تین متضاد زمانہ شخصیتوں کی یکساں کوششیں پہلا حصہ

مصنفہ جولیا بلیئرڈ نے ہمیں وکوٹورین دور کی کچھ اور عظمت کی نشانیاں دکھائی ہیں۔۔۔

حال ہی میں ہمیں بعض تاریخی شخصیتوں پر لکھی جانے والی کتابوں بلکہ سوانح عمریوں پر کیے جانے والے تبصروں کے مطالعے کا خیر سے موقع ملا ہے، ان شخصیتوں کا ایک دوسرے سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا، مگر ان کتابوں کی قدر مشترک یہ تھی کہ ان میں مصنفوں نے اپنی اپنی شخصیتوں کے بارے میں عام تاثر کو کسی حد تک تبدیل کرنے اور ان کی امیج کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔

یہ شخصیتیں انگلستان کی ملکہ وکٹوریہ، دنیا کے عظیم فاتحین میں سے ایک چنگیز خان اور عراق کے سابق صدر صدام حسین کی ہیں۔

پہلی کتاب وکٹوریہ دی کوئین کے عنوان سے جولیا پلیئرڈ نے لکھی، جس پر سیر حاصل تبصرہ ایک ناول نگار پریا پامر نے کیا ہے۔ یہ برطانیہ کی پہلی ملکہ تھیں جن کا فوٹو گراف لیا گیا، تاہم انھیں ایک حادثے بلکہ المیے کے نتیجے میں اٹھارویں سالگرہ منانے کے بعد تخت پر بٹھا دیا گیا، ان ہی کے بارے میں مارک ٹوئین نے کہا تھا کہ ملکہ وکٹوریہ نے اپنے دور میں سب سے زیادہ چیزیں ایجاد ہوتے دیکھیں۔ یہ دور واقعی بہت سی جدتوں اور صنعتی ترقی کا دور تھا مگر اسی زمانے میں سماجی، جنسی اور جذباتی اسپرٹ کو کچلا گیا، جس کی سب سے بڑی مثال خود وکٹوریہ تھیں۔

ملکہ وکٹوریہ نے شہزادہ البرٹ سے شادی کی، جن سے ان کو دیوانہ وار محبت تھی اور جب شہزادہ کم عمری میں چل بسا تو ان کو جو دکھ ہوا وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، ان کی جذباتی پروقار شخصیت اپنی جگہ مگر وہ ایسی خاتون بھی تھیں جنھوں نے عین اپنی تاجپوشی کے موقع پر اپنے بزرگ انکل سے بغلگیر ہونے کے لیے تخت سے چھلانگ لگا دی تھی۔

وہ ''غیر نصابی'' سرگرمیوں کی بھی دیوانی تھیں اور چھپانے کے بجائے اپنے اس شوق کا برملا اعتراف کرتی تھیں، جب ان کا نواں بچہ پیدا ہوا تو شاہی طبیبوں نے مفید مشورے کے سے انداز میں ان سے کہا کہ بی بی 38 سال کی عمر میں یہ آپ کا آخری بچہ ہونا چاہیے۔ جس کا جواب انھوں نے یہ دیا کہ کیا میں بیڈ روم کے لطف اور تفریح کو بالکل ہی خیرباد کہہ دوں۔

اس سے پہلے جب ملکہ وکٹوریہ نے شہزادہ البرٹ سے شادی کی تو ان کی اتھارٹی آہستہ آہستہ کم ہونے لگی، کیونکہ وفادار شوہر ہونے کے باوجود البرٹ سمجھتے تھے کہ حکمرانی درحقیقت مردوں کا ہی حق ہے، چنانچہ شادی شدہ زندگی کے اکیس سال میں انھوں نے ملکہ وکٹوریہ کی ساری رعونت، تمکنت اور خود اعتمادی خاک میں ملادی اور البرٹ کی بے وقت موت کے بعد ہی ملکہ وکٹوریہ کو اپنے آپ کو پھر سے منوانے کا موقع ملا۔


