افغان طالبان پر عائد عالمی پابندیاں ختم کرائیں گے روس چین اور پاکستان میں اتفاق

تینوں ممالک کے نمائندوں نے افغانستان میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

روس میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والے سہ فریقی ورکنگ گروپ کا دائرکار مذید بڑھایا جائے گا۔ فوٹو:فائل

سلامتی کونسل کے رکن ممالک کی حیثیت سے روس اور چین نے افغان طالبان کو اقوام متحدہ کی پابندیوں کی فہرست سے نکلوانے کیلیے کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ افغان حکومت اور شورش پسندگروہوں کے مابین پرامن مذاکرات شروع کرائے جاسکیں۔

یہ اعلان روس، پاکستان اور چین کے سہ ملکی اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کیا گیا ہے۔افغانستان کی صورتحال پر ہونے والا یہ سہ ملکی اجلاس منگل کو ماسکو میں ہوا تھا۔ دلچسپ امریہ ہے کہ افغانستان ان مذاکرات کا حصہ نہیں تھا جس کی وجہ سے کابل انتظامیہ کو اس پر تشویش بھی تھی۔

مشترکہ اعلامیے میں البتہ یہ کہا گیا ہے کہ تینوں ممالک نے مشاورتی عمل کو توسیع دینے کی جانب بڑھنے پر اتفاق کا اظہار کیا ہے اور یہ کہ (مشاورتی عمل میں) افغانستان کی شرکت کو خوش آمدید کہاجائیگا۔ لیکن ماسکو اجلاس کاسب سے اہم ترین نکتہ روسی اور چین کا اقوام متحدہ کی پابندیوں کی فہرست میں شامل افغان شخصیات کے ناموں کے حوالے سے 'لچکدار رویہ' اپنانے کا اعلان ہے تاکہ یہ شخصیات کابل حکومت اور طالبان کے مابین پرامن مذاکرات کی کوششوں میں کر دار ادا کر سکیں۔

مشترکہ اعلامیے میں مزید لکھا ہے کہ اجلاس کے شرکا نے افغان قیادت میں اورافغان ملکیت کے ساتھ افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کی مزید معاونت کیلیے ایسی کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا جو مسلح اپوزیشن کی پرامن زندگی میں پھر سے شمولیت کے معروف اصولوں کے مطابق ہو۔ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ماسکو اور بیجنگ کی جانب سے افغان طالبان کمانڈروں کے نام اقوام متحدہ کی پابندیوں کی فہرست سے نکلوانے کی کوشش پر افغان حکومت اور امریکا اس پرکیسے ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔


یہ پیشرفت روس اور چین کی جانب سے اس افغان امن عمل میں مزید فعال کردارادا کرنے کیلیے اپنی طاقت کی نمائش کا اشارہ ہے جو کابل اور اسلام آباد کے تعلقات میں حالیہ دھچکوں کی وجہ سے آگے بڑھ کے نہیں دے رہا۔غنی انتظامیہ پاکستان پر افغان طالبان کی قیادت کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام لگاتی ہے۔اس نے پاکستان سے یہ بھی کہا کہ وہ طاقت کا استعمال کرے کیونکہ طالبان نے مذاکراتی عمل میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔

پاکستان نے البتہ واضح کر رکھا ہے کہ وہ طالبان کو اپنی سرزمین پر پناہیں فراہم نہیں کر رہا اور اس کا اصرار ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کے حصول کا واحد راستہ امن عمل میں سب کی شمولیت سے ہی نکلتا ہے۔مبصرین کو یقین ہے کہ سہ ملکی اجلاس کے نتائج پاکستان کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے کیونکہ دو بڑی طاقتوں رو س اور چین نے افغان امن عمل کی حمایت کرکے پاکستان کے موقف کی توثیق کر دی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستان روس اور چین کے مابین تعاون بڑھ رہا ہے جو کہ سردجنگ کے دور سے مخالف کیمپوں میں چلے آرہے ہیں اور مخالف کیمپوں میں ہونے کی بڑی وجہ بھی افغان تنازع ہے۔

ماسکو میں ہونے والے سہ ملکی اجلاس کا مطلب ہے کہ مدتوں سے حل طلب افغانستان تنازع سے نمٹنے کیلیے پاکستان ، روس اور چین کی آرا میں اب اجماع پیدا ہوگیا ہے۔یادرہے کہ افغانستان میں داعش قدم جمانے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ماسکو میں ہونے والے سہ ملکی مذاکرات میں الفاظ کو چبائے بغیر دوٹوک انداز میں ''افغانستان میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال'' کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔اجلاس کے شرکا نے بالخصوص افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

روس میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والے سہ فریقی ورکنگ گروپ کا دائرکار مذید بڑھایا جائے گا۔ اس گروپ میں پہلے مرحلے میں افغانستان کی شمولیت کے بعد امریکا کو شامل کیا جاسکتا ہے ۔وفاق کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ سہ فریقی ورکنگ گروپ میں افغان حکومت کو شامل کرنے کے لیے پاکستان ،چین اور روس افغان صدر اشرف غنی سے رابطہ کریں گے ۔اس رابطے میں اشرف غنی سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی بحالی اورسیز فائر کے قیام کیلیے ابتدائی بات چیت کی جائے گی۔
Load Next Story