آرٹس کونسل کا سفر
عطیہ فیضی وہ خاتون تھیں جن کے ذوق علم و ادب کی پذیرائی علامہ اقبال نے بھی کی
ISLAMABAD:
پاکستان ابھی ایک جہان تازہ کے مانند تھا۔ لوگ ہند سے آکر پاکستان کے ساحلی شہر کراچی جو چند لاکھ کی آبادی پر مشتمل تھا، یہاں آباد ہو رہے تھے۔ کیونکہ اس شہر کو قائد نے دارالسلطنت کا درجہ دے دیا تھا اور ساتھ ہی اس ملک کی قومی زبان کو اردو اور صرف اردو کہہ کر مژدہ سنایا تھا۔ وہاں جہاں دیگر علوم و فنون کے لوگ یہاں آرہے تھے۔ وہاں اردوسے چاہت کے پرستار بھی آرہے تھے۔ انھی میں ایک خاتون عطیہ فیضی رحمین بنت حسن علی فیضی بھی بمبئی سے آکر آباد ہوئیں اور اس جہان تازہ میں آتے ہی انھوں نے ذاتی حیثیت سے ایوان رفعت اور آرٹس کونسل کی بنیاد رکھی، جس کو 1950کی دہائی میں دانشوروں نے فیض احمد فیض نے بھی پران چڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
جہاں تک عطیہ فیضی کا تعلق ہے، ان کی اس قربانی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس خالی زمین پر جہاں لوگ انڈسٹری لگا رہے تھے تاکہ وہ سرمایہ کاری کرکے اس کو دگنا چو گنا کریں۔ اس خاتون دانشور نے ایک ایسا پودا لگا اور اس تجارتی شہر میں علوم و فنون اور حس لطافت کی تسکین کا علاج سوچا۔ عطیہ فیضی وہ خاتون تھیں جن کے ذوق علم و ادب کی پذیرائی علامہ اقبال نے بھی کی، اور وہ اپنی زندگی کے دور میں عطیہ فیضی سے ملاقات کے لیے لندن گئے تھے۔
ظاہر ہے ایسی خوش بخت خاتون یہ زمین کراچی کے لوگوں کو تحفے میں دے کر چلی گئیں۔ ان کی یہ جگہ کمشنر صاحبان اور صاحبان علم و فن چلاتے رہے۔ 80 کی دہائی میں ریڈیو پاکستان کراچی کو طلبا کے ذوق کو نکھارنے والی شخصیت یاور مہدی نے ہفتہ طلبا کے نام سے ایک انوکھا اور دلچسپ پروگرام ہفتہ طلبا شروع کیا، جس نے مقررین اور آرٹس کونسل سے وابستہ ہونہار فنکار پیدا کیے۔
یہ 70 کی دہائی تھی جب ریڈیو پاکستان ممتاز ادارہ بن گیا تھا، اس ادارے کو خیرباد کہنے کے بعد یاور مہدی نے آرٹس کونسل کو وقت دیا اور عوامی انداز سے عنان حکومت سنبھالی، یعنی جمہوری دستور سے آرٹس کونسل کو آراستہ کیا اور تقریباً 17 برس اس کی آبیاری کی۔ پھر انھی کا لایا ہوا ایک انتظامی ڈھانچہ عتیق احمد کی سربراہی میں چلایا گیا، اس کے بعد ایک نئی کابینہ الیکشن کے ذریعے وجود میں آئی اور گزشتہ دس برسوں سے اس ادارے کے فروغ میں مشغول ہے۔ اس نئی پود کے رہنما محمد احمد شاہ ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ آرٹس کونسل کے انتخابات میں صدر کے بجائے نائب صدر ہوا کرتے تھے۔ محترمہ قدسیہ اکبر تقریباً دس برس تک اس ادارے کی قائد رہیں اور خوش بخت شجاعت بھی نائب صدر رہ چکی ہیں۔ ہر ایک نے اپنا وقت اور صلاحیت سے اس ادارے کو نوازا، مگر جب ادارہ ایک مقام پر آکر ٹھہر گیا اور معاشی بدحالی نے ادارے کو آگے بڑھنے سے روک دیا تو محمد احمد شاہ جو نئی نسل کے رہنما کے طور پر ابھرے، انھوں نے آرٹس کونسل کی رکنیت میں انقلاب برپا کردیا، خصوصاً ان کے دو ساتھی جن میں سیف الرحمن گرامی اور اعجاز احمد فاروقی جو آرٹس کونسل کے صدور بھی رہ چکے ہیں، انھوں نے احمد شاہ کے اس خیال کو تقویت بخشی کہ ایک زمانہ تھا جب راجہ، مہاراجہ، بادشاہ حضرات فن کی سرپرستی کیا کرتے تھے تو اب جو دور ہے ٹریڈ اور انڈسٹری کا، اس لیے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی سرپرستی میں فن کو آگے بڑھانا بہتر ہوگا۔
