خوب سے خوب تر کی تلاش
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے سب سے زیادہ متاثر خاندانی مشترکہ نظام ہوا۔
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے سب سے زیادہ متاثر خاندانی مشترکہ نظام ہوا۔ لاکھوں لوگوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت ایک طرح سے جائے عبرت تھی۔ بسے بسائے گھروں کو چھوڑ کر ایک نئی جگہ جا کر آشیانہ بنانا بہت جان جوکھم کا کام تھا۔ لیکن اس عجیب طرح کی ہجرت کے نتیجے میں خاندان بکھر گئے۔ وہ جو ایک باپ کے کئی بیٹے اپنی اپنی فیملی سمیت ایک ہی گھر میں ہنسی خوشی رہ رہے تھے، اچانک انھیں وہ مقام اور گھر چھوڑ کر آنا پڑا، جہاں بیٹھنے میں زمانے لگے تھے:
ایک پل میں وہاں سے ہم یوں اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
کچھ نقل مکانی کی وجہ اور کچھ مغرب کی آزاد ہواؤں کا اثر، ذاتی اور شخصی آزادی اور چھوٹے چھوٹے یونٹ کی خواہش ابھرنے لگی۔ اس آزادی اور خودمختاری کا احساس بہت مسحور کن تھا، جو چاہو کرو، کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ۔ جب چاہو سوؤ، جب جی چاہے اٹھو، دو بجے دن ناشتہ کرو اور رات بارہ بجے ڈنر کرو۔ لیکن سب سے زیادہ نقصان سماجی رابطوں اور تہذیب کا ہوا۔ ہم بحیثیت قوم ذہنی طور پر انگریز کے غلام اب بھی ہیں۔ گھروں سے فرشی نشست اٹھ گئی۔ اس کی جگہ صوفوں نے لے لی، دسترخوان کی جگہ ڈائننگ ٹیبل آگئی، امی ابو، ممی ڈیڈی ہوگئے۔
یہ ظاہری تبدیلیاں تھیں، لیکن اندرونی طور پر مشترکہ خاندانی نظام ختم ہونے سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ لڑکیوں کی شادی سب سے بڑا مسئلہ بن گئی۔ پچھلے دو کالموں میں طلاق اور خلع کے حوالے سے بات کی گئی تھی، جس کے جواب میں توقع سے کہیں زیادہ ای میل آئیں۔ خواتین کی کم اور حضرات کی زیادہ۔ لوگوں نے اتفاق تو کیا ہی تھا لیکن ایک خاتون نے جوکہ کسی پرائیویٹ فرم میں ملازمت کر رہی ہیں اور فیصل آباد کے ایک ڈاکٹر صاحب نے تقریباً ایک ہی طرح کی بات کی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آج کل ورکنگ ویمن شادی شدہ مردوں کی بیویاں خوشی خوشی بن جاتی ہیں، بلکہ زیادہ تر پہل بھی خواتین ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔
آئیے اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔ اول تو یہ کہ ایسی نوبت آتی ہی کیوں ہے، جن خاتون نے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ جب آنے والے رشتوں کو مسلسل مسترد کیا جاتا رہا اور ان کی عمر 38 سال ہوگئی تو انھوں نے خود یہ رشتہ تلاش کیا، ہمیشہ کی طرح ان صاحب نے پہلے پہل لنچ کی آفر دی، پھر دو چار ملاقاتوں میں انھوں نے بیوی سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کا ذکر کیا، خیر سے تین بیٹیوں کے والد بھی تھے اور بیٹے کی خواہش بھی رکھتے تھے۔
بیوی بے چاری کیسے اجازت نہ دیتی، نفی کی صورت میں طلاق منہ پہ ماری جاسکتی تھی۔ لہٰذا شادی ہوگئی۔ خاتون دوسری بیوی بن کر خاصی مطمئن اور خوش تھیں۔ لیکن انھوں نے اس صورتحال کا ذمے دار اپنی والدہ کو ٹھہرایا، ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے آنے والے رشتوں کو والدہ مسترد کردیتی تھیں، رشتے بھی ایک خاص عمر تک آتے ہیں، جب وقت نکل جاتا ہے تو پھر سمجھوتوں کی شادیاں ہوتی ہیں۔
