ایک بھولی بسری داستاں
ٹرانسپرینسی کے بنائے گئے پیمانے میں صفر سے مراد کرپشن سے پاک اور 100 سے مراد انتہائی کرپشن ہے۔۔۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق 2008سے 2013 کے مابین، پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں، ٹیکس چوری، بدعنوانی اور ناقص طرز حکمرانی کے باعث پاکستان کو ساڑھے 8 کھرب روپے (94 ارب ڈالر) کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ شفافیت اور احتساب گڈ گورننس کے دو مرکزی ستون ہیں، اگر پاکستان میں بدعنوانی کا خاتمہ کر دیا جائے تو ملک کو بیرونی امداد کے ایک پیسے کی بھی ضرورت نہیں۔
اپنی ذمے داری قبول کرنا ہماری اجتماعی نفسیات ہی میں شامل نہیں، ہم صرف افراد کے احتساب ہی کو کافی سمجھتے ہیں۔ اس میں بھی نوکر شاہی کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے اور وہ بھی ''پلی بارگین'' کا حربہ استعمال کر کے صاف بچ نکلتے ہیں، جسے دوسرے سرکاری افسروں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ کرپشن کے مال سے کچھ حصہ دے کر مزے کی زندگی گزاری جا سکتی ہے اور بعض صورتوں میں تو دوبارہ مواقع بھی مل جاتے ہیں۔
ٹرانسپرینسی کے بنائے گئے پیمانے میں صفر سے مراد کرپشن سے پاک اور 100 سے مراد انتہائی کرپشن ہے، اس پیمانے میں پاکستان کا اسکور 31 ہے۔ پاکستان دنیا کے 168ممالک میں کرپشن کے اعتبار سے 117 ویں نمبر پر ہے۔ مشرف نے اپنے اقتدار کی بقا کی خاطر جب این آر او کا تو اس کا زیادہ فائدہ آصف زرداری کو بھی ہوا۔ خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے زرداری واپس آ گئے ہیں، ان کی مسکراتی تصویریں چوراہوں پر آویزاں ہیں اور اہل نظر دل گیر ہیں کہ یہ منظر ملک میں جمہوریت کی علامت کے طور پر پیش کیا جائے گا۔
ہمارے جمہوری راہنما بدعنوانی کے خاتمے کے لیے درکار پولیٹیکل وِل ہی سے عاری ہیں، جب کہ اسٹیبلشمنٹ اس کی اخلاقی قوت سے۔ زمینوں اور مالیاتی وسائل کی خورد برد اور اختیارات کے غلط استعمال کے 179 بڑے مقدمات نیب کی جانب سے عدالت عظمی میں پیش کیے جا چکے ہیں۔ اس فہرست میں وزیر اعظم میاں نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب، شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، سابق وزرائے اعظم، راجہ پرویز اشرف، شوکت، یوسف رضا گیلانی اور سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کے نام شامل ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی ایک اہم شخصیت کو کسی مقدمے میں سزا نہیں ہوئی۔
رینٹل پاؤر پلانٹس بدعنوانی کے الزامات، کک بیکس اور بدنظمی کی وجہ سے متنازعہ ترین معاملات میں سے ایک ہے۔ 2009میں کراچی میں بجلی کی 200 سے 300 میگا واٹ کمی دور کرنے کے لیے کرائے کے بجلی گھر وںکا ایک معاہدہ ہوا، جن کی صلاحیت 232 میگا واٹ تھی۔ اس وقت کے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی (سابق وزیر اعظم) راجہ پرویز اشرف نے اعلان کیا کہ نومبر 2009 تک یہ بجلی گھر پیداوار شروع کر دیں گے۔
2011 میں سپریم کورٹ نے اس معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا۔ان کے معاملات میں غیر معمولی بے ضابطگیوں کی نشان دہی ہوئی۔رشوت ستانی اور حکومتی غفلت کی باتیں بھی سامنے آئیں ۔ کرائے پر حاصل کیے گئے بجلی گھر پیداوار کے بغیر 36 ماہ تک کھڑے رہے لیکن انھیں دو ارب ڈالر سے زاید کرائے کی ادائیگی کی جاتی رہی۔
