حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں
میری آنکھیں جھپکی تھیں یا نہیں یہ تو پتہ نہیں، لیکن اس سے بڑی اور کون سی دعا قبول ہونی تھی۔
ISLAMABAD:
1998ء اس لحاظ سے میری زندگی کا بہت مبارک اور یادگار سال تھا کہ اس میں مجھے عمرہ ادا کرنے اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ وہاں وہی جاتا ہے جس کا بلاوا آتا ہے، بالکل سچ ہے۔ یوں تو ہر مسلمان کی طرح فریضہ حج وعمرہ کی ادائیگی اور مقامات مقدسہ کی زیارت کرنا میری بھی دیرینہ تمنا تھی اور ہے، لیکن یوں اچانک بلا ارادہ اور کسی پروگرام اور تیاری کے بغیر عمرہ ادا کرنے حجاز مقدس کے سفر پر روانہ ہونا پڑے گا، میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
گرمیوں کے دن تھے، دوپہر کا کھانے کھائے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ پشاور سے بھائی جان کا فون آگیا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد انھوں نے پوچھا میرا پاسپورٹ تو بنا ہوا ہے نا؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا وہ انھیں فوراً اپنے اصل قومی شناختی کارڈ کے ساتھ کوریئر سروس سے بھجوادوں۔ نہ انھوں نے کچھ بتایا کہ کس لیے اور نہ میں نے پوچھا، دونوں چیزیں انھیں بھجوادیں۔ چند روز بعد پھر ان کا فون آیا کہ ویزے مل گئے ہیں اور ہم تینوں بھائی ایک ساتھ عمرہ کرنے جارہے ہیں۔ میں نے اوپر جس بلاوے کا ذکر کیا تھا وہ یوں آتا ہے۔ چند ہی روز بعد ہم کراچی سے احرام باندھ کر بذریعہ سعودی ایئر لائن جدہ روانہ ہوئے۔
رمضان المبارک کا با برکت مہینہ تھا، جس کا آخری نصف مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں گزارنے کی سعادت ہمارے حصے میں آئی تھی۔ وہ حدیث پاک آپ نے بھی یقیناً سنی اور پڑھی ہوگی کہ جس نے رمضان المبارک میں عمرہ کیا اس نے گویا میرے ساتھ حج کیا۔ اس وقت میری کیفیت صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے الفاظ میں کچھ اس قسم کی تھی۔
وہ مجھ سے ہوئے ہمکلام اللہ اللہ
کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ
خود پہ یہی کیفیت طاری کیے ہم کراچی سے جدہ اور پھر جدہ سے بذریعہ بس مکہ معظمہ پہنچے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں کیونکہ اپنی پوری زندگی میں مجھے ایسی کوئی ایک بھی نیکی سجھائی نہیں دیتی جس کے عوض اس اعزاز و اکرام کا مستحق ٹھہرتا۔ بس میں نے بیٹھے بیٹھے ہی کعبہ شریف کے دیدار کا شرف حاصل کیا۔ سنا تھا کعبہ پر پہلی نظر پڑتے وقت پلکیں جھپکائے بغیر جو بھی دعا مانگی جائے، قبول ہوتی ہے۔
میری آنکھیں جھپکی تھیں یا نہیں یہ تو پتہ نہیں، لیکن اس سے بڑی اور کون سی دعا قبول ہونی تھی۔ سامان ہوٹل میں چھوڑ کر الٹے پاؤں حرم شریف پہنچے کہ افطار اور نماز مغرب کا وقت قریب تھا۔ نماز سے فارغ ہوکر پھر ہوٹل آئے، تھوڑی دیر سستا کر اور کھانا کھا کر واپس مسجد حرام آکر نماز عشاء اور تراویح ادا کی۔ تھکے ہوئے تھے، اس لیے جلدی ہوٹل آکر سوگئے۔ صبح نماز فجر سے فارغ ہوکر عمرہ کیا، طواف کعبہ اور سعی کے بعد بال کٹوائے اور اﷲ تعالی کا شکر ادا کیا جس نے اس کی توفیق بخشی۔
اگرچہ ہمارا ہوٹل حرم شریف کے بہت ہی قریب تھا لیکن ہمارا زیادہ وقت ہوٹل کے بجائے حرم شریف میں گزرتا تھا۔ آنے جانے کے لیے باب عبدالعزیز استعمال کرتے تھے کہ وہاں سے داخل ہوتے ہی نظر کعبہ شریف پر پڑتی تھی۔ صحن میں جانے سے پہلے مسجد میں بھی کوشش کرکے ایسی جگہ بیٹھتے کہ خانہ خدا نظروں کے عین سامنے ہوتا۔ سچ کہوں تو خانہ کعبہ کے جاہ و جلال اور عظمت، نیز مسجد حرام کی شان و شوکت میں کچھ ایسی کشش تھی کہ باہر جانے کو جی ہی نہیں چاہتا تھا۔
