کہیں سب تباہ نہ ہوجائے

فطرت ہمیشہ سے سب پر مہربان رہی ہے اور اس نے کرۂ ارض پر ماحولیاتی اور حیایتاتی توازن کو برقرار رکھا

mehmoodenv@gmail.com

فطرت ہمیشہ سے سب پر مہربان رہی ہے اور اس نے کرۂ ارض پر ماحولیاتی اور حیایتاتی توازن کو برقرار رکھا۔ حضرت انسان لاکھوں برسوں سے اس دنیا میں موجود ہے۔ فطرت نے اس کی بقا کا ماحول پیدا کیا اور انسان نے بھی ایک فرمانبردار بچے کا انداز اپنائے رکھا، لاکھوں برسوں میں کیا کچھ نہ ہوا لیکن انسان نہ صرف زندہ رہا، خوش رہا، بلکہ آگے بڑھتا گیا۔ انسان اور فطرت میں ہم آہنگی تھی اور دنیا انتہائی خوبصورت، مہربان اور پُرامن جگہ تھی۔

صرف دو، ڈھائی سو سال پہلے انسان نے ایک زقند لگائی۔ جدید اور دیوہیکل مشینوں نے کرۂ ارض پر ایک انقلاب برپا کیا۔ انسان جب با اختیار اور طاقتور ہوا اس نے سب سے پہلے قدرتی ماحول کو اپنا نشانہ بنایا اور اس پر یوں حملہ آور ہوا جیسے کوئی بدترین دشمن ہو۔ صنعتی نظام کے ان دو، ڈھائی سو سالہ دور میں ہم نے فطرت کے نظام میں اتنی شدید مداخلت کی کہ اس کا توازن بکھرنے لگا، ہم نے ترقی، خوشحالی اور دولت کے لیے قدرتی ماحول کو تباہ کر ڈالا۔ توازن بے ترتیب ہوا تو فطرت کا قہر ناک ہونا بھی فطری امر تھا۔ اب ہر طرف ایک کہرام بپا ہے کہ دنیا کو سنبھالو، کرۂ ارض کو بچاؤ۔

اب ہمارے ذہنوں سے یہ خبط نکل رہا ہے کہ ہماری جنگ فطرت کے خلاف ہے اور انسان ایک دن بالآخر فطرت پر غالب آجائے گا۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی حکومتیں، دنیا کے بڑے مذاہب، عالمی پالیسی ساز، انفرادی طور پر اثرو رسوخ رکھنے والی عالمی شخصیات سب کرۂ ارض کو محفوظ بنانے اور ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کے لیے اپنی کوششیں کررہے ہیں۔ دنیا کے جن ملکوں میں ماحول اور فطرت کے حوالے سے لوگوں میں آگہی کی سطح بلند ہے وہاں اب ماحولیات کا تحفظ کرنے کے لیے مختلف سطح پر اقدامات اٹھائے جار ہے ہیں اور وہاں کے عوام ان پر عمل کرنے میں مصروف ہیں۔

ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں ماحولیات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ حکومتیں، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتیں اور ذرائع ابلاغ کی نظر میں دیگر امور و معاملات قدرتی ماحول کے تحفظ جیسے ''بے کار کام'' کے مقابلے زیادہ اہم سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں ایک مخصوص نفسیات پائی جاتی ہے، اگر کوئی منصوبہ شروع کیا جاتا ہے تو یہ بحث شروع ہوجاتی ہے کہ اس منصوبے پر اتنا ''سرمایہ'' برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے جب کہ دیگر دیرینہ مسائل ہنوز حل طلب ہیں۔ جہاں یہ ماحول ہو وہاں آپ کسی سے کہیں کہ پرندوں کو نہ ماریں، جنگلی حیات پر رحم کریں تو لوگ طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کس طرح کے لوگ ہیں، یہاں انسانوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں اور آپ جنگلی حیات کو بچانے کی بات کرتے ہیں۔

اگر کہا جائے کہ ہمارے بڑے شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی صف میں شامل ہو چکے ہیں اور فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اقدامات کرنے چاہئیں یا آبی آلودگی کا ہر قیمت پر خاتمہ ہونا ضروری ہے، جنگلات اور درختوں کا تحفظ کرنا بے حد ضروری ہے تو مضحکہ اڑاتے ہوئے فرمایا جاتا ہے کہ انھیں مغربی این جی اوز سے پیسہ ملتا ہے۔ یہ کہا جائے کہ زہریلی گیسوں کے اخراج پر قابو نہ پایا گیا تو دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا رہے گا اور وہ دن بھی آئے گا جب کرۂ ارض کا ماحولیاتی توازن درہم برہم ہو جائے گا بلکہ اس کے نتیجے میں زندگی بھی رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گی تو اس کا بھی تمسخر اڑایا جاتا ہے۔


