مسافر اِن لندن
شراب خانوں کی کثرت کے ساتھ بے شرم ناپاک خصلت عورتوں کی بھی کثرت ہے
سرسید کے دست راست اور اپنے دور کی ایک ممتاز شخصیت، مولوی محمد سمیع اللہ خاں اپنے بیٹے اور کالجوں کے دو اور طالب علموں کو انگلستان کی یونیورسٹیوں میں داخلہ دلوانے کے لیے لندن لے کر گئے۔ یہ 1880ء کا زمانہ تھا۔ لندن کے اس سفر میں مولوی صاحب نے جو کچھ دیکھا اور جو محسوس کیا اسے بلا کم و کاست لکھ کر دوران سفر اور دوران قیام لندن، علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ میں چھپنے کے لیے بھیجتے رہے۔ لوگوں کے اصرار پر ان کا یہ سفرنامہ اسی زمانے میں کتابی شکل میں شایع ہوا۔ اب دو سال پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر اصغر عباس نے اسے دوبارہ مرتب کر کے ''مسافر اِن لندن'' کے عنوان سے شایع کیا ہے۔
پروفیسر عباس لکھتے ہیں کہ اس سفرنامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولوی سمیع اللہ خاں کا مشاہدہ کس قدر گہرا تھا۔ ان کی نگاہیں جلوہ فرنگ کی چمک دمک سے خیرہ نہیں ہوئیں اور انھوں نے اہل انگلستان کی اچھی اور بری جو باتیں دیکھیں وہ بلاجھجھک لکھ ڈالیں۔ انگریزی حکومت کے اس دور میں یہ بڑے حوصلے کی بات تھی۔
مولوی سمیع اللہ خاں علی گڑھ سے بمبئی پہنچے اور وہاں سے 24 اپریل کو بحری جہاز میں لندن روانہ ہوئے۔ راستے میں انھوں نے اسکندریہ، وینس، میلان اور پیرس میں قیام کیا۔ ان سب مقامات کا حال انھوں نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے۔ ممبئی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں۔ ''یہ دولت مند شہر ہے، پارسی لوگ عمدہ حالت میں ہیں، مگر افسوس مسلمانوں کی حالت یہاں بھی اچھی نہیں ہے۔''
ممبئی سے جہاز عدن پہنچا اور پھر وہاں سے سوئز۔ جہاز پر ہر طرح کا آرام اور آسائش تھی۔ سمندر میں فلائنگ فش بھی دیکھی۔ سوئز سے مصری ریل میں سمیع اللہ خاں اور ان کے ہم سفر تینوں لڑکے اسکندریہ گئے۔ وہاں دو ہزار سال قدیم مینار دیکھا اور محمد علی شاہ کے محل کی سیر کی۔ اسکندریہ سے وہ ایک دوسرے جہاز میں سوار ہو کر اٹلی کے شہر وینس پہنچے۔ لکھتے ہیں ''اس شہر کو جو بہ تمام پانی پر بنایا گیا ہے، ہم نے دیکھا تو ہم نے سمجھا کہ اس سے بہتر اور کوئی جگہ نہ ہو گی۔'' یہاں انھوں نے اسلحہ سازی کا، شیشے سازی کا کارخانہ دیکھا اور پکچر گیلری کی سیر کی۔ وینس سے یہ میلان پہنچے۔
لکھتے ہیں ''شہر نہایت آباد و پررونق و پرفضا ہے۔'' یہاں وہ چاروں رہے اور تصویر خانہ بھی دیکھا۔ میلان سے تھورن پہنچے جو فرانس کی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں جب فرانسیسی ٹرین میں سوار ہوئے تو اپنا وہ دستی بیگ جس میں سفر کے دوران خرچ کے لیے دو سو پونڈ رکھے تھے اٹلی کی ٹرین میں رہ گیا۔ اس کی دستیابی کے لیے پیرس پہنچ کر اتار دیے گئے اور پھر جب یہ بیگ مع رقم کے ان کے پاس پہنچ گیا تو لکھتے ہیں ''میں تو یہ کہتا ہوں کہ مال حلال تھا اس لیے محفوظ رہا، اور ایک صاحب الرائے فرماتے ہیں کہ یورپ کی نیک نیتی اس کی وجہ تھی۔''
