آمریت کے درپردہ حمایتی اور خواہشمند
عوام شیخ رشید کے چٹکلوں سے تو لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اُن کی سیاست کے طریقوں اور اندازِ فکر سے قطعی خوش نہیں.
ہمارے یہاں اب بھی کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ جمہوریت کو پھلنے پھولنے کے لیے کوئی زیادہ وقت اور موقعہ دیا جائے۔ وہ بڑی بے تابی کے ساتھ اُس کی بساط اُلٹ جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جمہوریت کسی نہ کسی طرح اپنی پٹری سے اُتر جائے اور ملک کے اندر ایسی انارکی پھیلے کہ غیر جمہوری قوتوں کو اقتدار پر قبضے کا کوئی بہانہ مل جائے۔
اپنی اِس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ حسرت بھری نگاہوںسے کبھی سونامی خان کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی حال ہی میں کینیڈا سے درآمد کردہ شیخ الاسلام کو اپنی اُمیدوں کا محور سمجھ لیتے ہیں۔ اُنھیں معلوم ہے کہ وہ خود تو جمہوریت کے ذریعے برسرِ اقتدار نہیں آسکتے ہیں لہذا کیوں نہ ایسے لوگوں کا ساتھ دیا جائے جنھیں جمہوریت کے نام سے چڑ ہو چکی ہے اور جو ریاست بچانے کے نام پر جمہوری سیاست کے بہت بڑے مخالف کے طور پر اُبھرنا چاہتے ہوں۔
یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ ملک کے حالات انتہائی خستہ اور کشیدہ ہیں۔حکمرانوں کی بد انتظامی اور بد عنوانی نے عوام کی زندگی اجیرن بنا کر رکھدی ہے۔ مہنگائی، کرپشن اور امن و امان کی دگر گوں صورتحال نے قوم کو نااُمیدی اور مایوسیوں کے اندھیروں میں غرق کر دیا ہے۔لیکن پھر بھی اگر آس و اُمید کی کوئی کرن باقی ہے تو وہ عنقریب ہونے والے انتخابات ہی سے وابستہ ہے۔ لوگوں کی کوشش ہے کہ وہ اپنے ووٹوں سے شاید تبدیلی کی کوئی راہ تلاش کر لینگے اور ملک و قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے اِس موقعے کو موقعہِ غنیمت جان کر کوئی مثبت پیشرفت کر دکھائیں گے۔
اب تک کی جانے والی اپنی غلطیوں کا احساس کر تے ہوئے اِس بار ایسے حکمرانوں کا انتخاب کرینگے جو اِس قوم کی ڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکال کر کسی محفوظ مقام پر لے آئیں بلکہ تیزی سے ترقی یافتہ دنیا کے ہم پلہ بناتے ہوئے اپنی قوم کو ایک روشن مستقبل سے ہمکنارکر دیں۔ اِنہی توقعات سے ساتھ لوگ الیکشن کا انتظار کر رہے ہیں جو مارچ کے بعد کسی وقت بھی منعقد ہو سکتے ہیں۔ اب ایسے موقعے پر ایک شخص اچانک کینیڈا سے نمودار ہوتا ہے اور ایک زبر دست تشہیری مہم کے ذریعے اپنے جلسے کی کامیابی کے لیے خوب پیسہ خرچ کرتا ہے۔خود کو قوم کا نجات دہندہ گردانتے ہوئے سیاست سے نفرت کا ایک سلوگن بلند کرتا ہے اور ریاست کے بچاؤ کے نام پر جمہوریت دشمنی کا درس دیتا ہے۔
65برسوں کی خرابی کو درست کرنے کے لیے موجودہ حکمرانوں کو صرف دو ہفتے کا الٹی میٹم دیتا ہے اور 14جنوری کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کر کے اُسے التحریر اسکوائر بنا دینے کے عزم کا اعلان فرماتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا جب وہ جلسے کے حاضرین کومکمل پُر امن رہنے کی تلقین بھی کرتا ہو اور ایک شیشہ بھی نہ توڑنے کا وعدہ بھی لیتا ہووہ 14جنوری کو اسلام آباد میں کسی کا ولیمہ تو کھانے نہیں جا رہا وہ بزورِ طاقت ایک ایسی حکومت کا خاتمہ کرنے جا رہا ہے جس کی اپنی میعاد مارچ کے ابتدائی دنوں میں پوری ہو نے والی ہے پھر بھلا صرف ایک دیڑھ ماہ بیشتر اِس ساری مہم جوئی کا مقصد کیا ہے ۔