اب یہ کیس مسلسل تاخیر کا شکار ہے، اس میں جن افراد کے نام آئے کسی ایک بھی بڑے ملزم کو سزا نہیں ہو سکی، اس کا کوئی نتیجہ اب برآمد ہوجانا چاہیے۔
راحیل شریف رخصت ہو چکے، زرداری اب خود کو ''محفوظ'' محسوس کرتے ہیں تبھی پاکستان واپس آئے۔ سندھ کے دیانت دار آئی جی اے ڈی خواجہ کو ہٹا دیا گیاہے' اگر کوئی نئے ''تین سال'' بھی آسانی سے ٹل جائیں گے تو شاید اس بار یہ اندازے نہ صرف غلط ثابت ہوں۔
میڈیا کے پُرجوش حلقوں میں راجا بابر کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے قابل احترام جج کے ان ریمارکس کی گونج سنائی دی کہ نیب بدعنوانی میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔ انتہائی احترام کے ساتھ گزارش ہے کہ نیب کو اس بات کا کریڈٹ بھی دینا چاہیے کہ کرپشن کے خلاف اس کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فرمان سے بھلا کون متفق نہ ہو گا کہ قانون میں ''پلی بارگین'' کی گنجایش کا اب خاتمہ ہونا چاہیے ۔ پلی بارگین مجرموں کے فرار کا محفوظ راستہ ثابت ہو رہا ہے، لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ نیب سے متعلق ریمارکس سے نیب کے ان اہل کاروں کی حوصلہ شکنی ضرور ہوئی ہے جو دیانت،یک سوئی اور تندہی کے ساتھ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں، اور اس ادارے کی گوشمالی سے مجرموں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔
امید یہی ہے کہ سپریم کورٹ نیب میں بدعنوان عناصر کو کڑی سزا دے کر مثال قائم کی جائے گی اور عدلیہ وہ مضبوط ستون ہے، ہماری جمہوریت جس کے سہارے قائم ہے۔ یہ ادارہ عوام کے حقوق، بنیادی آزادیوں کے تحفظ کا ضامن ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ ملک کے ان چند اداروں میں سے ایک ہے جس کا احترام اور جس پر اعتماد ابھی تک قائم ہے۔
اپنی ذمے داری قبول کرنا ہماری اجتماعی نفسیات ہی میں شامل نہیں، ہم صرف افراد کے احتساب ہی کو کافی سمجھتے ہیں۔ اس میں بھی نوکر شاہی کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے اور وہ بھی ''پلی بارگین'' کا حربہ استعمال کر کے صاف بچ نکلتے ہیں، جسے دوسرے سرکاری افسروں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ کرپشن کے مال سے کچھ حصہ دے کر مزے کی زندگی گزاری جا سکتی ہے اور بعض صورتوں میں تو دوبارہ مواقع بھی مل جاتے ہیں۔
ٹرانسپرینسی کے بنائے گئے پیمانے میں صفر سے مراد کرپشن سے پاک اور 100 سے مراد انتہائی کرپشن ہے، اس پیمانے میں پاکستان کا اسکور 31 ہے۔ پاکستان دنیا کے 168ممالک میں کرپشن کے اعتبار سے 117 ویں نمبر پر ہے۔ مشرف نے اپنے اقتدار کی بقا کی خاطر جب این آر او کا تو اس کا زیادہ فائدہ آصف زرداری کو بھی ہوا۔ خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے زرداری واپس آ گئے ہیں، ان کی مسکراتی تصویریں چوراہوں پر آویزاں ہیں اور اہل نظر دل گیر ہیں کہ یہ منظر ملک میں جمہوریت کی علامت کے طور پر پیش کیا جائے گا۔
