مہلت 18 دنوں کی
مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے کا جواب اس حکومت کے پاس نہیں ہے۔
بچپن سے ہم یہ سنتے آرہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے، مگر یہ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ لاٹھی اس ریاست اور ان کے حکمرانوں پر جس کو مملکت خداداد پاکستان کہا جاتا ہے کب اور کہاں سے آکر پڑے گی؟ نیب کے سربراہ ریٹائرڈ نیول چیف نے بتایا کہ اربوں اور کھربوں کی کرپشن جاری ہے۔ ظاہر ہے ایسا ہی کچھ ہوا کہ مشرف کے دور میں ایک ڈالر 70 روپے کا تھا اور اب 100 روپے کا تقریباً جب کہ جمہوری دور میں تو یہ 50 روپے کا ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ جمہوریت میں ریاست ترقی کرتی ہے، مگر یہ ریاست رو بہ زوال ہے۔
سی این جی غائب، ہر گھنٹے پر ملک میں لوگوں کے مرنے کی صدائیں، ڈاکا، چوری، رہزنی، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، کیا یہ ہیں جمہوریت کے ثمرات؟ سرحدی علاقوں میں جنگ کا منظر عام۔ آدمی کی تو بے چارے کی کیا حیثیت، پولیس، رینجرز، وزیر بھی خود محفوظ نہ رہے، مگر اصل بات یہ ہے کہ رفتہ رفتہ ریاستی جرائم جو ملک کے سیاستدان پھیلا رہے ہیں، اتنے بڑھ گئے ہیں کہ عام آدمی کا یقین ریاست سے اٹھتا جارہا ہے۔ ریاست عوام کی محافظ ہوتی ہے، اس کی جان و مال، عزت و آبرو کی امین ہوتی ہے، مگر ہماری ریاست میں عدم تحفظ کی سیاست گزشتہ 5 برسوں سے جمہوری دور سے ہی جاری ہے اور اب اس میں ہر روز ترقی ہوتی جارہی ہے۔ ابھی چند روز قبل کی بات ہے کہ پاکستان فیڈریشن آف چیمبرز اینڈ کامرس کے ایس ایم منیر نے ایک عشائیے میں جو آرٹس کونسل کراچی کے انتخابی جلسے کے ضمن میں دیا گیا تھا تقریر میں موضوع سے ہٹ کر یہ بات کہی کہ ہم کو خدارا نجات دلائیے، ہم محفوظ نہیں، ہمارا کاروبار محفوظ نہیں۔
اگر وقتی طور پر فوج کو کراچی میں نظم ونسق کے لیے بلایا جائے تو کوئی حرج نہیں، اس عدم تحفظ کی وجہ سے لوگ پڑوسی ممالک بھاگ رہے ہیں، سرمایہ اور اعلیٰ اذہان دیگر ممالک میں سکونت اختیار کر رہے ہیں اور حکمران ہیں کہ ترقی کے اعداد و شمار گنوائے جارہے ہیں۔ غور فرمائیے قانون ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے جمہوریت کے راگ الاپ رہے ہیں، جعلی ڈگریوں سے آئے ہوئے لوگ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں، اس کے باوجود وہ پھر دوبارہ الیکشن جیت گئے اور دھوکا دہی کے الزام میں سزا بھی نہ ملی کہ تم کہاں سے لائے ہو یہ ڈگریاں، کہاں بنتی ہیں یہ ڈگریاں، کون بیچ رہا ہے یہ ڈگریاں؟ ایسے قانون ساز ادارے عوام کے منہ پر طمانچہ ہیں، ملک کی خودمختاری کو اور ملک کو کھوکھلا کرنے والے حکمران ہماری ریاست کے لیے مستقل خطرہ بن گئے ہیں، اگر انحطاط پذیری کا یہ عمل مزید جاری رہا تو پھر پاکستان میں صرف سیاست رہ جائے گی اس لیے خدا نے بے آواز یہ لاٹھی 23 دسمبر کو مینار پاکستان کے علاقے میں علامہ طاہر القادری کی شکل میں اتاردی۔