پیرس میں مولوی سمیع اللہ خاں پانچ دن رہے۔ انھوں نے بہت تفصیل سے اس زمانے کے پیرس کا نقشہ کھینچا ہے۔ انھوں نے کئی میوزیم دیکھے، عشق کی دیوی وینس کا مشہور مجسمہ بھی دیکھا، نوترڈیم کا گرجا، نیشنل لائبریری بھی دیکھی۔ لکھتے ہیں ''پیرس کو دیکھنے کے بعد ہماری نگاہ میں وینس اور میلان کی رونق ہیچ تھی۔'' وہ یہاں کے بازاروں، تھیٹر اور اوپیرا اور دوسری تماشا گاہوں کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔ گرینڈ ہوٹل کو جہاں یہ ٹھہرے تھے، کہتے ہیں کہ یہ ہوٹل کیا تھا ایک قصبہ تھا۔
مولوی سمیع اللہ خاں 25 مئی کو پیرس سے چل کر لندن پہنچے۔ ان کا ایجنٹ انھیں چیرنگ کراس ہوٹل لے گیا جو اسٹیشن کے قریب تھا۔ لکھتے ہیں ''ہوٹل میں بیڈ روم ہمارے الگ الگ تھے اور ایک سٹنگ روم ہم نے بیٹھنے کو لے لیا تھا۔ 27 شلنگ یومیہ کرایہ تھا۔''
لندن کے بارے میں اپنے ابتدائی تاثرات اور پھر بعد کے مشاہدات انھوں نے اپنے آخری مکتوب میں بیان کیے ہیں جو 7 دسمبر 1880ء کے انسٹیٹیوٹ گزٹ میں شایع ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ''لندن ایک عظیم شہر تیس میل کے اندر ہے، آبادی تخمیناً چالیس لاکھ ہے۔ تجارت یہاں پیرس سے زیادہ ہے۔ یہ ایک عجیب دولت مند شہر ہے۔ اس کے دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو یہاں دولت زمین سے ابلتی ہے یا آسمان سے برستی ہے۔ ملک کی دولت مندی کو دیکھ کر یہ سوال بے اختیار پیدا ہوتا ہے کہ ایسی دولت مندی کیوں کر ہوئی۔ اس کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ لیاقت سے اور جب یہ پوچھا جائے کہ لیاقت کیوں کر آئی تو یہ جواب ہو گا کہ تعلیم و تربیت سے۔''
تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ''کیمبرج میں جاؤ تو وہ تمام شہر علما و فضلا سے بھرا ہوا ہے۔ اٹھارہ کالج وہاں موجود ہیں جس میں تین ہزار طالب علم پڑھتے ہیں۔ فیلوشپ والے اور پروفیسر و ٹیچر اس کے علاوہ ۔ پھر آکسفورڈ بھی ویسا ہی ہے۔ اگر خیال کرو گے تو قریب قریب یہ نتیجہ نکلے گا کہ تمام ملک تعلیم و تعلم میں مصروف ہے۔ ہزاروں آدمی ہیں جو تعلیم کی ترقی کے لیے اپنا روپیہ وقف کرتے ہیں۔ یہ فیضان و عطا برابر جاری ہے۔ ہر شخص اپنے قانونی حقوق سے واقف ہے اور اس کے لینے اور حاصل کرنے پر مستعد۔ قومی ہمدردی ہر متنفس کے دل میں ہے۔ آزادی کے خیالات شائستگی کے ساتھ ہر ادنیٰ و اعلیٰ کے دماغ میں بھرے ہیں۔''
مولوی سمیع اللہ خاں جب انگریزوں کو ان ممالک میں ایسا دیکھتے ہیں تو ان کو خیال آتا ہے کہ جب وہ ہندوستان میں آتے ہیں تو ان کی یہ خوبیاں کہاں چلی جاتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ''ہندوستان کے انگریز اپنے برتاؤ سے کچھ اپنے تئیں قابل اعتراض نہیں بنتے بلکہ وہ اپنی عمدہ اور شائستہ قوم پر اعتراضات کا باعث بنتے ہیں۔''