وہ جانتا ہے کہ ووٹوں کے ذریعے وہ کبھی بھی برسرِ اقتدار نہیں آسکتا ہے اِسی لیے ملک کے اندر صرف انارکی پھیلاکر ہی وہ غیر جمہوری قوتوں کی خواہشوں کی تکمیل کا سامان پیدا کرسکتا ہے جس کے بدلے میں شاید اُسے آیندہ کوئی شراکتِ اقتدارکا ساجھامیسر آجائے اور آئین و دستور کی مکمل پامالی کا انعام پا کر ایک بار پھر اُسی دیس میں جابسیں جس کی شہریت اُسے اپنے وطن کی شہریت سے زیادہ عزیز ہے۔
آئین کی شق نمبر 62اور63 سمیت ایک ایک شقوں کے تشریح اور اُس پر مکمل عملدرآمد کے علم بردار کی اپنی ساکھ کا یہ حال ہے کہ توہینِ رسالت کے قانون سے متعلق اُس کے بیانات اپنے وطن میں کچھ اور ہوتے ہیں اور دیارِ غیر میں کچھ اور۔ یہاں وہ قوم کے سامنے اِس قانون کے اجراء کا سہرا اپنے سر باندھتا دکھائی دیتا ہے اور غیروں کے آگے اُس سے خود کو لا تعلق ظاہر کر تا نظر آتا ہے۔یہاں ان کا کہنا ہے کہ اِس قانون کے اطلاق سب پر یکساں ہوگا خواہ وہ مسلمان وہ یا غیر مسلم لیکن سمندرپار اپنے غیر مسلم آقاؤں کے دیس میں اِسے صرف مسلمانوں پر لاگو قرار دیتا ہے۔
یہ تضاد بیانی اور در رخی پالیسی اگر کسی عام آدمی کی جانب سے کی گئی ہوتی تو شاید ہمیں اعتراض نہیں ہوتالیکن ایک ایسا شخص جو ایک اسلامی تحریک منہاج القران کا سربراہ بھی ہو اُسے ایسا کرنا زیب نہیں دیتا ۔لاہور کے مینارِ پاکستان کے سائے میں منعقد کیا جانے والا اُن کا اجتماع یقیناً بے مثال تھا لیکن اُس اجتماع کو ورغلا کر پارلیمنٹ پر چڑھائی کی ترغیب دینا کسی طور مناسب نہیں ہے۔
جولائی 1987میں محترمہ بے نظیر بھٹو جب ضیا ء دور میں لاہور ائیر پورٹ پر اُتری تھیں توایک زبردست عوامی ریلی سے خطاب کر تے ہوئے اُنھوں نے بھی یہی فرمایا تھا کہ اگر میں چاہوں تو اِس جمِ غفیر کو ابھی لاہور اسمبلی کے درودیوار ہلا دینے کا حکم دے سکتی ہوں لیکن میں ایسا ہر گز نہیںکرو ں گی۔ اور اُنھوں ایساکرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے لیے ایک جمہوری راستہ چنا۔
مولانا طاہرالقادری نے اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے جو مہلت حکمرانوں کو دی ہے وہ اُن سمیت سب کو معلوم ہے کہ یہ ایک ناممکن ٹاسک ہے جو کسی صورت دو ہفتوں کے قلیل عرصے میں پورا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اُن کے اِس اعلان سے اگر کوئی مطمئن اور خوش ہے تو وہ لال حویلی کے مکین شیخ رشید ، مسلم لیگ (ق)کے بعض زعماء اورچند درپردہ سیاسی شخصیات و افراد جو ابھی کُھل کر سامنے آنا نہیں چاہتے۔وہ وقت کے بدلتے تیور کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔جمہوریت سے اُنھیں کوئی خاص لگاؤ نہیں ہے وہ صرف اقتدار میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ وہ دور جمہوری ہو یا غیر جمہوری۔
شیخ رشید کی مجبوری ہے کہ عوام اُن کے چٹکلوں اور زبان و بیان کی لن ترانیوں سے تو خوب لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اُن کی سیاست کے موجودہ طور طریقوں اور اندازِ فکر سے قطعی خوش نہیں ہیں اِسی لیے 13 اگست کو لیاقت باغ میں منعقد ہونے والا اجتماع عمران خان کی موجودگی کے باوجود کوئی یادگار تاثر قائم نہیں کر سکا۔ شیخ رشید جب سے مسلم لیگ (ن) سے الگ ہوئے ہیں. اُن کی سیاست یتیم بچے کی مانند بے سہارا ہوچکی ہے۔
