سیاست کے ڈھنگ نرالے
شیخ رشید ہماری قومی سیاست کے ایک تجربہ کار، ذہین، جرأت مند اور وطن پرست رہنما ہیں
شیخ رشید ہماری قومی سیاست کے ایک تجربہ کار، ذہین، جرأت مند اور وطن پرست رہنما ہیں۔ وہ چھیاسٹھ برس کے ہوچکے ہیں مگر نوجوانوں سے زیادہ چاق و چوبند اور حسین نظر آتے ہیں۔ انھوں نے طالب علمی کے زمانے سے سیاست شروع کی اور پھر اپنی محنت، لگن، ہمت اور حکمت سے قومی سیاست تک پہنچ گئے۔ انھیں کسی جنرل یا صاحب ثروت شخص نے آگے نہیں بڑھایا۔ اپنی سیاست کا ایک لمبا عرصہ میاں نواز شریف کے ساتھ گزارا۔ وہ ان کی پارٹی کے سینئر لیڈر اور ان کے معتمد خاص تھے۔
نواز شریف کی کامیابیوں میں وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ پیپلز پارٹی سے زور آزمائی میں وہ نواز شریف کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ میاں صاحب کے ساتھ ان کے تعلقات صحیح چل رہے تھے کہ پرویز مشرف کا مارشل لا لگ گیا۔ چوہدری برادران نے اپنے ساتھ تمام ہی (ن) لیگ والوں کو مشرف کے ہاتھ پر بیعت کرانے کی کوشش کی۔ جن لوگوں نے بیعت کرنے سے گریز کیا انھیں طرح طرح کی دھمکیاں ملنے لگیں ناچار دیگر کے ساتھ شیخ رشید نے بھی مشرف کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔
یہ دور پورے دس سال تک چلتا رہا جس میں شیخ رشید کو مختلف وزارتیں تفویض کی گئیں، وہ ہر وزارت میں کامیاب رہے مگر جب مشرف حکومت کا خاتمہ ہوا، میاں صاحب نے مشرف کے کئی لوگوں کو اپنا لیا مگر شیخ رشید کو نہ اپنایا، بس تب سے اب تک وہ میاں صاحب کے خلاف علم بغاوت بلند کیے ہوئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ملک کی سیاست میں موجودہ ہیجان اور ہلچل پیدا کرنے کا سہرا ان کے ہی سر ہے۔ وہ میاں صاحب کی موجودہ حکومت کے بنتے ہی ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور ہر ٹی وی ٹاک میں حکومت کو گرانے کے لیے عوام کو سڑک پر آکر جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کی دعوت دینے لگے تھے۔
ظاہر ہے کہ وہ اکیلے تو کچھ نہیں کرسکتے تھے چنانچہ انھوں نے عمران خان کی پارٹی کا سہارا لے لیا۔ ان کی عوامی مسلم لیگ کی قومی اسمبلی میں صرف ایک ہی سیٹ ہے جو خود ان کی اپنی ہے، اسے بھی انھوں نے عمران خان کی مدد سے حاصل کیا ہے۔ ان کی عوامی مسلم لیگ چونکہ نہایت ہی چھوٹی پارٹی ہے، جس کا قومی اسمبلی میں کوئی وزن نہیں ہے۔ بعض مبصرین اسے تانگہ پارٹی سے تشبیہ دیتے ہیں اور بعض اسے آدھا تانگہ پارٹی بھی کہتے ہیں، کیونکہ ان کے مطابق اس کے تمام ممبر آدھے تانگے میں بھی سما سکتے ہیں۔
بہتر تو یہی تھا کہ وہ اسے اپنے محسن عمران خان کی پارٹی میں ہی ضم کردیتے اور خود تحریک انصاف کے فرنٹ لائن لیڈر کی حیثیت حاصل کرلیتے۔ عمران خان تو اس سے بہت ہی خوش ہوتے کیونکہ ان کی پارٹی میں ویسے ہی لیڈروں کی کمی ہے۔ حقیقتاً تحریک انصاف عمران خان کے علاوہ صرف دو ہی لیڈروں پر چل رہی ہے ایک شاہ محمود قریشی اور دوسرے جہانگیر ترین۔ جہاں تک شاہ محمود قریشی کا تعلق ہے وہ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر لیڈروں میں سے تھے، ان کی وہاں خاص اہمیت تھی۔ آصف علی زرداری کی حکومت میں وہ وزیر خارجہ کے منصب پر فائز تھے مگر ایک اصولی مسئلے پر اختلاف کرکے تحریک انصاف میں آگئے تھے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اتنے بڑے لیڈر نے عمران خان جیسے نئے سیاستدان کی پارٹی میں آکر انھیں اپنا سربراہ تسلیم کرلیا تھا۔ مبصرین کے مطابق اس طرح انھوں نے سیاست میں اپنی بزرگی کو خود ہی گھٹا لیا تھا۔ اس وقت وہ عمران خان کے وفادار ساتھیوں میں سے ہیں اور ان کی ہر یوٹرن پالیسی میں ان کے شانہ بشانہ ساتھ کھڑے ہیں۔ جہاں تک جہانگیر ترین کا تعلق ہے وہ پارٹی کے فنانسر کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ انھیں سیاست کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہے البتہ اقتدار کا کافی تجربہ حاصل ہے۔
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ شیخ رشید جیسے زیرک اور دبنگ لیڈر کی تحریک انصاف کو سخت ضرورت ہے وہ اگر چاہیں تو اس پارٹی میں شامل ہوکر اپنی عوامی مسلم لیگ سے زیادہ اہمیت حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے تمام لیڈروں پر غالب بھی آسکتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ تحریک انصاف کا حصہ بننا نہیں چاہتے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک جہاں دیدہ سیاستداں ہیں جب وہ ن لیگ کے خلاف اپنی بھڑاس تحریک انصاف کے ذریعے خوب خوب نکال رہے ہیں تو انھیں اس پارٹی میں شامل ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ اپنی پارٹی کے ایک سربراہ کے طور پر اپنی پوزیشن کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
چنانچہ اصل مسئلہ عمران خان کا ہے کہ وہ دیکھیں کہ ان کی پارٹی کہیں ہائی جیک تو نہیں ہوگئی ہے؟ وہ جس پروگرام کو لے کر چلے تھے اور جس سے انھیں زبردست عوامی پذیرائی حاصل ہوئی تھی وہ اس سے بھٹک تو نہیں گئے؟ دراصل ان کی پارٹی کو ابھی استحکام اور اپنے اندرونی معاملات کو درست کرنے کی ضرورت تھی کہ اسے ہنگامی احتجاجی سیاست کی جانب مائل کردیا گیا۔ تحریک انصاف کو سب سے زیادہ نقصان گزشتہ سال کے طویل دھرنے نے پہنچایا جس کی وجہ سے ان پر امپائر کی مدد سے ملک سے جمہوریت کا خاتمہ کرنے کا دائمی داغ لگ چکا ہے، اس سے نواز شریف کا تو کچھ نہ بگڑا البتہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔
انھوں نے نواز شریف پر دھاندلی سمیت جتنے بھی الزامات لگائے وہ تمام ہی غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ تحریک انصاف بہرحال نسبتاً نئی پارٹی ہے۔ بے شک اس نے کم وقت میں زبردست عوامی مقبولیت حاصل کرلی تھی، دراصل اس مقبولیت کو سنبھالنے اور اسے آگے بڑھانے کی ضرورت تھی مگر پارٹی کو منظم کرنے اور اندرونی معاملات کو درست کرنے کے بجائے اسے مہم جوئی کی جانب گامزن کردیا گیا۔ یہ ملک میں ایک انقلابی سوچ لے کر اٹھی تھی۔ شروع میں یہ ملک کے بگڑے حالات کو درست کرنے کے لیے ایک طاقتور پارٹی کے طور پر نظر آتی تھی۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اسے اس کے متعین راستے پر چلنے دیا جاتا تو یہ یقینا ملک میں ایک اچھی حکومت بنانے اور عوامی امنگوں کے مطابق کرپشن سے پاک پرامن معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجاتی، مگر ہوا وہی جس کا خطرہ تھا۔ اس وقت اسے صرف ایک احتجاجی پارٹی بنادیا گیا ہے۔ حکومت کے سارے اعمال کا احتساب کرنا اس کی ذمے داری قرار دے دیا گیا ہے۔
