عزیز الحق کا خواب… کاش میں جیمز جوائس ہوتا

ہماری ترقی پسند تحریک نے مریضانہ داخلیت پسندی کے شاخسانے قرار دے کر رد کر دیا تھا۔

rmvsyndlcate@gmail.com

مضامین کا یہ اچھا خاصا ضخیم مجموعہ ہے جو حسن قلم پبلی کیشنز کی طرف سے 'مضامین عزیز الحق' کے عنوان سے شایع ہوا ہے۔ ہم اس مجموعہ کے اوراق پلٹتے چلے جا رہے ہیں اور حیران ہو رہے ہیں۔ یہ بیچ بیچ میں ایسے مضامین جو ادبی تنقید کے ذیل میں آتے ہیں کیوں نمودار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ صحیح ہے کہ عزیز الحق کی پہلی نمود حلقہ ارباب ذوق ہی میں ہوئی تھی۔ اور اچھے خاصے لمبے عرصے تک اس عزیز نے حلقہ کی ادبی روایات کا پورا پورا احترام کیا۔ اسی ڈسپلن میں رہتے ہوئے بحث مباحث میں حصہ لیا اور مضامین بھی لکھے۔ اصل میں ہوا یوں کہ دو نوخیز دانشوروں کی جوڑی پھرتی پھراتی کہیں حلقہ میں آ نکلی۔ اپنے اظہار کے لیے انھیں یہاں کی فضا ساز گار نظر آئی۔ بس پھر ان دونوں نے یہیں ڈیرے ڈال دیے۔ ایک کا نام تھا عارف امان' دوسرے کا نام عزیز الحق۔ حلقہ نے بھی انھیں جلدی ہی قبول کر لیا۔ ان کی شرکت سے بحث میں گرما گرمی جو پیدا ہو جاتی تھی۔ خاص طور پر عزیز الحق نے اپنی گرمی گفتار سے جلدی ہی ہمارے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔

پھر شاید عزیز الحق ملک سے باہر چلا گیا۔ جب واپس آیا اور دوبارہ حلقہ میں قدم رکھا تو اب زیادہ اعتماد سے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتا تھا۔ اب اس کی گفتگو میں انقلاب کی گھن گرج بھی شامل ہو چلی تھی۔ اسی حساب سے اس کا رویہ ادب کے بارے میں بھی بدل چلا تھا اور حلقہ میں بیٹھے ادیبوں کی طرف رویہ بھی حقارت کا رنگ پکڑتا جا رہا تھا۔ مطلب یہ ہوتا کہ کیا ادب ادب کی رٹ لگا رکھی ہے۔ ارد گرد نظر ڈالو کہ دنیا کتنی بدل چکی ہے۔ انقلاب تمہارے سر پر آن پہنچا ہے اور پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔

عزیز الحق کا یہ انقلابی لہجہ تیز سے تیز تر اور تلخ سے تلخ تر ہوتا چلا گیا۔ حلقہ میں بیٹھے ادیب بہت گسمائے مگر کیا ہو سکتا تھا، اونٹ خیمہ کے اندر آ کر سما چکا تھا۔ پھر انھیں ہی دھیرے دھیرے خیمے سے نکلنا پڑا۔ عزیز الحق کے یہاں نظریاتی شدت بڑھتی چلی گئی، اس حد تک کہ اس سے رتی بھر نظریاتی اختلاف بھی اس پر بھاری پڑتا تھا اس حد تک کہ برسوں کا یارانہ ختم ہو جاتا تھا۔ اس مجموعہ میں تسنیم منٹو کا ایک خاکہ شامل ہے۔ عزیز الحق کو اس بی بی نے شاید زیادہ صحیح سمجھا ہے۔ اس خاکہ میں عزیز الحق اپنی نظریاتی اور جذباتی شدت کے ساتھ پوری طرح نظر آتا ہے۔ عابد حسن منٹو سے بہت گہرا یارانہ تھا۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہ یارانہ بھی نظریاتی یگانگت کی بنا پر تھا۔ جب اختلاف پیدا ہوا تو پھر اس عزیز نے اس بار عزیز کی طرف کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔

عزیز الحق اس قسم کے لوگوں میں سے تھا جو اپنے نظریے کے ساتھ اس شدت کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں کہ پھر انسانی رشتے ان کے لیے بے معنی بن کر رہ جاتے ہیں۔ وہ صرف اور محض نظریہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ تو پھر یہاں نظریاتی شدت کے ساتھ جذباتی شدت کا بھی یہ عالم تھا کہ حلقہ میں جب یہ عزیز گفتگو کرتا تو پہلے غصے سے کانپنے لگتا۔ پھر آواز بھرانے لگتی ہے اور اس پر رقت طاری ہو جاتی۔ وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے کہ

آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
ہو گئے خاک انتہا یہ ہے

تو واقعی یوں لگتا تھا کہ یہ شخص اپنے اندر آگ لیے پھرتا ہے۔ مگر یارو اغیار میں سے شاید کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ آگ شعلہ مستعجل ہے۔ انتہا پسندی کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے۔ مگر یہ انتہا اتنی جلدی آ جائے گی اور اس رنگ سے آئے گی یہ اس کے ہمنوائوں اور عقیدتمندوں میں سے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔


ہم تو حلقہ میں اس کی غضب ناکی کو دیکھ کر یہ سمجھنے لگے تھے کہ واقعی کوئی بڑا طوفان آیا کھڑا ہے۔ اور کیا عجب ہے کہ اتوار کی کسی شام کو حلقہ ارباب ذوق کے تندور میں سے سچ مچ سیلاب امنڈنے لگے اور اس شدت کے ساتھ کہ ہم سب اس میں بہہ جائیں سوائے ان چند نیک بندوں کے جو عزیز الحق کے ساتھ کشتی میں سوار ہو جائیں۔

اور یہ جو اس مجموعہ میں اس کی تحریریں یکجا کی گئی ہیں یہ کیا کہتی ہیں۔ نظریاتی شدت کے ساتھ جذباتی شدت اتنی ہے کہ عزیز الحق اپنی بات کہتے ہوئے بار بار الجھتا ہے۔ رکتا ہے۔ پھر اسی بات کو دہراتا ہے کہ اس کے اندر جو ہنڈیا پک رہی ہے اس کا ڈھکن احتیاط سے اٹھا کر اپنے دل کا غبار سلیقہ سے نکال سکے۔ مگر پھر الجھ جاتا ہے۔

خیر اسی مجموعہ میں ایک تحریر ایسی ہے جو اس کے اندر امنڈتے ہوئے فکری اور جذباتی ابال کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ تحریر انگریزی میں لکھے ہوئے ایک خط کی شکل میں ہے۔ Letter From Aziz۔ اس خط میں وہ لکھتا ہے کہ ابھی کل پرسوں میں اسٹیفن سینڈر کی خود نوشت پڑھ رہا تھا۔ ''اسی میں اس نے کہیں جیمز جوائس اور ہیمگوئے وغیرہ کا بھی ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ان ناول نگاروں نے لکھنے کی ایسی ایسی تکنیک نکالی تھی کہ آدمی کے دل و دماغ میں فکر و خیال کی جو طرح طرح کی لہریں ایک ہی وقت میں ساتھ ساتھ امنڈتی چلتی رہتی ہیں انھیں وہ خوبصورتی سے بیان کر پاتے ہیں۔ اور اس کے بعد ٹکڑا لگاتا ہے ''کاش میں بھی کوئی جیمز جوائس ہوتا کہ میرے اندر جو اوبڑ کھابڑ خیالات امنڈتے رہتے ہیں اور آپس میں گڈمڈ ہوتے رہتے ہیں انھیں بیان کر پاتا۔

اپنے اس ذہنی عمل کے لیے عزیزالحق نے انگریزی اصطلاح muble jumble استعمال کی ہے۔ اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ جو اس کے اندر فکر و خیال کی اوبڑ کھابڑ لہریں اٹھتی رہتی ہیں اور گڈمڈ ہوتی رہتی ہیں انھیں جوائس والی ٹیکنیک میں بہتر طور پر بیان کیا جا سکتا تھا۔

آگے چل کر ایک دوسرا مضمون ہے جس میں عزیز الحق نے اردو ناول کا جائزہ اس اعتبار سے لیا ہے کہ کس طرح وہ پریم چند کی سماجی حقیقت نگاری سے چل کر ان نئی تکنیکوں تک اردو ناول کی رسائی ہوئی ہے جو 'شعور کی رو' سے متعلق ہیں۔ اس سلسلہ میں اس نے تین نام گنائے ہیں۔ قرۃ العین حیدر' انور سجاد' انتظار حسین۔ اس کا کہنا ہے کہ ''ان ناول نگاروں کی کوشش یہ ہے کہ انسانی لاشعور کی تاریک بھول بھلیوں میں جو شیر چنگھاڑتے دہاڑتے رہتے ہیں انھیں کسی طرح قابو میں لایا جائے''۔

اس کے بعد یہ بیان ''اب ایک بات تو طے شدہ ہے کہ اردو ناول کی روایت میں ایک قیمتی اضافہ ہوا ہے ان تکنیکوں کی صورت میں جو 'شعور کی رو' کے تصور سے پھوٹی ہیں۔ یہ تکنیکیں وقت کی کسوٹی پر پوری اتریں گی اور مستقبل کے ناول نگار اس کو خوبی سے برتیں گے''۔

عجب ثم العجب ناول و افسانے کی جن نئی تکنیکوں کو ہماری ترقی پسند تحریک نے مریضانہ داخلیت پسندی کے شاخسانے قرار دے کر رد کر دیا تھا اور اسی اپنی سماجی حقیقت نگاری پر اصرار کیا تھا ان تکنیکوں کی معنویت کی بات ہم عزیز الحق سے سن رہے ہیں۔ اور کس طرح وہ اس خواہش کا اظہار کر رہا ہے کہ کاش وہ بھی اپنے طورپر کوئی جیمز جوائس ہوتا اور اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں میں جو خیالوں کا محشر بپا رہتا ہے اسے سلیقہ سے احاطہ تحریر میں لا سکتا۔
Load Next Story