بھلائی اور ترقی کا راز
زندگی میں کتنی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم خود کو صحیح سمجھ رہے ہوتے ہیں
گل دستۂ معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اِک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
یہ کمال تو اربوں انسانوں میں منفرد شاعر میرانیس ، میر تقی میر، غالب، ہومر، شیکسپئیر اور ان جیسے چند دیگر اصحاب ہی کا ہے کہ وہ الفاظ میں چھپے معانی کو نئے نئے انداز میں بیان کرسکتے ہیں، لیکن اس دنیا میں ہر عام آدمی کی سوچ یا شخصیت کا اظہار سب سے زیادہ اس کے کلام یا گفتگو کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں ۔
تا مرد سخن نگفتہ باشد عیب و ہنرش نہفتہ باشد
''جب تک کوئی آدمی بات نہ کرے اس کے عیب وہنر چھپے رہتے ہیں۔''
کلام الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے، خیالات، جذبات اور محسوسات کا اظہار الفاظ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ بعض الفاظ جتنے بھی اچھے ہوں اگر انھیں ادا کرنے والے کا لہجہ اچھا نہ ہو تو اچھے الفاظ بھی تکلیف دہ نشتر بن کر نہ صرف دکھ دیتے ہیںبلکہ عزت نفس کو بھی مجروح کردیتے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا تھا کہ تلوارکا زخم تو بھر سکتا ہے لیکن لہجے سے لگنے والا زخم کبھی نہیں بھرتا۔
روحانی بزرگ پردہ کشائی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر شے کے دو رخ ہیں۔ ظاہر کا دوسرا رخ باطن ہے، مادہ کا دوسرا رخ روح ہے، دن کا دوسرا رخ رات ہے، مرد کا باطنی رخ عورت ہے اور عورت کا باطنی رخ مرد ہے۔ گفتگو کا ظاہر الفاظ اور لہجہ ہیں ، باطن نیت اور ارادہ ہیں۔ انسان اپنے ارادے، اپنے عزم، اپنے وعدوں کا اظہار اپنی زبان سے ہی توکرتا ہے۔ عزت دار اور غیرت مند افراداور معاشرے اپنی زبان کا پاس رکھتے ہیں۔ ان اوصاف سے محروم لوگ اپنے الفاظ، اپنی زبان کے پابند نہیں ہوتے۔
کسی آدمی کی کہی ہوئی بات سچ بھی ہوسکتی ہے اور جھوٹ یا غلط بھی۔ جھوٹ ہمیشہ ارادتاً بولا جاتا ہے لیکن کوئی غلط بات ارادی بھی ہوسکتی ہے اور غیر ارادی بھی۔
کچھ عرصے پہلے میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک تقریب میں شرکت کے لیے کراچی کے علاقے گلشن ِ اقبال گیا۔ میزبان کے گھر کا راستہ ہمیں معلوم نہ تھا۔ اردو یونیورسٹی کے قریب راہ چلتے ایک صاحب کو بلاک اور مکان کا نمبر بتاکر میں نے راستہ معلوم کیا۔ میری بات سن کر انھوں نے چند لمحے سوچا پھر مجھے راستہ سمجھا دیا۔ ہم ان صاحب کے بتائے ہوئے راستے پر چل پڑے کچھ دور جاکر اندازہ ہوا کہ ہم تو اپنی منزل کے مخالف سمت میں جارہے تھے۔ بہت کوفت ہوئی۔ دیکھیے ...! جن صاحب سے راستہ پوچھا گیا انھوں نے یہ کہنے کے بجائے کہ انھیں معلوم نہیں محض اپنے اندازے راستہ بتانا مناسب سمجھا اور راہ گیروں کی غلط رہنمائی کربیٹھے۔ اس واقعے کو میں نے غیر ارادی طور پرکہی گئی ایک غلط بات کے خانے میں رکھا۔ وہ صاحب اپنے تئیں شائد ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں۔
زندگی میں کتنی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم خود کو صحیح سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ہم غلط ہوتے ہیں۔ کبھی ہم خود غلط سمت میں چل رہے ہوتے ہیں اورکبھی دوسروں کو غلط راہوں پر ڈال دیتے ہیں۔ صحیح رہنمائی کرنا ایک بڑی ذمے داری ہے اور یہ کسی آدمی کے اعلیٰ اخلاق کی نشانی ہے۔