اس راہ پر چلنے سے آرٹس کونسل کو مالی طور پر فائدہ ہوا اور پھر مقامی حکومت سے آرٹس کونسل کے روابط بڑھائے گئے اور معاشی امداد میں اضافہ ہوا۔ خصوصاً گورنر سندھ نے آرٹس کونسل کی سرپرستی شروع کی اور چیمبر آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری نے بھی اس ادارے کی اعانت کی۔ پروگراموں میں اضافہ ہوا اور قافلہ آگے بڑھا۔ گزشتہ دس برسوں میں تسلسل فن و ادب کا میدان تمدن اور جمال کا مظہر بن گیا۔
آرٹس کونسل کی مجلس انتظامیہ نے اور عہدے داروں نے ایسے مواقع پر کامیاب پروگرام کیے جن دنوں گھر سے باہر نکلنا بھی مشکل تھا۔ یہ سب ان دنوں ہوا جب کراچی کے حالات نہایت مخدوش تھے، اراکین آرٹس کونسل اور عہدے داروں نے کراچی میں دہشت گردی کو شکست دی اور پروگرام رواں دواں ہوتے گئے، خصوصاً اردو کانفرنس اپنی نوعیت کا انوکھا اور اچھوتا پروگرام تھا۔ گو گزشتہ کئی برسوں سے پروگراموں میں یکسانیت سی پیدا ہوگئی ہے، مگر اس میں شرکت کرنے والوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں آرٹس کونسل ادب اور فن کے فروغ کا ذریعہ بنتی جا رہی ہے، پوری دنیا سے اردو داں حضرات بشمول بھارت سے بھی کراچی آتے جاتے ہیں۔
ایک طرح سے آرٹس کونسل سفارت کاری کے فرائض بھی انجام دے رہی ہے، اور ان لوگوں کی کتب بھی شایع کر رہی ہے جو کسی مالی مشکلات کی بدولت یا حادثے کے نتیجے میں اپنا کلام نہیں چھاپ سکے۔ پھر اردو اور مقامی زبانوں کے ادیبوں میں رابطہ بھی آرٹس کونسل ادا کر رہی ہے۔ پاکستان کے اردو اور انگریزی اخباروں میں اس کے پروگراموں کو جائز مقام دیا جاتا ہے۔ اردو کانفرنس کے علاوہ گیت سنگیت، قوالی، نعت اور سیرت کانفرنس جیسے پروگرام بھی آرٹس کونسل منظم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یوتھ فیسٹیول بھی ہر سال کراتی ہے۔
جب سے آرٹس کونسل قائم ہے، اس کی کابینہ کا انتخاب الیکشن کے ذریعے ہر سال ہوتا رہا ہے۔ مگر 18 دسمبر کو جو الیکشن ہوا ہے وہ دو سال کے لیے تھا، جس کی اجازت قانونی اعتبار سے جنرل باڈی کے ذریعے لی گئی تھی۔ ان دس برسوں میں آرٹس کونسل پروگراموں کے اعتبار سے اور عمارت کے اعتبار سے مسلسل ترقی کر رہی ہے۔ البتہ آرٹس کونسل میں جو الیکشن ہوتے تھے ان میں حزب اختلاف میں اور ہر سال انتخاب جیتنے والوں میں زیادہ ووٹوں کا فرق نہیں ہوتا تھا مگر اس سال کے انتخابی نتائج نے صورت احوال کا کچھ الگ نقشہ پیش کیا۔
صدارتی امیدوار محمد احمد شاہ جو انتخاب جیت چکے ہیں اور شکست کھانے والے امیدوار نجم الدین شیخ میں دو گنا فرق تھا مگر ماضی میں ہارنے والے اور جیتنے والوں میں چند سو کا فرق ہوا کرتا تھا۔ اس سے ظاہر ہوا ہے کہ جو پینل گزشتہ 9 برسوں سے برتری حاصل کر رہا ہے وہ مزید مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے جب کہ حزب مخالف کے پاس نہ تو متبادل پروگرام ہے اور نہ دیرپا مشقت کرنے والی ٹیم۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخالف پینل میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ماضی میں جیت چکے ہیں، مثلاً نجم الدین شیخ اور تاجدار عادل۔
