پاکستانی حکومتوں کا ٹیکس چوری کا واویلا
لوگوں کو سہولیات ملیں تو لوگ ٹیکس دیں گے، آخر لوگ اربوں روپوں میں زکوٰۃ اور خیرات بھی تو دیتے ہیں۔
LAYYAH:
عرصہ دراز سے ہم یہ سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں کہ پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے، یہ گردان ہر آمر اور جمہوری حکومت کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ اسی گردان کے عوض قوم سے مزید قربانی اور مزید معلوم اور غیر معلوم ٹیکس کے نفاذ کی راہ ہموارکی جاتی ہے۔ حقیقت حال کچھ اور ہے۔
تفصیل میں جانے سے پہلے کچھ اہم نکات کا اظہار ضروری ہے تاکہ قارئین بات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ بنیادی طور پر افراد کے لیے دو قسم کے ٹیکس ہوتے ہیں، ایک بلاواسطہ ٹیکس مثلاً آمدنی ٹیکس (Income Tax)۔ بلاواسطہ ٹیکس افراد اور ادارے خود جمع کرواتے ہیں۔ دوسری قسم بالواسطہ ٹیکس مثلاً بکری ٹیکس (Sales Tax)، مرکزی ایکسائز ڈیوٹی (CED) وغیرہ شامل ہیں۔ بالواسطہ ٹیکس دوسرے ادارے وصول کرکے یا منہا کرکے قومی خزانے میں جمع کرانے کے پابند ہوتے ہیں۔
پاکستان کی غبن زدہ اورکرپشن زدہ حکومتیں چلانے والی ''بدمعاشیہ'' ہمیشہ عوام سے یہ گلہ کرتی رہی ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ اصل صورت حال مختلف ہے، سب سے پہلے بالواسطہ ٹیکس کو دیکھ لیں، ہر پاکستانی اپنی ماہانہ خریداری پر ٹیکس دیتا ہے، اگر ماہانہ خریداری 3,000 روپے ہے تو اداشدہ سیلز ٹیکس 391.030 روپے، اگر ماہانہ خریداری 10,000 روپے ہے تو ٹیکس 3140.34 روپے ہوتا ہے۔ اس وقت حکومت 4,522 ارب روپے سالانہ بالواسطہ ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ اس میں صرف سیلز ٹیکس اور ٹیلی کام کا ٹیکس شامل ہے۔ اس کے علاوہ پٹرول اور ڈیزل پر 26.30 روپے فی لیٹر ٹیکس بھی ہر صارف ادا کرتا ہے۔ سب سے پہلے عوام اور میری مراد عام عوام ہیں، انھیں ٹیکس چوری کے احساس جرم سے نکلنا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم جو ٹیکس دیتے ہیں، اس کا استعمال کیا ہے۔ اسی سے متعلقہ نقطہ یہ بھی ہے کہ ٹیکس اور حکومت سے حاصل شدہ سہولیات کا موازنہ کیا جائے۔ جو بھی ٹیکس جمع ہوتا ہے بیشتر کا استعمال صوابدیدی ہے۔ ہم جو ٹیکس دیتے ہیں اس کا استعمال حکومت اپنی ضرورت کے حساب سے کرتی ہے۔ یہ ضرورت بذات خود ایک صوابدیدی اختیار ہے۔ ہم سے جب ٹیکس مانگا جاتا ہے تو ہمیں یورپین یونین (EU) کی مثال دی جاتی ہے، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس کا مجموعی قومی پیداوار کا 18% ہے۔ جب ہماری حکومت ہمیں یہ بتاتی ہے تو یہ نہیں بتاتی کہ وہاں کیا کیا سہولیات میسر ہیں۔ پاکستانی حکومتوں کا ماڈل ہر معاملے پر مختلف ہے۔ ٹیکس مانگنے کے لیے EU، پٹرول کی قیمت کے لیے افریقہ اور اپنی عیاشی اور فضول خرچی کے لیے مشرق وسطیٰ، حکومت جب سہولیات نہیں دیتی تو عوام کیوں ٹیکس دیں۔