مولوی صاحب کو لندن میں جو چیز سب سے زیادہ بری نظر آئی وہ یہاں شراب خانوں کی کثرت ہی نہیں سر بازار شراب نوشی کی کثرت بھی تھی۔ سڑکوں پر عورتیں، مرد شراب کے نشے میں پھرتے ہیں۔ لکھتے ہیں ''شراب خانوں کی کثرت کے ساتھ بے شرم ناپاک خصلت عورتوں کی بھی کثرت ہے جو نہایت بے باکی اور بے حیائی سے ہر بازار و کوچہ میں پھرتی رہتی ہیں۔ کچھ شبہ نہیں کہ ان کی وجہ سے لندن کی بڑی بدنامی ہے۔''
سمیع اللہ خاں ہاؤس آف کامنز میں بھی گئے۔ انھیں اس گیلری میں بیٹھنے کا شرف ملا جو ممبروں کی نشست سے قریب تھی اور جہاں سے اجلاس کی کارروائی اچھی طرح دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ انھوں نے قیصر ہند ملکہ وکٹوریہ کو بھی ہائیڈ پارک کے سامنے سے ایک فٹن میں گزرتے دیکھا۔ وہ زولوجیکل گارڈن بھی گئے۔ برٹش میوزیم اور لائبریری بھی دیکھی، لندن ٹائمز کو چھپتے ہوئے دیکھا اور حیران ہوئے۔ انڈرگراؤنڈ ریلوے میں سفر کیا اور جرمن اسٹریٹ میں ایک حمام میں بھی گئے۔ ان سب کا حال انھوں نے بڑا دلچسپ لکھا ہے۔
مولوی صاحب اسکاٹ لینڈ میں ایڈنبرا اور گلاسگو بھی گئے، پرتھ بھی گئے۔ لکھتے ہیں کہ اسکاٹ لینڈ میں سب سے عمدہ چیز دیکھنے اور سیر کرنے کی وہاں کی جھیلیں ہیں۔
سمیع اللہ خاں نے لندن کے ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک ایسی دکان جس میں ہر چیز ملتی ہے اور ہر چیز کی الگ دکان ہے۔ لندن کی اپر گراؤنڈ ٹرین بہت تیز رفتار ہے۔ انھیں یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ''لندن میں نہ تو مسلمانوں کی عبادت کے لیے کوئی مسجد ہے، نہ دفن ہونے کو مقبرہ۔ جس قدر قومیں اور فرقے ہیں سب کے معبد و مقابر موجود ہیں، نہیں ہیں تو مسلمانوں کے۔''
پروفیسر اصغر عباس بتاتے ہیں کہ سمیع اللہ خاں کے بیٹے حمید اللہ خاں لندن سے بیرسٹر ہو کر آئے اور حیدرآباد دکن میں چیف جسٹس کے عہدے پر متعین ہوئے اور سر بلند جنگ کا خطاب پایا۔
پروفیسر عباس لکھتے ہیں کہ اس سفرنامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولوی سمیع اللہ خاں کا مشاہدہ کس قدر گہرا تھا۔ ان کی نگاہیں جلوہ فرنگ کی چمک دمک سے خیرہ نہیں ہوئیں اور انھوں نے اہل انگلستان کی اچھی اور بری جو باتیں دیکھیں وہ بلاجھجھک لکھ ڈالیں۔ انگریزی حکومت کے اس دور میں یہ بڑے حوصلے کی بات تھی۔
مولوی سمیع اللہ خاں علی گڑھ سے بمبئی پہنچے اور وہاں سے 24 اپریل کو بحری جہاز میں لندن روانہ ہوئے۔ راستے میں انھوں نے اسکندریہ، وینس، میلان اور پیرس میں قیام کیا۔ ان سب مقامات کا حال انھوں نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے۔ ممبئی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں۔ ''یہ دولت مند شہر ہے، پارسی لوگ عمدہ حالت میں ہیں، مگر افسوس مسلمانوں کی حالت یہاں بھی اچھی نہیں ہے۔''