مصنفہ جولیا بلیئرڈ نے ہمیں وکوٹورین دور کی کچھ اور عظمت کی نشانیاں دکھائی ہیں، دس سالہ جارج ایلیٹ بورڈنگ اسکول میں پڑھ رہی ہیں۔ 18 سالہ چارلس ڈکنز برٹش میوزیم کے ایڈیٹنگ روم میں شارٹ ہینڈ سیکھ رہے ہیں، جب کہ بیس سالہ الفریڈ لارڈ ٹینیزن کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، پھر یہ ملکہ وکٹوریہ ہی تھیں جنھوں نے سب سے پہلے دلہن کو سفید براق عروسی جوڑا پہنوایا اور بچے کی پیدائش کے دوران کلوروفارم سونگھانے کا سلسلہ شروع کیا، اس سے پہلے عام عقیدہ یہ تھا کہ درد برداشت کرنے سے حاملہ عورت کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں۔ وہ ہر سال ایلیفینٹ مین جوزف میرک کو ذاتی خط لکھا کرتی تھیں اور انھوں نے اپنی تصویر شوہر کے مرنے کے بعد ان کے تابوت میں رکھوائی تھی۔

پھر یہ بھی ہوا کہ ملکہ وکٹوریہ کے مرنے کے بعد ان کے قریبی لوگوں نے ان کی شخصیت کے سارے داغ دھو ڈالے۔ اسے جولیا بلیئرڈ تاریخ کی سب سے بڑی سنسر شپ قرار دیتی ہیں۔ وکٹوریہ کی بیٹی بیٹرس نے سارے جرنلز رسالے ٹرانسکرائب کیے اور وہ ساری چیزیں نکال ڈالیں جن سے ان کی ماں کے کردار کا کوئی برا پہلو نکلتا تھا، یہی نہیں اس کے بعد انھوں نے سارے ''اوریجنلز'' جلا ڈالے۔ اب بھی رائل آرکائیوز کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کے بارے میں کوئی ایسی قابل اعتراض چیز شایع نہ ہو جس سے ان کے کردار پر حرف آنے کا امکان ہو۔

چنگیز خان: دنیا کے عظیم فاتحین میں سہرفرست چنگیز خان کے بارے میں چونکا دینے والی نئی کتاب چنگیز اور خدا کی جستجو کے عنوان سے جیک ویدر فورڈ نے لکھی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ چنگیز خان نے اپنی رعایا کو مذہبی آزادی دی تھی۔ ان کے بیان کے مطابق چنگیز خان نے 25 سال پر محیط دنیا کی تاریخ کی سب سے زیادہ وسیع تر جنگ لڑی تھی اور مغرب میں الطائی پہاڑوں سے لے کر جنوب میں گوبی صحرا تک پورے یوریشیا کو روند ڈالا تھا، مگر وہ اپنی اس جنگی مہم کے دوران جہاں بھی گیا تہذیب، انصاف، میرٹ، رحمدلی اور مروت ساتھ لے گیا تھا۔

اب یہ بات ان لوگوں کی اکثریت کے لیے ناقابل یقین ہے جو چنگیز خان کو ایک دیوہیکل عفریت، ظالم و جابر بے رحم حکمران سمجھتے رہے ہیں۔ ویدر فورڈ نے اس طرح بڑے پیمانے پر نظر ثانی شدہ REVISIONIST تاریخ پیش کی ہے، مگر اس کے لیے انھوں نے خاصی عرق ریزی کے ساتھ بہت اچھی طرح طویل عرصے ریسرچ کی ہے۔

سچی بات ہے وہ ''چنگیز خان اور خدا کی جستجو'' کے عنوان سے اپنے تھیسز کو خاصا آگے لے گئے ہیں اور بڑے قائل، معقول اور متاثر کرنے والے انداز میں انھوں نے یہ استدلال پیش کیا ہے کہ چنگیز خان خود خواہ بے دین سہی، انھوں نے اپنے زیر تسلط رعایا کو مکمل مذہبی آزادی دے رکھی تھی، حالانکہ ان کی سلطنت میں مسلمان، بدھ مذہب کے ماننے والے، کنفیوشس کے پیروکار، زرتشتی، ہندو، عیسائی اور یہودی رہتے تھے۔

چنگیز خان کا نسب العین تھا کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو ایک ہم آہنگ معاشرے کی شکل میں ایک حکومت کے تحت رہنا چاہیے، ان کے درمیان تو کوئی دیواریں کھڑی کی جائیں نہ ترک وطن پر کوئی پابندی ہو اور نہ ہی کسی کی روحانی چھان بین کی جائے کہ کون کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ (جاری ہے)
Load Next Story