تعصبات کی بار آوری
امریکا کا انتخابی نظام بڑا عجیب ہے
ISLAMABAD:
امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے نے خیال ظاہر کیا ہے کہ روس نے صدارتی انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کو تقویت دینے کے لیے خفیہ طور پر کام کیا۔ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے پوری دنیا میں یہ تجسس اور خوف پایا جاتا ہے کہ ان کے دور حکومت میں دنیا کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سولہویں صدی کے ایک فرانسیسی فلاسفر کی پیشن گوئیوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ وہ ٹرمپ کی کامیابی کی پیش گوئی کر چکے ہیں کہ نئے امریکی صدر کے دور صدارت میں امریکا ''ناقابل حکمرانی'' ہو جائے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ پیش گوئی کس حد تک پوری ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پوری دنیا کے لیے بری خبر ہو گی۔ اب یہ عدم استحکام معاشی شکل میں ہو یا عسکری شکل میں دنیا پر اپنے ہولناک اثرات مرتب کرے گا۔ امریکا ایسی سلطنت جس کی پوری دنیا پر حکمرانی ہے۔ جب وہ ڈوبے گی تو یورپ جاپان سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں کو لے ڈوبے گی۔
امریکا کا انتخابی نظام بڑا عجیب ہے۔ ووٹ ہلیری نے زیادہ لیے جیت ٹرمپ کی ہو گئی۔ ہلیری نے ٹرمپ سے 53لاکھ سے زائد ووٹ لیے۔ یہ امریکی انتخابی نظام کا بڑا نقص ہے۔ یہ انتخابی نظام کی وہ خرابی ہے جس کے خلاف ہزاروں امریکی شہری انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد سڑکوں پر آ گئے۔
یہ وہ امریکی نظام ہے جس کا مقصد جنوب کی ریاستوں کی بالادستی قائم رکھنا ہے۔ یہ مدتوں پرانا انتخابی نظام اس وقت قائم کیا گیا جب جنوب کی ریاستوں کی زرعی معیشت کالوں کی غلامی پر استوار تھی جب کہ شمال کی ریاستیں کالوں کو غلامی سے آزاد اور انسانی حقوق کا حق دار سمجھتی تھیں، جنوب کی ریاستوں کو خطرہ تھا کہ کہیں کالے متعصب قدامت پرست سفید فام مذہب پرستوں کے برابر مقام نہ حاصل کر لیں۔ چنانچہ اس انتخابی نظام میں تمام ریاستوں میں ہر پارٹی کے حاصل کیے گئے ووٹوں کی بنیاد پر الیکٹرو کی تعداد کا تعین ہوتا ہے اور یہ تمام الیکٹرو الیکٹورل کالج کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ اس دفعہ الیکٹورل کالج 538نامزد اراکین پر مشتمل تھا۔
اس انتخابی نظام میں آخری فیصلہ امریکی عوام نہیں بلکہ الیکٹورل کالج کرتا ہے۔ یعنی 30کروڑ امریکی عوام کی قسمت کا فیصلہ یہ مٹھی بھر نمائندے کرتے ہیں۔ یہ امریکی انتخابی نظام کی خرابی ہی تھی جس کے خلاف انتخابات کے بعد ہزاروں امریکیوں نے مسلسل کئی ہفتوں تک سڑکوں پر آ کر پرتشدد مظاہرے کیے۔
حالیہ امریکی انتخابات نے پہلی مرتبہ امریکی عوام کو تقسیم کر دیا کیوں کہ ٹرمپ نے اس انتخاب میں سفید فام قدامت پرست رجعت پسند امریکیوں کے تعصبات کو کالوں پر غیر ملکیوں اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا اور اس میں وہ کامیاب رہے۔ منفی قوم پرستی اس انتخاب میں غالب رہی۔ مشہور برطانوی جریدے اکانومسٹ نے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ امریکا اور یورپ میں وہ قوم پرستی پھر غالب ہو چکی ہے جو پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کا باعث بنی جس میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ اور امریکا میں الٹرا رائٹ قوم پرست پارٹیوں کی مقبولیت بہت بڑھ چکی ہے جس کے نتیجے میں لبرل سیکولر قوتیں جو مسلمانوں اور غیر ملکیوں کی محافظ تھیں انھیں مدافعانہ انداز اختیار کرتے ہوئے پیچھے ہٹنا پڑ رہا ہے۔ برطانیہ کا یورپ سے نکلنا اس کی تازہ ترین مثال ہے جس میں برطانوی عوام نے یورپ کے بجائے صرف اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھا۔ بھارت میں بھی یہی حال ہے مذہبی شدت پسندی پر مبنی قوم پرستی نے ترقی پسند سیکولر قوتوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ مذہبی شدت پسندی پاکستان میں کس درجہ پر ہے کہ 60ہزار سے زائد پاکستانی شہری اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔
ایک حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے تحت رواداری اور برداشت کے عوامل پوری دنیا میں کمزور کر دیئے گئے اس کی جگہ مذہبی اور ہر قسم کے تعصبات نے لے لی۔ سوال یہ ہے کہ یہ تعصبات کن کی ضرورت ہیں؟ انھی کی جن کی پوری دنیا پر بادشاہت ہے تاکہ عوام اور ملک تقسیم در تقسیم ہوتے رہیں اور ان کی بالادستی قائم رہے۔ یہ عالمی سرمایہ داری نظام کا کمال ہے۔ ہمارے خطے میں مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک اس نظام کا سب سے بڑا محافظ اسرائیل ہے۔
اسرائیل کی سلامتی امریکا کی سلامتی ہے۔ جب اسرائیل کی بقا کو خطرات لاحق ہوئے تو ایران کے خلاف وسیع پیمانے پر طویل مدتی جنگ چھیڑ دی گئی۔ اس کے بعد صدام اور قذافی جیسی اسرائیل مخالف طاقتوں کا خاتمہ کر دیا آخر میں شام باقی رہ گیا جو اسرائیل مخالف تھا چنانچہ بشارالاسد کو مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل مخالفت کے جرم کی سزا دینے کے لیے امریکا اور دیگ ممالک نے باغی گروہ شام میں داخل کیے اور ان کو ہر طرح کی جنگی مالی مدد دی اور الزام یہ لگایا کہ وہاں آمریت اور انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بادشاہتوں اور آمریتوں کے سوا ہے ہی کیا۔ مظلوم عرب اقوام کے نصیب میں ہزاروں سال سے یہی بادشاہتیں اور آمریتیں لکھی ہیں اب یہ بادشاہتیں آمریتیں مشرق وسطیٰ میں امریکی سرپرستی میں چل رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بشارالاسد اسرائیل کا حمایتی اور فلسطینیوں کا مخالف ہوتا تو کیا اس کی حکومت کا خاتمہ کیا جاتا؟ ایران پر جنگ مسلط کرنا ہو یا عالمی تنہائی سے دوچار کرنا ہو یا صدام قذافی کا خاتمہ یا عرب بہار ان سب کا واحد اور سب سے بڑا بینفشری اسرائیل ہوا۔ عراق، لیبیا، شام میں خانہ جنگی اور بے پناہ خون ریزی نے ان ملکوں کو انتہائی کمزور اور اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بالادست قوت بنا دیا۔
مذہب کے نام پر امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں مقامی حکمران طبقوں کی سازشیں اور خون بہے بے گناہ عورتوں بچوں اور مردوں کا۔ آخر کار تعصبات کی وہ فصل بار آور ہونے والی ہے جسے40سال سے طالبان، القاعدہ اور داعش کی شکل میں کاشت کیا جا رہا ہے حفظ ماتقدم کے طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے... چنانچہ تیسری عالمی جنگ سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لیے ناگزیر ہو گئی ہے۔