دوسری عالمی جنگ میں تباہ ہوکر دنیا میں دوبارہ عروج پانے والی جاپانی قوم کئی اچھی عادتوں کی مالک ہے۔ یہاں میں اپنے قارئین کے سامنے جاپانیوں کی ایک خوبی بیان کرتا ہوں ۔ جاپان میں کوئی راہگیر خواہ پیدل ہو یا کار میں ہو اگر کسی سے راستہ پوچھ لے تو وہ شخص خواہ کتنے ہی ضروری کام سے جارہا ہو پوری توجہ سے اس مسافر کی بات سنتا ہے۔ اگر اسے راستہ معلوم نہ ہو تو وہ معذرت کرلے گا یا پھر اس مسافرکو وضاحت کے ساتھ راستہ بتائے گا۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس بات کا یقین بھی کرنا چاہے گا کہ اس نے جو کچھ بتایا ہے مسافر نے اسے ٹھیک طرح سمجھ لیا ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی سے جاپان میں راستہ پوچھ لینے کا مطلب اسے پریشانی میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔ اسے جب تک یہ اطمینان نہ ہوجائے کہ مسافر یا راہگیر نے اس کی بات اچھی طرح سمجھ لیا ہے وہ فکرمند ہی رہے گا۔ اس قسم کے واقعات جاپانی قوم کے اعلیٰ اخلاق کو اجاگر کرتے ہیں۔
کسی راہ چلتے کو درست راستہ بتادینا اچھائی ہے اور نیکی کا کام ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ کسی کی غلط رہنمائی کردینا ایک برا کام ہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہم واپس اپنے موضوع پر آتے ہیں۔
گفتگو کرتے ہوئے آدمی یا تو سچ بولتا ہے یا غلط بیانی سے کا م لیتا ہے۔ سچ کی ایک خوبی یہ ہے کہ سچ حافظے کو زیادہ زحمت نہیں دیتا ،کیونکہ سچ ہمیشہ ایک ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے کو یہ یاد رکھنا پڑتا ہے کہ اس نے کس کس کے سامنے کیا کیا غلط بیانیاں کیں۔ جھوٹ سے وقتی طور پر توکئی کام نکل جاتے ہیں لیکن جھوٹ کبھی پنپتا نہیں۔ دانا کہتے ہیں ناں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ۔اس بات کو اس طرح بھی کہا گیا ہے کہ دروغ کو فروغ نہیں۔ سچ کا ایک نتیجہ اطمینان اور ترقی ہے جہاں سچ نہیں ہوگا وہاں پریشانیاں، تنزلی اور اضمحلال ہوگا۔آپ دورِ حاضر میں مختلف اقوام کا جائزہ لے لیجیے۔ امریکا، یورپ، آسٹریلیا، چین، جاپان اور دنیا کے دیگر کئی ترقی یافتہ قوموں کے روز مرہ معاملات کو دیکھیے۔ ان معاشروں میں افراد اور ادارے سچ بولتے ہیں۔ جھوٹ وہاں قابلِ قبول نہیں۔ ایسے معاشروں اورملکوں کی ترقی سب کے سامنے ہے۔ ایشیا، افریقہ اور دنیا کے دیگر خطوں کے وہ ممالک جہاں حکمران، سیاست دان، افسر، تاجر اور معاشرے کے دیگر افراد جب چاہیں جھوٹ کا سہارا لیتے رہتے ہیں وہاں کے عام لوگوں کا حال بھی دیکھ لیجیے۔
سچ پنپتا ہے ، جھوٹ سمٹتا ہے ، لیکن یہ سب کچھ ایسے معاشروں میں ہوتا ہے جہاں جوابدہی کا احساس ہو، صفائی اورتزکیے کا اہتمام بھی ہو۔ سچ آبِ رواں ہے، بہتا ہوا پانی ہے۔ جھوٹ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ہے جیسے کسی جوہڑ میں پانی کا جمع ہوجانا۔ ٹھہرا ہوا پانی انسانوں اور دوسری کئی مخلوقات کے لیے نقصان دہ جراثیموں کی آماجگاہ اور مضر و مہلک بیماریوں کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
