سالِ نو کے لیے ایک آرزو نامہ

فوج کی عظیم قربانیوں کے باوجود اقربا پروری اور بے لگام کرپشن نے ہمارے قومی منظر نامے کو تاریک کر رکھا ہے

KARACHI:
شہری دہشت گردوں اور شدت پسند عناصر کے لیے آسان ہدف ہیں۔ فوج کی عظیم قربانیوں کے باوجود اقربا پروری اور بے لگام کرپشن نے ہمارے قومی منظر نامے کو تاریک کر رکھا ہے۔ مستحکم جمہوری نظام فیصلہ سازی کے عمل میں عوامی رائے کو احترام اور اہمیت دینے کے واحد اصول پر قائم ہوتا ہے۔ یہی وہ کلیدی عنصر ہے جو چور بازاری اور لوٹ مار کا راستہ روکتا ہے، جو ہمارے نظام کا حصہ بن چکی ہے۔ ہماری برائے نام جمہوریت میں عوامی شرکت کے تصور کو تسلیم کرنے کی نیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ بلدیاتی امور چلانے کے لیے نوکرشاہی کا استعمال یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ نظام صرف جاگیردارانہ سماج کو یوں ہی تحفظ اور بہروپ دیتا رہے گا۔

ناقص انتخابی نظام سے قیادت کے مناصب حاصل کرنے والے لیڈر ایک عام آدمی تک حقیقی جمہوریت کے ثمرات منتقل کرنے کا سرے سے کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ کیا اس رویے کو ''آئینی'' اور ''قانونی'' قرار دیا جاسکتا ہے؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ مارشل لاء ادوار میں مقامی حکومتوں کا نظام زیادہ مؤثر ثابت ہوا۔ ایسی انتخابی اصلاحات کے بغیر، جن کے نتیجے میں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو مقابلے کے لیے یکساں ماحول فراہم ممکن ہو، ہم غربت، جاگیرداری اور شدت پسندی سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ بالواسطہ انتخابات ایک الگ گورکھ دھندا ہے، ہماری سینیٹ ہماری اسی شرمناک جمہوریت کی ایک اور شرمندہ کردینے والی مثال ہے۔ کیا بالغ حق رائے دہی سے مینڈیٹ حاصل کیے بغیر منتخب ہونے والے، وفاق کی اکائیوں کے حقیقی نمایندے ہوسکتے ہیں؟رومن سینیٹ سے ہماری سینیٹ کا موازنہ کیجیے، نااہلی کی وہی ''درخشاں'' مثالیں یہاں بھی ملتی ہیں، جن کے باعث بالآخر سلطنت روم ریزہ ریزہ ہوگئی۔

سینیٹرز سے اگر واقعی وفاق کی تمام اکائیوں کی نمایندگی مقصود ہے تو ان کا انتخاب بھی براہ راست ہونا چاہیے۔ شفافیت اور احتساب، نظام حکومت کے دو مرکزی ستون ہوتے ہیں۔ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی قیادت کو نہ صرف بدعنوانیوں اور جرائم کے ارتکاب سے خود بچنا ہوگا بلکہ اب اس کی غیر مشروط مذمت و مخالفت کرنی ہوگی۔ہر گزرتے برس کے ساتھ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی درجہ بندی میں پاکستان کو دنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی صف میں شامل دکھایا جاتا ہے۔ کرپشن کرنے والوں کو اگر سزا بھی ہو تو مختصر ہی ہوتی ہے، اور پھر لوٹے ہوئے مال سے داد عیش دینے کے لیے انھیں آزاد کردیا جاتا ہے، ان میں کئی ایسے ہیں جنھیں دوبارہ لوٹ مار کے مواقع مل جاتے ہیں۔

ایسی صورت حال میں کسی بھی لحاظ سے کم از کم رعایت دینے کا ہی خاتمہ ہوجانا چاہیے جس کی مدد سے سرکاری حکام اور عمال احتساب کے شکنجے سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ لیڈر انتہائی معتبر فورمز پر سفید جھوٹ بولتے ہیں لیکن ان کی کھلی دروغ گوئی پر قانون حرکت میں نہیں آتا ۔ آصف علی زرداری قومی اسمبلی کی رکنیت کا اعلان کرکے ہمیں سب سے بڑا تحفہ یہی دے سکتے ہیں کہ عوامی نمایندگی کے قواعد و ضوابط کے مطابق اپنے اثاثے ظاہر کردیں۔ آپ نے شاید اس سے زیادہ مضحکہ بات کبھی نہ سنی ہو کہ صدارتی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے انھیں ''آئینی'' طور پر اثاثے ظاہر کرنے کا پابند نہیں بنایا گیا تھا۔ لیکن قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے انھیں ، آف شور کمپنیوں، اندرون و بیرون ملک ادا کردہ ٹیکسوں کی تفصیلات سمیت تمام اثاثے ظاہر کرنا ہوں گے۔