آخر ملک میں اور بھی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ اپنا فرض ادا کرتے ہوئے حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن کیوں نہیں کرتیں؟ حقیقت یہ ہے کہ کچھ بیرونی اور اندرونی عناصر نے اس کے ایک کامیاب پارٹی بننے کے راستے مسدود کردیے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان غور و فکر سے کام لیں گرما گرمی کی سیاست کو ترک کرکے ٹھنڈے دل سے پارٹی کو اس کی اصل سمت پر گامزن کریں اور دوست نما دشمنوں سے فاصلہ اختیار کریں۔
نواز شریف کی کامیابیوں میں وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ پیپلز پارٹی سے زور آزمائی میں وہ نواز شریف کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ میاں صاحب کے ساتھ ان کے تعلقات صحیح چل رہے تھے کہ پرویز مشرف کا مارشل لا لگ گیا۔ چوہدری برادران نے اپنے ساتھ تمام ہی (ن) لیگ والوں کو مشرف کے ہاتھ پر بیعت کرانے کی کوشش کی۔ جن لوگوں نے بیعت کرنے سے گریز کیا انھیں طرح طرح کی دھمکیاں ملنے لگیں ناچار دیگر کے ساتھ شیخ رشید نے بھی مشرف کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔
یہ دور پورے دس سال تک چلتا رہا جس میں شیخ رشید کو مختلف وزارتیں تفویض کی گئیں، وہ ہر وزارت میں کامیاب رہے مگر جب مشرف حکومت کا خاتمہ ہوا، میاں صاحب نے مشرف کے کئی لوگوں کو اپنا لیا مگر شیخ رشید کو نہ اپنایا، بس تب سے اب تک وہ میاں صاحب کے خلاف علم بغاوت بلند کیے ہوئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ملک کی سیاست میں موجودہ ہیجان اور ہلچل پیدا کرنے کا سہرا ان کے ہی سر ہے۔ وہ میاں صاحب کی موجودہ حکومت کے بنتے ہی ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور ہر ٹی وی ٹاک میں حکومت کو گرانے کے لیے عوام کو سڑک پر آکر جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کی دعوت دینے لگے تھے۔
ظاہر ہے کہ وہ اکیلے تو کچھ نہیں کرسکتے تھے چنانچہ انھوں نے عمران خان کی پارٹی کا سہارا لے لیا۔ ان کی عوامی مسلم لیگ کی قومی اسمبلی میں صرف ایک ہی سیٹ ہے جو خود ان کی اپنی ہے، اسے بھی انھوں نے عمران خان کی مدد سے حاصل کیا ہے۔ ان کی عوامی مسلم لیگ چونکہ نہایت ہی چھوٹی پارٹی ہے، جس کا قومی اسمبلی میں کوئی وزن نہیں ہے۔ بعض مبصرین اسے تانگہ پارٹی سے تشبیہ دیتے ہیں اور بعض اسے آدھا تانگہ پارٹی بھی کہتے ہیں، کیونکہ ان کے مطابق اس کے تمام ممبر آدھے تانگے میں بھی سما سکتے ہیں۔
بہتر تو یہی تھا کہ وہ اسے اپنے محسن عمران خان کی پارٹی میں ہی ضم کردیتے اور خود تحریک انصاف کے فرنٹ لائن لیڈر کی حیثیت حاصل کرلیتے۔ عمران خان تو اس سے بہت ہی خوش ہوتے کیونکہ ان کی پارٹی میں ویسے ہی لیڈروں کی کمی ہے۔ حقیقتاً تحریک انصاف عمران خان کے علاوہ صرف دو ہی لیڈروں پر چل رہی ہے ایک شاہ محمود قریشی اور دوسرے جہانگیر ترین۔ جہاں تک شاہ محمود قریشی کا تعلق ہے وہ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر لیڈروں میں سے تھے، ان کی وہاں خاص اہمیت تھی۔ آصف علی زرداری کی حکومت میں وہ وزیر خارجہ کے منصب پر فائز تھے مگر ایک اصولی مسئلے پر اختلاف کرکے تحریک انصاف میں آگئے تھے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اتنے بڑے لیڈر نے عمران خان جیسے نئے سیاستدان کی پارٹی میں آکر انھیں اپنا سربراہ تسلیم کرلیا تھا۔ مبصرین کے مطابق اس طرح انھوں نے سیاست میں اپنی بزرگی کو خود ہی گھٹا لیا تھا۔ اس وقت وہ عمران خان کے وفادار ساتھیوں میں سے ہیں اور ان کی ہر یوٹرن پالیسی میں ان کے شانہ بشانہ ساتھ کھڑے ہیں۔ جہاں تک جہانگیر ترین کا تعلق ہے وہ پارٹی کے فنانسر کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ انھیں سیاست کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہے البتہ اقتدار کا کافی تجربہ حاصل ہے۔
