وہ بھی چلاگیا
ہم جو لاہور میں رہتے ہیں ایسے بدقسمت ہیں کہ ہمیں لاہور کا زیور راوی دریا بھی رواں دواں نہیں ملا
معلوم نہیں وہ کون سا لاہور تھا اور اس میں کیا دنیا آباد تھی کہ ملکۂ عالم نور جہاں اس کو دیکھ کر مبہوت رہ گئی اور اپنی وسیع و عریض مملکت کے اس شہر پر مرمٹی۔ اس کی زبان فارسی تھی چنانچہ اس نے اپنی زبان میں لاہور سے ایک شعر میں پیار کیا ؎
لاہور را بجان برابر خریدہ ایم
جاں دادۂ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
اس شہر کے ساتھ اس کی بے ہنگم ٹریفک اور مغلوں کی چند نشانیوں کے علاوہ اگر کچھ زندہ رہے گا تو اپنے وقت کی حسین ترین خاتون اور ملکۂ ہند کا یہ شعر جس میں اس نے لاہور کو جنت کے برابر قرار دیا ہے۔ یہ شعر جو اصل فارسی زبان میں درج ہے، کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ ہم نے لاہور شہر کو جان دے کر یعنی جان کے برابر قیمت دے کر مول لیا ہے اور اس طرح جان دے کر اس کے عوض ایک جنت خرید لی ہے۔
مغل حکمرانوں کے ادب میں لاہور کا ذکر کئی صورتوں میں ملتا ہے۔ یہ شعر بھی کسی مغل حکمران کی لاہور سے محبت کا عکس ہے جس میں اس نے شہر کو اپنی جان کے برابر بیش قیمت قرار دیا ہے۔ اسے روئے زمین پر جنت کہا ہے اور یہ جنت اس نے جان کے بدلے خریدی ہے۔
ہم جو لاہور میں رہتے ہیں ایسے بدقسمت ہیں کہ ہمیں لاہور کا زیور راوی دریا بھی رواں دواں نہیں ملا۔ آج کا راوی کبھی زندگی سے بھر پور دکھائی دیتا ہے تو کبھی وہ ایک خشک ندی بن کر ہمیں ہماری محرومیوں کاطعنہ دیتا ہے۔ ایک ادیب نے بیرون ملک سے اپنے لاہوری دوست سے خط میں پوچھا تھا کہ کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں رواں رہتا ہے اور آہیں بھرتا ہے۔ اس کا جواب اس بیرون ملک مقیم لاہوری کو مثبت ملا ہوگا لیکن آج ہمیں لاہور کی یہ نشانی کبھی سوکھی ہوئی اور کبھی اپنے کسی ماضی کو یاد کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
بھیگی آنکھوں کے ساتھ وہ اپنے اس محبوب کو یاد کرتی ہے جس کی زندگی اس دریا کے ساتھ ہے جو دریا تو رہتا ہے لیکن کبھی زندہ حالت میں اور کبھی اپنے رواں دواں ماضی کو یاد کرتا ہوا۔ میں ایک خنک آب و ہوا والے علاقے سے ترک قیام کرکے جب لاہور روانہ ہونے لگا تو لاہور کی گرمی سے ڈری ہوئی میری ماں نے مجھے تسلی دی کہ لاہور کی راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ اس وقت تو یہ بات میری سمجھ میں نہ آئی لیکن لاہور میں قیام کے بعد پتہ چلا کہ اس خنکی کی وجہ دریائے راوی ہے جو لاہور شہر کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اسے اپنی تروتازہ آغوش میں سنبھالے ہوئے ہے لیکن میرے دیکھتے دیکھتے کچھ عرصہ بعد راوی دریا بھی خشک ہونے لگا اور اس میں کبھی زندگی کی رو لوٹ آتی ہے اور کبھی یہ ایک لکیر بن کر اپنے ماضی کو یاد کرتا اوریاد دلاتا رہتا ہے کہ میں بھی ایک بہتا ہوا شہ زوردریا تھا اور قافلے مجھ سے راستہ پوچھ کر چلتے تھے مگر یہ سب کہاں گیا، مجھے اس کی خبر نہیں۔