یہ سچ ہے کہ موجودہ دور میں لڑکیوں کے رشتے نہ ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ لیکن اس کی ذمے داری لڑکی پر اور اس کے والدین پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن اس بات پر عموماً غور نہیں کیا جاتا۔ تقریباً چار سال پہلے بھی اسلام آباد سے ایک لڑکی نے فون پر بتایا تھا کہ اس کی عمر 35 سال ہے۔ خوش شکل ہے۔ ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہے۔ والدین کی مالی حالت بھی اچھی ہے، لیکن والدہ کو کوئی بھی رشتہ پسند نہیں آتا اور اب رشتے آنے بھی بند ہوگئے ہیں۔
وہ لڑکی شدید ڈپریشن کا شکار ہوکر مایوسی کی دلدل میں ڈوب چکی تھی۔ پھر وہ ایک بار کراچی آئی تو مجھ سے ملنے گھر بھی آئی تھی۔ اس نے میرے سامنے بیٹھ کر بہت کچھ بتایا اور تمام معاملات میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اب پتا نہیں وہ کیا کر رہی ہے اور کیسی ہے۔ لیکن شادی بیاہ کے معاملات میں 80 فیصد والدین خصوصاً والدہ کا وہی رویہ ہے جو پہلے تھا۔ کسی کا کنبہ بڑا ہے، چھڑا چھانٹ چاہیے، کسی کا رنگ کالا ہے، کسی کا قد چھوٹا ہے، کسی کی جاب اچھی نہیں ہے۔ اور اس طرح وقت ریت کی طرح پھسلتا جاتا ہے، تب دو رویے سامنے آتے ہیں، ایک تو یہ کہ پھر جو بھی رشتہ آتا ہے وہاں بیٹی کو بیاہ دیا جاتا ہے۔ اور دوسری یہ کہ لڑکیاں خود اپنا بر تلاش کرنے نکل پڑتی ہیں اور خوشی خوشی دوسری بیوی بننے کے لیے تیار ہوجاتی ہیں، کیونکہ مثل مشہور ہے کہ دوہاجو کی بیوی ہمیشہ عیش میں رہتی ہے۔
یقین نہ آئے تو ادھر ادھر نظریں دوڑائیے۔ میری بات کا یقین آجائے گا۔ میں کئی ایسی خواتین کو جانتی ہوں جو دوسری بیگم بنیں اور انھی کی سوتن کو بھی جانتی ہوں جو مجبور تھیں شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دینے پر۔ ایک لیکچرر تھیں، دوسری ڈاکٹر، تیسری ہاؤس وائف، تینوں کے شوہروں نے اولاد ہونے کے باوجود دوسری شادیاں کیں۔ جب کہ بعض خاندانی مرد ایسے بھی ہیں جو بدتمیز اور پھوہڑ بیوی کو صبر، دکھ اور مجبوری سے برداشت کر رہے ہیں، کیونکہ بچوں کا مستقبل سامنے ہے۔
دوسرا مسئلہ قارئین نے جہیز کا اٹھایا کہ جہیز کی وجہ سے شادیاں نہیں ہو رہی ہیں۔ اس وجہ کو میں ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ گاؤں گوٹھوں میں اور قبائلی کلچر میں یہ روایت موجود ہے۔ لیکن ماں باپ جو کچھ دیتے ہیں وہ اپنی بیٹی کو دیتے ہیں۔ میں نے ایسے بھی شہری خاندان دیکھے ہیں جنھوں نے جہیز کے معاملے پر زبان نہیں کھولی۔ لیکن پھر بھی لڑکی والوں نے سال چھ مہینے کی مہلت مانگی تاکہ کچھ جوڑ سکیں اور بیاہ کرسکیں۔ شادی کو ایک آزار اور مصیبت خود لوگوں نے بنایا ہے۔ بے جا اسراف خدا کو بھی پسند نہیں۔ لیکن جب تک ڈھول تاشوں سے بارات نہ جائے، مایوں، مہندی، سانجق، ولیمہ اور چوتھی نہ ہو شادی کا مزہ ہی کیا۔