پاکستان میں عوام کے مسائل ومصائب میں اضافہ ہی ہورہا ہے، حکومتی سطح پر غیر ذمے داری کی وجہ سے تعلیم کا شعبہ سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے اسکولوں میں غریب اور متوسط طبقے کے والدین اپنے بچوں کو داخل کروانے کے صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے ملک میں شرح خواندگی شرمناک حد رک کم ہے اس شرح خواندگی کے مطابق تو ہم ہر سال کروڑوں ناخواندہ یا واضح الفاظ میں جاہل افراد قومی دھارے میں شامل کررہے ہیں۔
قومی سطح پر صحت کا حال یہ ہے کہ ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، امراضِ قلب، خوف(فوبیا)، اسٹریس اور ڈپریشن کے مریضوں میں سال بہ سال لاکھوں کا اضافہ ہورہا ہے۔ جراثیمی اور متعدی امراض ہیپاٹائٹس بی اور سی، ملیریا، ڈینگی، ٹی بی، کے پھیلاؤ کی شرح بہت خوفناک تو ہے لیکن حکومتی سطح پر تشویش ناک محسوس نہیں ہوتی۔ دیگر مریضوں کا حال بھی کچھ کم تکلیف دہ نہیں۔
ان سب خرابیوںیاتکلیفوں کے اسباب میں سرفہرست میرٹ کا قتل ہے، میرٹ سے انکار بھی تو سچ سے انکار اور جھوٹ سے سہارا لینا ہے۔ کئی خرابیوں کا ذمے دار حکمرانوں کو قرار دینا ہمارے ملک میں دہائیوں پرانا معمول ہے۔ بڑی حد تک حکمراں ذمے دار ہیں بھی لیکن کیا سچ بولنا عام لوگوں کی ذمے داری نہیں ہے۔ جس قوم میں سچ عام ہوتا ہے وہاں بھلائیاں فروغ پاتی ہیں۔ جہاں چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لیے حکمراں اور عام لوگ چھوٹ کا سہارا لینے لگتے ہیں، برکت وہاں سے اٹھنے لگتی ہے۔
............
سید انور قدوائی
اپنی ذات میں ایک انجمن، سینئر صحافیوں کے لیے رہبر، صحافیوں کی نئی نسل کے لیے استادکا مرتبہ رکھنے والے صحافی، کہنہ مشق قلم کار سید انور قدوائی لاہور میں انتقال کر گئے۔ (انا للہ وانا الیہ راجون )
دعا ہے کہ ان کی مغفرت ہو اورانھیں جنت میں اعلیٰ مقام ملے،ان کے سب پسماندگان کو صبرعطا ہو۔ (آمین)
اِک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
یہ کمال تو اربوں انسانوں میں منفرد شاعر میرانیس ، میر تقی میر، غالب، ہومر، شیکسپئیر اور ان جیسے چند دیگر اصحاب ہی کا ہے کہ وہ الفاظ میں چھپے معانی کو نئے نئے انداز میں بیان کرسکتے ہیں، لیکن اس دنیا میں ہر عام آدمی کی سوچ یا شخصیت کا اظہار سب سے زیادہ اس کے کلام یا گفتگو کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں ۔
تا مرد سخن نگفتہ باشد عیب و ہنرش نہفتہ باشد
''جب تک کوئی آدمی بات نہ کرے اس کے عیب وہنر چھپے رہتے ہیں۔''
کلام الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے، خیالات، جذبات اور محسوسات کا اظہار الفاظ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ بعض الفاظ جتنے بھی اچھے ہوں اگر انھیں ادا کرنے والے کا لہجہ اچھا نہ ہو تو اچھے الفاظ بھی تکلیف دہ نشتر بن کر نہ صرف دکھ دیتے ہیںبلکہ عزت نفس کو بھی مجروح کردیتے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا تھا کہ تلوارکا زخم تو بھر سکتا ہے لیکن لہجے سے لگنے والا زخم کبھی نہیں بھرتا۔
روحانی بزرگ پردہ کشائی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر شے کے دو رخ ہیں۔ ظاہر کا دوسرا رخ باطن ہے، مادہ کا دوسرا رخ روح ہے، دن کا دوسرا رخ رات ہے، مرد کا باطنی رخ عورت ہے اور عورت کا باطنی رخ مرد ہے۔ گفتگو کا ظاہر الفاظ اور لہجہ ہیں ، باطن نیت اور ارادہ ہیں۔ انسان اپنے ارادے، اپنے عزم، اپنے وعدوں کا اظہار اپنی زبان سے ہی توکرتا ہے۔ عزت دار اور غیرت مند افراداور معاشرے اپنی زبان کا پاس رکھتے ہیں۔ ان اوصاف سے محروم لوگ اپنے الفاظ، اپنی زبان کے پابند نہیں ہوتے۔
