ماچس کی ڈبیا

خواجہ کے لیے یہ ماچس کی ادنیٰ سی ڈبی نہیں تھی بلکہ سوچنے کاایک طریقہ تھا

raomanzarhayat@gmail.com

ہاتھ میں ماچس کی سادہ سی ڈبی تھی۔عام سی ڈبیا،جس میں سے تیلی نکال کرسگریٹ سلگائی جاتی ہے۔بے نام اوربے اہمیت چیز۔مگرخواجہ کے لیے یہ ماچس کی ادنیٰ سی ڈبی نہیں تھی بلکہ سوچنے کاایک طریقہ تھا۔خواجہ خورشید انور ڈبیا پر آہستہ آہستہ انگلیاں مارتے رہتے تھے۔عمل چندمنٹ سے لے کرکئی گھنٹے پرمحیط ہوتاتھا۔دراصل یہ موسیقی کی دھن بنانے کاانوکھاطریقہ تھا۔انتہائی نایاب۔اکیلے بیٹھے بیٹھے کتنا وقت گزرجاتاتھا،کوئی اندازہ نہیں۔خواجہ صاحب کے ذہن میں موسیقی کی نئی دھن انتہائی غیرمحسوس طریقے سے جنم لیتی تھی۔ڈبیاپرہاتھوں کی انگلیاں ترتیب کی صورت سے چلتی رہتی تھیں۔

ایک دم گہری سوچ کے سمندرسے باہرنکل کرناظم علی کوآوازدیتے تھے۔ناظم علی کمال کی سارنگی بجاتاتھا۔خواجہ صاحب کے ذہن کو بخوبی سمجھتاتھااورخواجہ صاحب ،اس کے فن کوبھرپورطریقے سے جانتے تھے۔دونوں عجیب طریقے سے بے تعلق لوگ تھے مگرموسیقی کی بدولت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔خورشیدانورکے ذہن میں ترتیب دی گئی دھن اب سارنگی نوازکی تاروں کی آوازمیں منتقل ہوجاتی تھی۔وقت کاسب سے بڑاموسیقارکئی دنوں تک سارنگی کی تاروں سے اپنی دھن کوپختہ کرتاتھا۔

ایک ساعت آتی تھی جب موسیقاراپناذہن اورسارنگی کی لَے پر دھن کو اَمر کر ڈالتا تھا۔یہی وقت ہوتاتھاجب لازوال دھن سامنے آتی تھی۔ ایک ایسی خوبصورت لَے جسکی عمرصدیوں کے حساب سے تھی۔جوکبھی ختم نہیں ہوسکتی۔جواپنے وجود کے اندراَمرہوتی تھی۔ماچس والی دھن سے ان کے ہم عصر موسیقارسخت خوف زدہ اورمشکل سی کیفیت کاشکارہوجاتے تھے۔اتنی اعلیٰ موسیقی ترتیب دیناہرخاص وعام کی گرفت میں نہیں تھا۔یہ دل،ذہن اورروح کے اس ملاپ سے ترتیب ہوتی تھی جوبہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتی ہے۔لوگوں کی اکثریت تواس تکلیف دہ مگرخوبصورت سنگم کا ادراک ہی نہیں کرسکتی۔نہ ماضی میں اورنہ مستقبل میں۔

ہم عصرموسیقارانھیں"عطائی"کہتے تھے۔ان کے نزدیک موسیقی کے میدان میں صرف اورصرف موروثی لوگ ہی کامیاب ہوسکتے تھے۔ایسے گھرانے جنکااوڑھنا بچھونا صدیوں سے صرف اورصرف گانابجاناہو۔ایک لحاظ سے درست بھی تھا۔مگر نہیں جانتے تھے کہ خدااپنے بندوں کو موسیقی کی صلاحیت دیتے ہوئے ظرف دیکھتاہے۔اس کے لیے خاندانی گویاہونابالکل اہم نہیں۔خواجہ خورشیدانورکے گھرانے میں صدیوں سے کوئی موسیقارنہیں تھا۔والدخواجہ فیروزالدین لاہورکے کامیاب ترین بیرسٹرتھے۔مگرایک بات ضرورتھی۔

فیروزالدین کوموسیقی سے عشق تھا۔گھرمیں سیکڑوں کی تعدادمیں کالے رنگ کے ریکارڈ موجود تھے۔ کلاسیکل اورنیم کلاسیکل موسیقی کے عظیم ذخیرہ کے مالک تھے۔خورشیدانوربچپن سے گھرمیں اسی میوزک کوسنتے رہتے تھے۔فیروزالدین گھرمیں برصغیرکے نامورگائیکوں کوبلاتے رہتے تھے۔دوستوں کوجمع کرتے تھے۔شہرمیں نشستوں کی دھوم مچی ہوتی تھی۔غالباًیہی وہ وقت تھاجس پَل خواجہ خورشیدانوربڑے غیرمحسوس طریقے سے سُرکی دنیاکے مسافر ہوگئے۔موسیقی سے لگاؤکی بدولت1934میں توکل حسین کے شاگردبن گئے۔توکل حسین اپنے فن کے بادشاہ تھے۔ استادکی اپنے میدان میں وسعت اورشاگردکے سیکھنے کی صلاحیت بہت جلدی رنگ لے آئی۔