اس جلسے کے متعلق یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس کے لیے کوئی طویل بڑی اشتہاری مہم نہیں چلائی گئی پھر بھی عوام کا موجیں مارتا یہ سمندر مینار پاکستان پہنچ گیا، سردی کا موسم غریب اور متوسط طبقات کی عورتیں 22 دسمبر کی رات کو ہی اپنے شیرخواروں کو لے کر جلسہ گاہ میں پہنچ گئی تھیں، ایک اندازے کے مطابق یہ جلسہ 18 یا 20 لاکھ نفوس پر مشتمل تھا، اس جلسہ گاہ میں وہ لوگ بھی موجود تھے جن کے پاؤں کے جوتے پھٹے ہوئے تھے اور یہی لوگ ہیں جو انقلاب کا ہراول دستہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ علامہ کے خلاف بعض ایسے لوگ بھی تبصرہ (اینکرپرسن) فرما رہے تھے جو درست انگریزی تو کجا اردو بھی نہیں بول سکتے تھے۔ ایک بڑی پارٹی کے رہنما فرما رہے تھے جو پنجاب کے ووٹوں کے ماہر وٹو صاحب ہیں بقول ان کے سیاست ہوگی تو ریاست ہوگی۔
جناب عالی! شطرنج کی چالیں چلنے کو سیاستداں نہیں کہا جاسکتا اگر ایسا ہوتا تو سوویت یونین جہاں دنیا کے بہترین شطرنج کھیلنے والے موجود تھے مگر گورباچوف جو ان کے آخری صدر تھے، گلاسنوٹ اور پیراسٹرائیکا یعنی جمہوریت اور مباحثہ کا فلسفہ پیش کرکے روس کی وحدت کو بچا لیتے اور پھر بہ یک جنبش قلم سوویت ریاستیں آزاد ہوگئیں، نہ گولی چلی نہ جدوجہد ہوئی، جتنے بھی تان تھے وسطی ایشیا کی آزاد مسلم ریاستیں بن گئیں لہٰذا یہ کہنا کہ سیاست ہوگی تو ریاست رہے گی غیر منطقی استدلال ہے۔ مثبت سیاست وہ ہے جو عوام کو تحفظ، چھت اور روزگار عطا کرسکے، صرف اس کو ہی سیاست کا حق ہے ، مگر استحصال کرنا، مک مکا کرنا، جعلی اپوزیشن رہنما اور اتحادی بن کر بیٹھنا کون سی سیاست ہے؟ مشرقی پاکستان کے عوام اسی وجہ سے بدظن ہوئے اور اب بلوچستان اس کی لپیٹ میں ہے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یہ رہنما کہتے تھے کہ وہ بڑے فاصلے پر تھا اس لیے الگ ہوگیا مگر بلوچستان کی آبادی کم ہے، زمینی راستہ ہے، ہم نمٹ لیں گے، بلوچستان میں جب بھی فوجی آپریشن ہوئے سویلین رہنماؤں کی تائید حاصل رہی، اب بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس حکومت نے 5 برس جمہوریت کے پورے کرلیے، شاید یہ زرین دور ہے۔ فی کس آمدنی، ٹریڈ اور انڈسٹری کا کیال حال ہے؟ بھتہ نہ دینے یا ذاتی دشمنی پر لوگوں کو بے دریغ قتل کیا جارہا ہے۔ جمہوریت کے ثمرات کا اگر غیر جمہوری دور سے بھی موازنہ کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ یہ غربت کے مارے لوگوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو مجبوری میں اپنا جسم فروخت کر بیٹھے ہیں اور خود کو پیسوں کے لیے جیکٹ پہن کر ہلاک ہورہے ہیں، غربت اور کم علمی کا ناسور آسودگی سے دور انسان کو منفی راستوں پر آسانی سے ڈال دیتی ہے۔ ان لوگوں کی رہنمائی ضروری ہے۔