کسی آدمی کی کہی ہوئی بات سچ بھی ہوسکتی ہے اور جھوٹ یا غلط بھی۔ جھوٹ ہمیشہ ارادتاً بولا جاتا ہے لیکن کوئی غلط بات ارادی بھی ہوسکتی ہے اور غیر ارادی بھی۔
کچھ عرصے پہلے میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک تقریب میں شرکت کے لیے کراچی کے علاقے گلشن ِ اقبال گیا۔ میزبان کے گھر کا راستہ ہمیں معلوم نہ تھا۔ اردو یونیورسٹی کے قریب راہ چلتے ایک صاحب کو بلاک اور مکان کا نمبر بتاکر میں نے راستہ معلوم کیا۔ میری بات سن کر انھوں نے چند لمحے سوچا پھر مجھے راستہ سمجھا دیا۔ ہم ان صاحب کے بتائے ہوئے راستے پر چل پڑے کچھ دور جاکر اندازہ ہوا کہ ہم تو اپنی منزل کے مخالف سمت میں جارہے تھے۔ بہت کوفت ہوئی۔ دیکھیے ...! جن صاحب سے راستہ پوچھا گیا انھوں نے یہ کہنے کے بجائے کہ انھیں معلوم نہیں محض اپنے اندازے راستہ بتانا مناسب سمجھا اور راہ گیروں کی غلط رہنمائی کربیٹھے۔ اس واقعے کو میں نے غیر ارادی طور پرکہی گئی ایک غلط بات کے خانے میں رکھا۔ وہ صاحب اپنے تئیں شائد ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں۔
زندگی میں کتنی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم خود کو صحیح سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ہم غلط ہوتے ہیں۔ کبھی ہم خود غلط سمت میں چل رہے ہوتے ہیں اورکبھی دوسروں کو غلط راہوں پر ڈال دیتے ہیں۔ صحیح رہنمائی کرنا ایک بڑی ذمے داری ہے اور یہ کسی آدمی کے اعلیٰ اخلاق کی نشانی ہے۔
دوسری عالمی جنگ میں تباہ ہوکر دنیا میں دوبارہ عروج پانے والی جاپانی قوم کئی اچھی عادتوں کی مالک ہے۔ یہاں میں اپنے قارئین کے سامنے جاپانیوں کی ایک خوبی بیان کرتا ہوں ۔ جاپان میں کوئی راہگیر خواہ پیدل ہو یا کار میں ہو اگر کسی سے راستہ پوچھ لے تو وہ شخص خواہ کتنے ہی ضروری کام سے جارہا ہو پوری توجہ سے اس مسافر کی بات سنتا ہے۔ اگر اسے راستہ معلوم نہ ہو تو وہ معذرت کرلے گا یا پھر اس مسافرکو وضاحت کے ساتھ راستہ بتائے گا۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس بات کا یقین بھی کرنا چاہے گا کہ اس نے جو کچھ بتایا ہے مسافر نے اسے ٹھیک طرح سمجھ لیا ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی سے جاپان میں راستہ پوچھ لینے کا مطلب اسے پریشانی میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔ اسے جب تک یہ اطمینان نہ ہوجائے کہ مسافر یا راہگیر نے اس کی بات اچھی طرح سمجھ لیا ہے وہ فکرمند ہی رہے گا۔ اس قسم کے واقعات جاپانی قوم کے اعلیٰ اخلاق کو اجاگر کرتے ہیں۔
کسی راہ چلتے کو درست راستہ بتادینا اچھائی ہے اور نیکی کا کام ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ کسی کی غلط رہنمائی کردینا ایک برا کام ہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہم واپس اپنے موضوع پر آتے ہیں۔