ایبٹ آباد کمیشن کے حوالے سے فروری مارچ 017ء اہم وقت ہے۔
امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے نے خیال ظاہر کیا ہے کہ روس نے صدارتی انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کو تقویت دینے کے لیے خفیہ طور پر کام کیا۔ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے پوری دنیا میں یہ تجسس اور خوف پایا جاتا ہے کہ ان کے دور حکومت میں دنیا کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سولہویں صدی کے ایک فرانسیسی فلاسفر کی پیشن گوئیوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ وہ ٹرمپ کی کامیابی کی پیش گوئی کر چکے ہیں کہ نئے امریکی صدر کے دور صدارت میں امریکا ''ناقابل حکمرانی'' ہو جائے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ پیش گوئی کس حد تک پوری ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پوری دنیا کے لیے بری خبر ہو گی۔ اب یہ عدم استحکام معاشی شکل میں ہو یا عسکری شکل میں دنیا پر اپنے ہولناک اثرات مرتب کرے گا۔ امریکا ایسی سلطنت جس کی پوری دنیا پر حکمرانی ہے۔ جب وہ ڈوبے گی تو یورپ جاپان سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں کو لے ڈوبے گی۔
امریکا کا انتخابی نظام بڑا عجیب ہے۔ ووٹ ہلیری نے زیادہ لیے جیت ٹرمپ کی ہو گئی۔ ہلیری نے ٹرمپ سے 53لاکھ سے زائد ووٹ لیے۔ یہ امریکی انتخابی نظام کا بڑا نقص ہے۔ یہ انتخابی نظام کی وہ خرابی ہے جس کے خلاف ہزاروں امریکی شہری انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد سڑکوں پر آ گئے۔
یہ وہ امریکی نظام ہے جس کا مقصد جنوب کی ریاستوں کی بالادستی قائم رکھنا ہے۔ یہ مدتوں پرانا انتخابی نظام اس وقت قائم کیا گیا جب جنوب کی ریاستوں کی زرعی معیشت کالوں کی غلامی پر استوار تھی جب کہ شمال کی ریاستیں کالوں کو غلامی سے آزاد اور انسانی حقوق کا حق دار سمجھتی تھیں، جنوب کی ریاستوں کو خطرہ تھا کہ کہیں کالے متعصب قدامت پرست سفید فام مذہب پرستوں کے برابر مقام نہ حاصل کر لیں۔ چنانچہ اس انتخابی نظام میں تمام ریاستوں میں ہر پارٹی کے حاصل کیے گئے ووٹوں کی بنیاد پر الیکٹرو کی تعداد کا تعین ہوتا ہے اور یہ تمام الیکٹرو الیکٹورل کالج کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ اس دفعہ الیکٹورل کالج 538نامزد اراکین پر مشتمل تھا۔
اس انتخابی نظام میں آخری فیصلہ امریکی عوام نہیں بلکہ الیکٹورل کالج کرتا ہے۔ یعنی 30کروڑ امریکی عوام کی قسمت کا فیصلہ یہ مٹھی بھر نمائندے کرتے ہیں۔ یہ امریکی انتخابی نظام کی خرابی ہی تھی جس کے خلاف انتخابات کے بعد ہزاروں امریکیوں نے مسلسل کئی ہفتوں تک سڑکوں پر آ کر پرتشدد مظاہرے کیے۔
حالیہ امریکی انتخابات نے پہلی مرتبہ امریکی عوام کو تقسیم کر دیا کیوں کہ ٹرمپ نے اس انتخاب میں سفید فام قدامت پرست رجعت پسند امریکیوں کے تعصبات کو کالوں پر غیر ملکیوں اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا اور اس میں وہ کامیاب رہے۔ منفی قوم پرستی اس انتخاب میں غالب رہی۔ مشہور برطانوی جریدے اکانومسٹ نے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ امریکا اور یورپ میں وہ قوم پرستی پھر غالب ہو چکی ہے جو پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کا باعث بنی جس میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ اور امریکا میں الٹرا رائٹ قوم پرست پارٹیوں کی مقبولیت بہت بڑھ چکی ہے جس کے نتیجے میں لبرل سیکولر قوتیں جو مسلمانوں اور غیر ملکیوں کی محافظ تھیں انھیں مدافعانہ انداز اختیار کرتے ہوئے پیچھے ہٹنا پڑ رہا ہے۔ برطانیہ کا یورپ سے نکلنا اس کی تازہ ترین مثال ہے جس میں برطانوی عوام نے یورپ کے بجائے صرف اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھا۔ بھارت میں بھی یہی حال ہے مذہبی شدت پسندی پر مبنی قوم پرستی نے ترقی پسند سیکولر قوتوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ مذہبی شدت پسندی پاکستان میں کس درجہ پر ہے کہ 60ہزار سے زائد پاکستانی شہری اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔
ایک حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے تحت رواداری اور برداشت کے عوامل پوری دنیا میں کمزور کر دیئے گئے اس کی جگہ مذہبی اور ہر قسم کے تعصبات نے لے لی۔ سوال یہ ہے کہ یہ تعصبات کن کی ضرورت ہیں؟ انھی کی جن کی پوری دنیا پر بادشاہت ہے تاکہ عوام اور ملک تقسیم در تقسیم ہوتے رہیں اور ان کی بالادستی قائم رہے۔ یہ عالمی سرمایہ داری نظام کا کمال ہے۔ ہمارے خطے میں مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک اس نظام کا سب سے بڑا محافظ اسرائیل ہے۔
اسرائیل کی سلامتی امریکا کی سلامتی ہے۔ جب اسرائیل کی بقا کو خطرات لاحق ہوئے تو ایران کے خلاف وسیع پیمانے پر طویل مدتی جنگ چھیڑ دی گئی۔ اس کے بعد صدام اور قذافی جیسی اسرائیل مخالف طاقتوں کا خاتمہ کر دیا آخر میں شام باقی رہ گیا جو اسرائیل مخالف تھا چنانچہ بشارالاسد کو مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل مخالفت کے جرم کی سزا دینے کے لیے امریکا اور دیگ ممالک نے باغی گروہ شام میں داخل کیے اور ان کو ہر طرح کی جنگی مالی مدد دی اور الزام یہ لگایا کہ وہاں آمریت اور انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بادشاہتوں اور آمریتوں کے سوا ہے ہی کیا۔ مظلوم عرب اقوام کے نصیب میں ہزاروں سال سے یہی بادشاہتیں اور آمریتیں لکھی ہیں اب یہ بادشاہتیں آمریتیں مشرق وسطیٰ میں امریکی سرپرستی میں چل رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بشارالاسد اسرائیل کا حمایتی اور فلسطینیوں کا مخالف ہوتا تو کیا اس کی حکومت کا خاتمہ کیا جاتا؟ ایران پر جنگ مسلط کرنا ہو یا عالمی تنہائی سے دوچار کرنا ہو یا صدام قذافی کا خاتمہ یا عرب بہار ان سب کا واحد اور سب سے بڑا بینفشری اسرائیل ہوا۔ عراق، لیبیا، شام میں خانہ جنگی اور بے پناہ خون ریزی نے ان ملکوں کو انتہائی کمزور اور اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بالادست قوت بنا دیا۔
مذہب کے نام پر امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں مقامی حکمران طبقوں کی سازشیں اور خون بہے بے گناہ عورتوں بچوں اور مردوں کا۔ آخر کار تعصبات کی وہ فصل بار آور ہونے والی ہے جسے40سال سے طالبان، القاعدہ اور داعش کی شکل میں کاشت کیا جا رہا ہے حفظ ماتقدم کے طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے... چنانچہ تیسری عالمی جنگ سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لیے ناگزیر ہو گئی ہے۔
ایبٹ آباد کمیشن کے حوالے سے فروری مارچ 017ء اہم وقت ہے۔