اگر علامہ طاہر القادری نے انتخابات سے پہلے اصلاحات کا نعرہ لگایا ہے تو وہ درست ہے کیونکہ حکمران ایک خاندان کے لوگ ہیں جو مختلف پارٹیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنا برانڈ حالات کے اعتبار سے فروخت کرتے ہیں۔ یہ برادری سسٹم، یہ جاگیرداری کا رعب، ان حالات میں کیا واقعی کوئی مثبت تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے؟ عمران خان نے بھی تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا مگر وہ پلے گراؤنڈ، بال اور وکٹوں کی اصطلاح تک محدود رہے، گو انھوں نے نوجوانوں اور خصوصاً متمول خاندانوں کو اپنا رفیق بنایا مگر طاہر القادری نے ہر طبقے کو 18 روز کی مہلت کا نعرہ بلند کرکے حکمرانوں اور ان کے تنخواہ دار ملازموں کے ہوش اڑا دیے ہیں جو یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ اتنا بڑا جلسہ کیسے ہوا؟ تو اس کا واضح جواب ہے لوگ خود آئے ہیں اور اپنے خرچ پر، اگر انتخابات سے قوم کو عروج ملتا تو عروج کی ایک سیڑھی تو ہم چڑھ چکے ہوتے، مگر معاشرہ روبہ زوال ہے، علامہ کی تقریر مسلم امہ کی یکجہتی کی مظہر تھی اور انھوں نے طالبان سے بھی حوصلہ افزا تخاطب کیا تاکہ پاکستان میں سیاسی شانتی کا دور آئے اور ریاست محفوظ رہے۔
ایسی سیاست جس سے قوم میں مایوسی اور افراتفری پھیلے اس کی نفی کرتے ہوئے فرسودہ نظام کو ختم کرنے کی آواز سلطانی جمہور کی بات کی۔ پاکستان کی جمہوری اور غیر جمہوری حکومتیں زرعی اصلاح نہ کرسکیں جب کہ بھارت نے یہ اصلاح آزادی کے فوراً بعد کردی اور آج اس کی کرنسی کا مقام کیا ہے؟ ایک لاکھ روپے میں مہران کار کے مد مقابل کار ٹاٹا نے متعارف کرالی ہے، محض اس لیے کہ نہ انتخابی اصلاحات ہوتی ہیں اور نہ پاکستان میں حکمرانوں کا احتساب ہوتا ہے۔
اگر حکومت نے واقعی اس جلسے کے اثرات کا جائزہ نہ لیا تو اﷲ کی یہ لاٹھی 18 روز بعد برسنا شروع ہوجائے گی، بقول علامہ طاہر القادری کے جو قوم فوجی مارشل لاء کا مقابلہ کرسکتی ہے اس کے لیے جمہوری مارشل لاء کیا معنی رکھتا ہے، البتہ اس جلسے پر ایم کیو ایم کا ردعمل نہایت مثبت، دوررس نگاہوں والا تھا، جس سے ایم کیو ایم کے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ وہ انقلابی قوتوں کے ساتھ ہے۔ ورنہ تمام بھتہ پارٹیاں خوف و ہراس کے عالم میں ہیں۔ کسی حد تک ملک میں کرپشن کی سیاست اور خاندانی سیاست پر عمران خان ضرور مخالفت کر رہے ہیں اور 4000 ارب سالانہ کی کرپشن کا پردہ چاک کر رہے ہیں مگر مسٹر اعتزاز احسن اس مسئلے پر یہ فرماتے ہیں کہ ہماری معیشت اتنی چھوٹی ہے کہ اتنی بڑی کرپشن کے امکانات نہیں ہیں۔
موجودہ صورت حال میں علامہ طاہر القادری کے جلسے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کی تنظیم بڑی فعال ہے یا یہ ان کے مذہبی ہم خیال لوگوں کا اجتماع تھا، دراصل اس جلسے کی کامیابی عوام کی پریشانی کی عکاسی تھی اور واقعی ایسا لگتا ہے کہ موروثی سیاست اور عوام پر جمہوریت کے نام پر ہونے والے مظالم اب تک ختم نہ کیے گئے تو اس نام نہاد جمہوریت کا خاتمہ یقیناً ہوجائے اور اس کے ذمے دار علامہ نہ ہوں گے بلکہ فرسودہ نظام کی طوالت ہوگی۔ اگر یہ مارچ ہوتا ہے تو موجودہ سیٹ اپ ضرور اپ سیٹ ہوجائے گا کیونکہ مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے کا جواب اس حکومت کے پاس نہیں ہے اور اگر غلطی سے اس مارچ کے خلاف مزاحمت کی گئی تو ردعمل مزید شدید ہوگا۔ کیونکہ حکومت غیر مستحکم ہے اور ممبران کی نگاہ دولت کی طرف۔
