بے نظیربھٹو کی پانچویں برسی…اصل قاتل گرفتار نہ ہو سکے
عوام آج بھی پُرنم آنکھوں سے اس سوال کا جواب مانگتے ہیں کہ بھٹو کی لاڈلی پنکی کا قاتل کون ہے؟
بے نظیر کی شہادت ایک قومی المیہ ہے۔ان کی شہادت نے وطن عزیز اور ہمارے سیاسی منظر نامے کو کتنا تبدیل کیا اور جو نیا سیاسی کلچر ابھرا اس کے ہماری قومی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے' یہ ہمارا موضوع نہیں' تاہم اس المیے کی گرہ کشائی بہت ضروری ہے۔
بے نظیر کو ہم سے بچھڑے 5برس ہوگئے ہیں مگر ان کا غم آج بھی پہلے دن کی طرح تازہ ہے۔ عوام آج بھی پُرنم آنکھوں سے اس سوال کا جواب مانگتے ہیں کہ بھٹو کی لاڈلی پنکی کا قاتل کون ہے؟ اسے کس جرم کی سزا دی گئی' قاتل کیا چاہتے تھے' اور کیا یہ تنہا بیت اللہ محسود کا کام تھا۔ جائے شہادت کو آناً فاناً کیوں دھو دیا گیا۔کرائم سین کو فوری دھونے کے احکامات جاری کرنے والے کون تھے؟ یہ لوگ کبھی بے نقاب ہوں گے؟ یا پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کی طرح بے نظیر بھٹو کا قتل بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے راز رہے گا۔
27دسمبر ' 2007' جمعرات کا دن ' لیاقت باغ کے تاریخی میدان میں عوام منتظر تھے ' کسے معلوم تھا کہ یہ بی بی کا آخری خطاب ہے۔ دیر تک کھڑے عوام تالیاں بجاتے رہے' اس دوران محترمہ بھی دونوں ہاتھ بلند کر کے زور دار تالیوں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ جواب دیتی رہیں' یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ انہوں نے اپنے خطاب کے آغاز میں ہی کہا تھا کہ میری جان کو سخت خطرہ ہے' مجھے قتل کرنے کی مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں مگر اس کے باوجود اپنی جان کا رسک لیتے ہوئے اپنے وطن واپس آئی' اپنا ملک بچانا چاہتی ہوں' پاکستان ہے تو ہم ہیں' میرے والد نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا اور جان دے دی' جب بھارت نے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی تو مجھے بھی کہا گیا کہ ہمیں میزائل ٹیکنالوجی چاہیے' میں نے جواب دیا' میزائل ٹیکنالوجی ضرور حاصل کر کے دوں گی' میں مختلف ملکوں میں گئی اور یہ ٹیکنالوجی حاصل کر کے افواج کو فراہم کی' جس سے آج ہمارا دفاع مضبوط ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا ' میرا بچپن راول پنڈی میں گزرا' راول پنڈی میرا دوسرا گھر ہے' کانونٹ اسکول کینٹ سے ابتدائی تعلیم مکمل کی' مال روڈ اور کینٹ کی سڑکوں پر گھوماکرتی تھی' شاید انہیں یہ معلوم ہوگیا تھا کہ ان کا وقت ختم ہوگیا ہے' شاید اسی لیے راول پنڈی کے ساتھ تعلق کو پیار اور محبت سے بیان کر رہی تھیں' جلسہ ختم ہوا تو ہر طرف زندہ ہے بھٹو' زندہ ہے، کے فلگ شگاف نعرے گونجنا شروع ہوگئے۔
کامیاب جلسہ کے باعث بے نظیر بھٹو بہت خوش تھیں۔ اسٹیج پر ہی تمام پارٹی قائدین اور امیدواروں کو بلا کر انہیں کامیاب جلسہ کی مبارک باد دی اور اسٹیج سے نیچے آنے میں نصف گھنٹہ لگایا' اسٹیج سے نیچے آئیں تو اسٹیج کے ساتھ عقبی سائیڈ پر گاڑی اُن کی منتظر تھی' محترمہ ہاتھ لہراتے ہوئے اس میں سوار ہوئیں' پی پی پی کے قائدین ' مخدوم امین فہیم' شیری رحمان اور ناہید خان ان کے ہم راہ تھے' فرنٹ سیٹ پر ان کے سکیورٹی انچارج ' ایس ایس پی امتیاز بیٹھے ہوئے تھے' اسٹیج سے جائے شہادت تک آنے میں انہیں 10منٹ لگے' ان کی گاڑی آہستہ آہستہ چل رہی تھی' جسے شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا' قاعدے کے مطابق جلسہ کے اختتام پر ان کی گاڑی کا روٹ کلیئر کراکے انہیں فراٹے بھرتے