موجودہ صورتحال سے یہ محسوس ہوتا ہے چونکہ اب آرٹس کونسل کے انتخابات دو سال بعد ہوں گے، تو اس بات کی امید کم ہے کہ کوئی منظم پینل مخالفت میں کھڑا ہو، ہاں آرٹس کونسل میں اگر اب کوئی منظم پینل سامنے آیا تو محض الیکشن نہیں لڑے گا بلکہ کوئی متبادل اور زیادہ بہتر پروگرام پیش کرے گا، مگر اس کی امید کم ہے کیونکہ مسٹر یاور مہدی جو ایک سنجیدہ مخالفت کرسکتے تھے انھوں نے مجھ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ آرٹس کونسل کی موجودہ صورتحال کے مدنظر اب کسی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔
اگر یاور مہدی بھی اس میدان سے کنارہ کش ہوگئے تو کوئی چمتکار ہی اب حزب اختلاف کو احمد شاہ اعجاز فاروقی پینل پر سبقت لے جانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کیونکہ مخالف پینل کے پاس نہ کوئی بہتر پروگرام ہے اور نہ ہی ادب و فن سے منظم ٹیم۔ جب کہ احمد شاہ اعجاز فاروقی ایک منظم طریقہ کار سے آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کے قائد دن گیارہ سے رات گیارہ بجے تک آرٹس کونسل سے وابستہ ہیں اور ادب و فن کی آبیاری کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔
اگر یہ جذبہ یوں ہی گامزن رہا تو آرٹس کونسل نہ صرف اپنے ارد گرد کے ممالک کے ادبی اداروں سے بلکہ عالم گیر پیمانے پر سبقت لے جاچکے گی۔ البتہ ایک مسئلہ جو اہم تر ہے وہ اردو کانفرنس کا انعقاد ہے۔ گو انتخاب تو اب دو سال کے بعد ہوگا، کہیں ایسا نہ ہو کہ اردو کانفرنس جو سالانہ ہوا کرتی تھی وہ کہیں دو برس میں ایک بار ہوا کرے۔ ایسا البتہ آرٹس کونسل کے وقار کے منافی ہوگا کیونکہ اردو کانفرنس میں کئی برس سے مثنوی، قصیدہ، مرثیہ اور انشائیہ کے جام خالی ہیں۔ مگر امید ہے کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کے اس سفر میں نہ صرف یہ جام بھر جائیں گے بلکہ کچھ جام تازہ بھی ضرور آئیں گے۔
پاکستان ابھی ایک جہان تازہ کے مانند تھا۔ لوگ ہند سے آکر پاکستان کے ساحلی شہر کراچی جو چند لاکھ کی آبادی پر مشتمل تھا، یہاں آباد ہو رہے تھے۔ کیونکہ اس شہر کو قائد نے دارالسلطنت کا درجہ دے دیا تھا اور ساتھ ہی اس ملک کی قومی زبان کو اردو اور صرف اردو کہہ کر مژدہ سنایا تھا۔ وہاں جہاں دیگر علوم و فنون کے لوگ یہاں آرہے تھے۔ وہاں اردوسے چاہت کے پرستار بھی آرہے تھے۔ انھی میں ایک خاتون عطیہ فیضی رحمین بنت حسن علی فیضی بھی بمبئی سے آکر آباد ہوئیں اور اس جہان تازہ میں آتے ہی انھوں نے ذاتی حیثیت سے ایوان رفعت اور آرٹس کونسل کی بنیاد رکھی، جس کو 1950کی دہائی میں دانشوروں نے فیض احمد فیض نے بھی پران چڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
جہاں تک عطیہ فیضی کا تعلق ہے، ان کی اس قربانی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس خالی زمین پر جہاں لوگ انڈسٹری لگا رہے تھے تاکہ وہ سرمایہ کاری کرکے اس کو دگنا چو گنا کریں۔ اس خاتون دانشور نے ایک ایسا پودا لگا اور اس تجارتی شہر میں علوم و فنون اور حس لطافت کی تسکین کا علاج سوچا۔ عطیہ فیضی وہ خاتون تھیں جن کے ذوق علم و ادب کی پذیرائی علامہ اقبال نے بھی کی، اور وہ اپنی زندگی کے دور میں عطیہ فیضی سے ملاقات کے لیے لندن گئے تھے۔
ظاہر ہے ایسی خوش بخت خاتون یہ زمین کراچی کے لوگوں کو تحفے میں دے کر چلی گئیں۔ ان کی یہ جگہ کمشنر صاحبان اور صاحبان علم و فن چلاتے رہے۔ 80 کی دہائی میں ریڈیو پاکستان کراچی کو طلبا کے ذوق کو نکھارنے والی شخصیت یاور مہدی نے ہفتہ طلبا کے نام سے ایک انوکھا اور دلچسپ پروگرام ہفتہ طلبا شروع کیا، جس نے مقررین اور آرٹس کونسل سے وابستہ ہونہار فنکار پیدا کیے۔