ایک شرعی کام کو مصیبت بنادیا گیا ہے۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ حکومت پابندی لگا دے کہ شادی اور ولیمے میں صرف 120 لوگ ہوں گے اور صرف ایک ڈش ہوگی ایک میٹھے کے ساتھ۔ اگر اس قانون پر عمل درآمد کروادیا جائے تو شادی جو مذہبی فریضہ ہے اس میں آسانی پیدا ہوجائے۔ صرف ''لوگ کیا کہیں گے'' اور ''ناک کٹ جائے گی'' جیسے جملوں نے بے شمار لڑکیوں کے بالوں میں چاندی کے تار سجا دیے ہیں۔ ان ہی خرافات کی وجہ سے اخلاقی گراوٹ کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں، لڑکیاں گھروں سے بھاگ بھی رہی ہیں، گھر ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ تہذیب کا جنازہ نکل رہا ہے۔
اب لڑکیاں بے وقوف نہیں ہیں کہ کسی کنگلے انسان سے زبردستی محبت کریں، وہ زمانے گزر گئے جب صرف محبت کی اہمیت تھی۔ آج لڑکیاں مالدار آسامیاں تلاش کرتی ہیں، خواہ اس کے لیے دوسری بیوی بننا پڑے یا تیسری۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اولین شرط آسائش ہے۔ اسی لیے کورٹ میرج بہت ہو رہی ہیں۔ اگر والدین لڑکیوں کے لیے آنے والے رشتوں کو معمولی معمولی نقص نکال کر رد نہ کریں تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ لیکن ''خوب سے خوب تر'' کی تلاش نے معاشرتی ڈھانچہ تبدیل کردیا ہے۔
بے چارے وہ نوجوان جن کی مالی حالت زیادہ اچھی نہیں یا معمولی ہے ان کی شادی میں بے شمار مشکلات ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جن نوجوانوں کی مالی حالت زیادہ اچھی نہ ہو وہاں میاں بیوی دونوں مل کر کام کریں اور اپنا گھر بسائیں۔ بن بیاہی لڑکیوں کی تعداد والدین کے بہت اونچے خیالات کی وجہ سے ہونی ممکن نہیں ہو رہی ہیں۔ انھیں اپنے خیالات کو بدلنا چاہیے۔ وقت پر شادیاں نہ ہونے سے بہت سے ایسے مسائل اور واقعات سامنے آرہے ہیں جن کا ذکر کالم میں ممکن نہیں البتہ بہت سے تفریحی مقامات، ہوٹل، پیزا شاپس وغیرہ پر رومانی جوڑوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔
ایک پل میں وہاں سے ہم یوں اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
کچھ نقل مکانی کی وجہ اور کچھ مغرب کی آزاد ہواؤں کا اثر، ذاتی اور شخصی آزادی اور چھوٹے چھوٹے یونٹ کی خواہش ابھرنے لگی۔ اس آزادی اور خودمختاری کا احساس بہت مسحور کن تھا، جو چاہو کرو، کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ۔ جب چاہو سوؤ، جب جی چاہے اٹھو، دو بجے دن ناشتہ کرو اور رات بارہ بجے ڈنر کرو۔ لیکن سب سے زیادہ نقصان سماجی رابطوں اور تہذیب کا ہوا۔ ہم بحیثیت قوم ذہنی طور پر انگریز کے غلام اب بھی ہیں۔ گھروں سے فرشی نشست اٹھ گئی۔ اس کی جگہ صوفوں نے لے لی، دسترخوان کی جگہ ڈائننگ ٹیبل آگئی، امی ابو، ممی ڈیڈی ہوگئے۔
یہ ظاہری تبدیلیاں تھیں، لیکن اندرونی طور پر مشترکہ خاندانی نظام ختم ہونے سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ لڑکیوں کی شادی سب سے بڑا مسئلہ بن گئی۔ پچھلے دو کالموں میں طلاق اور خلع کے حوالے سے بات کی گئی تھی، جس کے جواب میں توقع سے کہیں زیادہ ای میل آئیں۔ خواتین کی کم اور حضرات کی زیادہ۔ لوگوں نے اتفاق تو کیا ہی تھا لیکن ایک خاتون نے جوکہ کسی پرائیویٹ فرم میں ملازمت کر رہی ہیں اور فیصل آباد کے ایک ڈاکٹر صاحب نے تقریباً ایک ہی طرح کی بات کی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آج کل ورکنگ ویمن شادی شدہ مردوں کی بیویاں خوشی خوشی بن جاتی ہیں، بلکہ زیادہ تر پہل بھی خواتین ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔
آئیے اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔ اول تو یہ کہ ایسی نوبت آتی ہی کیوں ہے، جن خاتون نے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ جب آنے والے رشتوں کو مسلسل مسترد کیا جاتا رہا اور ان کی عمر 38 سال ہوگئی تو انھوں نے خود یہ رشتہ تلاش کیا، ہمیشہ کی طرح ان صاحب نے پہلے پہل لنچ کی آفر دی، پھر دو چار ملاقاتوں میں انھوں نے بیوی سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کا ذکر کیا، خیر سے تین بیٹیوں کے والد بھی تھے اور بیٹے کی خواہش بھی رکھتے تھے۔
بیوی بے چاری کیسے اجازت نہ دیتی، نفی کی صورت میں طلاق منہ پہ ماری جاسکتی تھی۔ لہٰذا شادی ہوگئی۔ خاتون دوسری بیوی بن کر خاصی مطمئن اور خوش تھیں۔ لیکن انھوں نے اس صورتحال کا ذمے دار اپنی والدہ کو ٹھہرایا، ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے آنے والے رشتوں کو والدہ مسترد کردیتی تھیں، رشتے بھی ایک خاص عمر تک آتے ہیں، جب وقت نکل جاتا ہے تو پھر سمجھوتوں کی شادیاں ہوتی ہیں۔
یہ سچ ہے کہ موجودہ دور میں لڑکیوں کے رشتے نہ ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ لیکن اس کی ذمے داری لڑکی پر اور اس کے والدین پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن اس بات پر عموماً غور نہیں کیا جاتا۔ تقریباً چار سال پہلے بھی اسلام آباد سے ایک لڑکی نے فون پر بتایا تھا کہ اس کی عمر 35 سال ہے۔ خوش شکل ہے۔ ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہے۔ والدین کی مالی حالت بھی اچھی ہے، لیکن والدہ کو کوئی بھی رشتہ پسند نہیں آتا اور اب رشتے آنے بھی بند ہوگئے ہیں۔
وہ لڑکی شدید ڈپریشن کا شکار ہوکر مایوسی کی دلدل میں ڈوب چکی تھی۔ پھر وہ ایک بار کراچی آئی تو مجھ سے ملنے گھر بھی آئی تھی۔ اس نے میرے سامنے بیٹھ کر بہت کچھ بتایا اور تمام معاملات میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اب پتا نہیں وہ کیا کر رہی ہے اور کیسی ہے۔ لیکن شادی بیاہ کے معاملات میں 80 فیصد والدین خصوصاً والدہ کا وہی رویہ ہے جو پہلے تھا۔ کسی کا کنبہ بڑا ہے، چھڑا چھانٹ چاہیے، کسی کا رنگ کالا ہے، کسی کا قد چھوٹا ہے، کسی کی جاب اچھی نہیں ہے۔ اور اس طرح وقت ریت کی طرح پھسلتا جاتا ہے، تب دو رویے سامنے آتے ہیں، ایک تو یہ کہ پھر جو بھی رشتہ آتا ہے وہاں بیٹی کو بیاہ دیا جاتا ہے۔ اور دوسری یہ کہ لڑکیاں خود اپنا بر تلاش کرنے نکل پڑتی ہیں اور خوشی خوشی دوسری بیوی بننے کے لیے تیار ہوجاتی ہیں، کیونکہ مثل مشہور ہے کہ دوہاجو کی بیوی ہمیشہ عیش میں رہتی ہے۔
