تلخ ماضی ایک جنازہ ہے
ہمارا تلخ ماضی ایک جنازہ ہے، جو سماج اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے
ہمارا تلخ ماضی ایک جنازہ ہے، جو سماج اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے، وہ اسے جب تک کہیں دفن نہیں کرے گا، اس کے متعلق باتیں ہوتی رہیں گی۔ یہ لاش گلی سٹری ہوئی سہی، بھیانک سہی، گھناؤنی سہی، لیکن ہے تو ہماری ہی۔ کیا ہم اس کے عزیز و اقارب نہیں، کیا یہ ہمارا حصہ نہیں، کیا یہ سچ نہیں کہ ہم نے اپنے مفاد کی خاطر اسے اب تک دفنایا نہیں ہے اور یہ لاش لیے لیے گھوم رہے ہیں۔
یا تو ایک بار اس کا چہر ہ دیکھ لیں یا اسے دفنادیں، ہمیں کوئی ایک فیصلہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ گوئٹے نے کہا ہے کہ ''تاریخ بھی فطرت کی طرح ہے، یہ بھی ہر وقت بناتی اور بگاڑتی رہتی ہے''۔ تاریخ ہر عہد کے ذہن کی عکاسی و نمایندگی کرتی ہے۔ تاریخ ایک سلسلہ ہے، تاریخ کا ہر دور ایک دوسرے سے ملا ہوا ہے۔ ماضی حال سے پیوست ہے۔ ہم نے ہمیشہ تاریخ کے سچ کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ سچائی میں طاقت ہے، اس کے باوجود کہ اسے کچلا جائے، روندا جائے، چھپایا جائے یا مٹایا جائے، مگر آخرکار سچائی جھوٹ کا قتل کر دیتی ہے۔
گیلیلو رجعت پسندوں، قدامت پرستوں، بنیاد پرستوں کے آگے شکست کھا گیا اور سچائی کو نہ منوا سکا، لیکن اس کے باوجود جہاں گیلیلو کو شکست ہوئی وہاں تاریخ کی جیت ہوئی اور بعد میں سچائی کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ بیسویں صدی میں چرچ نے تسلیم کیا کہ وہ غلط تھا اور گیلیلو سچا تھا اور اپنی غلطی پر معافی مانگی۔ سقراط، ابوذر غفاری، برونو، جان ہوس، تھامس مور، سرمد، طاہرہ قرۃ العین، کارل مارکس، بھگت سنگھ، جولیس فوچیک، گیبریل پری، آندے، ان سب کو دنیا کی کوئی طاقت، کوئی آزمائش جھوٹ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے یا سچ بولنے سے منہ موڑ لینے پر آمادہ نہیں کر سکی۔ ان سب نے کبھی بھی اقتدار کے خودساختہ بتوں کی پوجا نہیں کی، بلکہ ان کی ساری زندگی جھوٹے خداؤں سے نبرد آزمائی ہی میں گزری۔
ٹالسٹائی کہتا ہے ''عظیم شخصیتیں بذات خود کچھ نہیں، بلکہ یہ واقعات ہیں جو ان کا روپ اختیار کر لیتے ہیں''۔ ہم کیا کریں، ہماری قسمت ہی خراب رہی کہ ہمیں ہمیشہ وحشت ناک واقعات سے ہی پالا پڑا اور وہ بھی تواتر کے ساتھ۔ قائداعظم کی وفات کے بعد ہم اگر اپنی تاریخ کو سننے بیٹھ جائیں تو وہ سوتیلی ماں کی طرح اس طرح بولے گی کہ پھر رکے گی نہیں۔ ہم اپنے بدترین دشمن خود بنے رہے۔ فرانسیسی دانشور برنارڈ ہنری لیوی نے ہمارے لیے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا مجرم ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔
جس قدر اس وقت ہمیں سنجیدگی کی ضرورت ہے ہم اتنی ہی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ محاذ آرائی سے کبھی اچھا حال اور مسقتبل تعمیر نہیں ہو سکتا۔ اس وقت پوری دنیا اپنے اچھے مستقبل اور حال کی خاطر اپنے تلخ ماضی کی لاش کو دفن کر رہی ہے۔ مختلف ممالک اپنے بدترین ماضی کو بھلا کر ایک ہو رہے ہیں، نئی صبح کا آغاز ہو چکا ہے اور ہم ماضی کے مردے اکھاڑنے میں مصروف ہیں۔ انسانی معاشرے برابر تبدیل ہوتے رہے ہیں اور ایک درجے سے دوسرے درجے کی جانب بڑھتے رہتے ہیں، تبدیلی کے اس تاریخی عمل میں کچھ معاشرے تیزی کے ساتھ ترقی کرتے چلے جاتے ہیں، کچھ سست روی کے ساتھ اس عمل سے گزرتے ہیں اور کچھ بالکل جامد ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔
اگر ہم تبدیلی کے اس عمل سے الگ تھلگ رہے تو بالکل جامد ہو کر ختم ہو جائیں گے۔ مہذب معاشروں میں غلطی تسلیم کر لینا اور معافی مانگ لینا سزا سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہے۔ اگر ہم نے مردوں کو قبروں سے نکالا تو پورے سماج میں اتنی بدبو پھیل جائے گی کہ سانس لینا بھی دوبھر ہو جائے گا۔ زخموں کو کریدتے رہنے سے زخم ہمیشہ ہرا رہتا ہے، کبھی نہیں بھرتا۔ زندگی ٹھہرنے کا نام نہیں بلکہ آگے بڑھتے رہنے کا نام ہے۔ وقت کو نہ روکا جا سکتا ہے اور نہ قید کیا جا سکتا ہے۔ خدا نے ہمیں آنکھیں آگے دیکھنے کے لیے دی ہیں، نہ کہ پیچھے دیکھنے کے لیے۔ پیچھے دیکھنے والا ہمیشہ ٹھوکر کھاتا ہے۔
حکایت رومی ہے، جب طوفان نوح کا ظہور ہوا تو حضرت نوح علیہ السلام نے کنعان سے فرمایا کہ آ کشتی میں بیٹھ جا، تا کہ غرق نہ ہو جائے۔ کنعان نے کہا، مجھے تیرنا آتا ہے اور مجھے تیری کشتی کی حاجت نہیں ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بڑا ہولناک طوفان ہے، اس میں تیری تیراکی کام نہ آئے گی۔ کنعان نے کہا کچھ پرواہ نہیں، میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا، جو بلا سے محفوظ ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا ایسا مت کرنا، کیونکہ اس وقت پہاڑ بھی ایک تنکے کے برابر ہے اور اللہ کے دوستوں کے سوا کسی کو پناہ نہ دے گا۔ کنعان نے کہا میں نے اس سے پہلے تیری نصیحت کب سنی تھی جو اب تو یہ امید رکھتا ہے کہ میں تیری بات مانوں گا، مجھ کو تیری بات بالکل پسند نہیں ہے، میرا دونوں جہانوں میں تیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ حضرت نوح نے فرمایا کہ اے بیٹے آج کا دن اکڑنے کا نہیں، اس نازک گھڑی میں بارگاہ الہی میں ناز دکھانا خطا ہے۔
کنعان نے کہا تم ایسی باتیں سالہا سال سے کر رہے ہو، اب پھر ان کی تکرار کاہے کو کر رہے ہو۔ حضرت نوح نے فرمایا اے بیٹے ایک بار تو اپنے باپ کا کہنا مان لے۔ غرض حضرت نوح اس کو بار بار نصیحت کرتے رہے، باپ بیٹے میں یہ سوال و جواب ہو رہے تھے کہ ایک تند و تیز موج آئی اور کنعان کو بہا کر لے گئی۔ حضرت نوح نے بارگاہ الہی میں عرض کی، الہی تونے مجھ سے بارہا وعدہ کیا کہ تیرے اہل طوفان سے بچے رہیں گے، تیرے وعدے سے میں مطمئن تھا، لیکن اب طوفانی موجیں میری کلی کو بہا کر لے گئی ہیں۔ بارگاہ الہی سے ارشاد ہوا کہ وہ میرے گم کردہ راہ تیرے اہل خویش میں سے نہ تھا، تو نے خود سفید اور نیلے میں تمیز نہ کی، جب تیرے دانتوں کو کیڑا لگ جائے گا تو وہ دانت کب رہتے ہیں، ان کو اکھڑوانے ہی میں تیری بھلائی ہے کہ تیرا باقی جسم ان کرم خوردہ دانتوں کی وجہ سے تکلیف میں نہ مبتلا ہو جائے۔