گفتگو کرتے ہوئے آدمی یا تو سچ بولتا ہے یا غلط بیانی سے کا م لیتا ہے۔ سچ کی ایک خوبی یہ ہے کہ سچ حافظے کو زیادہ زحمت نہیں دیتا ،کیونکہ سچ ہمیشہ ایک ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے کو یہ یاد رکھنا پڑتا ہے کہ اس نے کس کس کے سامنے کیا کیا غلط بیانیاں کیں۔ جھوٹ سے وقتی طور پر توکئی کام نکل جاتے ہیں لیکن جھوٹ کبھی پنپتا نہیں۔ دانا کہتے ہیں ناں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ۔اس بات کو اس طرح بھی کہا گیا ہے کہ دروغ کو فروغ نہیں۔ سچ کا ایک نتیجہ اطمینان اور ترقی ہے جہاں سچ نہیں ہوگا وہاں پریشانیاں، تنزلی اور اضمحلال ہوگا۔آپ دورِ حاضر میں مختلف اقوام کا جائزہ لے لیجیے۔ امریکا، یورپ، آسٹریلیا، چین، جاپان اور دنیا کے دیگر کئی ترقی یافتہ قوموں کے روز مرہ معاملات کو دیکھیے۔ ان معاشروں میں افراد اور ادارے سچ بولتے ہیں۔ جھوٹ وہاں قابلِ قبول نہیں۔ ایسے معاشروں اورملکوں کی ترقی سب کے سامنے ہے۔ ایشیا، افریقہ اور دنیا کے دیگر خطوں کے وہ ممالک جہاں حکمران، سیاست دان، افسر، تاجر اور معاشرے کے دیگر افراد جب چاہیں جھوٹ کا سہارا لیتے رہتے ہیں وہاں کے عام لوگوں کا حال بھی دیکھ لیجیے۔
سچ پنپتا ہے ، جھوٹ سمٹتا ہے ، لیکن یہ سب کچھ ایسے معاشروں میں ہوتا ہے جہاں جوابدہی کا احساس ہو، صفائی اورتزکیے کا اہتمام بھی ہو۔ سچ آبِ رواں ہے، بہتا ہوا پانی ہے۔ جھوٹ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ہے جیسے کسی جوہڑ میں پانی کا جمع ہوجانا۔ ٹھہرا ہوا پانی انسانوں اور دوسری کئی مخلوقات کے لیے نقصان دہ جراثیموں کی آماجگاہ اور مضر و مہلک بیماریوں کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
پاکستان میں عوام کے مسائل ومصائب میں اضافہ ہی ہورہا ہے، حکومتی سطح پر غیر ذمے داری کی وجہ سے تعلیم کا شعبہ سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے اسکولوں میں غریب اور متوسط طبقے کے والدین اپنے بچوں کو داخل کروانے کے صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے ملک میں شرح خواندگی شرمناک حد رک کم ہے اس شرح خواندگی کے مطابق تو ہم ہر سال کروڑوں ناخواندہ یا واضح الفاظ میں جاہل افراد قومی دھارے میں شامل کررہے ہیں۔
قومی سطح پر صحت کا حال یہ ہے کہ ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، امراضِ قلب، خوف(فوبیا)، اسٹریس اور ڈپریشن کے مریضوں میں سال بہ سال لاکھوں کا اضافہ ہورہا ہے۔ جراثیمی اور متعدی امراض ہیپاٹائٹس بی اور سی، ملیریا، ڈینگی، ٹی بی، کے پھیلاؤ کی شرح بہت خوفناک تو ہے لیکن حکومتی سطح پر تشویش ناک محسوس نہیں ہوتی۔ دیگر مریضوں کا حال بھی کچھ کم تکلیف دہ نہیں۔
ان سب خرابیوںیاتکلیفوں کے اسباب میں سرفہرست میرٹ کا قتل ہے، میرٹ سے انکار بھی تو سچ سے انکار اور جھوٹ سے سہارا لینا ہے۔ کئی خرابیوں کا ذمے دار حکمرانوں کو قرار دینا ہمارے ملک میں دہائیوں پرانا معمول ہے۔ بڑی حد تک حکمراں ذمے دار ہیں بھی لیکن کیا سچ بولنا عام لوگوں کی ذمے داری نہیں ہے۔ جس قوم میں سچ عام ہوتا ہے وہاں بھلائیاں فروغ پاتی ہیں۔ جہاں چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لیے حکمراں اور عام لوگ چھوٹ کا سہارا لینے لگتے ہیں، برکت وہاں سے اٹھنے لگتی ہے۔
............
سید انور قدوائی
اپنی ذات میں ایک انجمن، سینئر صحافیوں کے لیے رہبر، صحافیوں کی نئی نسل کے لیے استادکا مرتبہ رکھنے والے صحافی، کہنہ مشق قلم کار سید انور قدوائی لاہور میں انتقال کر گئے۔ (انا للہ وانا الیہ راجون )
دعا ہے کہ ان کی مغفرت ہو اورانھیں جنت میں اعلیٰ مقام ملے،ان کے سب پسماندگان کو صبرعطا ہو۔ (آمین)