یقین نہ آئے تو ادھر ادھر نظریں دوڑائیے۔ میری بات کا یقین آجائے گا۔ میں کئی ایسی خواتین کو جانتی ہوں جو دوسری بیگم بنیں اور انھی کی سوتن کو بھی جانتی ہوں جو مجبور تھیں شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دینے پر۔ ایک لیکچرر تھیں، دوسری ڈاکٹر، تیسری ہاؤس وائف، تینوں کے شوہروں نے اولاد ہونے کے باوجود دوسری شادیاں کیں۔ جب کہ بعض خاندانی مرد ایسے بھی ہیں جو بدتمیز اور پھوہڑ بیوی کو صبر، دکھ اور مجبوری سے برداشت کر رہے ہیں، کیونکہ بچوں کا مستقبل سامنے ہے۔
دوسرا مسئلہ قارئین نے جہیز کا اٹھایا کہ جہیز کی وجہ سے شادیاں نہیں ہو رہی ہیں۔ اس وجہ کو میں ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ گاؤں گوٹھوں میں اور قبائلی کلچر میں یہ روایت موجود ہے۔ لیکن ماں باپ جو کچھ دیتے ہیں وہ اپنی بیٹی کو دیتے ہیں۔ میں نے ایسے بھی شہری خاندان دیکھے ہیں جنھوں نے جہیز کے معاملے پر زبان نہیں کھولی۔ لیکن پھر بھی لڑکی والوں نے سال چھ مہینے کی مہلت مانگی تاکہ کچھ جوڑ سکیں اور بیاہ کرسکیں۔ شادی کو ایک آزار اور مصیبت خود لوگوں نے بنایا ہے۔ بے جا اسراف خدا کو بھی پسند نہیں۔ لیکن جب تک ڈھول تاشوں سے بارات نہ جائے، مایوں، مہندی، سانجق، ولیمہ اور چوتھی نہ ہو شادی کا مزہ ہی کیا۔
ایک شرعی کام کو مصیبت بنادیا گیا ہے۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ حکومت پابندی لگا دے کہ شادی اور ولیمے میں صرف 120 لوگ ہوں گے اور صرف ایک ڈش ہوگی ایک میٹھے کے ساتھ۔ اگر اس قانون پر عمل درآمد کروادیا جائے تو شادی جو مذہبی فریضہ ہے اس میں آسانی پیدا ہوجائے۔ صرف ''لوگ کیا کہیں گے'' اور ''ناک کٹ جائے گی'' جیسے جملوں نے بے شمار لڑکیوں کے بالوں میں چاندی کے تار سجا دیے ہیں۔ ان ہی خرافات کی وجہ سے اخلاقی گراوٹ کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں، لڑکیاں گھروں سے بھاگ بھی رہی ہیں، گھر ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ تہذیب کا جنازہ نکل رہا ہے۔
اب لڑکیاں بے وقوف نہیں ہیں کہ کسی کنگلے انسان سے زبردستی محبت کریں، وہ زمانے گزر گئے جب صرف محبت کی اہمیت تھی۔ آج لڑکیاں مالدار آسامیاں تلاش کرتی ہیں، خواہ اس کے لیے دوسری بیوی بننا پڑے یا تیسری۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اولین شرط آسائش ہے۔ اسی لیے کورٹ میرج بہت ہو رہی ہیں۔ اگر والدین لڑکیوں کے لیے آنے والے رشتوں کو معمولی معمولی نقص نکال کر رد نہ کریں تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ لیکن ''خوب سے خوب تر'' کی تلاش نے معاشرتی ڈھانچہ تبدیل کردیا ہے۔
بے چارے وہ نوجوان جن کی مالی حالت زیادہ اچھی نہیں یا معمولی ہے ان کی شادی میں بے شمار مشکلات ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جن نوجوانوں کی مالی حالت زیادہ اچھی نہ ہو وہاں میاں بیوی دونوں مل کر کام کریں اور اپنا گھر بسائیں۔ بن بیاہی لڑکیوں کی تعداد والدین کے بہت اونچے خیالات کی وجہ سے ہونی ممکن نہیں ہو رہی ہیں۔ انھیں اپنے خیالات کو بدلنا چاہیے۔ وقت پر شادیاں نہ ہونے سے بہت سے ایسے مسائل اور واقعات سامنے آرہے ہیں جن کا ذکر کالم میں ممکن نہیں البتہ بہت سے تفریحی مقامات، ہوٹل، پیزا شاپس وغیرہ پر رومانی جوڑوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