تھر کا کوئلہ دیں بدلے میں بجلی لے لیں بھارت کی پیشکش
بھارتی سرمایہ کاروں اور کوئلے کے درآمد کنندگان نے پاکستان سے کوئلہ درآمد کرنے میں دلچسپی کا اظہار کردیا ہے۔
تھر کے ذخائر دریافت ہونے کے 21سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان 175ارب ٹن کے ان ذخائر سے تجارتی پیمانے ایک پائونڈ کوئلہ بھی نکالنے میں ناکام ہے، دوسری جانب بھارت نے صحرائے تھر سے ملحقہ اپنے علاقے میں کوئلے کے ذخائر ختم کر دیے ہیں۔
بھارتی سرمایہ کاروں اور کوئلے کے درآمد کنندگان نے پاکستان سے کوئلہ درآمد کرنے میں دلچسپی کا اظہار کردیا ہے۔ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی میں 60فیصد کے شراکت دار اینگرو پاور کے چیف ایگزیکٹیو شمس الدین احمد شیخ نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان کی کمپنی کوئلے کی مائننگ کے لیے بھارت میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ یورپ کے بجائے بھارت کے طریقے سے مائننگ کی لاگت کو کم کیا جاسکے اس حوالے سے گزشتہ ہفتے انہوں نے بھارت کا دورہ کیا جہاں بھارتی سرمایہ کاروں اور سرکاری افسران نے پاکستان میں تھر کے کوئلے سے مشترکہ طور پر فائدہ اٹھانے کی تجویز پیش کی ہے ۔
شمس الدین احمدشیخ نے بتایا کہ ان کی کمپنی کی اولین ترجیح پاکستان کے وسائل کو پاکستان کے عوام کے لیے بروئے کار لانا ہے لیکن منصوبے کی راہ میں افسر شاہی کی پیدا کردہ رکاوٹوں کے باعث کمپنی نے نجی شعبے کو کوئلہ فروخت کرنے کی تجویز پر غور شروع کردیا ہے جس کے تحت کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی سے بھی بات چیت جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت کے دورے میں بھارتی سرمایہ کاروں نے گجرات اور راجستھان کے پاور پلانٹس کو چلانے کے لیے پاکستان سے کوئلہ درآمد کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے بھارتی سرمایہ کاروں نے پیشکش کی ہے کہ پاکستان سے تھر کا کوئلہ درآمد کرکے بھارت میں گجرات، راجھستان اور مہاراشٹر کے پاور پلانٹس چلاکر پاکستان کو بجلی فراہم کر کے کوئلے کی قیمت ادا کی جائے دوسری صورت میں پاکستان میں تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرکے بھارت کو ایکسپورٹ کی جائے۔
شمس الدین احمد شیخ نے بتایا کہ کول انڈیا کے چیئرمین نے بھی ان سے ملاقات میں تھر کے کوئلے میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ بھارت میں کوئلے کے ذخائر زیادہ تر مشرقی بھارت میں پائے جاتے ہیں جن میں بنگال، جھاڑکھنڈ اور آسام کے علاقے شامل ہیں کوئلے کے ان ذخائر کو گجرات اور راجستھان سے لانے میں دقت اور ٹرانسپورٹ کی بلند لاگت کا سامنا ہے دوسری جانب پاکستان میں اینگرو اور سندھ حکومت کے مشترکہ منصوبے کے تحت کوئلے کی مائننگ کا بلاک بھارت کے پاور پلانٹس سے 90کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جہاں سے نکالا جانے والا کوئلہ آسانی کے ساتھ بھارتی پاور پلانٹس تک پہنچایا جاسکتا ہے۔
بھارت میں بجلی پیدا کرنے کے لیے کوئلے کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے بھارت میں 60فیصد بجلی کوئلے سے تیار کی جارہی ہے جبکہ پاکستان میں 0.1فیصد بجلی کوئلے سے تیار کی جاتی ہے۔ بھارت اپنے ذخائر سے سالانہ 400سے 500ٹن کوئلہ پاور جنریشن کے لیے استعمال کررہا ہے ۔
جبکہ 100ٹن کوئلہ درآمد کیا جاتا ہے بھارت نے 2016تک مزید 100ٹن کوئلہ درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے بھارت میں کوئلے کی سالانہ کھپت 700ٹن تک پہنچ جائیگی درآمدی کوئلہ مہنگا ہونے اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں کوئلے کی قیمت میں اتار چڑھائو کے باعث بھارت کے لیے درآمدی کوئلے کی جگہ پاکستان سے حاصل کیا جانے والا کوئلہ زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے بھارت میں مزید 60ہزار میگاواٹ کے پاور پلانٹ لگانے کے لیے ٹینڈر جاری کیے جاچکے ہیں جو کوئلے سے چلائے جائیں گے اس طرح بھارت کوئلے کا بڑا خریدار بن رہا ہے اور پاکستانی کوئلے کے ذخائر سے استفادہ کرنے کا خواہش مند ہے۔