یہ 70 کی دہائی تھی جب ریڈیو پاکستان ممتاز ادارہ بن گیا تھا، اس ادارے کو خیرباد کہنے کے بعد یاور مہدی نے آرٹس کونسل کو وقت دیا اور عوامی انداز سے عنان حکومت سنبھالی، یعنی جمہوری دستور سے آرٹس کونسل کو آراستہ کیا اور تقریباً 17 برس اس کی آبیاری کی۔ پھر انھی کا لایا ہوا ایک انتظامی ڈھانچہ عتیق احمد کی سربراہی میں چلایا گیا، اس کے بعد ایک نئی کابینہ الیکشن کے ذریعے وجود میں آئی اور گزشتہ دس برسوں سے اس ادارے کے فروغ میں مشغول ہے۔ اس نئی پود کے رہنما محمد احمد شاہ ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ آرٹس کونسل کے انتخابات میں صدر کے بجائے نائب صدر ہوا کرتے تھے۔ محترمہ قدسیہ اکبر تقریباً دس برس تک اس ادارے کی قائد رہیں اور خوش بخت شجاعت بھی نائب صدر رہ چکی ہیں۔ ہر ایک نے اپنا وقت اور صلاحیت سے اس ادارے کو نوازا، مگر جب ادارہ ایک مقام پر آکر ٹھہر گیا اور معاشی بدحالی نے ادارے کو آگے بڑھنے سے روک دیا تو محمد احمد شاہ جو نئی نسل کے رہنما کے طور پر ابھرے، انھوں نے آرٹس کونسل کی رکنیت میں انقلاب برپا کردیا، خصوصاً ان کے دو ساتھی جن میں سیف الرحمن گرامی اور اعجاز احمد فاروقی جو آرٹس کونسل کے صدور بھی رہ چکے ہیں، انھوں نے احمد شاہ کے اس خیال کو تقویت بخشی کہ ایک زمانہ تھا جب راجہ، مہاراجہ، بادشاہ حضرات فن کی سرپرستی کیا کرتے تھے تو اب جو دور ہے ٹریڈ اور انڈسٹری کا، اس لیے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی سرپرستی میں فن کو آگے بڑھانا بہتر ہوگا۔
اس راہ پر چلنے سے آرٹس کونسل کو مالی طور پر فائدہ ہوا اور پھر مقامی حکومت سے آرٹس کونسل کے روابط بڑھائے گئے اور معاشی امداد میں اضافہ ہوا۔ خصوصاً گورنر سندھ نے آرٹس کونسل کی سرپرستی شروع کی اور چیمبر آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری نے بھی اس ادارے کی اعانت کی۔ پروگراموں میں اضافہ ہوا اور قافلہ آگے بڑھا۔ گزشتہ دس برسوں میں تسلسل فن و ادب کا میدان تمدن اور جمال کا مظہر بن گیا۔
آرٹس کونسل کی مجلس انتظامیہ نے اور عہدے داروں نے ایسے مواقع پر کامیاب پروگرام کیے جن دنوں گھر سے باہر نکلنا بھی مشکل تھا۔ یہ سب ان دنوں ہوا جب کراچی کے حالات نہایت مخدوش تھے، اراکین آرٹس کونسل اور عہدے داروں نے کراچی میں دہشت گردی کو شکست دی اور پروگرام رواں دواں ہوتے گئے، خصوصاً اردو کانفرنس اپنی نوعیت کا انوکھا اور اچھوتا پروگرام تھا۔ گو گزشتہ کئی برسوں سے پروگراموں میں یکسانیت سی پیدا ہوگئی ہے، مگر اس میں شرکت کرنے والوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں آرٹس کونسل ادب اور فن کے فروغ کا ذریعہ بنتی جا رہی ہے، پوری دنیا سے اردو داں حضرات بشمول بھارت سے بھی کراچی آتے جاتے ہیں۔
ایک طرح سے آرٹس کونسل سفارت کاری کے فرائض بھی انجام دے رہی ہے، اور ان لوگوں کی کتب بھی شایع کر رہی ہے جو کسی مالی مشکلات کی بدولت یا حادثے کے نتیجے میں اپنا کلام نہیں چھاپ سکے۔ پھر اردو اور مقامی زبانوں کے ادیبوں میں رابطہ بھی آرٹس کونسل ادا کر رہی ہے۔ پاکستان کے اردو اور انگریزی اخباروں میں اس کے پروگراموں کو جائز مقام دیا جاتا ہے۔ اردو کانفرنس کے علاوہ گیت سنگیت، قوالی، نعت اور سیرت کانفرنس جیسے پروگرام بھی آرٹس کونسل منظم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یوتھ فیسٹیول بھی ہر سال کراتی ہے۔