دنیا کی بیشتر حکومتیں ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی پالیسیوں اور اپنے عوام کے رویوں میں تبدیلی لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ہمارا انفرادی اور اجتماعی رویہ وقت کو ٹالنے، وقت پر درست فیصلے نہ کرنے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کا نہیں ہے۔ ہمارے ان ہی ہلاکت خیر رویوں کی وجہ سے پورا ملک آلودگی کی آماجگاہ بن چکا ہے، کون سی شے ہے جو آلودہ نہیں ہے۔ جب اپنے ملک کو معاشی تباہی اور معاشرتی ابتری سے بچانے کی فکر موجود نہ ہو تو ماحول کو بچانے کی فکر کیسے ہو گی؟

ماحول کا تحفظ کیا جائے تو ہر سال کھربوں روپے کا نقصان بچایا جا سکتا ہے۔ ہم اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں کہ جنوبی ایشیا کا خطہ عالمی موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ بے موسم اور موسم کی شدید بارشیں، گرمی کی شدید لہر خشک سالی، سیلاب، آبی و فضائی آلودگی، تیزی سے کم ہوتے پانی کے ذخائر یہ تمام عوامل نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کو کتنا شدید نقصان پہنچا رہے ہیں اور آیندہ اس کی شدت میں کتنا اضافہ ہو گا اس کا ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں ہے۔

پاکستان پچھلی دو دہائیوں سے موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ملکوں میں سرفہرست ہے۔ ہم کئی برسوں سے خشک سالی، سیلابوں، گرمی کی شدید لہر، پانی کی کمی اور دیگر قدرتی آفات بھگت رہے جس کے اثرات براہ راست ملک کی معیشت پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین سمیت کئی ماحولیاتی ادارے اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ آنے والی دہائیوں میں عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کی بہ نسبت پاکستان کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ زیادہ تیزی سے ہو گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک، ورلڈ بینک، بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی سمیت دنیا کے متعدد اداروں کی رپورٹوں میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے تشویشناک انڈیکیٹرز کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے ملک کے ساحلی علاقوں سے دیگر مقامات کی جانب نقل مکانی کرنے والے ماحولیاتی مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین اسے ابتدا قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کے بیشتر علاقے پہلے ہی سے خشک سالی کا شکار ہیں اور اب ملک کے معتبر موسمیاتی ماہرین شدید خشک سالی کی خبریں سنا رہے ہیں، اسی کے ساتھ ماہرین آنے والے دنوں میں قلت آب کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ بد ترین ماحولیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہے۔ ہمیں بھی تبدیل ہوتے ہوئے موسموں کی طرح اپنے طرز عمل اور طرز فکر میں تبدیلی لانا ہوگی۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلی تیزی کے ساتھ انسانی زندگیوں پر اثر انداز ہورہی ہے اور اس کے سنگین اثرات ہماری زندگیوں پر مرتب ہونا شروع ہوچکے ہیں۔

ہماری حکومتوں کا یہ عذر قابل قبول نہیں کہ ہم زہریلی گیسوں کے اخراج میں انتہائی معمولی حصہ رکھتے ہیں لہٰذا ہماری ذمے داری بھی کم ہے۔ ان دلائل کے پیچھے چھپنے کے بجائے ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مزید قانون سازی کرنے کے علاوہ پہلے سے موجود قوانین پر موثر عمل درآمد کرانا ہوگا کیوں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ دوسری طرف ہمیں من حیث القوم انفرادی طور پر بھی عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہمیں اپنے جنگلات کا رقبہ بڑھانے کے لیے ملک کے کونے کونے میں پائیدار شجر کاری کرنا ہو گی تاکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں کمی لائی جاسکے۔

ہمیں انفرادی طور پر پانی کی بچت کرنا ہوگی اور اس کے ضیاع کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہمیں گلی محلوں میں کوڑا جلانے سے پرہیز کرنا ہوگا اور دوسروں کو بھی روکنا ہوگا۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جب کرۂ ارض ہی محفوظ نہیں ہوگا تو ہماری معاشی، معاشرتی اور سماجی سرمایہ کاری بھی بے مقصد اور لا حاصل ثابت ہوگی۔ اگر ہم نے وقت پر درست فیصلے کرنے کا سلسلہ شروع نہ کیا اور اپنے طرز فکر کو تبدیل نہ کیا کہیں سب کچھ تباہ نہ ہوجائے۔
Load Next Story