مکہ معظمہ میں قیام کے دوران مسجد حرام کی تمام منزلیں بشمول تہہ خانہ اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھیں، صفا و مروہ پہاڑوں کی علامات، مقام ابراہیمؑ، زم زم کے کنویں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش، جو اب کتب خانہ ہے، شہدائے بدر و احد کی ابدی آرام گاہوں اور خلفائے راشدین کی مساجد کی زیارت بھی نصیب ہوئی۔ نماز تراویح اکثر حرم شریف کی چھت پر پہلی صف میں ادا کرتے تھے، حطیم میں غلاف کعبہ سے لپٹ کر دعائیں مانگنے کا اپنا ہی لطف ہے، وہاں نوافل ادا کرنے کے بھی بارہا مواقع ملے۔
بھائی جان کہتے تھے دوران طواف لوگوں کی آنکھوں میں جھانکا کرو، کیا پتہ کسی اللہ والے سے نظریں ملیں اور بیڑے پار ہوجائیں۔ ایک بار فرمایا اگر کسی کو حطیم کے اندر تنہا دیکھو تو جان لو وہ اللہ کا کوئی مقرب بندہ ہے۔ اللہ کے گھر اور اس گھر والے شہر مقدس میں ایک ہفتہ مہمان رہ کر حتی المقدور رحمتیں اور برکتیں لوٹنے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔
خوش قسمتی سے وہاں بھی ہمارا قیام جس ہوٹل میں تھا وہ حرم پاک کے قریب ہی تھا اور ہم پانچوں وقت نماز کے لیے باآسانی مسجد نبویؐ پہنچ جاتے تھے۔ ہر نماز سے پہلے یا بعد میں روضہ رسولؐ پر حاضری کی سعادت بھی حاصل کرتے، بارہا ریاض الجنہ میں حضورؐ کے روضہ اقدس کی کھڑکی سے جڑ کر نماز ادا کرنے، ان کے مصلے کی جگہ نقش پا پر سجدہ ریز ہونے، باری باری ریاض الجنہ کے تمام ستونوں کے پاس، نیز صفہ کے چبوترے پر نوافل ادا کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی، جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔
روضہ اطہر پر حاضری کے وقت کئی بار حضورؐ کی قبر مبارک کی زیارت کرنے کا شرف بھی حاصل کیا اور ہر دفعہ ایسا کرتے وقت آپؐ کا یہ فرمان مبارک ذہن میں رہا کہ جس نے میری قبر کی زیارت کی، قیامت کے دن اس کی شفاعت میرے ذمے ہے۔ روضہ اقدس پر حاضری کے بعد اکثر باب جبرائیلؑ کے راستے جنت البقیع جاتے، حضورؐ کی ازواج مطہرات، آل پاک اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مدفون امتیوں کی خوش قسمتی پر رشک کرتے اور اپنے لیے وہاں کی مٹی نصیب ہونے کی تمنا دل میں لیے واپس لوٹتے۔
مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اللہ کے فضل و کرم سے ہمیں مسجد قبا میں جی بھر کے نوافل ادا کرنے کا بھی موقع ملا اور جیسا کہ آپ سب جانتے ہی ہیں، اسلام کی اس پہلی مسجد کی، جس کی بنیاد خود آنحضرتؐ نے رکھی تھی، فضیلت یہ ہے کہ اس میں دو رکعت نماز ادا کرنے کا ثواب عمرہ ادا کرنے کے ثواب کے برابر ہے، جب کہ بیت اللہ شریف اور مسجد نبویؐ میں ادا کی گئی ایک نماز بالترتیب ایک لاکھ اور پچاس ہزار نمازوں کے مساوی ہے۔ واپس لوٹنے سے قبل ہمیں لیلۃ القدر بیت اﷲ شریف میں گزارنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔
میں نے حجاز مقدس میں قیام کے دوران مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے لوگوں میں ایک واضح فرق محسوس کیا کہ مکہ معظمہ کے لوگ جتنے سخت مزاج اور فاصلہ رکھ کر ملنے والے ہیں، مدینہ منورہ کے باسی اتنے ہی نرم دل اور عاجزی و انکساری کے پیکر ہیں۔ نہ صرف دونوں شہروں کی شان نرالی ہے، پر ان کے ذکر میں بھی انوکھا اور ناقابل بیان مزہ ہے۔ وہ دن یاد آتے ہیں تو بے اختیار منہ سے نکلتا ہے۔
حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں
1998ء اس لحاظ سے میری زندگی کا بہت مبارک اور یادگار سال تھا کہ اس میں مجھے عمرہ ادا کرنے اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ وہاں وہی جاتا ہے جس کا بلاوا آتا ہے، بالکل سچ ہے۔ یوں تو ہر مسلمان کی طرح فریضہ حج وعمرہ کی ادائیگی اور مقامات مقدسہ کی زیارت کرنا میری بھی دیرینہ تمنا تھی اور ہے، لیکن یوں اچانک بلا ارادہ اور کسی پروگرام اور تیاری کے بغیر عمرہ ادا کرنے حجاز مقدس کے سفر پر روانہ ہونا پڑے گا، میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
گرمیوں کے دن تھے، دوپہر کا کھانے کھائے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ پشاور سے بھائی جان کا فون آگیا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد انھوں نے پوچھا میرا پاسپورٹ تو بنا ہوا ہے نا؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا وہ انھیں فوراً اپنے اصل قومی شناختی کارڈ کے ساتھ کوریئر سروس سے بھجوادوں۔ نہ انھوں نے کچھ بتایا کہ کس لیے اور نہ میں نے پوچھا، دونوں چیزیں انھیں بھجوادیں۔ چند روز بعد پھر ان کا فون آیا کہ ویزے مل گئے ہیں اور ہم تینوں بھائی ایک ساتھ عمرہ کرنے جارہے ہیں۔ میں نے اوپر جس بلاوے کا ذکر کیا تھا وہ یوں آتا ہے۔ چند ہی روز بعد ہم کراچی سے احرام باندھ کر بذریعہ سعودی ایئر لائن جدہ روانہ ہوئے۔
رمضان المبارک کا با برکت مہینہ تھا، جس کا آخری نصف مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں گزارنے کی سعادت ہمارے حصے میں آئی تھی۔ وہ حدیث پاک آپ نے بھی یقیناً سنی اور پڑھی ہوگی کہ جس نے رمضان المبارک میں عمرہ کیا اس نے گویا میرے ساتھ حج کیا۔ اس وقت میری کیفیت صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے الفاظ میں کچھ اس قسم کی تھی۔
وہ مجھ سے ہوئے ہمکلام اللہ اللہ
کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ
خود پہ یہی کیفیت طاری کیے ہم کراچی سے جدہ اور پھر جدہ سے بذریعہ بس مکہ معظمہ پہنچے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں کیونکہ اپنی پوری زندگی میں مجھے ایسی کوئی ایک بھی نیکی سجھائی نہیں دیتی جس کے عوض اس اعزاز و اکرام کا مستحق ٹھہرتا۔ بس میں نے بیٹھے بیٹھے ہی کعبہ شریف کے دیدار کا شرف حاصل کیا۔ سنا تھا کعبہ پر پہلی نظر پڑتے وقت پلکیں جھپکائے بغیر جو بھی دعا مانگی جائے، قبول ہوتی ہے۔
میری آنکھیں جھپکی تھیں یا نہیں یہ تو پتہ نہیں، لیکن اس سے بڑی اور کون سی دعا قبول ہونی تھی۔ سامان ہوٹل میں چھوڑ کر الٹے پاؤں حرم شریف پہنچے کہ افطار اور نماز مغرب کا وقت قریب تھا۔ نماز سے فارغ ہوکر پھر ہوٹل آئے، تھوڑی دیر سستا کر اور کھانا کھا کر واپس مسجد حرام آکر نماز عشاء اور تراویح ادا کی۔ تھکے ہوئے تھے، اس لیے جلدی ہوٹل آکر سوگئے۔ صبح نماز فجر سے فارغ ہوکر عمرہ کیا، طواف کعبہ اور سعی کے بعد بال کٹوائے اور اﷲ تعالی کا شکر ادا کیا جس نے اس کی توفیق بخشی۔
اگرچہ ہمارا ہوٹل حرم شریف کے بہت ہی قریب تھا لیکن ہمارا زیادہ وقت ہوٹل کے بجائے حرم شریف میں گزرتا تھا۔ آنے جانے کے لیے باب عبدالعزیز استعمال کرتے تھے کہ وہاں سے داخل ہوتے ہی نظر کعبہ شریف پر پڑتی تھی۔ صحن میں جانے سے پہلے مسجد میں بھی کوشش کرکے ایسی جگہ بیٹھتے کہ خانہ خدا نظروں کے عین سامنے ہوتا۔ سچ کہوں تو خانہ کعبہ کے جاہ و جلال اور عظمت، نیز مسجد حرام کی شان و شوکت میں کچھ ایسی کشش تھی کہ باہر جانے کو جی ہی نہیں چاہتا تھا۔
