دہشتگردوں کو سزائے موت کی توثیق
جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے سابق چیف آف جنرل راحیل شریف کے نقش قدم پرچلتے ہوئے قانون کی بالادستی قائم رکھی
QUETTA:
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید 8خطرناک دہشتگردوں کی سزائے موت جب کہ 3 دہشت گردوں کی قید کی سزا کی توثیق کردی ہے، یہ دہشتگرد سانحہ صفورہ، سبین محمود کے قتل، چینی انجینئرز اور سکیورٹی فورسز پر حملوں سمیت دہشتگردی کے دیگر سنگین واقعات میں ملوث ہیں۔ ان دہشتگردوں کو ٹرائل کے بعد فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائیں سنائی گئی تھیں جہاں انھوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا تھا۔
آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور کی ٹویٹ میں دہشتگردوں کی سزائے موت کی توثیق کی گئی ۔ بلاشبہ دہشتگردوں کی ریاست مخالف وارداتوں سے انسانیت بھی شرما گئی تھی، ان عناصر نے ملکی آئین سے انحراف کرتے ہوئے عوام کو نشانہ بنایا جس کے سدباب کیلیے عسکری اور سیاسی قیادت نے ان کے خلاف فوجی عدالتوںمیں مقدمات چلا کر انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کے عزم کی پاسداری کی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قانون کی بالادستی قائم رکھی اور دہشتگردوں کو سزائے موت دینے کے فیصلہ پر عملدرآمد جاری رکھا، واضح رہے کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد آئین میں ترامیم کر کے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں تھیں جن میں 300 مقدمات بھجوائے جا چکے ہیں اور ان میں سے 120 اب بھی زیر سماعت ہیں۔ علاوہ ازیں دہشتگردی کے مزید 40 مقدمات کارروائی کیلیے فوجی عدالتوں کو بجھوا دیے گئے ہیں۔ مقدمات پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتوں نے وزارت داخلہ کو ارسال کیے تھے۔
ادھر وزارت داخلہ نے انسداد دہشتگردی ایکٹ اور تحفظ پاکستان ایکٹ کو یکجا کرکے نئے قانون کا مسودہ تیار کر لیا جو وزارت قانون کی رائے اور پھر وزیر داخلہ کی حتمی منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائیگا جب کہ مجوزہ قانون میں دہشتگردی کے مقدمات کیلیے فوجی عدالتیں مستقل ہوجائیں گی۔ موجودہ قانون کے تحت فوجی عدالتوں کی مدت 7 جنوری کو ختم ہوگی، کیونکہ اگر نیا قانون نہ بنا تو مقدمات انسداد دہشت گردی عدالتوں میں منتقل ہوجائیں گے۔
افسوس کا مقام ہے کہ حالیہ دنوں میں بعض این جی اوز نے فوجی عدالتوں کے قیام اور سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے جب کہ دہشتگردی کو کوئی جمہوری ریاست کچلے بغیر نہیں رہ سکتی کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید 8خطرناک دہشتگردوں کی سزائے موت جب کہ 3 دہشت گردوں کی قید کی سزا کی توثیق کردی ہے، یہ دہشتگرد سانحہ صفورہ، سبین محمود کے قتل، چینی انجینئرز اور سکیورٹی فورسز پر حملوں سمیت دہشتگردی کے دیگر سنگین واقعات میں ملوث ہیں۔ ان دہشتگردوں کو ٹرائل کے بعد فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائیں سنائی گئی تھیں جہاں انھوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا تھا۔
آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور کی ٹویٹ میں دہشتگردوں کی سزائے موت کی توثیق کی گئی ۔ بلاشبہ دہشتگردوں کی ریاست مخالف وارداتوں سے انسانیت بھی شرما گئی تھی، ان عناصر نے ملکی آئین سے انحراف کرتے ہوئے عوام کو نشانہ بنایا جس کے سدباب کیلیے عسکری اور سیاسی قیادت نے ان کے خلاف فوجی عدالتوںمیں مقدمات چلا کر انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کے عزم کی پاسداری کی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قانون کی بالادستی قائم رکھی اور دہشتگردوں کو سزائے موت دینے کے فیصلہ پر عملدرآمد جاری رکھا، واضح رہے کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد آئین میں ترامیم کر کے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں تھیں جن میں 300 مقدمات بھجوائے جا چکے ہیں اور ان میں سے 120 اب بھی زیر سماعت ہیں۔ علاوہ ازیں دہشتگردی کے مزید 40 مقدمات کارروائی کیلیے فوجی عدالتوں کو بجھوا دیے گئے ہیں۔ مقدمات پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتوں نے وزارت داخلہ کو ارسال کیے تھے۔
ادھر وزارت داخلہ نے انسداد دہشتگردی ایکٹ اور تحفظ پاکستان ایکٹ کو یکجا کرکے نئے قانون کا مسودہ تیار کر لیا جو وزارت قانون کی رائے اور پھر وزیر داخلہ کی حتمی منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائیگا جب کہ مجوزہ قانون میں دہشتگردی کے مقدمات کیلیے فوجی عدالتیں مستقل ہوجائیں گی۔ موجودہ قانون کے تحت فوجی عدالتوں کی مدت 7 جنوری کو ختم ہوگی، کیونکہ اگر نیا قانون نہ بنا تو مقدمات انسداد دہشت گردی عدالتوں میں منتقل ہوجائیں گے۔
افسوس کا مقام ہے کہ حالیہ دنوں میں بعض این جی اوز نے فوجی عدالتوں کے قیام اور سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے جب کہ دہشتگردی کو کوئی جمہوری ریاست کچلے بغیر نہیں رہ سکتی کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