ہمارے جمہوری راہنما بدعنوانی کے خاتمے کے لیے درکار پولیٹیکل وِل ہی سے عاری ہیں، جب کہ اسٹیبلشمنٹ اس کی اخلاقی قوت سے۔ زمینوں اور مالیاتی وسائل کی خورد برد اور اختیارات کے غلط استعمال کے 179 بڑے مقدمات نیب کی جانب سے عدالت عظمی میں پیش کیے جا چکے ہیں۔ اس فہرست میں وزیر اعظم میاں نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب، شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، سابق وزرائے اعظم، راجہ پرویز اشرف، شوکت، یوسف رضا گیلانی اور سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کے نام شامل ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی ایک اہم شخصیت کو کسی مقدمے میں سزا نہیں ہوئی۔
رینٹل پاؤر پلانٹس بدعنوانی کے الزامات، کک بیکس اور بدنظمی کی وجہ سے متنازعہ ترین معاملات میں سے ایک ہے۔ 2009میں کراچی میں بجلی کی 200 سے 300 میگا واٹ کمی دور کرنے کے لیے کرائے کے بجلی گھر وںکا ایک معاہدہ ہوا، جن کی صلاحیت 232 میگا واٹ تھی۔ اس وقت کے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی (سابق وزیر اعظم) راجہ پرویز اشرف نے اعلان کیا کہ نومبر 2009 تک یہ بجلی گھر پیداوار شروع کر دیں گے۔
2011 میں سپریم کورٹ نے اس معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا۔ان کے معاملات میں غیر معمولی بے ضابطگیوں کی نشان دہی ہوئی۔رشوت ستانی اور حکومتی غفلت کی باتیں بھی سامنے آئیں ۔ کرائے پر حاصل کیے گئے بجلی گھر پیداوار کے بغیر 36 ماہ تک کھڑے رہے لیکن انھیں دو ارب ڈالر سے زاید کرائے کی ادائیگی کی جاتی رہی۔
اب یہ کیس مسلسل تاخیر کا شکار ہے، اس میں جن افراد کے نام آئے کسی ایک بھی بڑے ملزم کو سزا نہیں ہو سکی، اس کا کوئی نتیجہ اب برآمد ہوجانا چاہیے۔
راحیل شریف رخصت ہو چکے، زرداری اب خود کو ''محفوظ'' محسوس کرتے ہیں تبھی پاکستان واپس آئے۔ سندھ کے دیانت دار آئی جی اے ڈی خواجہ کو ہٹا دیا گیاہے' اگر کوئی نئے ''تین سال'' بھی آسانی سے ٹل جائیں گے تو شاید اس بار یہ اندازے نہ صرف غلط ثابت ہوں۔
میڈیا کے پُرجوش حلقوں میں راجا بابر کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے قابل احترام جج کے ان ریمارکس کی گونج سنائی دی کہ نیب بدعنوانی میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔ انتہائی احترام کے ساتھ گزارش ہے کہ نیب کو اس بات کا کریڈٹ بھی دینا چاہیے کہ کرپشن کے خلاف اس کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فرمان سے بھلا کون متفق نہ ہو گا کہ قانون میں ''پلی بارگین'' کی گنجایش کا اب خاتمہ ہونا چاہیے ۔ پلی بارگین مجرموں کے فرار کا محفوظ راستہ ثابت ہو رہا ہے، لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ نیب سے متعلق ریمارکس سے نیب کے ان اہل کاروں کی حوصلہ شکنی ضرور ہوئی ہے جو دیانت،یک سوئی اور تندہی کے ساتھ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں، اور اس ادارے کی گوشمالی سے مجرموں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔
امید یہی ہے کہ سپریم کورٹ نیب میں بدعنوان عناصر کو کڑی سزا دے کر مثال قائم کی جائے گی اور عدلیہ وہ مضبوط ستون ہے، ہماری جمہوریت جس کے سہارے قائم ہے۔ یہ ادارہ عوام کے حقوق، بنیادی آزادیوں کے تحفظ کا ضامن ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ ملک کے ان چند اداروں میں سے ایک ہے جس کا احترام اور جس پر اعتماد ابھی تک قائم ہے۔