مکہ معظمہ میں قیام کے دوران مسجد حرام کی تمام منزلیں بشمول تہہ خانہ اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھیں، صفا و مروہ پہاڑوں کی علامات، مقام ابراہیمؑ، زم زم کے کنویں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش، جو اب کتب خانہ ہے، شہدائے بدر و احد کی ابدی آرام گاہوں اور خلفائے راشدین کی مساجد کی زیارت بھی نصیب ہوئی۔ نماز تراویح اکثر حرم شریف کی چھت پر پہلی صف میں ادا کرتے تھے، حطیم میں غلاف کعبہ سے لپٹ کر دعائیں مانگنے کا اپنا ہی لطف ہے، وہاں نوافل ادا کرنے کے بھی بارہا مواقع ملے۔
بھائی جان کہتے تھے دوران طواف لوگوں کی آنکھوں میں جھانکا کرو، کیا پتہ کسی اللہ والے سے نظریں ملیں اور بیڑے پار ہوجائیں۔ ایک بار فرمایا اگر کسی کو حطیم کے اندر تنہا دیکھو تو جان لو وہ اللہ کا کوئی مقرب بندہ ہے۔ اللہ کے گھر اور اس گھر والے شہر مقدس میں ایک ہفتہ مہمان رہ کر حتی المقدور رحمتیں اور برکتیں لوٹنے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔
خوش قسمتی سے وہاں بھی ہمارا قیام جس ہوٹل میں تھا وہ حرم پاک کے قریب ہی تھا اور ہم پانچوں وقت نماز کے لیے باآسانی مسجد نبویؐ پہنچ جاتے تھے۔ ہر نماز سے پہلے یا بعد میں روضہ رسولؐ پر حاضری کی سعادت بھی حاصل کرتے، بارہا ریاض الجنہ میں حضورؐ کے روضہ اقدس کی کھڑکی سے جڑ کر نماز ادا کرنے، ان کے مصلے کی جگہ نقش پا پر سجدہ ریز ہونے، باری باری ریاض الجنہ کے تمام ستونوں کے پاس، نیز صفہ کے چبوترے پر نوافل ادا کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی، جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔
روضہ اطہر پر حاضری کے وقت کئی بار حضورؐ کی قبر مبارک کی زیارت کرنے کا شرف بھی حاصل کیا اور ہر دفعہ ایسا کرتے وقت آپؐ کا یہ فرمان مبارک ذہن میں رہا کہ جس نے میری قبر کی زیارت کی، قیامت کے دن اس کی شفاعت میرے ذمے ہے۔ روضہ اقدس پر حاضری کے بعد اکثر باب جبرائیلؑ کے راستے جنت البقیع جاتے، حضورؐ کی ازواج مطہرات، آل پاک اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مدفون امتیوں کی خوش قسمتی پر رشک کرتے اور اپنے لیے وہاں کی مٹی نصیب ہونے کی تمنا دل میں لیے واپس لوٹتے۔
مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اللہ کے فضل و کرم سے ہمیں مسجد قبا میں جی بھر کے نوافل ادا کرنے کا بھی موقع ملا اور جیسا کہ آپ سب جانتے ہی ہیں، اسلام کی اس پہلی مسجد کی، جس کی بنیاد خود آنحضرتؐ نے رکھی تھی، فضیلت یہ ہے کہ اس میں دو رکعت نماز ادا کرنے کا ثواب عمرہ ادا کرنے کے ثواب کے برابر ہے، جب کہ بیت اللہ شریف اور مسجد نبویؐ میں ادا کی گئی ایک نماز بالترتیب ایک لاکھ اور پچاس ہزار نمازوں کے مساوی ہے۔ واپس لوٹنے سے قبل ہمیں لیلۃ القدر بیت اﷲ شریف میں گزارنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔
میں نے حجاز مقدس میں قیام کے دوران مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے لوگوں میں ایک واضح فرق محسوس کیا کہ مکہ معظمہ کے لوگ جتنے سخت مزاج اور فاصلہ رکھ کر ملنے والے ہیں، مدینہ منورہ کے باسی اتنے ہی نرم دل اور عاجزی و انکساری کے پیکر ہیں۔ نہ صرف دونوں شہروں کی شان نرالی ہے، پر ان کے ذکر میں بھی انوکھا اور ناقابل بیان مزہ ہے۔ وہ دن یاد آتے ہیں تو بے اختیار منہ سے نکلتا ہے۔
حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں