محبت جو خوب نبھائی گئی
امی نے بابا کی اولاد یعنی میں‘ اطہر اور ’’غیر سیاسی باتیں‘‘ کو اپنا لیا اور ایک ماں کے دل سے اپنایا۔
لاہور:
آج کا ''غیر سیاسی باتیں'' ایک تذکرہ محبت کے لیے مستعار لیا گیا ہے۔ یوں یہ کالم اس کے ایک کردار اسما حسن سے ادھار لیا گیا ہے۔
لاہور کے حلقہ صحافت سے جنم لینے والی ایک داستان محبت۔ اور داستانیں کبھی ختم نہیں ہوتیں بس ایک سلسلہ واقعات تھم جاتا ہے۔ سو واقعات ختم ہوئے اور داستان لازوال ٹھہری۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ''نوائے وقت'' ایک موقر روزنامہ کی حیثیت سے اپنے عروج پر تھا۔ خطہ پوٹھوہار کے دور افتادہ گاؤں سے آنے والا نوجوان صحافی اب دنیائے صحافت میں اپنے قدم جما چکا تھا۔ بڑی متنوع نظریاتی تربیت ہوئی تھی' مولانا مودودی اور علامہ داؤد غزنوی سے لے کر سبط حسن اور فیض احمد فیض جیسے جید استاد اور صحافتی تکنیک اور آداب سکھانے والے حمید نظامی اور ظہور عالم شہید جیسے کہند مشق صحافی۔ مگر ذاتی زندگی ایک سانحہ کا شکار ہو گئی۔
جواں سال بیوی ایک گیارہ ماہ کی بچی چھوڑ کر چل بسی۔ والدہ نے حسب روایت بچی کی بڑی خالہ کا انتخاب کیا جو مخلص تو تھیں لیکن کم تعلیم یافتہ۔ اللہ نے بیٹے سے نوازا لیکن تربیت کی پریشانی لاحق رہی۔ نوائے وقت کی ساتھی کارکن نے اپنی پیشکش دہرائی۔ ایک بیوی کھو بیٹھے تھے' ایک بیوی اور دو بچے موجود اور یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب صحافی لکھ پتیوں کی صرف خبریں بناتے تھے' خود تو لگا بندھا گزارہ تھا۔ مگر تب تک محبت اپنا کام دکھا چکی تھی اور محبت میں حساب کتاب کون کرتا ہے۔
بابا' امی کی میت کے پاس کھڑے ایک خوبصورت لمحے کو دہرا رہے تھے، ''اس نے کہا تھا میں سیالکوٹ کی اور آپ وادی سون کے' میں آپ کو سون کی بن کر دکھاؤں گی اور اس نے دکھا دیا''۔ امی شہری علاقوں کی پروردہ' گوری چٹی کشمیرن' برسرروز گار خود مختار خاتون اور بابا اور ان کے گھر والے۔ بظاہر اپنے پہاڑوں جیسے سنگلاخ رویے گو دل ''بریشم کی طرح نرم'' لیکن ان دلوں تک پہنچنے کے لیے یہ سنگلاخ رستے بھی تو طے کرنے تھے اور اسی نے دل تسخیر کر لیے' ایک ہی حکمت عملی ہے اس فتح کی' بے حد و بے حساب محبت۔
امی نے اپنے محبوب کے علاقے کے رسم و رواج اپنائے' ان کی زبان سیکھی' ان کے حلوے پکانے سیکھے' ان کے دیہاتی مہمانوں کی دیہاتی انداز میں مہمان نوازی کی' اگر عورت کی محبت فنا ہو کر جیت لینا ہے تو امی نے فنا ہو کر راز محبت پا لیا۔ وہ پنجابی زبان کے پہلے افسانوں کے مجموعے کی خالق تھیں' کئی ناول اور افسانے' کالم اردو میں لکھے۔ ان کا خاندان ہجرت کے دکھ سے گزرا تھا' ہجرت کرنے والی خواتین کے مسائل پر لکھا' اسپتالوں میں خواتین کو پیش آنے والی مشکلات پر لکھا' پاکستان کی محبت کو موضوع سخن بنایا۔ جو کچھ بھی لکھا تپاک جاں سے لکھا''۔
وہ صحافت کے میدان میں قدم رکھنے والی پاکستان کی سب سے پہلی خواتین میں سے تھیں اور مجھے فخر ہے کہ انھوں نے اپنا کردار ایسے نبھایا کہ بعد میں آنے والی صحافی خواتین کا راستہ آسان کر دیا۔ دفتروں میں کام کرنے والی عورت اپنا نسوانی وقار کیسے قائم رکھتی ہے' اس کا عملی نمونہ پیش کیا اور اپنے سخت گیر سسرال کی روایات کو یوں نبھایا کہ سب فاصلے سمٹ گئے۔
امی نے بابا کی اولاد یعنی میں' اطہر اور ''غیر سیاسی باتیں'' کو اپنا لیا اور ایک ماں کے دل سے اپنایا۔ میرے نزدیک ماں بننا ایک جسمانی نہیں روحانی عمل ہے۔ درد محسوس کرنے کے لیے جسمانی طور پر اس سے گزرنا ضروری نہیں' یہ مجھے تب معلوم ہوا جب میری ہر درد زہ کے مشکل ترین لمحے میں امی نے میرا ہاتھ تھاما۔ ماں بس ماں ہوتی ہے' یہ سگی سوتیلی کے سابقے لاحقے غیر ضروری ہیں۔
امی کو سفر آخرت پر لے جانے والوں میں ان کے میکے' ان کے اپنے' بیٹی کے' بیٹے کے سسرال' دوست احباب' پرانے ملازمین سب دلی محبت سے شریک تھے۔ سب گواہی دے رہے تھے کہ وہ بہت شفیق خاتون تھیں۔ اور پاکستانی عورت کے یہی تو تمغے ہیں ۔ امی نے کبھی اپنی کتابوں کی رونمائی نہیں کروائی' اپنے اعزاز میں تقریب کا اہتمام نہیں کرایا' ان کی الماری سے ان کا شناختی کارڈ ڈھونڈتے ہوئے میں بھابی سے کہہ رہی تھی ''کیسی غریب عورتوں والی چیزیں نکل رہی ہیں امی کے پاس سے''۔
وہ واحد خاتون تھیں میرے مشاہدے میں جو سستے سے سستا کپڑا پہن کر خوش ہوتی تھیں۔ اچھی اچھی قیمتی چیزیں جو تحفے میں ملتیں تو وہ مجھے' بھابی' پوتیوں وغیرہ کو بالامراد دے دی جاتیں۔ میری درویش ماں۔ ہزاروں میل دور بیٹھے ان کے طالب علم نواسے سے شام میں بات ہوئی تھی کہ وہ اس سرما گھر نہیں آ رہا۔ بعد میں میں نے اس کا پیغام دیکھا کہ ''کیا میں' شاید' گھر آ سکتا ہوں؟''۔ یہ پیغام عین اس وقت موصول ہوا جب امی نے آخری سانس لی۔
میں نے پوچھا تو کہنے لگا کہ سب پاکستانی' انڈین' مقامی دوست جا رہے تھے تو ایک لمحے کے ذرا اداس ہوا تھا عجیب سے طریقے سے۔ دراصل اس کے دل میں یہ ہوک اس لیے اٹھی تھی کہ اسی لمحے اس کی مہربان ترین نانو دنیا سے رخصت ہوئی تھیں۔ اس کے بچوں کے لیے اس کی نانو کے بنے ہوئے سویٹر ٹوپیاں رکھے ہیں' ان کی ہر بنت میں' ہر ٹانکے میں بہت سی محبت' دعائیں پروئی ہوئی ہیں۔ اور خاندان کا کون سا بچہ ہے جس کے لیے انھوں نے بُنائی نہ کی ہو؟
کون شخص ہے جو ان کی محبت سے فیض یاب نہ ہوا ہو۔ سب گواہی دے رہے تھے۔ ہم عورتوں کی محبت کی معراج تو یہی ہے' میکے کی عزت نبھا دی' سسرال سے کما لی۔ امی نے معراج پا لی۔ ان کے محبوب شوہر نے یہ کہہ کر رخصت کیا ''اچھی نبھ گئی۔ اللہ حافظ''۔
امی کی الماری سے کفن کے ساتھ ان کا لکھا ہوا نوٹ نکلا ہے کہ مجھے اس کفن میں کفنایا جائے اور میرے ساتھ یہ غلاف کعبہ کا ٹکڑا اور صفا مروہ کی ٹھیکریاں رکھ دی جائیں۔ فرشتے ٹھیکریاں دیکھ کر جان لیں گے کہ کوئی درویش آیا ہے اور صفا مروہ کی نسبت سے جان لیں گے کہ کوئی ماں آئی ہے۔ صفا مروہ کی سعی تو مامتا کا استعارہ ہے۔
امی نے عمر بھر ستائش کی تمنا نہیں کی۔ ''غیر سیاسی باتیں'' کی کامیابی میں ان کا خلوص شامل ہے۔ دعائے مغفرت کی گزارش ہے برائے رخصت بنت نذیر بی بی زوجہ عبدالقادر حسن۔ داستان ابد ہوئی۔
آج کا ''غیر سیاسی باتیں'' ایک تذکرہ محبت کے لیے مستعار لیا گیا ہے۔ یوں یہ کالم اس کے ایک کردار اسما حسن سے ادھار لیا گیا ہے۔
لاہور کے حلقہ صحافت سے جنم لینے والی ایک داستان محبت۔ اور داستانیں کبھی ختم نہیں ہوتیں بس ایک سلسلہ واقعات تھم جاتا ہے۔ سو واقعات ختم ہوئے اور داستان لازوال ٹھہری۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ''نوائے وقت'' ایک موقر روزنامہ کی حیثیت سے اپنے عروج پر تھا۔ خطہ پوٹھوہار کے دور افتادہ گاؤں سے آنے والا نوجوان صحافی اب دنیائے صحافت میں اپنے قدم جما چکا تھا۔ بڑی متنوع نظریاتی تربیت ہوئی تھی' مولانا مودودی اور علامہ داؤد غزنوی سے لے کر سبط حسن اور فیض احمد فیض جیسے جید استاد اور صحافتی تکنیک اور آداب سکھانے والے حمید نظامی اور ظہور عالم شہید جیسے کہند مشق صحافی۔ مگر ذاتی زندگی ایک سانحہ کا شکار ہو گئی۔
جواں سال بیوی ایک گیارہ ماہ کی بچی چھوڑ کر چل بسی۔ والدہ نے حسب روایت بچی کی بڑی خالہ کا انتخاب کیا جو مخلص تو تھیں لیکن کم تعلیم یافتہ۔ اللہ نے بیٹے سے نوازا لیکن تربیت کی پریشانی لاحق رہی۔ نوائے وقت کی ساتھی کارکن نے اپنی پیشکش دہرائی۔ ایک بیوی کھو بیٹھے تھے' ایک بیوی اور دو بچے موجود اور یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب صحافی لکھ پتیوں کی صرف خبریں بناتے تھے' خود تو لگا بندھا گزارہ تھا۔ مگر تب تک محبت اپنا کام دکھا چکی تھی اور محبت میں حساب کتاب کون کرتا ہے۔
بابا' امی کی میت کے پاس کھڑے ایک خوبصورت لمحے کو دہرا رہے تھے، ''اس نے کہا تھا میں سیالکوٹ کی اور آپ وادی سون کے' میں آپ کو سون کی بن کر دکھاؤں گی اور اس نے دکھا دیا''۔ امی شہری علاقوں کی پروردہ' گوری چٹی کشمیرن' برسرروز گار خود مختار خاتون اور بابا اور ان کے گھر والے۔ بظاہر اپنے پہاڑوں جیسے سنگلاخ رویے گو دل ''بریشم کی طرح نرم'' لیکن ان دلوں تک پہنچنے کے لیے یہ سنگلاخ رستے بھی تو طے کرنے تھے اور اسی نے دل تسخیر کر لیے' ایک ہی حکمت عملی ہے اس فتح کی' بے حد و بے حساب محبت۔
امی نے اپنے محبوب کے علاقے کے رسم و رواج اپنائے' ان کی زبان سیکھی' ان کے حلوے پکانے سیکھے' ان کے دیہاتی مہمانوں کی دیہاتی انداز میں مہمان نوازی کی' اگر عورت کی محبت فنا ہو کر جیت لینا ہے تو امی نے فنا ہو کر راز محبت پا لیا۔ وہ پنجابی زبان کے پہلے افسانوں کے مجموعے کی خالق تھیں' کئی ناول اور افسانے' کالم اردو میں لکھے۔ ان کا خاندان ہجرت کے دکھ سے گزرا تھا' ہجرت کرنے والی خواتین کے مسائل پر لکھا' اسپتالوں میں خواتین کو پیش آنے والی مشکلات پر لکھا' پاکستان کی محبت کو موضوع سخن بنایا۔ جو کچھ بھی لکھا تپاک جاں سے لکھا''۔
وہ صحافت کے میدان میں قدم رکھنے والی پاکستان کی سب سے پہلی خواتین میں سے تھیں اور مجھے فخر ہے کہ انھوں نے اپنا کردار ایسے نبھایا کہ بعد میں آنے والی صحافی خواتین کا راستہ آسان کر دیا۔ دفتروں میں کام کرنے والی عورت اپنا نسوانی وقار کیسے قائم رکھتی ہے' اس کا عملی نمونہ پیش کیا اور اپنے سخت گیر سسرال کی روایات کو یوں نبھایا کہ سب فاصلے سمٹ گئے۔
