ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ

ایک درویش کی یاد منانے دوسرا درویش اتنے سرد موسم میں اتنا طویل اور تکلیف دہ سفر کر کے پہنچا

22 دسمبر 2016ء کی صبح بلکہ علی الصبح فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ میں نے ریسیور اٹھایا، میرا بھتیجا ناصر جالب بول رہا تھا۔ میں نے پوچھا ''خیریت ہے اتنی صبح فون کر رہے ہو؟'' وہ بولا ''یادگار لمحات ہیں، آپ کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔'' مجھے یہ سن کر اطمینان ہوا کہ خیریت ہے اور اچھی خبر ہے۔ میں نے اس سے کہا ''ہاں بھئی کیا خوش خبری ہے؟'' تو وہ بولا ''میرے گھر میں ایک بہت بڑی شخصیت میرے سامنے تشریف فرما ہیں، جناب ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ''۔ یہ خبر سن کر میرا دل بھی باغ باغ ہو گیا۔ ناصر جالب کہہ رہا تھا ''آج 22 دسمبر الحمرا لاہور میں ایک دن کا ''جالب میلہ'' کا اہتمام کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کوئٹہ سے بس میں بیٹھ کر لاہور آئے ہیں۔ ہم انھیں ٹھوکر نیاز بیگ کے بس اڈے سے گھر لائے ہیں۔''

زندگی میں کم دن ایسے آئے ہوں گے جن کی صبحوں کا آغاز اچھی خبر سے ہوا ہو گا۔ 22 دسمبر کی صبح کا آغاز بھی میرے لیے یادگار بن گیا ہے۔ ناصر کہہ رہا تھا ''لیجیے چچا! ڈاکٹر صاحب سے بات کیجیے۔'' پھر ڈاکٹر صاحب کی آواز آئی، وہی درویشانہ لب و لہجہ ''السلام علیکم! ناصر صاحب نے جالب صاحب کے لیے آواز دی۔ اور میں جالب صاحب کے لیے کوئٹہ سے لاہور کے لیے چل دیا۔ ابھی کچھ دیر پہلے بس نے لاہور پہنچایا ہے اور میں ناصر صاحب کے گھر پر ہی ٹھہرا ہوا ہوں۔'' یہ واقعی ''یادگار لمحے'' تھے۔ ایک اتنا بڑا انسان، جس کے لیے لاہور کے تمام بڑے بڑے دروازے ایک اشارے پر کھل سکتے ہیں، مگر اس نے پانچ مرلے (120 گز) کے اس گھر میں رہنے کو ترجیح دی، جس کی بیرونی دیوار پر ''حبیب جالب ہاؤس'' لکھا ہوا ہے۔

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو حبیب جالب ہاؤس میں ہی قیام کرنا چاہیے تھا۔ ایک ہم ہیں کہ سخت موسم کے ڈر سے گھر میں دبکے بیٹھے ہیں، ایک ڈاکٹر صاحب ہیں جن کے رستے میں کوئی شے رکاوٹ نہیں ہے۔ سردی ہو، گرمی ہو، کچھ ہو ''ہم کو چلنا ہے یونہی رات بسر ہونے تک''۔

مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ایسے ہی کسی اہم پروگرام کے لیے کوئٹہ سے بذریعہ بس کراچی آ رہے تھے۔ راستے میں بس خراب ہو گئی۔ رات کا وقت تھا، مکینک کو صبح آنا تھا، بس کی مسافر عورتیں اور ان کے مرد بس میں ہی لیٹ گئے اور ڈاکٹر صاحب سڑک کنارے بنے ہوئے بھٹیار خانے کے تندور کے ساتھ چادر لے کر لیٹ گئے۔ مجھے یہ واقعہ ڈاکٹر صاحب کے ایک دوست شاہجہان خان نے سنایا تھا۔ اس وقت مجھے عبیداللہ علیم کا ایک شعر یاد آ گیا ہے۔ ہائے! بھائی علیم بھی کیا کمال شاعر تھے، شعر سنیے!

اب تو یوں خانۂ تنہائی میں محبوب آئے
جیسے مجذوب کے گھر دوسرا مجذوب آئے

اسی غزل کا ایک اور شعر بھی یاد آ گیا، اسی گرما گرمی کی ذہنی فضا میں وہ بھی سن لیجیے!


ایک دربار کی تصویر میں کچھ اہل قلم
وقت کی آنکھ نے دیکھا کہ بہت خوب آئے

خیر! یہ بڑی خبر ہے کہ ایک درویش کی یاد منانے دوسرا درویش اتنے سرد موسم میں اتنا طویل اور تکلیف دہ سفر کر کے پہنچا اور درویش کے گھر پر ہی قیام کیا۔ کچھ اور باتیں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کے بارے میں۔ 1970ء کے تاریخی انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر بلوچستان قومی اسمبلی کے لیے ڈاکٹر صاحب جیت کر قومی اسمبلی کے کم عمر ترین ممبر منتخب ہوئے تھے۔ اور یہ ریکارڈ آج بھی قائم ہے۔ یاد رہے کہ 1970ء کے انتخابات میں پہلی بار بلوچستان کی اپنی صوبائی اسمبلی کا قیام بھی عمل میں آیا تھا، اور 22 اراکین صوبائی اسمبلی میں 20 منتخب ممبران صوبائی اسمبلی کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا اور 2 اراکین جمعیت علما اسلام سے تھے۔

میر عطا اللہ مینگل پہلے وزیر اعلیٰ بلوچستان بنے اور گورنر کا حلف بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے اٹھایا تھا، جو بلوچستان سے قومی اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہان تھے مولانا عبدالحمید بھاشانی اور عبدالولی خان۔ یہ تھا وہ سیاسی ماحول جس میں نوجوان ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے سیاست میں قدم رکھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کراچی کی معروف درسگاہ ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بھی بنائے گئے۔ اصول پرست رہنما اب 70 سال سے اوپر ہو چکے، مگر آج بھی ان کی جدوجہد جاری ہے، ہمتیں جوان ہیں، تھکاوٹ کا دور دور نشان نہیں ہے۔ سچ کی طاقت اور جوش و ولولے سے لبریز ان کا خطاب مجمع کو گرما دیتا ہے۔

یہاں میں یہ ذکر بھی کرتا چلوں کہ سال 2016ء کا حبیب جالب امن ایوارڈ عبدالحئی بلوچ صاحب کو دیا گیا۔ یوں ڈاکٹر صاحب ایوارڈ یافتگان کی اس فہرست میں شامل ہوگئے جہاں پہلے سے سوبھوگیان چندانی، مولانا عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب رضوی، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم، ڈاکٹر رتھ فاؤ، معراج محمد خان، عبدالحمید چھاپرا اور اعتزاز احسن (وکلا تحریک) موجود ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی خود یہ ایوارڈ 30 اپریل 2016ء کی شام آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں وصول کیا۔

جالب بھی سادہ بود و باش کے ساتھ ساری زندگی گزار کر چلے گئے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بھی ویسے ہی سادہ بود و باش والے انسان ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے۔ ہمارا مقابلہ جن لوگوں سے ہے وہ اعلیٰ بود و باش والے ہیں۔ ''نظام زر'' کے کارندے ہیں عوام کے حقوق پر قابض ہیں۔ جالب کہتا ہے:

جیو ہماری طرح سے، مرو ہماری طرح
نظامِ زر تو اسی سادگی سے جائے گا
Load Next Story