سوائے راوی کے ان پرانے پرستاروں کی یادداشتوں کے جوانھوں نے اچھے اچھے وقتوں میں کبھی قلمبند کی تھیں۔اب بھی اقوام متحدہ کے کسی دفتر سے ایک پاکستانی بخاری نام کا دانشور لاہور میں اپنے دوست صوفی غلام مصطفی تبسم سے پوچھتا ہے کہ صوفی صاحب کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں بیتاب ہوجاتا ہے۔ ان دونوں کے پاس اس کا جواب نہیں ہوتا اور وہ دونوں خاموشی سے اپنے آنسو پی جاتے ہیں کہ اس سوال کا بس یہی جواب تھا۔
میں اگرچہ لاہور میں مقیم ہوں اور اب تو لگتا ہے کہ پکا قیام لاہور میں ہی ہوگا کہ عمر کے اس حصے میں جو کچھ مطلوب ہے اور جس کی ضرورت ہے وہ آسانی کے ساتھ لاہور میں ہی دستیاب ہے۔ میرے عزیز واقارب میں سے جو نوجوان ہیں وہ بھی زیادہ تر لاہور میں ہیں۔ کوئی ملازمت کرتا ہے تو کوئی کسی کاروبار میں ہے اور الحمدللہ کہ ابھی تک میری ضروریات کی تکمیل انھوں نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے اور میری تنخواہ بھی بس ان ہی میں کہیں ادھر ادھر ہوجاتی ہے جس کی مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے لیکن میں اس وقت اپنے ایک مرحوم دوست کو یاد کر رہا ہوں اور وہ تھے انور قدوائی۔
ہماری مشرق کی قدیم تہذیب سے ہمیں اس نوجوان نے متعارف کرایا اور یہ اس کا ہم پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا بدلہ ہم کبھی چکا نہیں سکیں گے۔ ہم پنجابی اور لاہور کے باشندے اس تہذیب اور شائستگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے جو ہمارے ہندوستان کے بزرگوں نے اختیار کی تھی اور جس کا وہ آخری نمونہ تھے۔ انور قدوائی جب کبھی اپنے بزرگوں کے سامنے ہوتا تو ہمیں پتہ چلتا کہ یہ لوگ کس انداز میں زندگی بسر کرتے تھے، اس کی کوئی جھلک ہمیں انور سے مل سکتی تھی لیکن وہ بھی چلا گیا۔ اب ہم یو پی کی تہذیب کا ذکر ہی پڑھ سن سکتے ہیں، اسے چلتا ہوا دیکھ نہیں سکتے۔
لاہور را بجان برابر خریدہ ایم
جاں دادۂ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
اس شہر کے ساتھ اس کی بے ہنگم ٹریفک اور مغلوں کی چند نشانیوں کے علاوہ اگر کچھ زندہ رہے گا تو اپنے وقت کی حسین ترین خاتون اور ملکۂ ہند کا یہ شعر جس میں اس نے لاہور کو جنت کے برابر قرار دیا ہے۔ یہ شعر جو اصل فارسی زبان میں درج ہے، کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ ہم نے لاہور شہر کو جان دے کر یعنی جان کے برابر قیمت دے کر مول لیا ہے اور اس طرح جان دے کر اس کے عوض ایک جنت خرید لی ہے۔
مغل حکمرانوں کے ادب میں لاہور کا ذکر کئی صورتوں میں ملتا ہے۔ یہ شعر بھی کسی مغل حکمران کی لاہور سے محبت کا عکس ہے جس میں اس نے شہر کو اپنی جان کے برابر بیش قیمت قرار دیا ہے۔ اسے روئے زمین پر جنت کہا ہے اور یہ جنت اس نے جان کے بدلے خریدی ہے۔
ہم جو لاہور میں رہتے ہیں ایسے بدقسمت ہیں کہ ہمیں لاہور کا زیور راوی دریا بھی رواں دواں نہیں ملا۔ آج کا راوی کبھی زندگی سے بھر پور دکھائی دیتا ہے تو کبھی وہ ایک خشک ندی بن کر ہمیں ہماری محرومیوں کاطعنہ دیتا ہے۔ ایک ادیب نے بیرون ملک سے اپنے لاہوری دوست سے خط میں پوچھا تھا کہ کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں رواں رہتا ہے اور آہیں بھرتا ہے۔ اس کا جواب اس بیرون ملک مقیم لاہوری کو مثبت ملا ہوگا لیکن آج ہمیں لاہور کی یہ نشانی کبھی سوکھی ہوئی اور کبھی اپنے کسی ماضی کو یاد کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
بھیگی آنکھوں کے ساتھ وہ اپنے اس محبوب کو یاد کرتی ہے جس کی زندگی اس دریا کے ساتھ ہے جو دریا تو رہتا ہے لیکن کبھی زندہ حالت میں اور کبھی اپنے رواں دواں ماضی کو یاد کرتا ہوا۔ میں ایک خنک آب و ہوا والے علاقے سے ترک قیام کرکے جب لاہور روانہ ہونے لگا تو لاہور کی گرمی سے ڈری ہوئی میری ماں نے مجھے تسلی دی کہ لاہور کی راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ اس وقت تو یہ بات میری سمجھ میں نہ آئی لیکن لاہور میں قیام کے بعد پتہ چلا کہ اس خنکی کی وجہ دریائے راوی ہے جو لاہور شہر کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اسے اپنی تروتازہ آغوش میں سنبھالے ہوئے ہے لیکن میرے دیکھتے دیکھتے کچھ عرصہ بعد راوی دریا بھی خشک ہونے لگا اور اس میں کبھی زندگی کی رو لوٹ آتی ہے اور کبھی یہ ایک لکیر بن کر اپنے ماضی کو یاد کرتا اوریاد دلاتا رہتا ہے کہ میں بھی ایک بہتا ہوا شہ زوردریا تھا اور قافلے مجھ سے راستہ پوچھ کر چلتے تھے مگر یہ سب کہاں گیا، مجھے اس کی خبر نہیں۔
سوائے راوی کے ان پرانے پرستاروں کی یادداشتوں کے جوانھوں نے اچھے اچھے وقتوں میں کبھی قلمبند کی تھیں۔اب بھی اقوام متحدہ کے کسی دفتر سے ایک پاکستانی بخاری نام کا دانشور لاہور میں اپنے دوست صوفی غلام مصطفی تبسم سے پوچھتا ہے کہ صوفی صاحب کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں بیتاب ہوجاتا ہے۔ ان دونوں کے پاس اس کا جواب نہیں ہوتا اور وہ دونوں خاموشی سے اپنے آنسو پی جاتے ہیں کہ اس سوال کا بس یہی جواب تھا۔
میں اگرچہ لاہور میں مقیم ہوں اور اب تو لگتا ہے کہ پکا قیام لاہور میں ہی ہوگا کہ عمر کے اس حصے میں جو کچھ مطلوب ہے اور جس کی ضرورت ہے وہ آسانی کے ساتھ لاہور میں ہی دستیاب ہے۔ میرے عزیز واقارب میں سے جو نوجوان ہیں وہ بھی زیادہ تر لاہور میں ہیں۔ کوئی ملازمت کرتا ہے تو کوئی کسی کاروبار میں ہے اور الحمدللہ کہ ابھی تک میری ضروریات کی تکمیل انھوں نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے اور میری تنخواہ بھی بس ان ہی میں کہیں ادھر ادھر ہوجاتی ہے جس کی مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے لیکن میں اس وقت اپنے ایک مرحوم دوست کو یاد کر رہا ہوں اور وہ تھے انور قدوائی۔
ہماری مشرق کی قدیم تہذیب سے ہمیں اس نوجوان نے متعارف کرایا اور یہ اس کا ہم پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا بدلہ ہم کبھی چکا نہیں سکیں گے۔ ہم پنجابی اور لاہور کے باشندے اس تہذیب اور شائستگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے جو ہمارے ہندوستان کے بزرگوں نے اختیار کی تھی اور جس کا وہ آخری نمونہ تھے۔ انور قدوائی جب کبھی اپنے بزرگوں کے سامنے ہوتا تو ہمیں پتہ چلتا کہ یہ لوگ کس انداز میں زندگی بسر کرتے تھے، اس کی کوئی جھلک ہمیں انور سے مل سکتی تھی لیکن وہ بھی چلا گیا۔ اب ہم یو پی کی تہذیب کا ذکر ہی پڑھ سن سکتے ہیں، اسے چلتا ہوا دیکھ نہیں سکتے۔