اب وہ کسی ایسے دور کے انتظار میں دن گذار رہے ہیں جہاں اُنھیں پرویز مشرف جیسامطلق العنان شخص ایک بار پھر نصیب ہوجائے جس کے وہ مدح سرا اور ترجمان بن سکیں۔ اِسی آرزو اور تمنا میں وہ ہر اُس شخص کی حمایت کے لیے بے تاب و بے کراں دکھائی دیتے ہیں جو جمہوری سیاست کا سب سے بڑا مخالف ہو اور جو ملک کے اندر انارکی پھیلا کر جمہوری بساط کے اُلٹ جانے کا خواہاں ہو۔
اپنی اِس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ حسرت بھری نگاہوںسے کبھی سونامی خان کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی حال ہی میں کینیڈا سے درآمد کردہ شیخ الاسلام کو اپنی اُمیدوں کا محور سمجھ لیتے ہیں۔ اُنھیں معلوم ہے کہ وہ خود تو جمہوریت کے ذریعے برسرِ اقتدار نہیں آسکتے ہیں لہذا کیوں نہ ایسے لوگوں کا ساتھ دیا جائے جنھیں جمہوریت کے نام سے چڑ ہو چکی ہے اور جو ریاست بچانے کے نام پر جمہوری سیاست کے بہت بڑے مخالف کے طور پر اُبھرنا چاہتے ہوں۔
یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ ملک کے حالات انتہائی خستہ اور کشیدہ ہیں۔حکمرانوں کی بد انتظامی اور بد عنوانی نے عوام کی زندگی اجیرن بنا کر رکھدی ہے۔ مہنگائی، کرپشن اور امن و امان کی دگر گوں صورتحال نے قوم کو نااُمیدی اور مایوسیوں کے اندھیروں میں غرق کر دیا ہے۔لیکن پھر بھی اگر آس و اُمید کی کوئی کرن باقی ہے تو وہ عنقریب ہونے والے انتخابات ہی سے وابستہ ہے۔ لوگوں کی کوشش ہے کہ وہ اپنے ووٹوں سے شاید تبدیلی کی کوئی راہ تلاش کر لینگے اور ملک و قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے اِس موقعے کو موقعہِ غنیمت جان کر کوئی مثبت پیشرفت کر دکھائیں گے۔
اب تک کی جانے والی اپنی غلطیوں کا احساس کر تے ہوئے اِس بار ایسے حکمرانوں کا انتخاب کرینگے جو اِس قوم کی ڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکال کر کسی محفوظ مقام پر لے آئیں بلکہ تیزی سے ترقی یافتہ دنیا کے ہم پلہ بناتے ہوئے اپنی قوم کو ایک روشن مستقبل سے ہمکنارکر دیں۔ اِنہی توقعات سے ساتھ لوگ الیکشن کا انتظار کر رہے ہیں جو مارچ کے بعد کسی وقت بھی منعقد ہو سکتے ہیں۔ اب ایسے موقعے پر ایک شخص اچانک کینیڈا سے نمودار ہوتا ہے اور ایک زبر دست تشہیری مہم کے ذریعے اپنے جلسے کی کامیابی کے لیے خوب پیسہ خرچ کرتا ہے۔خود کو قوم کا نجات دہندہ گردانتے ہوئے سیاست سے نفرت کا ایک سلوگن بلند کرتا ہے اور ریاست کے بچاؤ کے نام پر جمہوریت دشمنی کا درس دیتا ہے۔
65برسوں کی خرابی کو درست کرنے کے لیے موجودہ حکمرانوں کو صرف دو ہفتے کا الٹی میٹم دیتا ہے اور 14جنوری کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کر کے اُسے التحریر اسکوائر بنا دینے کے عزم کا اعلان فرماتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا جب وہ جلسے کے حاضرین کومکمل پُر امن رہنے کی تلقین بھی کرتا ہو اور ایک شیشہ بھی نہ توڑنے کا وعدہ بھی لیتا ہووہ 14جنوری کو اسلام آباد میں کسی کا ولیمہ تو کھانے نہیں جا رہا وہ بزورِ طاقت ایک ایسی حکومت کا خاتمہ کرنے جا رہا ہے جس کی اپنی میعاد مارچ کے ابتدائی دنوں میں پوری ہو نے والی ہے پھر بھلا صرف ایک دیڑھ ماہ بیشتر اِس ساری مہم جوئی کا مقصد کیا ہے ۔
وہ جانتا ہے کہ ووٹوں کے ذریعے وہ کبھی بھی برسرِ اقتدار نہیں آسکتا ہے اِسی لیے ملک کے اندر صرف انارکی پھیلاکر ہی وہ غیر جمہوری قوتوں کی خواہشوں کی تکمیل کا سامان پیدا کرسکتا ہے جس کے بدلے میں شاید اُسے آیندہ کوئی شراکتِ اقتدارکا ساجھامیسر آجائے اور آئین و دستور کی مکمل پامالی کا انعام پا کر ایک بار پھر اُسی دیس میں جابسیں جس کی شہریت اُسے اپنے وطن کی شہریت سے زیادہ عزیز ہے۔