ہوئے لے جانا چاہیے تھا' مگر ایسا نہیں ہوا ' سکیورٹی صورت حال اور دھمکی کے باوجود ان کی گاڑی کلیئر کرانے کے لیے پولیس اسکارٹ تعینات نہ تھا' جوں ہی ان کی گاڑی اسٹیج سے مرکزی دروازہ کے قریب پہنچی' لیاقت باغ چوک کی سائیڈ سے پی پی پی کے جھنڈے لہراتے، 100کے لگ بھگ افراد نعرے لگاتے بی بی کی گاڑی کی طرف بڑھنے لگے' جنہیں دیکھ کر گاڑی مزید آہستہ کر دی گئی' پروگرام کے مطابق بے نظیر بھٹو کی گاڑی کا روٹ گوال منڈی سے تھا مگر اسے اچانک مرکزی گیٹ سے لیاقت باغ چوک مری روڈ کی طرف موڑ دیا گیا' گاڑی مرکزی گیٹ سے ابھی باہر نہیں نکلی تھی کہ اچانک بلٹ پروف گاڑی کا روف کھلا اور بے نظیر بھٹو نے اس میں سے سر نکالا اور خیر مقدمی نعرے لگانے والوں کا ہاتھ ہلا کر جواب دینے لگیں۔
اس دوران گاڑی چیونٹی کی رفتار سے چلنے لگی' جونہی گاڑی مرکزی گیٹ سے سڑک کے درمیان سے مڑنے لگی تو یک دم بڑی ٹینکی کی طرف سے فائرنگ کی یکے بعد دیگرے دو آوازیں آئیں اور اس کے ساتھ ہی بے نظیر بھٹو گاڑی کے اندر گر پڑیں' زور دار دھماکا ہوا' بے نظیر بھٹو کی گاڑی کے ٹائر پنکچر ہوگئے' پنکچر ٹائروں کے ساتھ ڈرائیور نے گاڑی مری روڈ کی طرف بھگانا شروع کر دی اور مری روڈ تک یہ گاڑی ایسے ہی بھگائی جاتی رہی۔ قیامت گزر گئی تھی' نصف گھنٹے کے اندر محترمہ کی روح پرواز کر چکی تھی' 19جیالے بھی شہید ہوئے۔ گولیاں چلتی ہیں ' تڑتڑاہٹ کے ساتھ بے نظیر بھٹو گاڑی میں خون سے لت پت ہو کر گر پڑتی ہیں اور اس کے بعد خوفناک دھماکا ہوتا ہے۔
جس روٹ پر محترمہ کی گاڑی نے واپس جانا تھا اس روٹ پر نہیں جاتی' اس کا رخ اچانک بدل دیاجاتا ہے' واپسی پر سکیورٹی اور پولیس کا سکیورٹی اسکارٹ بھی اس کے ساتھ نہیں ہوتا' پولیس مرکزی گیٹ پر کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی، یہ کیا ماجرا ہے؟ محترمہ کس کے کہنے پر گاڑی کا روف کھول کر باہر نکلیں؟ گمان ہے کہ وہ باہر نہ نکلتیں تو ان کی جان بچ جاتی مگر انہوں نے ایسا کیوں کیا، مخدوم امین فہیم، ناہید خان اور شیری رحمان نے سخت ترین خطرہ کے باوجود انہیں کیوں نہیں روکا، فائرنگ کی انکوائری بھی نہ ہوئی، پوسٹ مارٹم نہیں کرایا گیا؟ پوسٹ مارٹم کرانا پولیس کی قانونی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری کیوں پوری نہیں کی گئی اور راتوں رات ان کی میت کیوں لاڑکانہ پہنچا دی گئی، مان لیا جائے کہ بے نظیر بھٹو کی میت کا پوسٹ مارٹم ان کے بچوں اور شوہر کے کہنے پر نہیں کیا گیا تھا لیکن اس دھماکے میں جو دیگر 18 جیالے شہید ہوئے، ان کی میتوں کے پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کئے گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جائے واردات کو کیوں دو گھنٹوں بعد تیز ترین پانی سے دھو دیا گیا۔ جائے شہادت کو دھونے کا حکم کس نے دیا؟
کسی بھی واردات میں کرائم سین تفتیش کا سب سے اہم اور مرکزی پہلو ہوتا ہے مگر ملک کی سابق وزیر اعظم کی جائے شہادت کے کرائم سین کو فوری دھو دینا قانون کی نظر میں جرم ہے۔ موجودہ قانون کے تحت جرم کے ثبوت مٹانے والے کو بھی عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس سانحہ کو گزرے پانچ سال ہو چکے ہیں مگر آج تک اس واقعہ کی کسی بھی وارث نے تھانہ میں جا کر ایف آئی آر درج نہیں کرائی۔ بے نظیر بھٹو کے وارثوں سمیت دیگر شہید ہونے والے 19 جیالوں کا کوئی بھی رشتہ دار آج تک تھانہ سٹی نہیں گیا اور نہ ہی اس شہادت پر کسی کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے لئے پولیس سے رجوع کیا گیا۔ حد یہ کہ اس مقدمہ کا تھانہ سٹی کے ایس ایچ او کو مدعی بننا پڑا۔ پولیس نے جو مقدمہ درج کیا اس میں قتل کی یہ ذمہ داری بیت اللہ محسود پر ڈالی گئی، اتنی جلدی کیسے طے کر لیا گیا کہ قتل بیت اللہ محسود نے کرایا ہے، نامعلوم ملزمان کے خلاف بھی تو مقدمہ درج کرایا جا سکتا تھا۔ بریگیڈئر (ر) جاوید اقبال چیمہ نے شہادت کے ساتھ ہی اسے طالبان کی کارروائی قرار دے دیا، جب کہ طالبان نے اس کی دو ٹوک تردید کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ ان کے بی بی سے کوئی اختلافات نہ تھے اور یہ کہ طالبان خواتین کو قتل نہیں کرتے، جب کہ وزارت داخلہ کے ترجمان سمیت تمام حکومتی ادارے، اس وقت کے صدر پرویز مشرف سمیت سب بضد تھے کہ طالبان نے ہی یہ قتل کرایا ہے۔ اس کیس میں پولیس نے 5 ملزمان اعتزاز شاہ، شیر زمان عبدالرشید، رفاقت، سنین گل کو گرفتار کیا تھا جو آج بھی جیل میں ہیں۔ پولیس کے مطابق طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود نے یہ واردات کرائی۔
اس کی تصدیق میں وزارت داخلہ نے طالبان کی ایک وڈیو ٹیپ بھی جاری کی جس میں پشتو زبان میں اس کارروائی بارے گفتگو شامل تھی، اس وڈیو ٹیپ کو ماہرین جعلی قرار دیتے ہیں۔ اس وڈیو ٹیپ کے بارے میں میڈیا اور ماہرین نے جو اعتراضات کئے تھے، ان کا آج تک جواب نہیں دیا گیا۔ اس وقت کے سرکاری افسران نے اوپر تلے کئی پینترے بدلے، کئی کہانیاں گھڑی گئیں، جن ملزمان کو گرفتار کیا گیا ان کے اعترافی بیان بھی شامل کئے گئے ہیں۔ اس قتل کا پورا کیس ایک ملزم اعتزاز شاہ کے اعترافی بیان پر گھڑا گیا جو عدالت میں اس اعترافی بیان سے منحرف ہو گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے مجسٹریٹ کی عدالت میں کوئی ایسا بیان نہیں دیا تھا بلکہ پولیس نے جبری طور پر سادہ کاغذ پر اس سے دستخط کرائے اور خود ہی بیان لکھا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پولیس نے جس مجسٹریٹ کی عدالت میں یہ اعترافی بیان ریکارڈ کرانے کا دعویٰ کیا تھا وہ مجسٹریٹ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں بیان اور جرح کے دوران اقبالی بیان دینے والے اس ملزم کو شناخت ہی نہ کر پایا۔
واردات کے بعد جب بے نظیر بھٹو زخمی حالت میں جنرل ہسپتال لائی گئیں تو وہاں میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر مصدق کی سربراہی میں ڈاکٹرز کی ٹیم نے زخمی بے نظیر بھٹو کا علاج کیا، اس علاج کے بعد ڈاکٹر مصدق نے میڈیا کو بتایا، بے نظیر بھٹو کے سر پر گولی لگی تھی، گولی لگنے سے وہ شہید ہوئیں۔ یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے مگر دوسرے روز صبح وہ اس بیان سے مکر گئے اور ہنگامی طور پر بلائی گئی پریس کانفرنس میں کہا، شہید بی بی کے سر میں گولی نہیں کوئی سخت چیز لگی تھی، جب ان پر رات والے بیان اور موجودہ بیان میں زمین آسمان کے فرق کی بابت سوالات کی بوچھاڑ ہوئی تو انہوں نے پُرنم آنکھوں سے ہاتھ جوڑ کر کہا، ان سے ایسے سوالات نہ کئے جائیں۔ اس کے بعد ان کی زبان گنگ ہو گئی۔
اس واردات کے محض دو گھنٹے بعد پورے کرائم سین کو تیز دھار پانی سے دھو دیا گیا۔ کرائم سین کو پہلے دھونے کی ذمہ داری سول ڈیفنس کو سونپی گئی مگر اس وقت کے سول ڈیفنس کے سربراہ مرحوم لیاقت راجا نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں فائر بریگیڈ سے کہا گیا، اس کی انتظامیہ نے بھی انکار کر دیا آخر میں ریسکیو 1122 کی گاڑیوں کی مدد سے یہ سین مکمل طور پر دھو دیا گیا' جو قانون کی نظر میں سنگین جرم ہے، اس کرائم سین کو دھونے کے بارے میں سرکاری جواز یہ پیش کیا گیا کہ جائے واردات پر بو پھیل چکی تھی اور آسمان پر چیلیں اور کوے بڑی تعداد میں جمع ہو گئے تھے، دل چسپ امر یہ ہے کہ اس وقت شدید سردی تھی، رات کے ساڑھے سات بجے تھے اور عشاء کی اذان ہو چکی تھی، اس وقت چیل کوے کہاں سے آگئے تھے۔ یہ بھی کہا گیا جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ حاصل کی جا چکی تھیں، سڑک پر ٹریفک رواں دواں کرنے کے لئے کرائم سین دھویا گیا ہے۔
یہ ایک سادا سا قتل کیس ہے، اقوام متحدہ کی ٹیم یا اسکاٹ لینڈ یارڈ سے تفتیش کرانے کی ضرورت ہی نہ تھی، پنجاب پولیس کے کسی بھی سب انسپکٹر کو یہ تفتیش دے کر آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ 72گھنٹوں میں اصل ملزمان قوم کے سامنے لا سکتا ہے۔کرائم سین دھونے کا حکم دینے والے اور اس قتل سے فائدہ اٹھانے والوں کو شامل تفتیش کرنے سے اس قتل کی گتھی گھنٹوں میں سلجھ سکتی ہے۔
محترمہ کے پروٹوکول آفیسر، چوہدری اسلم نے ہائی کورٹ میں ڈیڑھ سال بعد بے نظیر کی شہادت کا سابق صدر پرویز مشرف، وزیر داخلہ رحمان ملک وفاقی وزیر ڈاکٹر بابر اعوان، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نگران وزیر داخلہ جنرل(ر) حامد نواز وزارت داخلہ کے سابق ترجمان بریگیڈئیر(ر)جاوید اقبال چیمہ، سابق سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ، سابق ڈی جی آئی بی اعجاز شاہ، سابق سی پی او راولپنڈی سعود عزیز سابق ڈی سی او عرفان الٰہی، ایس ایس پی انوسٹی گیشن یاسین فاروق سمیت 14شخصیات کے خلاف مقدمہ درج کرانے کی درخواست دائر کی، ان کا کہنا تھا کہ ان شخصیات نے دانستہ طور پر انہیں پروٹوکول آفیسر ہونے کے باوجود بے نظیر بھٹو کی واپسی کے روٹ سے بے خبر رکھا، بے نظیر بھٹو کو گاڑی کی چھت سے باہر نکلنے دیا، واردات کے بعد ہسپتال کی بجائے کسی اور جگہ چلے گئے، انہوں نے بتایا، وہ منتظر تھے کہ پارٹی قیادت یہ مقدمہ درج کرائے گی، اس کا انہیں کہا بھی گیا اور معقول انتظار بھی کیا گیا مگر پارٹی قیادت نے اس المناک شہادت کے باوجود کسی بھی ملزم کے خلاف مقدمہ درج نہیں کرایا ، یہ کیس آج تک لاوارث ہی چل رہا تھا، مجبور ہو کر اصل ملزمان کو بے نقاب کرنے کے لئے یہ درخواست دی۔
وفاقی حکومت کی درخواست پر اقوام متحدہ نے بھی اس کیس کی انکوائری کی، چلی کے ماہر قانون ڈاکٹر ہیلڈو منوازاس انکوائری ٹیم کے سربراہ ہیں جو اس سے قبل کئی عالمی معاملات کے کمیشنوں کے رکن رہ چکے ہیں' ممبران میں انڈونیشیا کے سابق اٹارنی جنرل مرزوکی دارالشماں اور آئرش نیشنل پولیس کے پیٹر فٹز جبرالڈ شامل ہیں۔ یہ ماہرین لبنان کے صدر رفیق حریری قتل کمیشن کے بھی رکن تھے یہ ٹیم تین بار پاکستان آ چکی ہے اس کی معاونت کے لئے بھی 3ممبر نامزد کئے گئے ہیں، پاکستان کے دورہ کے دوران انہوں نے جائے شہادت جنرل ہسپتال کے ڈاکٹرز' بے نظیر بھٹو کی متاثرہ گاڑی سابق صدر پرویز مشرف چوہدری پرویز الٰہی ناہید خان، صفدر عباسی سابق آئی جی' ایڈیشنل آئی جی' صدر آصف علی زرداری' وزیراعظم یوسف رضا گیلانی' بلاول بھٹو، وزیر داخلہ رحمان ملک وزیر قانون بابر اعوان بے نظیر بھٹو کے سابق پروٹوکول آفیسر چوہدری اسلم اور کئی دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اقوام متحدہ کی انکوائری ٹیم نے بھی کرائم سین فوری دھونے، بے نظیر کی واپسی کا روٹ اچانک تبدیل کرنے ، لیاقت باغ کی سکیورٹی اور بے نظیر کی سکیورٹی پر سخت سوالات کو تفتیش کا مرکز بنایا ' انھوں نے بھی اپنی رپورٹ حکومت کردی۔
بینظیر بھٹو کی شہادت کو پانچ برس بیت چکے ہیں ، تمام انکوائریاں مکمل ہو چکی ہیں،پانچ ملزم گرفتا ر ہو چکے ہیں،بیت اللہ محسود سمیت چھ ملزمان مارے جا چکے ہیں اور 17شہادتیں قلمبند کی جا چکی ہیں مگر افسوس کہ اصل صورتحال سے عوام ابھی تک بے خبر ہیں ،زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی اصل قاتل سامنے نہیں لائے جا سکے۔
بے نظیر کو ہم سے بچھڑے 5برس ہوگئے ہیں مگر ان کا غم آج بھی پہلے دن کی طرح تازہ ہے۔ عوام آج بھی پُرنم آنکھوں سے اس سوال کا جواب مانگتے ہیں کہ بھٹو کی لاڈلی پنکی کا قاتل کون ہے؟ اسے کس جرم کی سزا دی گئی' قاتل کیا چاہتے تھے' اور کیا یہ تنہا بیت اللہ محسود کا کام تھا۔ جائے شہادت کو آناً فاناً کیوں دھو دیا گیا۔کرائم سین کو فوری دھونے کے احکامات جاری کرنے والے کون تھے؟ یہ لوگ کبھی بے نقاب ہوں گے؟ یا پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کی طرح بے نظیر بھٹو کا قتل بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے راز رہے گا۔
27دسمبر ' 2007' جمعرات کا دن ' لیاقت باغ کے تاریخی میدان میں عوام منتظر تھے ' کسے معلوم تھا کہ یہ بی بی کا آخری خطاب ہے۔ دیر تک کھڑے عوام تالیاں بجاتے رہے' اس دوران محترمہ بھی دونوں ہاتھ بلند کر کے زور دار تالیوں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ جواب دیتی رہیں' یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ انہوں نے اپنے خطاب کے آغاز میں ہی کہا تھا کہ میری جان کو سخت خطرہ ہے' مجھے قتل کرنے کی مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں مگر اس کے باوجود اپنی جان کا رسک لیتے ہوئے اپنے وطن واپس آئی' اپنا ملک بچانا چاہتی ہوں' پاکستان ہے تو ہم ہیں' میرے والد نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا اور جان دے دی' جب بھارت نے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی تو مجھے بھی کہا گیا کہ ہمیں میزائل ٹیکنالوجی چاہیے' میں نے جواب دیا' میزائل ٹیکنالوجی ضرور حاصل کر کے دوں گی' میں مختلف ملکوں میں گئی اور یہ ٹیکنالوجی حاصل کر کے افواج کو فراہم کی' جس سے آج ہمارا دفاع مضبوط ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا ' میرا بچپن راول پنڈی میں گزرا' راول پنڈی میرا دوسرا گھر ہے' کانونٹ اسکول کینٹ سے ابتدائی تعلیم مکمل کی' مال روڈ اور کینٹ کی سڑکوں پر گھوماکرتی تھی' شاید انہیں یہ معلوم ہوگیا تھا کہ ان کا وقت ختم ہوگیا ہے' شاید اسی لیے راول پنڈی کے ساتھ تعلق کو پیار اور محبت سے بیان کر رہی تھیں' جلسہ ختم ہوا تو ہر طرف زندہ ہے بھٹو' زندہ ہے، کے فلگ شگاف نعرے گونجنا شروع ہوگئے۔
کامیاب جلسہ کے باعث بے نظیر بھٹو بہت خوش تھیں۔ اسٹیج پر ہی تمام پارٹی قائدین اور امیدواروں کو بلا کر انہیں کامیاب جلسہ کی مبارک باد دی اور اسٹیج سے نیچے آنے میں نصف گھنٹہ لگایا' اسٹیج سے نیچے آئیں تو اسٹیج کے ساتھ عقبی سائیڈ پر گاڑی اُن کی منتظر تھی' محترمہ ہاتھ لہراتے ہوئے اس میں سوار ہوئیں' پی پی پی کے قائدین ' مخدوم امین فہیم' شیری رحمان اور ناہید خان ان کے ہم راہ تھے' فرنٹ سیٹ پر ان کے سکیورٹی انچارج ' ایس ایس پی امتیاز بیٹھے ہوئے تھے' اسٹیج سے جائے شہادت تک آنے میں انہیں 10منٹ لگے' ان کی گاڑی آہستہ آہستہ چل رہی تھی' جسے شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا' قاعدے کے مطابق جلسہ کے اختتام پر ان کی گاڑی کا روٹ کلیئر کراکے انہیں فراٹے بھرتے ہوئے لے جانا چاہیے تھا' مگر ایسا نہیں ہوا ' سکیورٹی صورت حال اور دھمکی کے باوجود ان کی گاڑی کلیئر کرانے کے لیے پولیس اسکارٹ تعینات نہ تھا' جوں ہی ان کی گاڑی اسٹیج سے مرکزی دروازہ کے قریب پہنچی' لیاقت باغ چوک کی سائیڈ سے پی پی پی کے جھنڈے لہراتے، 100کے لگ بھگ افراد نعرے لگاتے بی بی کی گاڑی کی طرف بڑھنے لگے' جنہیں دیکھ کر گاڑی مزید آہستہ کر دی گئی' پروگرام کے مطابق بے نظیر بھٹو کی گاڑی کا روٹ گوال منڈی سے تھا مگر اسے اچانک مرکزی گیٹ سے لیاقت باغ چوک مری روڈ کی طرف موڑ دیا گیا' گاڑی مرکزی گیٹ سے ابھی باہر نہیں نکلی تھی کہ اچانک بلٹ پروف گاڑی کا روف کھلا اور بے نظیر بھٹو نے اس میں سے سر نکالا اور خیر مقدمی نعرے لگانے والوں کا ہاتھ ہلا کر جواب دینے لگیں۔
اس دوران گاڑی چیونٹی کی رفتار سے چلنے لگی' جونہی گاڑی مرکزی گیٹ سے سڑک کے درمیان سے مڑنے لگی تو یک دم بڑی ٹینکی کی طرف سے فائرنگ کی یکے بعد دیگرے دو آوازیں آئیں اور اس کے ساتھ ہی بے نظیر بھٹو گاڑی کے اندر گر پڑیں' زور دار دھماکا ہوا' بے نظیر بھٹو کی گاڑی کے ٹائر پنکچر ہوگئے' پنکچر ٹائروں کے ساتھ ڈرائیور نے گاڑی مری روڈ کی طرف بھگانا شروع کر دی اور مری روڈ تک یہ گاڑی ایسے ہی بھگائی جاتی رہی۔ قیامت گزر گئی تھی' نصف گھنٹے کے اندر محترمہ کی روح پرواز کر چکی تھی' 19جیالے بھی شہید ہوئے۔ گولیاں چلتی ہیں ' تڑتڑاہٹ کے ساتھ بے نظیر بھٹو گاڑی میں خون سے لت پت ہو کر گر پڑتی ہیں اور اس کے بعد خوفناک دھماکا ہوتا ہے۔
جس روٹ پر محترمہ کی گاڑی نے واپس جانا تھا اس روٹ پر نہیں جاتی' اس کا رخ اچانک بدل دیاجاتا ہے' واپسی پر سکیورٹی اور پولیس کا سکیورٹی اسکارٹ بھی اس کے ساتھ نہیں ہوتا' پولیس مرکزی گیٹ پر کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی، یہ کیا ماجرا ہے؟ محترمہ کس کے کہنے پر گاڑی کا روف کھول کر باہر نکلیں؟ گمان ہے کہ وہ باہر نہ نکلتیں تو ان کی جان بچ جاتی مگر انہوں نے ایسا کیوں کیا، مخدوم امین فہیم، ناہید خان اور شیری رحمان نے سخت ترین خطرہ کے باوجود انہیں کیوں نہیں روکا، فائرنگ کی انکوائری بھی نہ ہوئی، پوسٹ مارٹم نہیں کرایا گیا؟ پوسٹ مارٹم کرانا پولیس کی قانونی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری کیوں پوری نہیں کی گئی اور راتوں رات ان کی میت کیوں لاڑکانہ پہنچا دی گئی، مان لیا جائے کہ بے نظیر بھٹو کی میت کا پوسٹ مارٹم ان کے بچوں اور شوہر کے کہنے پر نہیں کیا گیا تھا لیکن اس دھماکے میں جو دیگر 18 جیالے شہید ہوئے، ان کی میتوں کے پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کئے گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جائے واردات کو کیوں دو گھنٹوں بعد تیز ترین پانی سے دھو دیا گیا۔ جائے شہادت کو دھونے کا حکم کس نے دیا؟
کسی بھی واردات میں کرائم سین تفتیش کا سب سے اہم اور مرکزی پہلو ہوتا ہے مگر ملک کی سابق وزیر اعظم کی جائے شہادت کے کرائم سین کو فوری دھو دینا قانون کی نظر میں جرم ہے۔ موجودہ قانون کے تحت جرم کے ثبوت مٹانے والے کو بھی عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس سانحہ کو گزرے پانچ سال ہو چکے ہیں مگر آج تک اس واقعہ کی کسی بھی وارث نے تھانہ میں جا کر ایف آئی آر درج نہیں کرائی۔ بے نظیر بھٹو کے وارثوں سمیت دیگر شہید ہونے والے 19 جیالوں کا کوئی بھی رشتہ دار آج تک تھانہ سٹی نہیں گیا اور نہ ہی اس شہادت پر کسی کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے لئے پولیس سے رجوع کیا گیا۔ حد یہ کہ اس مقدمہ کا تھانہ سٹی کے ایس ایچ او کو مدعی بننا پڑا۔ پولیس نے جو مقدمہ درج کیا اس میں قتل کی یہ ذمہ داری بیت اللہ محسود پر ڈالی گئی، اتنی جلدی کیسے طے کر لیا گیا کہ قتل بیت اللہ محسود نے کرایا ہے، نامعلوم ملزمان کے خلاف بھی تو مقدمہ درج کرایا جا سکتا تھا۔ بریگیڈئر (ر) جاوید اقبال چیمہ نے شہادت کے ساتھ ہی اسے طالبان کی کارروائی قرار دے دیا، جب کہ طالبان نے اس کی دو ٹوک تردید کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ ان کے بی بی سے کوئی اختلافات نہ تھے اور یہ کہ طالبان خواتین کو قتل نہیں کرتے، جب کہ وزارت داخلہ کے ترجمان سمیت تمام حکومتی ادارے، اس وقت کے صدر پرویز مشرف سمیت سب بضد تھے کہ طالبان نے ہی یہ قتل کرایا ہے۔ اس کیس میں پولیس نے 5 ملزمان اعتزاز شاہ، شیر زمان عبدالرشید، رفاقت، سنین گل کو گرفتار کیا تھا جو آج بھی جیل میں ہیں۔ پولیس کے مطابق طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود نے یہ واردات کرائی۔
اس کی تصدیق میں وزارت داخلہ نے طالبان کی ایک وڈیو ٹیپ بھی جاری کی جس میں پشتو زبان میں اس کارروائی بارے گفتگو شامل تھی، اس وڈیو ٹیپ کو ماہرین جعلی قرار دیتے ہیں۔ اس وڈیو ٹیپ کے بارے میں میڈیا اور ماہرین نے جو اعتراضات کئے تھے، ان کا آج تک جواب نہیں دیا گیا۔ اس وقت کے سرکاری افسران نے اوپر تلے کئی پینترے بدلے، کئی کہانیاں گھڑی گئیں، جن ملزمان کو گرفتار کیا گیا ان کے اعترافی بیان بھی شامل کئے گئے ہیں۔ اس قتل کا پورا کیس ایک ملزم اعتزاز شاہ کے اعترافی بیان پر گھڑا گیا جو عدالت میں اس اعترافی بیان سے منحرف ہو گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے مجسٹریٹ کی عدالت میں کوئی ایسا بیان نہیں دیا تھا بلکہ پولیس نے جبری طور پر سادہ کاغذ پر اس سے دستخط کرائے اور خود ہی بیان لکھا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پولیس نے جس مجسٹریٹ کی عدالت میں یہ اعترافی بیان ریکارڈ کرانے کا دعویٰ کیا تھا وہ مجسٹریٹ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں بیان اور جرح کے دوران اقبالی بیان دینے والے اس ملزم کو شناخت ہی نہ کر پایا۔
واردات کے بعد جب بے نظیر بھٹو زخمی حالت میں جنرل ہسپتال لائی گئیں تو وہاں میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر مصدق کی سربراہی میں ڈاکٹرز کی ٹیم نے زخمی بے نظیر بھٹو کا علاج کیا، اس علاج کے بعد ڈاکٹر مصدق نے میڈیا کو بتایا، بے نظیر بھٹو کے سر پر گولی لگی تھی، گولی لگنے سے وہ شہید ہوئیں۔ یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے مگر دوسرے روز صبح وہ اس بیان سے مکر گئے اور ہنگامی طور پر بلائی گئی پریس کانفرنس میں کہا، شہید بی بی کے سر میں گولی نہیں کوئی سخت چیز لگی تھی، جب ان پر رات والے بیان اور موجودہ بیان میں زمین آسمان کے فرق کی بابت سوالات کی بوچھاڑ ہوئی تو انہوں نے پُرنم آنکھوں سے ہاتھ جوڑ کر کہا، ان سے ایسے سوالات نہ کئے جائیں۔ اس کے بعد ان کی زبان گنگ ہو گئی۔
اس واردات کے محض دو گھنٹے بعد پورے کرائم سین کو تیز دھار پانی سے دھو دیا گیا۔ کرائم سین کو پہلے دھونے کی ذمہ داری سول ڈیفنس کو سونپی گئی مگر اس وقت کے سول ڈیفنس کے سربراہ مرحوم لیاقت راجا نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں فائر بریگیڈ سے کہا گیا، اس کی انتظامیہ نے بھی انکار کر دیا آخر میں ریسکیو 1122 کی گاڑیوں کی مدد سے یہ سین مکمل طور پر دھو دیا گیا' جو قانون کی نظر میں سنگین جرم ہے، اس کرائم سین کو دھونے کے بارے میں سرکاری جواز یہ پیش کیا گیا کہ جائے واردات پر بو پھیل چکی تھی اور آسمان پر چیلیں اور کوے بڑی تعداد میں جمع ہو گئے تھے، دل چسپ امر یہ ہے کہ اس وقت شدید سردی تھی، رات کے ساڑھے سات بجے تھے اور عشاء کی اذان ہو چکی تھی، اس وقت چیل کوے کہاں سے آگئے تھے۔ یہ بھی کہا گیا جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ حاصل کی جا چکی تھیں، سڑک پر ٹریفک رواں دواں کرنے کے لئے کرائم سین دھویا گیا ہے۔