خواجہ فیروزالدین چاہتے تھے کہ بیٹامزیدتعلیم حاصل کرے۔سرکاری افسربنے آئی سی ایس کاامتحان دے۔ خواجہ صاحب والدکی خواہش کے احترام میں گورنمنٹ کالج داخل ہوگئے۔فلسفہ کے شعبہ میں ان کی منطقی صلاحیت بھرپور ہوگئی۔ادارے کی طرف سے ذہین طلباء کوانعام دینے کے لیے تقریب منعقدکی گئی۔انگریزچانسلرنے انعام تقسیم کرنے تھے۔خواجہ صاحب کے اندربلاکاباغی چھپاہواتھا۔ مردِ آزاد انگریزکوغاصب سمجھتے تھے۔خواجہ صاحب نے تقریب میں صرف اسلیے شرکت نہیں کی کہ انگریزکے تسلط کو ناپسندکرتے تھے۔

اسٹیج پرنام پکاراگیااوروہ نہ آئے، تو انگریزمہمان خصوصی نے کہاکہ طالبعلم حقیقت میں فلسفی ہے کیونکہ ایوارڈلیناتک بھول چکاہے۔مگرخواجہ خورشید انور کو تقریب مکمل طورپر یاد تھی۔آزادذہن کے شخص کے لیے غلامی ایک ذہنی ناسوربن گئی تھی۔والدصاحب کے اصرار پر انھوں نے آئی سی ایس کا امتحان دے ڈالا۔آسانی سے پاس ہوگئے۔مگرغلامی سے شدیدنفرت اورآزادی کی جدوجہدکی بدولت انھیں انٹرویو کے لیے نہیں بلایاگیا۔میراخیال ہے کہ اگرخواجہ خورشیدانور سرکاری افسربن جاتے تو کیا تیر مار سکتے تھے۔سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بے نام سے چہروں کی طرح ملک عدم کی طرف روانہ ہوجاتے۔وہ شخص سرکاری نوکری کے لیے بناہی نہیں تھا۔معلوم تھاکہ اگرموسیقی کاعشق ذریعہ روزگاربن جائے تو شخصیت کی تکمیل ہوجائے گی۔


والدمحترم کواس وقت اندازہ نہیں تھاکہ ان کے بیٹے کی اصل منزل کیاہے۔آئی سی ایس کی نوکری کولات مار کر خورشید انور نے زندگی کابہت نایاب فیصلہ کیا۔لاہورچھوڑکردہلی چلے گئے اور آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوگئے۔موسیقی پران کی دسترس دیکھ کرلوگ حیران ہوجاتے تھے۔ عبدالرشید کاردار اپنے وقت کے بہت نامور فلم سازتھے۔جب کاردار کو خواجہ صاحب کے فن کاپتہ چلا تو ان کی چوکھٹ پر آناشروع کردیا۔

کاردارکی صرف ایک درخواست ہوتی تھی۔یہ کہ میری فلموں کی موسیقی ترتیب دیں۔کافی وسیع دورانیہ کے بعدخواجہ صاحب نے کاردارکی ضدکے سامنے ہتھیارڈال دیے۔خواجہ صاحب بمبئی منتقل ہوگئے۔ان دنوں کاردارپنجابی فلم"کرمل"بنارہے تھے۔ گانوں کی دھنیں اسی نوجوان نے ترتیب دیں۔اس کے بعد کاردارنے اپنی پہلی ہندی فلم"اشارہ"بنائی۔فلم کی موسیقی نے برصغیرمیں دھوم مچادی۔ثریا،گوہرسلطان اوروستالاجیسے مایہ نازلوگوں نے اس فلم کے لازوال گانے گائے۔ خورشید انورکے تخلیقی ذہن کی پوری دنیاقائل ہوگئی۔اس کے بعدفلموں کی لائن لگ گئی۔پگڈنڈی،پروانہ،نیلم پری اورنشانہ اپنے زمانہ کی بے مثال فلمیں تھیں۔کامیابی کے پیچھے خواجہ صاحب کی موسیقی تھی۔ "پروانہ"فلم کی ایک اورخصوصیت تھی۔ کے۔ ایل۔ سہگل کی بطوراداکاراورگلوکارآخری فلم تھی۔تھوڑے ہی عرصے میں روی شنکرجیسے لوگ خواجہ صاحب کے شاگرد ہوگئے۔"نوشاد"نے انھیں برصغیر کا سب سے عظیم موسیقار قرار دیدیا۔

1952میں خواجہ صاحب بمبئی سے لاہور آگئے۔ پاکستان منتقل ہونے سے نوزائیدہ ملک میں موسیقی کے شعبہ کوبہت تقویت ملی۔یہاں انھوں نے فلم"انتظار"کی دھنیں ترتیب دی۔اگردیکھاجائے تونورجہاں کی آوازاورخواجہ صاحب کی دھنوں نے کمال کرڈالا۔ کہنابے جانہ ہوگاکہ قدرت نے دونوں کے فن کوایک دوسرے کے لیے بنایا تھا۔ "انتظار"کی موسیقی آج بھی سنیں توانسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔

خواجہ صاحب اپنی مرضی سے کام کرتے تھے۔ مرزا صاحبان،زہرعشق،جھومر،کوئل،ایاز،گھونگھٹ،حویلی،چنگاری اورمتعدد فلمیں اس عظیم موسیقارکی بدولت آج تک اَمر ہیں۔ان پرانی فلموں کے گانے آج بھی مشہورہیں۔لیکن ایک پہلوافسوس کابھی ہے۔ان کی بنائی ہوئی دھنوں کو جدید طریقوں سے آراستہ کرکے اپنے نام سے پیش کرناعام سا ہوگیاہے۔جسے دیکھو، کمپیوٹراوردیگرالیکٹرونک آلات کے ذریعہ خواجہ صاحب اوران جیسے بڑے موسیقاروں کی دھنیں چوری کرکے عجیب سے طریقے سے پیش کررہاہے۔کوئی روکنے والانھیں۔اکثریت کے توعلم ہی میں نہیں کہ یہ حیرت انگیزموسیقی دراصل کس کی ترتیب دی گئی ہے۔ "مرزاجٹ" ان کی آخری فلم تھی۔

فلم کی دنیاسے باہرآئیے۔1978میں خواجہ صاحب نے ایک لازوال کام سرانجام دیا۔انھوں نے دس آڈیوکیسٹوں پرمشتمل نوے راگ ترتیب دیے ای ایم آئی نے ان کے عظیم کام کو"آہنگ خسروی"کے نام سے پیش کیا۔ ہرراگ سے پہلے خواجہ صاحب اپنی آوازمیں راگ کے متعلق پوری معلومات دیتے تھے۔اس کے بعدگائک راگ پیش کرتاتھا۔آہنگ خسروی کے بنیادی طورپردوحصے تھے۔ دوسرے حصے میں"گھرانوں کی گائیکی"کے نام سے برصغیر کے تمام مشہورموسیقی سے وابستہ گھرانوں کوایک خوبصورت ترتیب سے پیش کیاگیا۔

بیس آڈیوکیسٹ مرتب ہوئیں۔ خواجہ صاحب،برصغیرکی عظیم ہستی امیرخسروسے بہت متاثر تھے۔جانتے تھے کہ حضرت امیرخسروموسیقی کے فن کے اکلوتے شہنشاہ تھے۔راگ اورآلات ان کے سامنے عاجزی سے ہاتھ جوڑکرکھڑے ہوجاتے تھے۔"آہنگ خسروی" دراصل اس عظیم صوفی موسیقارکی سات سوسالہ یوم ولادت پرپیش کی گئیں۔یہ مشکل اورانتہائی قیمتی کام کیاہے۔اندازہ صرف اس وقت ہوتاہے جب اکیلے بیٹھ کرسب کچھ سنتے ہیں۔موسیقی کی پھواروقتی طورپردنیاومافیہاسے آزادکردیتی ہے۔کائنات اورستاروں کی اس گردش میں چلے جاتے ہیں جوآپکی روح کے تارچھیڑدیتی ہے۔فن کوسراہنے کے لیے انھیں بہت سے انعامات ملے مگرخواجہ صاحب توخوداس فن کے لیے ایک انعام تھے۔کسی بھی تعریف اورنمائش سے بے نیاز، ایک صوفی اوردرویش سے انسان۔

درست ہے کہ آج بھی موسیقی کے مدھرمیدان میں چندبڑے نام موجودہیں۔پرعجیب بات یہ ہے کہ خواجہ خورشیدانورکے پایہ کاکوئی بھی شخص نہیں ہے۔طالب علم کی دانست میں اب ہماراملک ایک بنجرزمین ہے جس میں کسی قسم کے بڑے لوگ پیداہونے ختم ہوچکے ہیں۔ ہرشعبہ کا حال بالکل ایک جیساہے۔کیاموسیقی اورکیا سیاست، کیا سائنس اورکیاآرٹس۔نقل کرنے والے بہت ہیں بلکہ بہتات میں ہیں۔مجھے یہ نقال دراصل سماج کے مسخرے دکھائی دیتے ہیں۔اونچی آوازمیں لایعنی باتیں کرنے والے معمولی سے انسان جووقتی طور پربڑا نظرآنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔سب کچھ درست مگرآج ماچس کی ڈبیا پر لازوال موسیقی ترتیب دینے والاایک بھی شخص نہیں ہے!
Load Next Story