پاکستان میں باقی دنیا کی طرح مختلف تفتیشی اداروں کی مشترکہ کاوشوں کو ''جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم'' یا جے آئی ٹی کی اصطلاح سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جب جے آئی ٹی تفتیش و تحقیق نمٹا دیتی ہے تو اس کا کام ختم ہوجاتا ہے۔ اسے حاصل شدہ اختیارات کے مطابق اس سے زیادہ کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ قانون کے ساتھ یہ مذاق بھی اب ختم ہونا چاہیے، مشترکہ ٹیموں کے سپرد کیے گئے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے کا موقع انھیں دیا جانا چاہیے۔ جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کو بیان حلفی اور اس میں جمع کردہ شواہد اور تفتیش کے دوران ریکارڈ ہونے والے کسی بھی ویڈیو یا آڈیو بیان کو قانونی طور پر قابل قبول ہونا چاہیے۔ اس میں کیا قباحت ہے، اگر ہمیں بھی یہ موقع دیا جائے کہ عذیر بلوچ، ڈاکٹر عاصم اور ایسے دیگر کرداروں نے ان مشترکہ ٹیموں کے سامنے کیا کچھ کہا ہے؟ ہمارے سیاست داں عوامی مینڈیٹ کا واویلا بہت کرتے ہیں، تو اس معاملے میں بھی کیون نہ عوام ہی کو حق و ناحق کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔


جنرل راحیل شریف کے شروع کردہ آپریشن ''ضرب عضب'' نے اقتصادی راہداری منصوبے کی راہ ہموار کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا، یہ منصوبہ پاکستان ہی نہیں خطے کی معاشی تقدیر بدل دے گا۔ اس کے ثمرات افغانستان کو بھی مل سکتے ہیں ، اگر وہ بھارت کا کھیل کھیلنا چھوڑ کر اپنے مفادات کی فکر کرے۔ سی پیک منصوبہ خطے کی جیو پالٹیکس پر گہرے اثرات کا حامل ہے، تاریخ میں پہلے مرتبہ روس، چین اور پاکستان کے مابین ہونے والے مذاکرات اس کی واضح نشان دہی کے لیے کافی ہیں۔ فوج کی کارروائیوں سے دہشت گردانہ حملوں میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے، لیکن اب ان کا رخ ملک کے مرکزی علاقوں ، بالخصوص جنوبی و وسطی پنجاب کی جانب ہونا چاہیے۔

فوج کے جوانوں کی عظیم الشان قربانیوں کے باعث آج ملک پہلے سے زیادہ محفوظ ہے۔ ان کاوشوں کو عالمی سطح پر داخلی انتشار سے نمٹنے کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ کیا سیکیورٹی جوان صرف اس لیے اپنی جانیں قربان کرتے رہیں گے کہ سیاست داں پاکستان کی دولت لوٹ کر بیرون ملک بادشاہوں کی طرح زندگی بسر کرتے رہیں؟ بیورکریسی کا احتساب بھی ایک بڑا سوال ہے۔ ان میں صرف حاضر سروس شامل نہیں، جن کی ہوسِ زر ادارے کی بدنامی کا باعث بنی بلکہ وہ بھی ہیں جو مال سمیٹنے کر ریٹائرمنٹ کے بعد خوش حال زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس مسئلے پر بھی فیصلہ کن انداز میں کام کرنا ہوگا۔

قانون مقتدر قوتوں کی چیرہ دستی سے محفوظ نہیں، اس کے اطلاق میں چھوٹے بڑے کی تمیز آج ایک اصول کی شکل میں رائج ہوچکی، ملک میں اب انصاف کی حکم رانی قائم کرنا ہی ہوگی۔ بلاتفریق قانون پر عمل درآمد عدالتوں کی ذمے داری ہے۔ رائج نظام قانون و انصاف انتہائی ناقص ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھی معاشرے کی بقا اس وقت تک ممکن ہی نہیں ، جب تک اس کی اشرافیہ بھی قانون کے سامنے یکساں طور پر جوابدہ نہیں ہو جاتی۔ مجرم اور دہشت گرد، قتل، زیادتی اور لوٹ مار کے گھناؤنے جرائم کے ملزمان کب تک شاطر وکیلوں کی من مانی تاویلات کے بل پر قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں گے۔ عدلیہ کو اب قانون کی لفظی بحثوں میں الجھنے کے بجائے اس کی روح کے مطابق فیصلے دینا ہوں گے۔

سپریم کورٹ کے آنے والے چیف جسٹس کے خلاف سوشل میڈیا پر انتہائی مکاری سے جو مہم چلائی گئی، جسٹس ثاقب نثار کی دیانت داری اور انصاف پسندی کا معیار کسی طور ان جھوٹے اور غیر سنجیدہ الزامات سے میل نہیں کھاتا۔ ان کے پیش رو کے کئی بیانات عوام کے لیے امید افزا تھے۔ تاریخ مصلحت پسندوں اور اصول پر شخصیات کو فوقیت دینے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ جسٹس منیر ایک غیر معمولی قانون داں تھے لیکن آنے والی نسلیں انھیں ''نظریۂ ضرورت'' کے خالق کے طور پر ہی پہچانیں گی۔

جو یونانی دیوتا انصاف کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اس کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہے، اس کی نظر میں دوست دشمن اور امیر غریب کی کوئی تمیز نہیں۔ غریب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا، لفظوں کے جال سے قانون کی روح کا شکار کرنے والے دولت مند وکیلوں کے کھیل کے اب وہ متحمل نہیں رہے ۔ آنے والے چیف جسٹس کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ قانون کے نفاذ میں کسی تفریق کے قائل نہیں۔ آنے والے چیف جسٹس ثاقب نثار ہی اب پاکستانیوں کی آخری امید ہیں، انھیں اپنی بلند کرداری کو اس منصب پر فائز ہونے کے بعد دلیلِ عمل سے آشکار کرنا ہوگا۔
Load Next Story