جب سے آرٹس کونسل قائم ہے، اس کی کابینہ کا انتخاب الیکشن کے ذریعے ہر سال ہوتا رہا ہے۔ مگر 18 دسمبر کو جو الیکشن ہوا ہے وہ دو سال کے لیے تھا، جس کی اجازت قانونی اعتبار سے جنرل باڈی کے ذریعے لی گئی تھی۔ ان دس برسوں میں آرٹس کونسل پروگراموں کے اعتبار سے اور عمارت کے اعتبار سے مسلسل ترقی کر رہی ہے۔ البتہ آرٹس کونسل میں جو الیکشن ہوتے تھے ان میں حزب اختلاف میں اور ہر سال انتخاب جیتنے والوں میں زیادہ ووٹوں کا فرق نہیں ہوتا تھا مگر اس سال کے انتخابی نتائج نے صورت احوال کا کچھ الگ نقشہ پیش کیا۔
صدارتی امیدوار محمد احمد شاہ جو انتخاب جیت چکے ہیں اور شکست کھانے والے امیدوار نجم الدین شیخ میں دو گنا فرق تھا مگر ماضی میں ہارنے والے اور جیتنے والوں میں چند سو کا فرق ہوا کرتا تھا۔ اس سے ظاہر ہوا ہے کہ جو پینل گزشتہ 9 برسوں سے برتری حاصل کر رہا ہے وہ مزید مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے جب کہ حزب مخالف کے پاس نہ تو متبادل پروگرام ہے اور نہ دیرپا مشقت کرنے والی ٹیم۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخالف پینل میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ماضی میں جیت چکے ہیں، مثلاً نجم الدین شیخ اور تاجدار عادل۔
موجودہ صورتحال سے یہ محسوس ہوتا ہے چونکہ اب آرٹس کونسل کے انتخابات دو سال بعد ہوں گے، تو اس بات کی امید کم ہے کہ کوئی منظم پینل مخالفت میں کھڑا ہو، ہاں آرٹس کونسل میں اگر اب کوئی منظم پینل سامنے آیا تو محض الیکشن نہیں لڑے گا بلکہ کوئی متبادل اور زیادہ بہتر پروگرام پیش کرے گا، مگر اس کی امید کم ہے کیونکہ مسٹر یاور مہدی جو ایک سنجیدہ مخالفت کرسکتے تھے انھوں نے مجھ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ آرٹس کونسل کی موجودہ صورتحال کے مدنظر اب کسی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔
اگر یاور مہدی بھی اس میدان سے کنارہ کش ہوگئے تو کوئی چمتکار ہی اب حزب اختلاف کو احمد شاہ اعجاز فاروقی پینل پر سبقت لے جانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کیونکہ مخالف پینل کے پاس نہ کوئی بہتر پروگرام ہے اور نہ ہی ادب و فن سے منظم ٹیم۔ جب کہ احمد شاہ اعجاز فاروقی ایک منظم طریقہ کار سے آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کے قائد دن گیارہ سے رات گیارہ بجے تک آرٹس کونسل سے وابستہ ہیں اور ادب و فن کی آبیاری کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔
اگر یہ جذبہ یوں ہی گامزن رہا تو آرٹس کونسل نہ صرف اپنے ارد گرد کے ممالک کے ادبی اداروں سے بلکہ عالم گیر پیمانے پر سبقت لے جاچکے گی۔ البتہ ایک مسئلہ جو اہم تر ہے وہ اردو کانفرنس کا انعقاد ہے۔ گو انتخاب تو اب دو سال کے بعد ہوگا، کہیں ایسا نہ ہو کہ اردو کانفرنس جو سالانہ ہوا کرتی تھی وہ کہیں دو برس میں ایک بار ہوا کرے۔ ایسا البتہ آرٹس کونسل کے وقار کے منافی ہوگا کیونکہ اردو کانفرنس میں کئی برس سے مثنوی، قصیدہ، مرثیہ اور انشائیہ کے جام خالی ہیں۔ مگر امید ہے کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کے اس سفر میں نہ صرف یہ جام بھر جائیں گے بلکہ کچھ جام تازہ بھی ضرور آئیں گے۔