امی نے بابا کی اولاد یعنی میں' اطہر اور ''غیر سیاسی باتیں'' کو اپنا لیا اور ایک ماں کے دل سے اپنایا۔ میرے نزدیک ماں بننا ایک جسمانی نہیں روحانی عمل ہے۔ درد محسوس کرنے کے لیے جسمانی طور پر اس سے گزرنا ضروری نہیں' یہ مجھے تب معلوم ہوا جب میری ہر درد زہ کے مشکل ترین لمحے میں امی نے میرا ہاتھ تھاما۔ ماں بس ماں ہوتی ہے' یہ سگی سوتیلی کے سابقے لاحقے غیر ضروری ہیں۔
امی کو سفر آخرت پر لے جانے والوں میں ان کے میکے' ان کے اپنے' بیٹی کے' بیٹے کے سسرال' دوست احباب' پرانے ملازمین سب دلی محبت سے شریک تھے۔ سب گواہی دے رہے تھے کہ وہ بہت شفیق خاتون تھیں۔ اور پاکستانی عورت کے یہی تو تمغے ہیں ۔ امی نے کبھی اپنی کتابوں کی رونمائی نہیں کروائی' اپنے اعزاز میں تقریب کا اہتمام نہیں کرایا' ان کی الماری سے ان کا شناختی کارڈ ڈھونڈتے ہوئے میں بھابی سے کہہ رہی تھی ''کیسی غریب عورتوں والی چیزیں نکل رہی ہیں امی کے پاس سے''۔
وہ واحد خاتون تھیں میرے مشاہدے میں جو سستے سے سستا کپڑا پہن کر خوش ہوتی تھیں۔ اچھی اچھی قیمتی چیزیں جو تحفے میں ملتیں تو وہ مجھے' بھابی' پوتیوں وغیرہ کو بالامراد دے دی جاتیں۔ میری درویش ماں۔ ہزاروں میل دور بیٹھے ان کے طالب علم نواسے سے شام میں بات ہوئی تھی کہ وہ اس سرما گھر نہیں آ رہا۔ بعد میں میں نے اس کا پیغام دیکھا کہ ''کیا میں' شاید' گھر آ سکتا ہوں؟''۔ یہ پیغام عین اس وقت موصول ہوا جب امی نے آخری سانس لی۔
میں نے پوچھا تو کہنے لگا کہ سب پاکستانی' انڈین' مقامی دوست جا رہے تھے تو ایک لمحے کے ذرا اداس ہوا تھا عجیب سے طریقے سے۔ دراصل اس کے دل میں یہ ہوک اس لیے اٹھی تھی کہ اسی لمحے اس کی مہربان ترین نانو دنیا سے رخصت ہوئی تھیں۔ اس کے بچوں کے لیے اس کی نانو کے بنے ہوئے سویٹر ٹوپیاں رکھے ہیں' ان کی ہر بنت میں' ہر ٹانکے میں بہت سی محبت' دعائیں پروئی ہوئی ہیں۔ اور خاندان کا کون سا بچہ ہے جس کے لیے انھوں نے بُنائی نہ کی ہو؟
کون شخص ہے جو ان کی محبت سے فیض یاب نہ ہوا ہو۔ سب گواہی دے رہے تھے۔ ہم عورتوں کی محبت کی معراج تو یہی ہے' میکے کی عزت نبھا دی' سسرال سے کما لی۔ امی نے معراج پا لی۔ ان کے محبوب شوہر نے یہ کہہ کر رخصت کیا ''اچھی نبھ گئی۔ اللہ حافظ''۔
امی کی الماری سے کفن کے ساتھ ان کا لکھا ہوا نوٹ نکلا ہے کہ مجھے اس کفن میں کفنایا جائے اور میرے ساتھ یہ غلاف کعبہ کا ٹکڑا اور صفا مروہ کی ٹھیکریاں رکھ دی جائیں۔ فرشتے ٹھیکریاں دیکھ کر جان لیں گے کہ کوئی درویش آیا ہے اور صفا مروہ کی نسبت سے جان لیں گے کہ کوئی ماں آئی ہے۔ صفا مروہ کی سعی تو مامتا کا استعارہ ہے۔
امی نے عمر بھر ستائش کی تمنا نہیں کی۔ ''غیر سیاسی باتیں'' کی کامیابی میں ان کا خلوص شامل ہے۔ دعائے مغفرت کی گزارش ہے برائے رخصت بنت نذیر بی بی زوجہ عبدالقادر حسن۔ داستان ابد ہوئی۔