’بے گھر‘ سیّارہ

جس کی دریافت بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف تھی

جس کی دریافت بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف تھی۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR:
ماہرین فلکیات ہمارے نظام شمسی سے باہر سیکڑوں سیارے دریافت کرچکے ہیں۔ ان میں ہر طرح کے سیارے شامل ہیں۔

زیادہ تر سیارے گیسی ہیں اور ان کی جسامت ہمارے نظام شمسی کے ' دیو ' مشتری سے بھی زیادہ ہے۔ کچھ سیارے چٹانی ہیں۔ چٹانی سیاروں میں چند سیارے ایسے بھی پائے گئے جو لگ بھگ زمین جتنے بڑے تھے اور ان کی کئی طبعی خصوصیات زمین کے طبعی خواص سے مشابہ تھیں۔ اس بنیاد پر ماہرین فلکیات نے امید ظاہر کی کہ ان سیاروں میں سے کسی پر زندگی کا وجود ممکن ہوسکتا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی بھی سیارے پر حیات کی موجودگی کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

خلائی وسعتوں میں کروڑوں اربوں سال کی دوری پر موجود سیاروں کا کھوج لگانے کی کوششوں کے پس پردہ سائنس دانوں کا یہ خیال ہے کہ اس کائنات میں ہم اکیلے نہیں، بلکہ زندگی زمین کے علاوہ بھی کہیں نہ کہیں اپنا وجود ضرور رکھتی ہے۔ عشروں کی کوششوں کے باوجود بھی اس ضمن میں سائنس دانوں کو کوئی کام یابی حاصل نہیں ہوپائی لیکن وہ ثابت قدمی سے اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ پچھلے چند عشروں میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت اور جدید ترین آلات کی تیاری کے بعد انسان پر خلائے بسیط کے اسرار منکشف ہونے کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ وہ ایسے سیاروں کی کھوج میں ہے جن کی سرزمین پر حیات کی نمو کے لیے موزوں حالات پائے جاتے ہیں۔ وہ ابھی تک ایسا کوئی سیارہ تو تلاش نہیں کرسکا، البتہ اس دوران وہ کئی اہم دریافتیں کرنے میں ضرور کام یاب رہا۔

سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جس کا کوئی سورج نہیں ہے، یعنی وہ کسی ستارے کے گرد گردش نہیں کرتا۔ ماہرین فلکیات نے اس سے پہلے جتنے بھی سیارے دریافت کیے ہیں وہ کسی نہ کسی نظام شمسی کا حصہ ہیں اور اپنے سورج کے گرد گردش کرتے ہیں۔ فلکیات کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب سائنس دانوں کے علم میں کوئی ایسا سیارہ آیا ہے جو نہ تو کسی کہکشاں کا حصہ ہے اور نہ ہی کسی سولر سسٹم کا۔ یہ ' بے گھر' سیارہ بس خلاء میں مٹرگشت کرتا رہتا ہے۔

سائنس دانوں نے لگ بھگ ایک عشرے قبل ایسے سیاروں کی موجودگی کا امکان ظاہر کیا تھا، لیکن اس کی تصدیق اب ہوپائی ہے۔ ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ ' بے گھر' سیارے کی دریافت بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف تھی۔ ' بے گھر' سیارہ جس کے بارے میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اپنی پیدائش کے زمانے میں یہ کسی طرح ' راستہ بھٹک' گیا ہوگا، کسی ستارے کی تجاذبی قوت کے زیراثر نہیں ہے۔ زمین سے اس کا فاصلہ ایک سو نوری سال ہے۔




اپنے طرز کی اس پہلی دریافت کا سہرا یونی ورسٹی آف مونٹریال اور یورپین سدرن آبزرویٹری سے منسلک ماہرین فلکیات کے سر ہے۔ اس سیارے کی دریافت کینیڈا-فرانس- ہوائی ٹیلی اسکوپ ( سی ایف ایچ ٹی ) اور یورپین سدرن آبزرویٹری کی '' ویری لارج ٹیلی اسکوپ '' ( وی ایل ٹی) سے حاصل کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر عمل میں آئی۔

یونی ورسٹی آف مونٹریال سے وابستہ ماہر فلکیات Itienne Artigau کہتے ہیں کہ اگرچہ نظریاتی سائنس دانوں نے اس قسم کے سیاروں کی موجودگی کا امکان ظاہر کر رکھا تھا لیکن یہ اولین اور تاریخی موقع ہے جب کوئی' بے گھر ' سیارہ دریافت ہواہے۔ محققین کے مطابق اس سیارے کے اردگرد ایک وسیع علاقے میں کوئی روشن ستارہ موجود نہیں تھا اور اسی وجہ سے وہ سیارے کی فضا کا گہرائی سے مطالعہ کرنے میں کام یاب ہوئے۔ ان معلومات کی بنیاد پر سائنس داں ان سیاروں کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے جو ستاروں کے گرد گردش کرتے ہیں۔

یونی ورسٹی آف مونٹریال میں ڈاکٹریٹ کے طالب علم اور تحقیقی ٹیم کے رکن جو ناتھن گیگنی کہتے ہیں کہ پچھلے چند برسوں میں اس نوع کے کئی اجرام فلکی دریافت ہوئے لیکن ان کی عمر کے بارے میں سائنسی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ان کی درست نوعیت واضح نہ ہوسکی۔ ماہرین فلکیات یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ وہ ان اجرام فلکی کو سیاروں کے زمرے میں شامل کریں یا پھر انھیں Brown Dwarf قرار دیں۔ Brown Dwarf فلکیات کی اصطلاح میں ان ستاروں کو کہا جاتا ہے جن کے مرکز میں نیوکلیائی تعاملات کبھی شروع نہیں ہوپاتے۔

سائنس دانوں نے نو دریافت شدہ سیارے کو CFBDSIR 2149 کا نام دیا ہے۔ محققین نے اس سیارے کی عمر کا اندازہ پانچ سے بارہ کروڑ سال کے درمیان لگایا ہے۔ اس سیارے کی سطح پر درجۂ حرارت چار سو ڈگری سیلسیس ہے جب کہ اس کی کمیت مشتری کی کمیت سے سات گنا زیادہ ہے۔
Load Next Story