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ شیخ رشید جیسے زیرک اور دبنگ لیڈر کی تحریک انصاف کو سخت ضرورت ہے وہ اگر چاہیں تو اس پارٹی میں شامل ہوکر اپنی عوامی مسلم لیگ سے زیادہ اہمیت حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے تمام لیڈروں پر غالب بھی آسکتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ تحریک انصاف کا حصہ بننا نہیں چاہتے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک جہاں دیدہ سیاستداں ہیں جب وہ ن لیگ کے خلاف اپنی بھڑاس تحریک انصاف کے ذریعے خوب خوب نکال رہے ہیں تو انھیں اس پارٹی میں شامل ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ اپنی پارٹی کے ایک سربراہ کے طور پر اپنی پوزیشن کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
چنانچہ اصل مسئلہ عمران خان کا ہے کہ وہ دیکھیں کہ ان کی پارٹی کہیں ہائی جیک تو نہیں ہوگئی ہے؟ وہ جس پروگرام کو لے کر چلے تھے اور جس سے انھیں زبردست عوامی پذیرائی حاصل ہوئی تھی وہ اس سے بھٹک تو نہیں گئے؟ دراصل ان کی پارٹی کو ابھی استحکام اور اپنے اندرونی معاملات کو درست کرنے کی ضرورت تھی کہ اسے ہنگامی احتجاجی سیاست کی جانب مائل کردیا گیا۔ تحریک انصاف کو سب سے زیادہ نقصان گزشتہ سال کے طویل دھرنے نے پہنچایا جس کی وجہ سے ان پر امپائر کی مدد سے ملک سے جمہوریت کا خاتمہ کرنے کا دائمی داغ لگ چکا ہے، اس سے نواز شریف کا تو کچھ نہ بگڑا البتہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔
انھوں نے نواز شریف پر دھاندلی سمیت جتنے بھی الزامات لگائے وہ تمام ہی غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ تحریک انصاف بہرحال نسبتاً نئی پارٹی ہے۔ بے شک اس نے کم وقت میں زبردست عوامی مقبولیت حاصل کرلی تھی، دراصل اس مقبولیت کو سنبھالنے اور اسے آگے بڑھانے کی ضرورت تھی مگر پارٹی کو منظم کرنے اور اندرونی معاملات کو درست کرنے کے بجائے اسے مہم جوئی کی جانب گامزن کردیا گیا۔ یہ ملک میں ایک انقلابی سوچ لے کر اٹھی تھی۔ شروع میں یہ ملک کے بگڑے حالات کو درست کرنے کے لیے ایک طاقتور پارٹی کے طور پر نظر آتی تھی۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اسے اس کے متعین راستے پر چلنے دیا جاتا تو یہ یقینا ملک میں ایک اچھی حکومت بنانے اور عوامی امنگوں کے مطابق کرپشن سے پاک پرامن معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجاتی، مگر ہوا وہی جس کا خطرہ تھا۔ اس وقت اسے صرف ایک احتجاجی پارٹی بنادیا گیا ہے۔ حکومت کے سارے اعمال کا احتساب کرنا اس کی ذمے داری قرار دے دیا گیا ہے۔
آخر ملک میں اور بھی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ اپنا فرض ادا کرتے ہوئے حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن کیوں نہیں کرتیں؟ حقیقت یہ ہے کہ کچھ بیرونی اور اندرونی عناصر نے اس کے ایک کامیاب پارٹی بننے کے راستے مسدود کردیے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان غور و فکر سے کام لیں گرما گرمی کی سیاست کو ترک کرکے ٹھنڈے دل سے پارٹی کو اس کی اصل سمت پر گامزن کریں اور دوست نما دشمنوں سے فاصلہ اختیار کریں۔