اگلا اہم نقطہ جوکہ عوام کے نزدیک غیر مرئی ہے، پچھلے کچھ عشروں سے حکومتیں بہت آہستگی سے اپنی ذمے داریوں سے خصوصاً وہ ذمے داریاں جو عوام کی طرف ہیں، ان سے پیچھے ہٹ رہی ہیں، عوام پر ایک جدید قسم کا مالیاتی بوجھ ڈالا جارہا ہے، یہ تکنیکی اعتبار سے Replacment Surcharge ہے۔
Replacement Surcharge وہ اخراجات ہیں جوکہ عوام کو اس صورت میں ادا کرنے پڑتے ہیں جب حکومتیں سہولیات یا ذمے داریاں ادا نہیں کرتیں۔ Replacement Surcharge ہماری حکومتوں کا کاروباری طریقہ ہے۔ اس سے ایک طرف تو سہولیات اور ذمے داریوں میں کمی ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ حکومت، بدمعاشیہ اور منسلکہ افراد اور اداروں کو آمدنی کے ذرائع میسر آتے ہیں۔ ماضی میں حکومتوں نے سب سے پہلے پانی کا نظام خراب کیا۔ جس کی وجہ سے منرل واٹر اور بوتل والے پانی کا کام شروع ہوگیا۔ اس کے بعد تحفظ اور سیکیورٹی کا کام پولیس کے بجائے پرائیویٹ گارڈز اور سیکیورٹی کمپنیوں کو دیا جانے لگا، اب حد یہ ہے کہ واردات کی ذمے داری بندہ اپنے اوپر ڈالتا ہے کہ گارڈ کیوں نہیں رکھا۔ اس کے بعد بجلی کا بحران پیدا کیا گیا اور UPS اور جنریٹر کا کام شروع ہوگیا، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تمام خرچ اور ان کے علاوہ کچھ اور ٹیکس ہی کی ایک پیچیدہ شکل ہیں۔ اب عوام پر منحصر ہے کہ اس ٹیکس کی حکومت سے وصولی کیسے کریں؟
آخر میں ایک اہم اور عام اصول، ملک اور گھر چلانے میں کئی باتیں مشترک ہیں، خوشحالی کے لیے ایک طرف آمدنی کے ذرائع بڑھائے جاتے ہیں اور دوسری طرف اخراجات کو کم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ پاکستانی حکومتیں، آمدنی بڑھانے کے نام پر عوام کا بازو تو مروڑتی ہیں لیکن اخراجات کم کرنے کی کوئی نمایاں اور کارگر کوشش نہیں کی جاتی۔ اخراجات کم کرنے کی اکثر کوششیں عموماً نمائشی ہوتی ہیں، خلیج اور یورپ کے ممالک کا ایک مشاہدہ ہے کہ جو ملک جتنا غریب ہے اس کے سفارتکاروں کا مجموعی طرز رہائش اور طرز زندگی اتنا ہی پرتعیش ہے۔ ذاتی طور پر میرا دیار غیر میں رہنے والے سفیر کے چار لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ درہم کے گھر کا کرایہ اور تمام غیر ضروری افراد کے اللّے تللّوں کے لیے ٹیکس دینے کا کوئی ارادہ نہیں۔ پاکستانی حکومتوں کی شاہ خرچیاں دیکھ کر اور ان پر مستزاد وسائل کا بے رحمانہ ضیاع دیکھ کر حب الوطنی کی موہوم سی چنگاری پر چھاجوں پانی پڑ جاتا ہے۔ غریب عوام کی امیر حکومت کو کوئی نیا اخلاقی جواز ڈھونڈنا پڑے گا۔ ہاں اگر حکومت ٹیکس کے استعمال میں شفافیت لائے اور لوگوں کو سہولیات ملیں تو لوگ ٹیکس دیں گے، آخر لوگ اربوں روپوں میں زکوٰۃ اور خیرات بھی تو دیتے ہیں۔