سی این جی غائب، ہر گھنٹے پر ملک میں لوگوں کے مرنے کی صدائیں، ڈاکا، چوری، رہزنی، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، کیا یہ ہیں جمہوریت کے ثمرات؟ سرحدی علاقوں میں جنگ کا منظر عام۔ آدمی کی تو بے چارے کی کیا حیثیت، پولیس، رینجرز، وزیر بھی خود محفوظ نہ رہے، مگر اصل بات یہ ہے کہ رفتہ رفتہ ریاستی جرائم جو ملک کے سیاستدان پھیلا رہے ہیں، اتنے بڑھ گئے ہیں کہ عام آدمی کا یقین ریاست سے اٹھتا جارہا ہے۔ ریاست عوام کی محافظ ہوتی ہے، اس کی جان و مال، عزت و آبرو کی امین ہوتی ہے، مگر ہماری ریاست میں عدم تحفظ کی سیاست گزشتہ 5 برسوں سے جمہوری دور سے ہی جاری ہے اور اب اس میں ہر روز ترقی ہوتی جارہی ہے۔ ابھی چند روز قبل کی بات ہے کہ پاکستان فیڈریشن آف چیمبرز اینڈ کامرس کے ایس ایم منیر نے ایک عشائیے میں جو آرٹس کونسل کراچی کے انتخابی جلسے کے ضمن میں دیا گیا تھا تقریر میں موضوع سے ہٹ کر یہ بات کہی کہ ہم کو خدارا نجات دلائیے، ہم محفوظ نہیں، ہمارا کاروبار محفوظ نہیں۔
اگر وقتی طور پر فوج کو کراچی میں نظم ونسق کے لیے بلایا جائے تو کوئی حرج نہیں، اس عدم تحفظ کی وجہ سے لوگ پڑوسی ممالک بھاگ رہے ہیں، سرمایہ اور اعلیٰ اذہان دیگر ممالک میں سکونت اختیار کر رہے ہیں اور حکمران ہیں کہ ترقی کے اعداد و شمار گنوائے جارہے ہیں۔ غور فرمائیے قانون ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے جمہوریت کے راگ الاپ رہے ہیں، جعلی ڈگریوں سے آئے ہوئے لوگ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں، اس کے باوجود وہ پھر دوبارہ الیکشن جیت گئے اور دھوکا دہی کے الزام میں سزا بھی نہ ملی کہ تم کہاں سے لائے ہو یہ ڈگریاں، کہاں بنتی ہیں یہ ڈگریاں، کون بیچ رہا ہے یہ ڈگریاں؟ ایسے قانون ساز ادارے عوام کے منہ پر طمانچہ ہیں، ملک کی خودمختاری کو اور ملک کو کھوکھلا کرنے والے حکمران ہماری ریاست کے لیے مستقل خطرہ بن گئے ہیں، اگر انحطاط پذیری کا یہ عمل مزید جاری رہا تو پھر پاکستان میں صرف سیاست رہ جائے گی اس لیے خدا نے بے آواز یہ لاٹھی 23 دسمبر کو مینار پاکستان کے علاقے میں علامہ طاہر القادری کی شکل میں اتاردی۔