بھارتی سرمایہ کاروں اور کوئلے کے درآمد کنندگان نے پاکستان سے کوئلہ درآمد کرنے میں دلچسپی کا اظہار کردیا ہے۔ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی میں 60فیصد کے شراکت دار اینگرو پاور کے چیف ایگزیکٹیو شمس الدین احمد شیخ نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان کی کمپنی کوئلے کی مائننگ کے لیے بھارت میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ یورپ کے بجائے بھارت کے طریقے سے مائننگ کی لاگت کو کم کیا جاسکے اس حوالے سے گزشتہ ہفتے انہوں نے بھارت کا دورہ کیا جہاں بھارتی سرمایہ کاروں اور سرکاری افسران نے پاکستان میں تھر کے کوئلے سے مشترکہ طور پر فائدہ اٹھانے کی تجویز پیش کی ہے ۔
شمس الدین احمدشیخ نے بتایا کہ ان کی کمپنی کی اولین ترجیح پاکستان کے وسائل کو پاکستان کے عوام کے لیے بروئے کار لانا ہے لیکن منصوبے کی راہ میں افسر شاہی کی پیدا کردہ رکاوٹوں کے باعث کمپنی نے نجی شعبے کو کوئلہ فروخت کرنے کی تجویز پر غور شروع کردیا ہے جس کے تحت کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی سے بھی بات چیت جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت کے دورے میں بھارتی سرمایہ کاروں نے گجرات اور راجستھان کے پاور پلانٹس کو چلانے کے لیے پاکستان سے کوئلہ درآمد کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے بھارتی سرمایہ کاروں نے پیشکش کی ہے کہ پاکستان سے تھر کا کوئلہ درآمد کرکے بھارت میں گجرات، راجھستان اور مہاراشٹر کے پاور پلانٹس چلاکر پاکستان کو بجلی فراہم کر کے کوئلے کی قیمت ادا کی جائے دوسری صورت میں پاکستان میں تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرکے بھارت کو ایکسپورٹ کی جائے۔
شمس الدین احمد شیخ نے بتایا کہ کول انڈیا کے چیئرمین نے بھی ان سے ملاقات میں تھر کے کوئلے میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ بھارت میں کوئلے کے ذخائر زیادہ تر مشرقی بھارت میں پائے جاتے ہیں جن میں بنگال، جھاڑکھنڈ اور آسام کے علاقے شامل ہیں کوئلے کے ان ذخائر کو گجرات اور راجستھان سے لانے میں دقت اور ٹرانسپورٹ کی بلند لاگت کا سامنا ہے دوسری جانب پاکستان میں اینگرو اور سندھ حکومت کے مشترکہ منصوبے کے تحت کوئلے کی مائننگ کا بلاک بھارت کے پاور پلانٹس سے 90کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جہاں سے نکالا جانے والا کوئلہ آسانی کے ساتھ بھارتی پاور پلانٹس تک پہنچایا جاسکتا ہے۔
بھارت میں بجلی پیدا کرنے کے لیے کوئلے کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے بھارت میں 60فیصد بجلی کوئلے سے تیار کی جارہی ہے جبکہ پاکستان میں 0.1فیصد بجلی کوئلے سے تیار کی جاتی ہے۔ بھارت اپنے ذخائر سے سالانہ 400سے 500ٹن کوئلہ پاور جنریشن کے لیے استعمال کررہا ہے ۔
جبکہ 100ٹن کوئلہ درآمد کیا جاتا ہے بھارت نے 2016تک مزید 100ٹن کوئلہ درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے بھارت میں کوئلے کی سالانہ کھپت 700ٹن تک پہنچ جائیگی درآمدی کوئلہ مہنگا ہونے اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں کوئلے کی قیمت میں اتار چڑھائو کے باعث بھارت کے لیے درآمدی کوئلے کی جگہ پاکستان سے حاصل کیا جانے والا کوئلہ زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے بھارت میں مزید 60ہزار میگاواٹ کے پاور پلانٹ لگانے کے لیے ٹینڈر جاری کیے جاچکے ہیں جو کوئلے سے چلائے جائیں گے اس طرح بھارت کوئلے کا بڑا خریدار بن رہا ہے اور پاکستانی کوئلے کے ذخائر سے استفادہ کرنے کا خواہش مند ہے۔