر آنے لگے۔ پہلے ٹی وی کیبل پر بھارتی فلم پیش کی جاتی تھی، پھر بھارتی ڈرامے بھی عام ہوگئے۔ جنرل پرویز مشرف حکومت نے عالمگیریت کی اہمیت کو محسوس کیا اور بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت دے دی۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں جدید ٹیکنالوجی والے سینما ہاؤس پھر تعمیر ہوگئے۔
نوجوانوں کے لیے تھری ڈی ٹیکنالوجی سے فلم دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ مگر اس کے ساتھ ایک اور تبدیلی آئی، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے فلمیں بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ میڈیا ہاؤسز نے بھی فلمی صنعت پر توجہ دی۔ فلمی صنعت بیدار ہونے لگی۔ ملک میں اعلیٰ معیار کی اچھی فلمیں بننے لگیں۔ ہالینڈ میں شایع ہونے والے متنازع کارٹون کے خلاف احتجاج کی آڑ میں جنونیوں نے کراچی کے تاریخی پرنس اور نشاط سنیما کو جلا دیا تھا۔
50ء کی دہائی میں محترمہ فاطمہ جناح نے نشاط سنیما کا افتتاح کیا تھا مگر عوام کے سینماؤں میں جا کر فلم دیکھنے کے رجحان کی بناء پر سینماؤں کی ترقی کا عمل جاری رہا۔ آئی ایس پی آر نے معیاری فلموں کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح کئی معیاری فلمیں تیار ہوئیں۔ 50ء کی دہائی کی طرح صحت مند مقابلہ شروع ہوا۔ پاکستانی اداکاروں کو بھارتی فلمی صنعت میں مواقع ملے۔ کئی گلوکار بھارت جا کر عالمگیر شہریت کے مالک بن گئے۔
مودی حکومت کی کشمیر میں عوامی جدوجہد کو طاقت سے کچلنے کی پالیسی سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی اور اس کشیدگی کا نشانہ ٹی وی چینل اور فلمیں بنیں۔ فلمیں ثقافت، دوستی اور امن کی ترویج میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان اور اطراف کے ممالک میں مذہبی جنونیت ایک عنصریت بن گئی۔ اس عنصریت نے لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کردیا جس کے نتیجے میں صرف مدارس میں ہی نہیں بلکہ یونیورسٹیوں میں بھی دہشتگرد پیدا ہورہے ہیں۔ اس ذہن کی تبدیلی میں ڈرامے، موسیقی اور فلمیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اب نئی صدی کے سترہویں سال حکومت کو فلم کے ادارے کی اہمیت کو محسوس کرنا چاہیے اور فلمی صنعت کی سرپرستی کرنی چاہیے۔
پاکستان کی سرکاری یونیورسٹیوں میں فلم کا شعبہ نہیں ہے، یہ شعبہ قائم ہونا چاہیے۔ بھارت سمیت تمام ممالک کی فلموں کی نمائش ہونی چاہیے تاکہ صحت مند مقابلہ ہو سکے۔ اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ پر تو خواتین اب بھی بھارتی ڈرامے اور فلمیں دیکھ رہی ہیں لیکن اب پیمرا کو ٹی وی چینلز پر بھی بھارتی مواد نشر کرنے پر عائد پابندی ختم کرنی چاہیے تاکہ لوگ خاص طور پر خواتین کے لیے ٹی وی چینلز میں دلچسپی برقرار رہے۔ سینما مالکان کا یہ انتہائی مناسب فیصلہ ہے۔ حکومت کو اس فیصلے کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