آئیں ہم اپنے بہتر مستقبل اور حال کے لیے اپنے تلخ ماضی کو اب دفن کر دیں اور تمام فریقین جن سے غلطیاں ہوئی ہیں، وہ سب اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کر کے ایک بار پورا سچ بول دیں اور پھر کبھی ماضی کی طرف مڑ کر نہ دیکھیں اور سب مل کر اتفاق کے ساتھ، متحد ہو کر ملک اور قوم کو درپیش عذابوں سے چھٹکارا دلانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ اتفاق اور اتحاد میں برکت ہے۔ ترقی، خوشحالی، استحکام صرف اسی کے ذریعے آ سکتا ہے۔
یا تو ایک بار اس کا چہر ہ دیکھ لیں یا اسے دفنادیں، ہمیں کوئی ایک فیصلہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ گوئٹے نے کہا ہے کہ ''تاریخ بھی فطرت کی طرح ہے، یہ بھی ہر وقت بناتی اور بگاڑتی رہتی ہے''۔ تاریخ ہر عہد کے ذہن کی عکاسی و نمایندگی کرتی ہے۔ تاریخ ایک سلسلہ ہے، تاریخ کا ہر دور ایک دوسرے سے ملا ہوا ہے۔ ماضی حال سے پیوست ہے۔ ہم نے ہمیشہ تاریخ کے سچ کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ سچائی میں طاقت ہے، اس کے باوجود کہ اسے کچلا جائے، روندا جائے، چھپایا جائے یا مٹایا جائے، مگر آخرکار سچائی جھوٹ کا قتل کر دیتی ہے۔
گیلیلو رجعت پسندوں، قدامت پرستوں، بنیاد پرستوں کے آگے شکست کھا گیا اور سچائی کو نہ منوا سکا، لیکن اس کے باوجود جہاں گیلیلو کو شکست ہوئی وہاں تاریخ کی جیت ہوئی اور بعد میں سچائی کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ بیسویں صدی میں چرچ نے تسلیم کیا کہ وہ غلط تھا اور گیلیلو سچا تھا اور اپنی غلطی پر معافی مانگی۔ سقراط، ابوذر غفاری، برونو، جان ہوس، تھامس مور، سرمد، طاہرہ قرۃ العین، کارل مارکس، بھگت سنگھ، جولیس فوچیک، گیبریل پری، آندے، ان سب کو دنیا کی کوئی طاقت، کوئی آزمائش جھوٹ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے یا سچ بولنے سے منہ موڑ لینے پر آمادہ نہیں کر سکی۔ ان سب نے کبھی بھی اقتدار کے خودساختہ بتوں کی پوجا نہیں کی، بلکہ ان کی ساری زندگی جھوٹے خداؤں سے نبرد آزمائی ہی میں گزری۔
ٹالسٹائی کہتا ہے ''عظیم شخصیتیں بذات خود کچھ نہیں، بلکہ یہ واقعات ہیں جو ان کا روپ اختیار کر لیتے ہیں''۔ ہم کیا کریں، ہماری قسمت ہی خراب رہی کہ ہمیں ہمیشہ وحشت ناک واقعات سے ہی پالا پڑا اور وہ بھی تواتر کے ساتھ۔ قائداعظم کی وفات کے بعد ہم اگر اپنی تاریخ کو سننے بیٹھ جائیں تو وہ سوتیلی ماں کی طرح اس طرح بولے گی کہ پھر رکے گی نہیں۔ ہم اپنے بدترین دشمن خود بنے رہے۔ فرانسیسی دانشور برنارڈ ہنری لیوی نے ہمارے لیے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا مجرم ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔
جس قدر اس وقت ہمیں سنجیدگی کی ضرورت ہے ہم اتنی ہی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ محاذ آرائی سے کبھی اچھا حال اور مسقتبل تعمیر نہیں ہو سکتا۔ اس وقت پوری دنیا اپنے اچھے مستقبل اور حال کی خاطر اپنے تلخ ماضی کی لاش کو دفن کر رہی ہے۔ مختلف ممالک اپنے بدترین ماضی کو بھلا کر ایک ہو رہے ہیں، نئی صبح کا آغاز ہو چکا ہے اور ہم ماضی کے مردے اکھاڑنے میں مصروف ہیں۔ انسانی معاشرے برابر تبدیل ہوتے رہے ہیں اور ایک درجے سے دوسرے درجے کی جانب بڑھتے رہتے ہیں، تبدیلی کے اس تاریخی عمل میں کچھ معاشرے تیزی کے ساتھ ترقی کرتے چلے جاتے ہیں، کچھ سست روی کے ساتھ اس عمل سے گزرتے ہیں اور کچھ بالکل جامد ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔
اگر ہم تبدیلی کے اس عمل سے الگ تھلگ رہے تو بالکل جامد ہو کر ختم ہو جائیں گے۔ مہذب معاشروں میں غلطی تسلیم کر لینا اور معافی مانگ لینا سزا سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہے۔ اگر ہم نے مردوں کو قبروں سے نکالا تو پورے سماج میں اتنی بدبو پھیل جائے گی کہ سانس لینا بھی دوبھر ہو جائے گا۔ زخموں کو کریدتے رہنے سے زخم ہمیشہ ہرا رہتا ہے، کبھی نہیں بھرتا۔ زندگی ٹھہرنے کا نام نہیں بلکہ آگے بڑھتے رہنے کا نام ہے۔ وقت کو نہ روکا جا سکتا ہے اور نہ قید کیا جا سکتا ہے۔ خدا نے ہمیں آنکھیں آگے دیکھنے کے لیے دی ہیں، نہ کہ پیچھے دیکھنے کے لیے۔ پیچھے دیکھنے والا ہمیشہ ٹھوکر کھاتا ہے۔
حکایت رومی ہے، جب طوفان نوح کا ظہور ہوا تو حضرت نوح علیہ السلام نے کنعان سے فرمایا کہ آ کشتی میں بیٹھ جا، تا کہ غرق نہ ہو جائے۔ کنعان نے کہا، مجھے تیرنا آتا ہے اور مجھے تیری کشتی کی حاجت نہیں ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بڑا ہولناک طوفان ہے، اس میں تیری تیراکی کام نہ آئے گی۔ کنعان نے کہا کچھ پرواہ نہیں، میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا، جو بلا سے محفوظ ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا ایسا مت کرنا، کیونکہ اس وقت پہاڑ بھی ایک تنکے کے برابر ہے اور اللہ کے دوستوں کے سوا کسی کو پناہ نہ دے گا۔ کنعان نے کہا میں نے اس سے پہلے تیری نصیحت کب سنی تھی جو اب تو یہ امید رکھتا ہے کہ میں تیری بات مانوں گا، مجھ کو تیری بات بالکل پسند نہیں ہے، میرا دونوں جہانوں میں تیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ حضرت نوح نے فرمایا کہ اے بیٹے آج کا دن اکڑنے کا نہیں، اس نازک گھڑی میں بارگاہ الہی میں ناز دکھانا خطا ہے۔
کنعان نے کہا تم ایسی باتیں سالہا سال سے کر رہے ہو، اب پھر ان کی تکرار کاہے کو کر رہے ہو۔ حضرت نوح نے فرمایا اے بیٹے ایک بار تو اپنے باپ کا کہنا مان لے۔ غرض حضرت نوح اس کو بار بار نصیحت کرتے رہے، باپ بیٹے میں یہ سوال و جواب ہو رہے تھے کہ ایک تند و تیز موج آئی اور کنعان کو بہا کر لے گئی۔ حضرت نوح نے بارگاہ الہی میں عرض کی، الہی تونے مجھ سے بارہا وعدہ کیا کہ تیرے اہل طوفان سے بچے رہیں گے، تیرے وعدے سے میں مطمئن تھا، لیکن اب طوفانی موجیں میری کلی کو بہا کر لے گئی ہیں۔ بارگاہ الہی سے ارشاد ہوا کہ وہ میرے گم کردہ راہ تیرے اہل خویش میں سے نہ تھا، تو نے خود سفید اور نیلے میں تمیز نہ کی، جب تیرے دانتوں کو کیڑا لگ جائے گا تو وہ دانت کب رہتے ہیں، ان کو اکھڑوانے ہی میں تیری بھلائی ہے کہ تیرا باقی جسم ان کرم خوردہ دانتوں کی وجہ سے تکلیف میں نہ مبتلا ہو جائے۔
آئیں ہم اپنے بہتر مستقبل اور حال کے لیے اپنے تلخ ماضی کو اب دفن کر دیں اور تمام فریقین جن سے غلطیاں ہوئی ہیں، وہ سب اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کر کے ایک بار پورا سچ بول دیں اور پھر کبھی ماضی کی طرف مڑ کر نہ دیکھیں اور سب مل کر اتفاق کے ساتھ، متحد ہو کر ملک اور قوم کو درپیش عذابوں سے چھٹکارا دلانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ اتفاق اور اتحاد میں برکت ہے۔ ترقی، خوشحالی، استحکام صرف اسی کے ذریعے آ سکتا ہے۔