عرصہ دراز سے ہم یہ سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں کہ پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے، یہ گردان ہر آمر اور جمہوری حکومت کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ اسی گردان کے عوض قوم سے مزید قربانی اور مزید معلوم اور غیر معلوم ٹیکس کے نفاذ کی راہ ہموارکی جاتی ہے۔ حقیقت حال کچھ اور ہے۔
تفصیل میں جانے سے پہلے کچھ اہم نکات کا اظہار ضروری ہے تاکہ قارئین بات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ بنیادی طور پر افراد کے لیے دو قسم کے ٹیکس ہوتے ہیں، ایک بلاواسطہ ٹیکس مثلاً آمدنی ٹیکس (Income Tax)۔ بلاواسطہ ٹیکس افراد اور ادارے خود جمع کرواتے ہیں۔ دوسری قسم بالواسطہ ٹیکس مثلاً بکری ٹیکس (Sales Tax)، مرکزی ایکسائز ڈیوٹی (CED) وغیرہ شامل ہیں۔ بالواسطہ ٹیکس دوسرے ادارے وصول کرکے یا منہا کرکے قومی خزانے میں جمع کرانے کے پابند ہوتے ہیں۔
پاکستان کی غبن زدہ اورکرپشن زدہ حکومتیں چلانے والی ''بدمعاشیہ'' ہمیشہ عوام سے یہ گلہ کرتی رہی ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ اصل صورت حال مختلف ہے، سب سے پہلے بالواسطہ ٹیکس کو دیکھ لیں، ہر پاکستانی اپنی ماہانہ خریداری پر ٹیکس دیتا ہے، اگر ماہانہ خریداری 3,000 روپے ہے تو اداشدہ سیلز ٹیکس 391.030 روپے، اگر ماہانہ خریداری 10,000 روپے ہے تو ٹیکس 3140.34 روپے ہوتا ہے۔ اس وقت حکومت 4,522 ارب روپے سالانہ بالواسطہ ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ اس میں صرف سیلز ٹیکس اور ٹیلی کام کا ٹیکس شامل ہے۔ اس کے علاوہ پٹرول اور ڈیزل پر 26.30 روپے فی لیٹر ٹیکس بھی ہر صارف ادا کرتا ہے۔ سب سے پہلے عوام اور میری مراد عام عوام ہیں، انھیں ٹیکس چوری کے احساس جرم سے نکلنا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم جو ٹیکس دیتے ہیں، اس کا استعمال کیا ہے۔ اسی سے متعلقہ نقطہ یہ بھی ہے کہ ٹیکس اور حکومت سے حاصل شدہ سہولیات کا موازنہ کیا جائے۔ جو بھی ٹیکس جمع ہوتا ہے بیشتر کا استعمال صوابدیدی ہے۔ ہم جو ٹیکس دیتے ہیں اس کا استعمال حکومت اپنی ضرورت کے حساب سے کرتی ہے۔ یہ ضرورت بذات خود ایک صوابدیدی اختیار ہے۔ ہم سے جب ٹیکس مانگا جاتا ہے تو ہمیں یورپین یونین (EU) کی مثال دی جاتی ہے، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس کا مجموعی قومی پیداوار کا 18% ہے۔ جب ہماری حکومت ہمیں یہ بتاتی ہے تو یہ نہیں بتاتی کہ وہاں کیا کیا سہولیات میسر ہیں۔ پاکستانی حکومتوں کا ماڈل ہر معاملے پر مختلف ہے۔ ٹیکس مانگنے کے لیے EU، پٹرول کی قیمت کے لیے افریقہ اور اپنی عیاشی اور فضول خرچی کے لیے مشرق وسطیٰ، حکومت جب سہولیات نہیں دیتی تو عوام کیوں ٹیکس دیں۔
اگلا اہم نقطہ جوکہ عوام کے نزدیک غیر مرئی ہے، پچھلے کچھ عشروں سے حکومتیں بہت آہستگی سے اپنی ذمے داریوں سے خصوصاً وہ ذمے داریاں جو عوام کی طرف ہیں، ان سے پیچھے ہٹ رہی ہیں، عوام پر ایک جدید قسم کا مالیاتی بوجھ ڈالا جارہا ہے، یہ تکنیکی اعتبار سے Replacment Surcharge ہے۔
Replacement Surcharge وہ اخراجات ہیں جوکہ عوام کو اس صورت میں ادا کرنے پڑتے ہیں جب حکومتیں سہولیات یا ذمے داریاں ادا نہیں کرتیں۔ Replacement Surcharge ہماری حکومتوں کا کاروباری طریقہ ہے۔ اس سے ایک طرف تو سہولیات اور ذمے داریوں میں کمی ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ حکومت، بدمعاشیہ اور منسلکہ افراد اور اداروں کو آمدنی کے ذرائع میسر آتے ہیں۔ ماضی میں حکومتوں نے سب سے پہلے پانی کا نظام خراب کیا۔ جس کی وجہ سے منرل واٹر اور بوتل والے پانی کا کام شروع ہوگیا۔ اس کے بعد تحفظ اور سیکیورٹی کا کام پولیس کے بجائے پرائیویٹ گارڈز اور سیکیورٹی کمپنیوں کو دیا جانے لگا، اب حد یہ ہے کہ واردات کی ذمے داری بندہ اپنے اوپر ڈالتا ہے کہ گارڈ کیوں نہیں رکھا۔ اس کے بعد بجلی کا بحران پیدا کیا گیا اور UPS اور جنریٹر کا کام شروع ہوگیا، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تمام خرچ اور ان کے علاوہ کچھ اور ٹیکس ہی کی ایک پیچیدہ شکل ہیں۔ اب عوام پر منحصر ہے کہ اس ٹیکس کی حکومت سے وصولی کیسے کریں؟
آخر میں ایک اہم اور عام اصول، ملک اور گھر چلانے میں کئی باتیں مشترک ہیں، خوشحالی کے لیے ایک طرف آمدنی کے ذرائع بڑھائے جاتے ہیں اور دوسری طرف اخراجات کو کم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ پاکستانی حکومتیں، آمدنی بڑھانے کے نام پر عوام کا بازو تو مروڑتی ہیں لیکن اخراجات کم کرنے کی کوئی نمایاں اور کارگر کوشش نہیں کی جاتی۔ اخراجات کم کرنے کی اکثر کوششیں عموماً نمائشی ہوتی ہیں، خلیج اور یورپ کے ممالک کا ایک مشاہدہ ہے کہ جو ملک جتنا غریب ہے اس کے سفارتکاروں کا مجموعی طرز رہائش اور طرز زندگی اتنا ہی پرتعیش ہے۔ ذاتی طور پر میرا دیار غیر میں رہنے والے سفیر کے چار لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ درہم کے گھر کا کرایہ اور تمام غیر ضروری افراد کے اللّے تللّوں کے لیے ٹیکس دینے کا کوئی ارادہ نہیں۔ پاکستانی حکومتوں کی شاہ خرچیاں دیکھ کر اور ان پر مستزاد وسائل کا بے رحمانہ ضیاع دیکھ کر حب الوطنی کی موہوم سی چنگاری پر چھاجوں پانی پڑ جاتا ہے۔ غریب عوام کی امیر حکومت کو کوئی نیا اخلاقی جواز ڈھونڈنا پڑے گا۔ ہاں اگر حکومت ٹیکس کے استعمال میں شفافیت لائے اور لوگوں کو سہولیات ملیں تو لوگ ٹیکس دیں گے، آخر لوگ اربوں روپوں میں زکوٰۃ اور خیرات بھی تو دیتے ہیں۔