آئین کی شق نمبر 62اور63 سمیت ایک ایک شقوں کے تشریح اور اُس پر مکمل عملدرآمد کے علم بردار کی اپنی ساکھ کا یہ حال ہے کہ توہینِ رسالت کے قانون سے متعلق اُس کے بیانات اپنے وطن میں کچھ اور ہوتے ہیں اور دیارِ غیر میں کچھ اور۔ یہاں وہ قوم کے سامنے اِس قانون کے اجراء کا سہرا اپنے سر باندھتا دکھائی دیتا ہے اور غیروں کے آگے اُس سے خود کو لا تعلق ظاہر کر تا نظر آتا ہے۔یہاں ان کا کہنا ہے کہ اِس قانون کے اطلاق سب پر یکساں ہوگا خواہ وہ مسلمان وہ یا غیر مسلم لیکن سمندرپار اپنے غیر مسلم آقاؤں کے دیس میں اِسے صرف مسلمانوں پر لاگو قرار دیتا ہے۔
یہ تضاد بیانی اور در رخی پالیسی اگر کسی عام آدمی کی جانب سے کی گئی ہوتی تو شاید ہمیں اعتراض نہیں ہوتالیکن ایک ایسا شخص جو ایک اسلامی تحریک منہاج القران کا سربراہ بھی ہو اُسے ایسا کرنا زیب نہیں دیتا ۔لاہور کے مینارِ پاکستان کے سائے میں منعقد کیا جانے والا اُن کا اجتماع یقیناً بے مثال تھا لیکن اُس اجتماع کو ورغلا کر پارلیمنٹ پر چڑھائی کی ترغیب دینا کسی طور مناسب نہیں ہے۔
جولائی 1987میں محترمہ بے نظیر بھٹو جب ضیا ء دور میں لاہور ائیر پورٹ پر اُتری تھیں توایک زبردست عوامی ریلی سے خطاب کر تے ہوئے اُنھوں نے بھی یہی فرمایا تھا کہ اگر میں چاہوں تو اِس جمِ غفیر کو ابھی لاہور اسمبلی کے درودیوار ہلا دینے کا حکم دے سکتی ہوں لیکن میں ایسا ہر گز نہیںکرو ں گی۔ اور اُنھوں ایساکرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے لیے ایک جمہوری راستہ چنا۔
مولانا طاہرالقادری نے اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے جو مہلت حکمرانوں کو دی ہے وہ اُن سمیت سب کو معلوم ہے کہ یہ ایک ناممکن ٹاسک ہے جو کسی صورت دو ہفتوں کے قلیل عرصے میں پورا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اُن کے اِس اعلان سے اگر کوئی مطمئن اور خوش ہے تو وہ لال حویلی کے مکین شیخ رشید ، مسلم لیگ (ق)کے بعض زعماء اورچند درپردہ سیاسی شخصیات و افراد جو ابھی کُھل کر سامنے آنا نہیں چاہتے۔وہ وقت کے بدلتے تیور کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔جمہوریت سے اُنھیں کوئی خاص لگاؤ نہیں ہے وہ صرف اقتدار میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ وہ دور جمہوری ہو یا غیر جمہوری۔
شیخ رشید کی مجبوری ہے کہ عوام اُن کے چٹکلوں اور زبان و بیان کی لن ترانیوں سے تو خوب لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اُن کی سیاست کے موجودہ طور طریقوں اور اندازِ فکر سے قطعی خوش نہیں ہیں اِسی لیے 13 اگست کو لیاقت باغ میں منعقد ہونے والا اجتماع عمران خان کی موجودگی کے باوجود کوئی یادگار تاثر قائم نہیں کر سکا۔ شیخ رشید جب سے مسلم لیگ (ن) سے الگ ہوئے ہیں. اُن کی سیاست یتیم بچے کی مانند بے سہارا ہوچکی ہے۔
اب وہ کسی ایسے دور کے انتظار میں دن گذار رہے ہیں جہاں اُنھیں پرویز مشرف جیسامطلق العنان شخص ایک بار پھر نصیب ہوجائے جس کے وہ مدح سرا اور ترجمان بن سکیں۔ اِسی آرزو اور تمنا میں وہ ہر اُس شخص کی حمایت کے لیے بے تاب و بے کراں دکھائی دیتے ہیں جو جمہوری سیاست کا سب سے بڑا مخالف ہو اور جو ملک کے اندر انارکی پھیلا کر جمہوری بساط کے اُلٹ جانے کا خواہاں ہو۔