یہ ایک سادا سا قتل کیس ہے، اقوام متحدہ کی ٹیم یا اسکاٹ لینڈ یارڈ سے تفتیش کرانے کی ضرورت ہی نہ تھی، پنجاب پولیس کے کسی بھی سب انسپکٹر کو یہ تفتیش دے کر آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ 72گھنٹوں میں اصل ملزمان قوم کے سامنے لا سکتا ہے۔کرائم سین دھونے کا حکم دینے والے اور اس قتل سے فائدہ اٹھانے والوں کو شامل تفتیش کرنے سے اس قتل کی گتھی گھنٹوں میں سلجھ سکتی ہے۔
محترمہ کے پروٹوکول آفیسر، چوہدری اسلم نے ہائی کورٹ میں ڈیڑھ سال بعد بے نظیر کی شہادت کا سابق صدر پرویز مشرف، وزیر داخلہ رحمان ملک وفاقی وزیر ڈاکٹر بابر اعوان، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نگران وزیر داخلہ جنرل(ر) حامد نواز وزارت داخلہ کے سابق ترجمان بریگیڈئیر(ر)جاوید اقبال چیمہ، سابق سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ، سابق ڈی جی آئی بی اعجاز شاہ، سابق سی پی او راولپنڈی سعود عزیز سابق ڈی سی او عرفان الٰہی، ایس ایس پی انوسٹی گیشن یاسین فاروق سمیت 14شخصیات کے خلاف مقدمہ درج کرانے کی درخواست دائر کی، ان کا کہنا تھا کہ ان شخصیات نے دانستہ طور پر انہیں پروٹوکول آفیسر ہونے کے باوجود بے نظیر بھٹو کی واپسی کے روٹ سے بے خبر رکھا، بے نظیر بھٹو کو گاڑی کی چھت سے باہر نکلنے دیا، واردات کے بعد ہسپتال کی بجائے کسی اور جگہ چلے گئے، انہوں نے بتایا، وہ منتظر تھے کہ پارٹی قیادت یہ مقدمہ درج کرائے گی، اس کا انہیں کہا بھی گیا اور معقول انتظار بھی کیا گیا مگر پارٹی قیادت نے اس المناک شہادت کے باوجود کسی بھی ملزم کے خلاف مقدمہ درج نہیں کرایا ، یہ کیس آج تک لاوارث ہی چل رہا تھا، مجبور ہو کر اصل ملزمان کو بے نقاب کرنے کے لئے یہ درخواست دی۔
وفاقی حکومت کی درخواست پر اقوام متحدہ نے بھی اس کیس کی انکوائری کی، چلی کے ماہر قانون ڈاکٹر ہیلڈو منوازاس انکوائری ٹیم کے سربراہ ہیں جو اس سے قبل کئی عالمی معاملات کے کمیشنوں کے رکن رہ چکے ہیں' ممبران میں انڈونیشیا کے سابق اٹارنی جنرل مرزوکی دارالشماں اور آئرش نیشنل پولیس کے پیٹر فٹز جبرالڈ شامل ہیں۔ یہ ماہرین لبنان کے صدر رفیق حریری قتل کمیشن کے بھی رکن تھے یہ ٹیم تین بار پاکستان آ چکی ہے اس کی معاونت کے لئے بھی 3ممبر نامزد کئے گئے ہیں، پاکستان کے دورہ کے دوران انہوں نے جائے شہادت جنرل ہسپتال کے ڈاکٹرز' بے نظیر بھٹو کی متاثرہ گاڑی سابق صدر پرویز مشرف چوہدری پرویز الٰہی ناہید خان، صفدر عباسی سابق آئی جی' ایڈیشنل آئی جی' صدر آصف علی زرداری' وزیراعظم یوسف رضا گیلانی' بلاول بھٹو، وزیر داخلہ رحمان ملک وزیر قانون بابر اعوان بے نظیر بھٹو کے سابق پروٹوکول آفیسر چوہدری اسلم اور کئی دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اقوام متحدہ کی انکوائری ٹیم نے بھی کرائم سین فوری دھونے، بے نظیر کی واپسی کا روٹ اچانک تبدیل کرنے ، لیاقت باغ کی سکیورٹی اور بے نظیر کی سکیورٹی پر سخت سوالات کو تفتیش کا مرکز بنایا ' انھوں نے بھی اپنی رپورٹ حکومت کردی۔
بینظیر بھٹو کی شہادت کو پانچ برس بیت چکے ہیں ، تمام انکوائریاں مکمل ہو چکی ہیں،پانچ ملزم گرفتا ر ہو چکے ہیں،بیت اللہ محسود سمیت چھ ملزمان مارے جا چکے ہیں اور 17شہادتیں قلمبند کی جا چکی ہیں مگر افسوس کہ اصل صورتحال سے عوام ابھی تک بے خبر ہیں ،زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی اصل قاتل سامنے نہیں لائے جا سکے۔