ممبئی سے جہاز عدن پہنچا اور پھر وہاں سے سوئز۔ جہاز پر ہر طرح کا آرام اور آسائش تھی۔ سمندر میں فلائنگ فش بھی دیکھی۔ سوئز سے مصری ریل میں سمیع اللہ خاں اور ان کے ہم سفر تینوں لڑکے اسکندریہ گئے۔ وہاں دو ہزار سال قدیم مینار دیکھا اور محمد علی شاہ کے محل کی سیر کی۔ اسکندریہ سے وہ ایک دوسرے جہاز میں سوار ہو کر اٹلی کے شہر وینس پہنچے۔ لکھتے ہیں ''اس شہر کو جو بہ تمام پانی پر بنایا گیا ہے، ہم نے دیکھا تو ہم نے سمجھا کہ اس سے بہتر اور کوئی جگہ نہ ہو گی۔'' یہاں انھوں نے اسلحہ سازی کا، شیشے سازی کا کارخانہ دیکھا اور پکچر گیلری کی سیر کی۔ وینس سے یہ میلان پہنچے۔
لکھتے ہیں ''شہر نہایت آباد و پررونق و پرفضا ہے۔'' یہاں وہ چاروں رہے اور تصویر خانہ بھی دیکھا۔ میلان سے تھورن پہنچے جو فرانس کی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں جب فرانسیسی ٹرین میں سوار ہوئے تو اپنا وہ دستی بیگ جس میں سفر کے دوران خرچ کے لیے دو سو پونڈ رکھے تھے اٹلی کی ٹرین میں رہ گیا۔ اس کی دستیابی کے لیے پیرس پہنچ کر اتار دیے گئے اور پھر جب یہ بیگ مع رقم کے ان کے پاس پہنچ گیا تو لکھتے ہیں ''میں تو یہ کہتا ہوں کہ مال حلال تھا اس لیے محفوظ رہا، اور ایک صاحب الرائے فرماتے ہیں کہ یورپ کی نیک نیتی اس کی وجہ تھی۔''
پیرس میں مولوی سمیع اللہ خاں پانچ دن رہے۔ انھوں نے بہت تفصیل سے اس زمانے کے پیرس کا نقشہ کھینچا ہے۔ انھوں نے کئی میوزیم دیکھے، عشق کی دیوی وینس کا مشہور مجسمہ بھی دیکھا، نوترڈیم کا گرجا، نیشنل لائبریری بھی دیکھی۔ لکھتے ہیں ''پیرس کو دیکھنے کے بعد ہماری نگاہ میں وینس اور میلان کی رونق ہیچ تھی۔'' وہ یہاں کے بازاروں، تھیٹر اور اوپیرا اور دوسری تماشا گاہوں کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔ گرینڈ ہوٹل کو جہاں یہ ٹھہرے تھے، کہتے ہیں کہ یہ ہوٹل کیا تھا ایک قصبہ تھا۔
مولوی سمیع اللہ خاں 25 مئی کو پیرس سے چل کر لندن پہنچے۔ ان کا ایجنٹ انھیں چیرنگ کراس ہوٹل لے گیا جو اسٹیشن کے قریب تھا۔ لکھتے ہیں ''ہوٹل میں بیڈ روم ہمارے الگ الگ تھے اور ایک سٹنگ روم ہم نے بیٹھنے کو لے لیا تھا۔ 27 شلنگ یومیہ کرایہ تھا۔''
لندن کے بارے میں اپنے ابتدائی تاثرات اور پھر بعد کے مشاہدات انھوں نے اپنے آخری مکتوب میں بیان کیے ہیں جو 7 دسمبر 1880ء کے انسٹیٹیوٹ گزٹ میں شایع ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ''لندن ایک عظیم شہر تیس میل کے اندر ہے، آبادی تخمیناً چالیس لاکھ ہے۔ تجارت یہاں پیرس سے زیادہ ہے۔ یہ ایک عجیب دولت مند شہر ہے۔ اس کے دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو یہاں دولت زمین سے ابلتی ہے یا آسمان سے برستی ہے۔ ملک کی دولت مندی کو دیکھ کر یہ سوال بے اختیار پیدا ہوتا ہے کہ ایسی دولت مندی کیوں کر ہوئی۔ اس کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ لیاقت سے اور جب یہ پوچھا جائے کہ لیاقت کیوں کر آئی تو یہ جواب ہو گا کہ تعلیم و تربیت سے۔''
تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ''کیمبرج میں جاؤ تو وہ تمام شہر علما و فضلا سے بھرا ہوا ہے۔ اٹھارہ کالج وہاں موجود ہیں جس میں تین ہزار طالب علم پڑھتے ہیں۔ فیلوشپ والے اور پروفیسر و ٹیچر اس کے علاوہ ۔ پھر آکسفورڈ بھی ویسا ہی ہے۔ اگر خیال کرو گے تو قریب قریب یہ نتیجہ نکلے گا کہ تمام ملک تعلیم و تعلم میں مصروف ہے۔ ہزاروں آدمی ہیں جو تعلیم کی ترقی کے لیے اپنا روپیہ وقف کرتے ہیں۔ یہ فیضان و عطا برابر جاری ہے۔ ہر شخص اپنے قانونی حقوق سے واقف ہے اور اس کے لینے اور حاصل کرنے پر مستعد۔ قومی ہمدردی ہر متنفس کے دل میں ہے۔ آزادی کے خیالات شائستگی کے ساتھ ہر ادنیٰ و اعلیٰ کے دماغ میں بھرے ہیں۔''
مولوی سمیع اللہ خاں جب انگریزوں کو ان ممالک میں ایسا دیکھتے ہیں تو ان کو خیال آتا ہے کہ جب وہ ہندوستان میں آتے ہیں تو ان کی یہ خوبیاں کہاں چلی جاتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ''ہندوستان کے انگریز اپنے برتاؤ سے کچھ اپنے تئیں قابل اعتراض نہیں بنتے بلکہ وہ اپنی عمدہ اور شائستہ قوم پر اعتراضات کا باعث بنتے ہیں۔''
مولوی صاحب کو لندن میں جو چیز سب سے زیادہ بری نظر آئی وہ یہاں شراب خانوں کی کثرت ہی نہیں سر بازار شراب نوشی کی کثرت بھی تھی۔ سڑکوں پر عورتیں، مرد شراب کے نشے میں پھرتے ہیں۔ لکھتے ہیں ''شراب خانوں کی کثرت کے ساتھ بے شرم ناپاک خصلت عورتوں کی بھی کثرت ہے جو نہایت بے باکی اور بے حیائی سے ہر بازار و کوچہ میں پھرتی رہتی ہیں۔ کچھ شبہ نہیں کہ ان کی وجہ سے لندن کی بڑی بدنامی ہے۔''
سمیع اللہ خاں ہاؤس آف کامنز میں بھی گئے۔ انھیں اس گیلری میں بیٹھنے کا شرف ملا جو ممبروں کی نشست سے قریب تھی اور جہاں سے اجلاس کی کارروائی اچھی طرح دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ انھوں نے قیصر ہند ملکہ وکٹوریہ کو بھی ہائیڈ پارک کے سامنے سے ایک فٹن میں گزرتے دیکھا۔ وہ زولوجیکل گارڈن بھی گئے۔ برٹش میوزیم اور لائبریری بھی دیکھی، لندن ٹائمز کو چھپتے ہوئے دیکھا اور حیران ہوئے۔ انڈرگراؤنڈ ریلوے میں سفر کیا اور جرمن اسٹریٹ میں ایک حمام میں بھی گئے۔ ان سب کا حال انھوں نے بڑا دلچسپ لکھا ہے۔
مولوی صاحب اسکاٹ لینڈ میں ایڈنبرا اور گلاسگو بھی گئے، پرتھ بھی گئے۔ لکھتے ہیں کہ اسکاٹ لینڈ میں سب سے عمدہ چیز دیکھنے اور سیر کرنے کی وہاں کی جھیلیں ہیں۔
سمیع اللہ خاں نے لندن کے ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک ایسی دکان جس میں ہر چیز ملتی ہے اور ہر چیز کی الگ دکان ہے۔ لندن کی اپر گراؤنڈ ٹرین بہت تیز رفتار ہے۔ انھیں یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ''لندن میں نہ تو مسلمانوں کی عبادت کے لیے کوئی مسجد ہے، نہ دفن ہونے کو مقبرہ۔ جس قدر قومیں اور فرقے ہیں سب کے معبد و مقابر موجود ہیں، نہیں ہیں تو مسلمانوں کے۔''
پروفیسر اصغر عباس بتاتے ہیں کہ سمیع اللہ خاں کے بیٹے حمید اللہ خاں لندن سے بیرسٹر ہو کر آئے اور حیدرآباد دکن میں چیف جسٹس کے عہدے پر متعین ہوئے اور سر بلند جنگ کا خطاب پایا۔