اس جلسے کے متعلق یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس کے لیے کوئی طویل بڑی اشتہاری مہم نہیں چلائی گئی پھر بھی عوام کا موجیں مارتا یہ سمندر مینار پاکستان پہنچ گیا، سردی کا موسم غریب اور متوسط طبقات کی عورتیں 22 دسمبر کی رات کو ہی اپنے شیرخواروں کو لے کر جلسہ گاہ میں پہنچ گئی تھیں، ایک اندازے کے مطابق یہ جلسہ 18 یا 20 لاکھ نفوس پر مشتمل تھا، اس جلسہ گاہ میں وہ لوگ بھی موجود تھے جن کے پاؤں کے جوتے پھٹے ہوئے تھے اور یہی لوگ ہیں جو انقلاب کا ہراول دستہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ علامہ کے خلاف بعض ایسے لوگ بھی تبصرہ (اینکرپرسن) فرما رہے تھے جو درست انگریزی تو کجا اردو بھی نہیں بول سکتے تھے۔ ایک بڑی پارٹی کے رہنما فرما رہے تھے جو پنجاب کے ووٹوں کے ماہر وٹو صاحب ہیں بقول ان کے سیاست ہوگی تو ریاست ہوگی۔
جناب عالی! شطرنج کی چالیں چلنے کو سیاستداں نہیں کہا جاسکتا اگر ایسا ہوتا تو سوویت یونین جہاں دنیا کے بہترین شطرنج کھیلنے والے موجود تھے مگر گورباچوف جو ان کے آخری صدر تھے، گلاسنوٹ اور پیراسٹرائیکا یعنی جمہوریت اور مباحثہ کا فلسفہ پیش کرکے روس کی وحدت کو بچا لیتے اور پھر بہ یک جنبش قلم سوویت ریاستیں آزاد ہوگئیں، نہ گولی چلی نہ جدوجہد ہوئی، جتنے بھی تان تھے وسطی ایشیا کی آزاد مسلم ریاستیں بن گئیں لہٰذا یہ کہنا کہ سیاست ہوگی تو ریاست رہے گی غیر منطقی استدلال ہے۔ مثبت سیاست وہ ہے جو عوام کو تحفظ، چھت اور روزگار عطا کرسکے، صرف اس کو ہی سیاست کا حق ہے ، مگر استحصال کرنا، مک مکا کرنا، جعلی اپوزیشن رہنما اور اتحادی بن کر بیٹھنا کون سی سیاست ہے؟ مشرقی پاکستان کے عوام اسی وجہ سے بدظن ہوئے اور اب بلوچستان اس کی لپیٹ میں ہے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یہ رہنما کہتے تھے کہ وہ بڑے فاصلے پر تھا اس لیے الگ ہوگیا مگر بلوچستان کی آبادی کم ہے، زمینی راستہ ہے، ہم نمٹ لیں گے، بلوچستان میں جب بھی فوجی آپریشن ہوئے سویلین رہنماؤں کی تائید حاصل رہی، اب بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس حکومت نے 5 برس جمہوریت کے پورے کرلیے، شاید یہ زرین دور ہے۔ فی کس آمدنی، ٹریڈ اور انڈسٹری کا کیال حال ہے؟ بھتہ نہ دینے یا ذاتی دشمنی پر لوگوں کو بے دریغ قتل کیا جارہا ہے۔ جمہوریت کے ثمرات کا اگر غیر جمہوری دور سے بھی موازنہ کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ یہ غربت کے مارے لوگوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو مجبوری میں اپنا جسم فروخت کر بیٹھے ہیں اور خود کو پیسوں کے لیے جیکٹ پہن کر ہلاک ہورہے ہیں، غربت اور کم علمی کا ناسور آسودگی سے دور انسان کو منفی راستوں پر آسانی سے ڈال دیتی ہے۔ ان لوگوں کی رہنمائی ضروری ہے۔
اگر علامہ طاہر القادری نے انتخابات سے پہلے اصلاحات کا نعرہ لگایا ہے تو وہ درست ہے کیونکہ حکمران ایک خاندان کے لوگ ہیں جو مختلف پارٹیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنا برانڈ حالات کے اعتبار سے فروخت کرتے ہیں۔ یہ برادری سسٹم، یہ جاگیرداری کا رعب، ان حالات میں کیا واقعی کوئی مثبت تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے؟ عمران خان نے بھی تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا مگر وہ پلے گراؤنڈ، بال اور وکٹوں کی اصطلاح تک محدود رہے، گو انھوں نے نوجوانوں اور خصوصاً متمول خاندانوں کو اپنا رفیق بنایا مگر طاہر القادری نے ہر طبقے کو 18 روز کی مہلت کا نعرہ بلند کرکے حکمرانوں اور ان کے تنخواہ دار ملازموں کے ہوش اڑا دیے ہیں جو یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ اتنا بڑا جلسہ کیسے ہوا؟ تو اس کا واضح جواب ہے لوگ خود آئے ہیں اور اپنے خرچ پر، اگر انتخابات سے قوم کو عروج ملتا تو عروج کی ایک سیڑھی تو ہم چڑھ چکے ہوتے، مگر معاشرہ روبہ زوال ہے، علامہ کی تقریر مسلم امہ کی یکجہتی کی مظہر تھی اور انھوں نے طالبان سے بھی حوصلہ افزا تخاطب کیا تاکہ پاکستان میں سیاسی شانتی کا دور آئے اور ریاست محفوظ رہے۔
ایسی سیاست جس سے قوم میں مایوسی اور افراتفری پھیلے اس کی نفی کرتے ہوئے فرسودہ نظام کو ختم کرنے کی آواز سلطانی جمہور کی بات کی۔ پاکستان کی جمہوری اور غیر جمہوری حکومتیں زرعی اصلاح نہ کرسکیں جب کہ بھارت نے یہ اصلاح آزادی کے فوراً بعد کردی اور آج اس کی کرنسی کا مقام کیا ہے؟ ایک لاکھ روپے میں مہران کار کے مد مقابل کار ٹاٹا نے متعارف کرالی ہے، محض اس لیے کہ نہ انتخابی اصلاحات ہوتی ہیں اور نہ پاکستان میں حکمرانوں کا احتساب ہوتا ہے۔
اگر حکومت نے واقعی اس جلسے کے اثرات کا جائزہ نہ لیا تو اﷲ کی یہ لاٹھی 18 روز بعد برسنا شروع ہوجائے گی، بقول علامہ طاہر القادری کے جو قوم فوجی مارشل لاء کا مقابلہ کرسکتی ہے اس کے لیے جمہوری مارشل لاء کیا معنی رکھتا ہے، البتہ اس جلسے پر ایم کیو ایم کا ردعمل نہایت مثبت، دوررس نگاہوں والا تھا، جس سے ایم کیو ایم کے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ وہ انقلابی قوتوں کے ساتھ ہے۔ ورنہ تمام بھتہ پارٹیاں خوف و ہراس کے عالم میں ہیں۔ کسی حد تک ملک میں کرپشن کی سیاست اور خاندانی سیاست پر عمران خان ضرور مخالفت کر رہے ہیں اور 4000 ارب سالانہ کی کرپشن کا پردہ چاک کر رہے ہیں مگر مسٹر اعتزاز احسن اس مسئلے پر یہ فرماتے ہیں کہ ہماری معیشت اتنی چھوٹی ہے کہ اتنی بڑی کرپشن کے امکانات نہیں ہیں۔
موجودہ صورت حال میں علامہ طاہر القادری کے جلسے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کی تنظیم بڑی فعال ہے یا یہ ان کے مذہبی ہم خیال لوگوں کا اجتماع تھا، دراصل اس جلسے کی کامیابی عوام کی پریشانی کی عکاسی تھی اور واقعی ایسا لگتا ہے کہ موروثی سیاست اور عوام پر جمہوریت کے نام پر ہونے والے مظالم اب تک ختم نہ کیے گئے تو اس نام نہاد جمہوریت کا خاتمہ یقیناً ہوجائے اور اس کے ذمے دار علامہ نہ ہوں گے بلکہ فرسودہ نظام کی طوالت ہوگی۔ اگر یہ مارچ ہوتا ہے تو موجودہ سیٹ اپ ضرور اپ سیٹ ہوجائے گا کیونکہ مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے کا جواب اس حکومت کے پاس نہیں ہے اور اگر غلطی سے اس مارچ کے خلاف مزاحمت کی گئی تو ردعمل مزید شدید ہوگا۔ کیونکہ حکومت غیر مستحکم ہے اور ممبران کی نگاہ دولت کی طرف۔